ترنّم ریاض(دہلی)
یہ کس نے بوئی ہیں چنگاریاں تیری زمینوں میں
یہ کس نے آگ سی سلگائی ہے معصوم سینوں میں
کوئی ویران مو سم آبسا بارہ مہینوں میں
کہ جیسے ہو ں نہ تاثیریں ہی اب جھکتی جبینوں میں
کسی نے باغباں بن کر جلایا مرغزاروں کو
کسی نے سائباں بن کر اجاڑا ہے بہاروں کو
خزاں نے دیکھ ڈالا گھر ترے سب لالہ زاروں کا
نشاط و چشمہ شاہی ، ڈل ،ولر کا شا لماروں کا
ترے جھرنوں ،پہاڑوں ، ندّیوں کا ،آبشاروں کا
سکوں کے ہر خزانے پر ہے پہر ا شاہماروں کا
سبھی تیری زمیں پر چاہتے ہیں آسماں اپنا
جڑوں کو گھُن لگا کر ٹہنیوں پر آشیاں اپنا
تری ہر آبجو میں سمِّ قاتل کیوں ملایا ہے
ترے سب گلشنوں کو کس نے گورستاں بنایا ہے
یہ بلبل کے سریلے گیت کوکس نے ڈرایا ہے
دھنک رنگ آسماں پر یہ دھواں کیوں آن چھایا ہے
تری عظمت کے قائل شاہوں کی ہر یاد روتی ہے
ہزاروں سال کی تاریخ شرمندہ سی ہوتی ہے
خدائی نے کسی انصاف میں یوں دیر کی ہے کیوں
ترے صوفی بزرگوں نے خموشی سادھ لی ہے کیوں
خفاخورشید تجھ سے اور روٹھی چاندنی ہے کیوں
تری دشمن بنی آخر تری یہ سادگی ہے کیوں
تری چڑیوں کے نوحوں میں ترنّم کون لائے گا
ترے مجروح ہونٹوں پر تبسمّ کو ن لائے گا
فرشتہ امن کا اجڑے گھروں کو کب بسائے گا
جواں جانوں کے غم کی جھرّیوں میں مسکرائے گا
کنواری بوڑھیوں کی مانگ میں موتی سجائے گا
کہیں کوئی نہیں ، کوئی نہیں ہے ، کون آئے گا
مخالف ساعتوں میں تجھ کو ہم دم کون رکھے گا
مری وادی ترے زخموں پہ مرہم، کون رکھے گا