شہناز نبی
بُرا نہ مانو
نمازیں اب بھی یہیں پڑی ہیں
یہ سجدہ گاہیں اُٹھا کے جانے کدھر چلے تھے
وہ صبح تم کو بھی یاد ہو گی
الگ تھے گھر اور علیحدہ چولہے
تمہارے پرچم کا رنگ الگ تھا
وطن تمہارا نیا نیا تھا
سبھی تو بانٹا تھا آدھا آدھا
مگر پڑی ہے وہاں پہ اب تک
ہماری رادھاؔ کی ایک پائل
ہمارے کرشناؔ کی ایک بنسی
یہ ہیرؔ کیسے اٹھا کے دے دیں
کہاں سے لائیں تمہارا رانجھاؔ
کہ ہم سے پاگل
حساب رکھتے نہیں دنوں کا
ہمیں تو یہ بھی پتہ نہیں ہے
کہ آریائی سے بابری ہم بنے تو کیسے
ہمیں تو شنکھ اور اذاں ہے یکساں
ہماری تاریخ کے کتنے صفحے
چرائے تم نے؟
کہاں کہاں سے نشاں ہمارے
مٹائے تم نے؟
ہماری ہولی تمہارے بِن ہے اداس کتنی
تمہیں پتہ کیا
ہماری عیدوں کو تم سے ملنے کی پیاس کتنی
کہاں چلے تھے اٹھا کے منبر
کہاں سجائی دکان تم نے
کہاں پہ بیچے ہیں مال کتنے
کہو منافع کمایا کتنا
ہمارے جیسے
تمہارے جیسے
خدا کے بندے
جو اپنے حصے کاپانی
کھودیں کنواں تو پائیں
جو اپنے تن کو دھواں بنائیں تو روٹی کھائیں
ہمیں لکیروں کے کھیل سے کیا
ہمیں تجارت سے واسطہ کب
جنہیں تھا سود و زیاں سے مطلب
وہ کاروبارِجہاں سے رخصت
یہ آگ اب بھی بھڑک رہی ہے
چلو بزرگوں کے پاپ دھوئیں
ہمارے مندر سنبھالو تم سب
تمہاری مسجد کے ہم نگہباں