حیدر قریشی(جرمنی)
یہ ایسے کہانی کار کا قصہ ہے جس کے سامنے کہانیاں بار بار آتی ہیں کہ وہ انہیں اپنا تخلیقی لمس عطا کرکے ادبی دنیا کے سامنے پیش کرے لیکن کہانی کار ان کہانیوں سے بھاگا پھر رہا ہے۔اتنی ساری کہانیاں جو اس کا ایک نیا افسانوی مجموعہ تیار کر دیں۔یہ کہانی کار صحافیانہ طرز کے افسانے اور ناول لکھنے والا ہوتا تو اب تک ایسی ہر کہانی کی دو دو تین تین کہانیاں بنا کر دو تین مجموعے چھپوا چکا ہوتا۔در اصل کہانی کار کی جان ایک کہانی میں اٹکی ہوئی تھی اور وہ کہانی پوری طرح اس کی گرفت میں نہیں آرہی تھی۔بس فلمی عشق جیسی سچوئیشن ہو رہی تھی،جو کہانیاں کہانی کار کے پیچھے تھیں،وہ انہیں لفٹ نہیں کرا رہا تھا اور وہ جس کہانی کے تعاقب میں تھا وہ ٹھیک سے اس کے قابو میں نہیں آرہی تھی۔
کہانی کار جس کہانی کے تعاقب میں تھا وہ در اصل ایٹمی جنگ کے بعدکی فضا کے موضوع سے متعلق تھی۔ایٹمی جنگ کے بعدچند انسان روئے زمین پر کسی طرح بچ گئے تھے اور بد قسمتی سے وہ سب الگ الگ مذاہب اور الگ الگ فرقوں کے لوگ تھے۔پانی کے عظیم طوفان، طوفانِ نوح میں اچھے اچھے جوڑوں کو کشتی میں محفوظ کر کے بچا لیا گیا تھا تاکہ دنیا کو اس کے گناہوں کی سزا دینے کے بعد پھر سے زندگی سے لبریز کیا جا سکے۔لیکن یہ کہانی جو کہانی کار کے قابو میں نہیں آرہی، اس میں پانی کے طوفان سے زیادہ بڑا اور ہولناک ایٹمی طوفان آچکا ہے۔اتنی ترقی یافتہ اور ہنستی بستی دنیا پتھر کے زمانے میں چلی گئی ہے لیکن پتھر کے زمانے جیسی بے خبری سے بھی محروم ہو چکی ہے۔پہلے پہل زندہ بچنے والے ایک فرقے کے فرد نے جب دیکھا کہ وہ زندہ بچ گیا ہے تو اُس نے اسے اپنے مسلک کی سچائی قرار دے کرخود کو خداکا پسندیدہ بندہ سمجھ لیا۔لیکن جب معلوم ہوا کہ ایسے کتنے ہی’’ خدا کے پسندیدہ بندے‘‘ بچ گئے ہیں اور وہ سب کے سب متحارب مذاہب اور فرقوں کے افراد ہیں تو پھر ان سب کے درمیان مذہبی مخاصمت کا سلسلہ شروع ہو گیا۔سب ہی خدا کے نیک بندے ہیں اور سب ہی ایک دوسرے کی تکفیر و تکذیب کرکے اپنی صداقت کا پرچم بلند کئے ہوئے ہیں۔اتنے بڑے پیمانے پر ہو جانے والی انسانی تباہی اور ساری دنیاوی ترقیات کے خاتمہ کی بھی ان لوگوں کو پرواہ نہیں ہے اور اب بھی یہ سارء بچے کھچے مذہبی لوگ ایک دوسرے کے خلاف اپنا اپنا زہر اگل رہے ہیں۔ایک دوسرے کی تکفیر و تکذیب کر رہے ہیں۔
کہانی کار جو ہمیشہ سے اس دھرتی پر انسانوں کے کے رہنے کی تمنا کیا کرتا تھا،اس منظر پر حیرت زدہ ہے اور سارے فرقہ پرستوں کی پرانی متعصبانہ روش سے تنگ آکردھرتی سے انسانوں کے مکمل خاتمہ کی دعا کرنا چاہتا ہے لیکن اسے سمجھ نہیں آرہی کہ کہانی کو کیسے مکمل کرے ۔کیابدد عا پر کہانی کو ختم کیا جائے یا پھرکوئی آسمانی آفت لا کر سارے بچے کھچے متعصب انسانوں کو ختم کیا جائے۔اگر آسمانی آفت لائی جائے تو کیسی ہو؟کہانی کار ابھی تک اس مسئلے میں الجھاہوا ہے اور کہانی اسی وجہ سے اس کے قابو میں نہیں آرہی۔
جو ڈھیر ساری کہانیاں کہانی کار کے پیچھے پڑی رہتی ہیں ان میں سے کئی واقعی بڑی عمدہ کہانیاں ہیں۔کہانی کار اپنے مخصوص انداز کے ساتھ انہیں بہترین کہانیوں کا روپ دے سکتا ہے لیکن اس کا دل تو اسی کہانی میں اٹکا ہوا ہے۔
ایک اولڈ ہوم میں ملازمت کے باعث کہانی کار کو اولڈ ہوم کے ہر کردار میں ایک جاندار کہانی ملتی ہے۔Frau Wellsجب اس ہوم میں آئی تھی تو پوری طرح باہوش و حواس تھی۔چلنے پھرنے،اٹھنے بیٹھنے ،کھانے پینے میں ایک وقارجھلکتا تھا۔چند دنوں کے بعد ہی اس کی ذہنی حالت متغیر ہو گئی۔ایسے لگتا جیسے کوئی کوما کی حالت میں چل رہا ہو۔Frau Bongersتو جب ہوم میں آئی تب ہی سے گمشدہ دکھائی دی۔Frau Olbrisch , Frau Voss,اور Frau Hoppe کی سوئیاں جیسے اپنی اپنی زندگی کی کسی ایک ہی جگہ پر اٹکی ہوئی تھیں۔فرا ؤ اول برِش وقفے وقفے سے بی بی مریم اور یوسف (نجار)کے رشتے پر کچھ ایسی بات کرتی کہ کچھ سننے والے ہنس پڑتے اور کچھ خاموشی میں ہی عافیت سمجھتے۔کہانی کار بھی کبھی اس کے اسٹیریو ٹائپ جملے پر ہنس پڑتااور کبھی بیزاری کی حد تک بیگانگی محسوس کرتا۔ایک بار یونہی اسے خیال آیا کہ اگر فراؤ اول برش اس کے پرانے وطن میں ہوتی اور وہاں ایسی یا اس سے ملتی جلتی کوئی بات کہتی تو اس کی غیر حاضر دماغی کے باوجود اور پچانوے سالہ عمر کے باوجود وہاں کے دینی غیور حضرات اسے ہلاک کرکے ثواب کما چکے ہوتے۔فراؤ فوس کی سوئی بھی ایک ہی جگہ اٹکی ہوئی تھی۔وہ تین الفاظ باری باری بولتی اور بولتی ہی رہتی۔Bitte mal kommen, hallo, aua.. (براہِ کرم ادھر آؤ،ہیلو،ہائے مجھے تکلیف ہو رہی ہے)یا پھر Hilfe کی صدا لگا کر مدد کے لئے پکارتی۔کئی بار ایسا ہوا کہ کہانی کار خوداس کی پہلی صدا پر اس کے پاس پہنچا۔اس کی خیریت دریافت کی۔سب خیر ہے نا؟ پوچھا۔فراؤ فوس اس کے باوجود اپنے جملے دہراتی رہی۔تب کہانی کار نے اس کے پہلے تین الفاظ کو ردھم کی صورت میں گنگنانا شروع کر دیا۔بٹّے مال کومِن ،ہلّو۔اوّا۔۔۔۔ بٹّے مال کومِن ،ہلّو۔اوّا۔۔۔فراؤ ہوپے کی سوئی بھی پہلے دن سے دو باتوں پر اٹک گئی۔میرے پاس پیسے نہیں ہیں اور میں کہاں رہتی ہوں؟جب بھی اسے کھانا دینے لگو وہ یہی کہتی کہ میرے پاس پیسے نہیں ہیں۔اور جب کھانا کھا لیتی تو پوچھنا شروع کر دیتی کہ میں کہاں رہتی ہوں۔ایک دو بوڑھیاں تو کبھی کبھار کپڑوں سے بھی بے نیاز ہونے کی تگ و دو کرتیں۔وہ تو خدا بھلا کرے ان نرسوں کا جو ان کی نیپیز اتنی کس کر باندھتی تھیں کہ اسٹرپ ٹیز کا آخری مرحلہ آنے کی نوبت نہیں آپاتی تھی۔ورنہ اپنی لہر میں آئی ہوئی نوے سالہ بی بیوں کو کوئی روک نہ سکتا ۔یہ سب گمشدہ لوگ تھے۔اپنے آپ سے اور اپنے سارے پیاروں سے بچھڑے ہوئے لوگ ۔ ایسے پیاروں سے جو خود انہیں اس برزخ میں لا کر چھوڑ گئے تھے اور منتظر تھے کہ کب ان کی وفات کی خبر آئے اور وہ دل گرفتہ سے ان کی آخری رسومات کا فرض ادا کر کے اس فرض سے سبک دوش ہو سکیں۔
اسی اولڈ ہوم میں ہی زندہ دلی کی کئی کہانیاں بھی موجود تھیں۔Herr Wirthنے اپنی عمر بھر کی کمائی اپنی اکلوتی بیٹی کے نام کر دی تو وہ بہلا پھسلا کر باپ کو اولڈ ہوم میں داخل کرا گئی۔ہر وِرتھ تنومند بزرگ تھے۔دراز قد ہونے کے ساتھ جسم بھی تنا ہوا تھا لیکن بیٹی کے طرزِ عمل نے انہیں گہرا زخم لگایا تھا۔اولڈ ہوم میں جب jasica داخل ہوئی تو اس نے ہر وِرتھ کی میز کا انتخاب کر لیا۔ہوم کے ریستوران میں ان کی دوستی کی گہرائی کو ہر کوئی محسوس کر رہا تھا۔اس دوستی کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ ہر وِرتھ اپنی بیٹی کے دئیے ہوئے دکھ کو بھول سے گئے اور نقصان یہ ہوا کہ وہ جیسیکا کی دوستی میں اس حد تک چلے گئے جس حد کی ان کی عمر اجازت نہیں دیتی تھی۔نتیجہ یہ ہوا کہ دنیا سے ہی رخصت ہو گئے۔ لیکن کہانی کار کا خیال ہے کہ اس نقصان میں بھی ان کا فائدہ ہی ہوا کہ دنیا کے ہر جھنجھٹ سے نجات پا گئے۔
Herr Rebsch،, Frau Kruschel Frau Meixner ،ٖFrau Muller اور کئی ایسے کردار جو وہیل چئیر پر ہوتے ہوئے بھی ہر وقت ہنستے اور ہنساتے رہتے ہیں۔فراؤ زالس گیبر بھی انہیں میں شامل ہے لیکن ایک دن پتہ نہیں اس بانوے سال کی خاتون کو کیا ہوا کہ بے ساختہ رونے لگ گئی۔جب اس سے رونے کا سبب پوچھا تو کہنے لگی کچھ نہیں
بس مجھے تھوڑا سا رو لینے دو،ابھی یہاں سے چلے جاؤ۔
Frau Grossmanرکھ رکھاؤ والی لیکن زندہ دل خاتون تھی۔ایک بار پتہ نہیں کیسے ایک عجیب سا واقعہ ہو گیا۔اولڈ ہوم کی پانچویں منزل پر مرمت کا کچھ کام ہو رہا تھا۔وقفہ کے دوران ایک مزدور نے ایک کمرے میں جھانک کر دیکھا تو کمرہ خالی تھا۔وہ وہیں بیڈ پر لیٹ گیا اور آنکھ لگ گئی۔اتفاق سے اس کمرے کی رہائشی فراؤ برگ من ریستوران سے اپنے کمرے میں آئی تو اپنے بیڈ پر ایک مرد کو دیکھ کر اس نے ہنگامہ کر دیا۔اس ساری صورتحال میں خرابی والی کوئی بات نہ تھی اس لئے معاملہ معمولی تفتیش کے بعد رفع دفع ہو گیا لیکن فراؤ گروس من کی زندہ دلی اگلے دن بھی جاری تھی۔’’بھئی ایسا ہوتا رہا تو لگتا ہے کبھی میری پوتی مجھے ملنے آئے تو آگے اسے دادی کے ساتھ اپنا نیا چچا بھی دیکھنے کو ملے۔۔۔سچ تب تو بڑی شرمندگی ہو گی‘‘
Frau Wirthسے کہانی کار کو کچھ کوفت سی ہوتی تھی۔اس کی اتنی خدمت کرنے کے باوجود ایک بار اس نے خود سنا کہ وہ کسی کے ساتھ اپنے ملک میں آکر بس جانے والے غیر ملکیوں کے خلاف بات کر رہی تھی۔اسے بہت دکھ ہوا ۔لیکن یہ لوگ عمر کے ایسے مقام پر ہیں کہ ان کے ساتھ کسی قسم کی بحث کرنا یا کسی ناراضی کا اظہار کرنا بجائے خود زیادتی ہے۔ایک دن پتہ نہیں کیوں کہانی کار کا دل چاہا کہ آج فراؤ وِرتھ کے آنے سے پہلے اس کے لئے اس کاپرہیزی مگر پسندیدہ ناشتہ وہ خود تیار کررکھے۔اس نے اس کے لئے بریڈ کے ٹکڑوں کو اچھی طرح سے مارملیڈ لگایا اور جو کچھ وہ چاہا کرتی تھی ویسا کرکے اس کی آمد کا انتظار کرنے لگا۔جو نرس اسے وہیل چیئر پر لے کر آیا کرتی تھی۔وہ آئی تو اس نے یہ خبر سنائی کہ فراؤ وِرتھ فوت ہو گئی ہے۔وہ دیر تک فراؤ ورتھ کے لئے تیار کردہ ناشتے کو دیکھتا رہا اور پتہ نہیں کیا کچھ سوچتا رہ گیا۔
یہ تو صرف اولڈ ہوم کی بے شمار کہانیوں میں سے چند کہانیوں کی جھلکیاں ہیں جو ایک عرصہ سے کہانی کار سے تقاضہ کر رہی تھیں کہ وہ انہیں لکھے۔ انٹرنیٹ پر کہانی کار کو کئی کہانیوں نے الگ سے گھیرا ہوا تھا ۔chat اورcheatکے فرق کو مٹاتی ہوئی کہانیاں بھی اور محبت و اخلاص کی کہانیاں بھی۔مختلف شناختی ناموں کے ساتھ اپنی عظمت کا پرچم خود ہی بلند کرنے والے ادیبوں کی کہانیاں بھی اور واقعتاَ ادب کی خدمت کرنے والے تخلیق کاروں کہانیاں بھی انٹرنیٹ پر مل رہی تھیں۔خود کہانی کار نے ایک نیک دل خاتون سے رابطہ ہونے پر اسی کے تعاون کے ساتھ اپنا ایک ادبی منصوبہ پایۂ تکمیل کو پہنچا دیا تھا۔اس نیک دل خاتون کے اخلاص کی کہانی میں جان تھی۔پھر ایک امریکن خاتون سے دوستی ۔۔۔جب اس نے اسے اپنا ایک مسئلہ بتایا تو وہ اس کے حل کے لئے نہ صرف راضی ہوگئی بلکہ جرمنی بھی پہنچ گئی،لیکن پھر وہ مسئلہ کوئی اور صورت اختیار کر گیا اور وہ امریکن خاتون اداس سی واپس چلی گئی۔
کہانی کار کے جعلی ادیبوں سے تعلقات کبھی بھی اچھے نہیں تھے کہ ایسا کرنا کہانی کار کے مزاج کے خلاف تھا۔اس کے مخالفین نے اس کے ساتھ کئی کھیل کھیلنے کی کوشش کی لیکن ہر بار منہ کی کھائی۔مخالفین کی انٹرنیٹ پر سرگرمیوں کی اپنی الگ کہانی تھی۔ایک بار انہوں غزالہ کے فرضی نام سے ای میل کی۔جس نے لکھاکہ میں میر پور خاص میں ریڈیو اناؤنسر ہوں،کہانیاں لکھنے کا شوق ہے،آپ کی مداح ہوں اور آپ سے کہانیوں پر نظر ثانی کرانا چاہتی ہوں۔کہانی کار پہلی نظر میں ہی ’’ عرفانِ سائبر‘‘ سے آشنا ہو گیا۔اس نے جواب لکھا کہ ذرا اپنا ٹیلی فون نمبر بھیجئے۔آپ سے چند باتیں پوچھنی ہیں۔’’ریڈیو اناؤنسر غزالہ‘‘ نے جواب لکھا کہ ہمارا گھریلو ماحول ذرا سخت ساہے اس لئے ٹیلی فون نمبر نہیں دے سکتی۔اور کہانی کار اس معصومانہ جواب پر زیر لب مسکرا کر رہ گیا۔
دوسری بار ڈٹسن باخ یا اوفن باخ سے کسی کنول بی بی نے رابطہ کیا۔میں آپ کی تحریروں کی مداح ہوں۔مجھے شاعری کا شوق ہے۔میری خالہ بھی میرے ساتھ ہیں(کہانی کارکی عمر کاخیا ل کرتے ہوئے مداح کے ساتھ کہانی کار کی سہولت کے لئے ہم عمر خالہ بھی شامل کر دی گئی)۔کنول بی بی انٹرنیٹ سے ٹیلی فون پر آگئی۔گویا غزالہ والے ڈرامے میں جو کسر رہ گئی تھی اسے اب پورا کیاجا رہا تھا۔کہانی کار پر انٹرنیٹ سے ہونے والا یہ وار بھی خالی گیا ۔کچھ عرصہ کی خاموشی کے بعد یار لوگوں نے خاصی محنت کے ساتھ انتظامات کئے۔اس بار فیصل آباد سے کسی بشریٰ سراج نے ڈائرکٹ ٹیلی فون کر دیا۔’’سر! میں نے آپ کو پڑھا ہے،میں آپ کی بہت بڑی مداح ہوں۔۔۔میں نے آپ کو ابھی ای میل کی ہے لیکن پھر مجھ سے صبر نہیں ہو سکا اور میں نے آپ کو ٹیلی فون کر دیا۔اگر آپ اجازت دیں تو میں کبھی کبھار آپ کو فون کر لیا کروں؟‘‘
کہانی کار نے اسے سمجھایا کہ مجھے آپ کے ٹیلی فون کے آنے سے خوشی ہو گی لیکن اس میں آپ کا کافی خرچہ ہو جایا کرے گا۔اس لئے بہتر ہے آپ انٹریٹ سے رابطہ رکھیں۔تب بشریٰ سراج نے پہلا جوش و جذبہ برقرار رکھتے ہوئے کہا کہ ہم بہت کھاتے پیتے لوگ ہیں اس لئے خرچے کی آپ فکر نہ کریں۔پہلی ای میل میں بشریٰ سراج نے خود کو قریشی ظاہر کیا جسے کہانی کار نے نظر انداز کر دیا۔البتہ اسے لکھا کہ آپ اپنا پوسٹل ایڈریس اور ٹیلی فون نمبر بھیج دیں۔ خوشحال اور کھاتے پیتے گھرانے والی بی بی نے دونوں چیزیں بھیج دیں لیکن ٹیلی فون کا نمبر پی پی تھا اور پوسٹل ایڈریس میں والد کا نام رانا سراج درج تھا۔باپ رانا اور بیٹی قریشی۔پھر اسی پر بس نہیں ہوا، بشریٰ سراج یاہو کے چیٹ بکس میں جن اوقات میں آتی وہ جرمنی کے اوقات سے تو میل کھاتے تھے لیکن پاکستان کے اوقات سے ان کا کوئی میل نہیں تھا۔جرمنی میں رات کے دس بجے کوئی بھی آن لائن ہو سکتا ہے لیکن تب پاکستان میں رات کے دو بجے ہوتے ہیں اور بشریٰ سراج رات کے دو بجے آن لائن ہوتی تھی۔کہانی کار عرفانِ ذات کی بجائے عرفانِ سائبر سے مزید آشنا ہوا اور ان مخالفین پر پہلے ہنس دیا اور پھر رو دیا جو اس کے لئے اتنے پاپڑ بیل رہے تھے ۔یہ واقعات بھی کہانی کارسے کچھ لکھنے کا تقاضہ کر رہے تھے۔
جرمنی میں بہت سارے ہم وطنوں کی بہت ساری انوکھی کہانیاں بھی اس کا پیچھا کر رہی تھیں۔بالے نے جب پہلی بار جرمنی میں مزدوری کا کام شروع کیا اور اسے ایک کار والے نے تھوڑی سی رقم بطور ٹپ دے دی،اس دن وہ بہت دل گرفتہ تھا۔دوستوں کو یہ بتاتے ہوئے اس کی پلکیں بھیگ رہی تھیں کہ ہم جو اپنے وطن میں دوسروں کو ٹپ دیا کرتے تھے اب ہمیں یہاں ٹپ دی جا رہی ہے۔آخر اس نے ٹپ دینے والے کو ایک موٹی سی گالی دی اور پھر اسے کچھ قرار سا آگیا۔ اور اب چند برسوں کے عرصہ میں ہی اسی بالے کا یہ حال ہے کہ جس دن اسے ٹپ نہیں ملتی یا کم ٹپ ملتی ہے ،اس دن وہ ان سارے لوگوں کو گالیاں دے رہا ہوتا ہے جو کنجوس ہوگئے ہیں۔اس کہانی کی بہت ساری جزئیات ہیں جو پاکستان سے جرمنی تک پھیلی ہوئی ہیں۔کہانی کئی بار کہانی کار کا پیچھاکر چکی ہے لیکن کہانی کار کو اپنی اس محبوب کہانی کے علاوہ کسی کی فکر نہیں جو اس کے قابو میں نہیں آ رہی۔
جرمنی کے ظفری میاں کی کہانی تو بہت سارے چٹ پٹے مسالوں کے ساتھ درسِ عبرت بھی لئے پھرتی ہے لیکن کہانی کار اس کے لئے بھی وقت نہیں نکال رہا۔ظفری میاں جب جرمنی آئے تھے تو انہوں نے یہاں سیٹ ہونے کے لئے ایک جرمن لڑکی سے شادی کر لی۔
لڑکی ان کے ساتھ مخلص تھی لیکن ظفری میاں اپنی موج میں تھے۔جب خود کو سارے قانونی تحفظات مل گئے تو انہوں نے بیوی سے بات کی کہ میں چاہتا ہوں میرا چھوٹا بھائی بھی یہاں آجائے اور سیٹ ہو جائے۔بیوی تو تم میری ہی ہو۔اسلامی نکاح ہمارا بحال رہے گا لیکن سرکاری شادی کو ہم ختم کراتے ہیں اور پھر تم میرے چھوٹے بھائی سے قانونی شادی کر لینا،اس طرح وہ آسانی سے جرمنی میں آجائے گا۔چنانچہ منصوبے کے مطابق سب کچھ انجام پا گیا اور ظفری کا چھوٹا بھائی نہ صرف جرمنی میں آگیا بلکہ جرمنی میں سیٹ بھی ہو گیا۔اس کے بعد ظفری نے اپنے ایک ماموں زاد کو اور پھر ایک پرانے دوست کو بھی باری باری اسی طرح جرمنی بلوایا اور یہاں سیٹ کرا دیا۔یہاں تک تو کہانی ٹھیک رہتی ہے لیکن مسئلہ وہاں پیدا ہوتا ہے جب ظفری کی جرمن بیوی خود کہانی کار کے پاس گئی اور اسے رو رو کر بتانے لگی کہ تمہارے دوست نے مجھ سے اس حد تک کام لئے اور میں اتنا کچھ کرنے کے بعد بھی جسمانی اور ذہنی طور پر صرف اسی کے ساتھ رہی ہوں لیکن اب وہ مجھے اپنانے سے انکار کر رہاہے۔کہانی کار اس صورتحال پر کافی دکھی ہوا۔اس سے ہمدردی کرتا رہا لیکن اس کی کہانی کو ابھی تک لکھ نہیں سکا۔
پھر ان مولوی صاحب کی کہانی جنہوں نے یورپ میں سیٹ ہونے کے لئے اپنے ایک مقتدی سے کہا کہ کسی میم سے صرف پیپر میرج کرادو۔میں ان مشرک اورفاحشہ عورتوں کے ساتھ کوئی جسمانی تعلق نہیں رکھنا چاہتا ۔بس قانونی تحفظ کے لئے پیپر میرج کروں گا۔جب کاغذی کاروائی کا بنیادی مرحلہ مکمل ہو گیا تو مولوی صاحب میم کی منت کرنے لگے کہ چلو جب تک یہ کاغذی کاروائی قائم ہے تب تک ہم مل بھی لیا کریں لیکن میم نے طے شدہ باتوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے صاف انکار کر دیا۔ اُس کی کافرانہ اداؤں سے ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ مولوی صاحب کے نورانی چہرے سے ذرہ بھر بھی متاثر نہیں ہوئی تھی ،نہ ہی ان کی منت سماجت سے اس کا دل پسیجا تھا۔حالانکہ مولوی صاحب کی اچھی خاصی رقم اس پروجیکٹ پر لگ چکی تھی اور ابھی مزید کافی خرچہ ہونا تھا۔تب مولوی صاحب اپنے مقتدی کی منت کرنے لگے کہ اسے راضی کر دو۔ یہ کہانی خاصی عبرتناک تھی لیکن کہانی کار نے اس کو بھی نظر انداز کر دیا۔
پھر ان دو فنکار بھائیوں کی کہانی جو یہاں کے قوانین سے ٹیکنیکل فائدے اٹھانے کی ترکیبیں سوچتے اور ان پر عمل کرتے رہتے۔ ایک نسبتاَ اچھی کار لیتا۔اس کی اچھی انشورنس کراتا۔پھر دوسرا بھائی اس گاڑی کو اپنی گاڑی سے ٹکر مارتا۔پہلے بھائی کو انشورنس کی بڑی رقم مل جاتی جسے دونوں مل کر بانٹ لیتے۔جب تین چار بار انہیں دو بھائیوں کے ہی ایک جیسے ایکسیڈنٹ ہونے لگے تب انشورنس کمپنی کا ماتھا ٹھنکا اور تب دونوں کا فراڈ پکڑا گیا۔
جرمن انتظامیہ کے اعتماد کو ٹھیس پہنچانے والی کہانیاں۔۔۔۔جب پاکستانی نئے نئے یہاں آتے تھے سب کو ہر طرح کی عزت دی جاتی۔ان کی ہر بات کو سچ سمجھا جاتا۔ڈرائیونگ لائسنس کے حصو ل کے لئے لوگوں نے اپنے پاکستانی راشن کارڈ یہ کہہ کر جمع کرائے کہ یہ ہمارے پاکستانی ڈرائیونگ لائسنس ہیں۔انتظامیہ نے یقین کیا اور ایسے لوگوں کو لائسنس جاری کردئیے ۔ پھر کئی ایسے حادثات ہونے لگے کہ ون وے روڈ پر مخالف سمت سے گاڑی ڈال دی گئی۔ تب راشن کارڈوں کی جانچ پڑتال شروع ہوئی اور اب سب کو ڈرائیونگ لائسنس کے حصول کے لئے ایک جان لیوا ٹیسٹ سے گزرنا ہوتا ہے۔اور اب ان کے ہرسچ کو بھی شک کی نظروں سے دیکھاجاتا ہے۔اس طرح کی کئی کہانیاں جو قوم کو احساس دلا سکتی ہیں کہ تم لوگ جو پہلے یہاں آتے تھے اور تمہاری اتنی عزت کی جاتی تھی تو اب جو تمہارے تئیں رویے بدلے ہیں تو اس میں خود تمہاری اپنی ہیرا پھیریوں اور فراڈ بازیوں کا قصور ہے۔ لیکن کہانی کار ان کہانیوں کی طرف بھی آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھ رہا۔
کہانی کار کے بڑے پوتے کی عمر ساڑھے پانچ سال ہے۔اگرچہ سارے بچے ایک ہی شہر میں رہتے تھے اور ہفتہ میں ایک دو بار سب سے ملنا ملانا ہو جاتا تھا۔تاہم سوتے سب اپنے اپنے گھر میں ہی تھے۔اس دن پتہ نہیں دادا پوتے دونوں ہی کس لہر میں تھے کہ دادا نے پوتے کو اپنے پاس رہنے کے لئے کہا اور پوتا فوراَ راضی ہو گیا۔رات کو دادا نے پوتے کو اپنے ساتھ لٹا لیا اور اس کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے اس نے اپنے پوتے سے کچھ مخصوص دعاؤں کے بارے میں پوچھا۔بچے کو چند دعائیں یاد تھیں جو اس نے سنا دیں۔پھر کہانی کار نے اپنے پوتے سے پوچھا’’کیا تمہیں کوئی حدیث شریف بھی یادہے؟‘‘۔۔۔پوتے نے فوراَ کہا’’ جی دادا ابو! مجھے ایک حدیث شریف یاد ہے۔‘‘اسے حیرت ہوئی کہ بچے کو حدیث کا بھی پتہ ہے اور کچھ یاد بھی ہے۔اس نے کہا اچھا شاباش حدیث شریف سناؤ!۔۔۔۔۔۔بچے نے بڑی روانی کے ساتھ بولنا شروع کیا
’’حدیث شریف ہیلپنگ ہینڈ کے تعاون سے پیش کی جا رہی ہے۔ماماں کے پاؤں کے نیچے جنت ہے‘‘
کہانی کار کے منہ سے ہنسی کا فوارہ چھوٹ نکلا۔ ایک ٹی وی چینل پر اذان سے پہلے ایک خیراتی ادارہ ہیلپنگ ہینڈ کی جانب سے اشتہار دیتے ہوئے کوئی حدیث پیش کی جاتی تھی ۔یہ حدیث اس کے پوتے نے وہاں سے سنی تھی اور اپنی سادگی میں سپانسر کرنے والوں کا ذکر بھی روانی میں کر دیا تھا۔اور جہاں کچھ دقت محسوس ہوئی وہاں ترجمہ بھی بدل لیا تھا۔پوتا اپنے دادا کی ہنسی کو حیرانی سے دیکھ رہا تھا۔کچھ دیر ہنسنے کے بعد کہانی کار کو خیال آیا کہ اپنے پوتے کو اپنے بچپن کی سنی ہوئی کہانیاں سنائی جائیں۔چنانچہ دادا نے سب سے پہلے اپنی بوا سے سنی ہوئی ایک کہانی سنانی شروع کی۔لیکن کہانی کو بیان کرتے وقت اسے شدت کے ساتھ احساس ہوا کہ پوتے کو بات سمجھانے کے لئے اسے اصل کہانی میں کافی تبدیلیاں کرنا پڑیں گی۔
’’ایک بوڑھی عورت بھٹی والی سے مکئی کے دانے بھنوا کر جا رہی تھی کہ رستے میں اسے ٹھوکر لگی اور اس کے دانے زمین پر بکھر گئے۔‘‘یہ کہنا مشکل لگ رہا تھا۔بچے کو بات سمجھ میں نہیں آئے گی۔
’’ایک بوڑھی عورت ایک مارکیٹ سے پاپ کارن خرید کر نکلی۔۔۔۔‘‘کہانی کار نے پوتے کو سمجھانے کے لئے کچھ ایڈجسٹ منٹ کرنا شروع کی لیکن صاف لگ رہا تھا کہ وہ کہانی سنانے کی بجائے کہانی کا ترجمہ کرنے لگ گیا ہے۔وہ بوڑھی اماں کے مخالف کوّے کی بات سناتا تو پوتا اسے جرمنی میں دکھائے جانے والے مقبول کارٹونزکے کردار پیٹرک کی بات سنانے لگ جاتا۔وہ پوتے کو باتیں کرنے والی ڈانگ،نہر،وغیرہ کا بتاتا تو پوتا اسے spongebob sandy, Tadios, وغیرہ کی بات سنانے لگ جاتا۔وہ کہانی میں آنے والے بلی اور چوہے کا ذکر کرنے لگا تو پوتا چھلانگ مار کر ٹام اینڈ جیری کے کئی ایپی سوڈز اسے سنانے لگ گیا۔یوں اس کی بوا والی کہانی تو ادھوری رہ گئی لیکن پوتے کی کہانیاں ختم ہونے میں نہیں آرہی تھیں۔ اسے خوشی بھی ہو رہی تھی اور افسوس بھی۔ بوا والی کہانی کے ادھورے رہ جانے سے زیادہ اسے اس بات کا دکھ تھا کہ اسے پہلی بار احساس ہوا کہ اگلی نسل کے ساتھ اتنے گہرے ربط کے باوجود ایک گہرافاصلہ پیدا ہو رہا ہے لیکن خوشی اس بات کی تھی کہ پوتا اسے خود سے اور اپنے عہد سے ہم آہنگ کر رہا تھا۔ بوا کی سنائی ہوئی کہانیوں کا اپنا مزہ تھا لیکن اب کارٹون کہانیوں میں بچوں کے لئے دلچسپی کا سامان کہیں زیادہ ہے۔ شاید اتنا زیادہ کہ پرانے بڑے بھی ٹی وی کے آگے بیٹھ جائیں تو بچوں کی طرح مزہ لینے لگیں۔
پھر وہ رات ،جب تک دونوں جاگتے رہے، دادا نے پوتے سے کہانیاں سننے میں گزار دی۔اور اسی رات کہانی کار نے سوچا کہ اپنی ادھوری کہانی میں کسی امتیاز کے بغیرہر مذہب و مسلک کے سارے کے سارے انتہا پسندوں کو ایٹمی جنگ سے ہلاک کرکے صرف اپنے پوتے جیسے انسانوں کو بچایا جائے اور انہیں کے ذریعے نسلِ انسانی کوپھر سے دھرتی پر آباد کیا جائے۔لیکن ابھی یہ صرف کہانی کار نے سوچا ہے،کہانی لکھتے وقت کیا روپ اختیار کر جائے! اس کا تو خود کہانی کار کو بھی علم نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
راجندر سنگھ بیدی نے اس انٹرویو میں یہ بھی کہا تھا کہ اگرکوئی اچھا لکھتاہے،اس میں کچھ دینے کی صلاحیت ہے تو
وہ اس بات کے پھیر میں نہیں پڑتا کہ وہ لوگوں سے اپنے کو منوائے۔ایک دوسری بات بھی ہے بد قسمتی کی،کچھ
لوگ تنہائی کا شکار ہو گئے۔بیدی اپنے زمانے کو یاد کرتے ہوئے یہ بھی کہتے تھے ۔۔۔مان لیجیے کسی ادیب نے ایک افسانہ لکھا اور اس میں کچھ ہے تواس کا سارے لاہور میں ذکر ہوتا تھا۔اور آج کے اس بدلے ہوئے ماحول میں کوئی کتنی بھی معیاری چیز لکھے تب بھی کہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔۔۔۔آج ملک کابنیادی ڈھانچہ ڈالر اور
پونڈ سے بندھا ہونے کی وجہ سے سب کچھ گول مال سا ہو گیا ہے۔
بیدی نے آخر میں یہ بات بھی کہی کہ آج ہمارا قارئین کا طبقہ ’’وار اینڈ پیس‘‘جیسے ضخیم ناول کو پڑھنے کی بجائے
اس پر بننے و الی فلم دیکھنا چاہتا ہے۔آج وہ اسٹیج نہیں رہا جہاں ادیب ایک ساتھ بیٹھ کرمقابلے کا احساس کر سکیں۔پھر ایسی حالت میں ادیب جوڑ توڑ میں پڑتا ہے اور اپنے آپ کو جلا ڈالتا ہے۔
( راجندر سنگھ بیدی کا ایک یاد گار انٹرویو سے اقتباس
بحوالہ روزنامہ انقلاب بمبئی۔انٹرنیٹ ادبی ایڈیشن۱۱؍مارچ تا ۱۷؍ مارچ ۲۰۰۶ء )