پرانے زمانے میں ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک دفعہ زوروں کا کال پڑا۔ کھیت چٹیل میدان بن گئے اور کئی دیہاتوں سے لوگ ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے۔ ڈیرہ اسماعیل خان سے 35 میل دور ایک گاؤں ’تھلیاں‘ میں قحط اس حد تک پہنچ گیا کہ لوگ گایوں کے گوبر سے اُپلے بناتے یا خشک گوبر اکٹھا کرتے، ان سے بوریاں بھر کر اونٹوں پر درابن لے جا کر بیچتے اور سودا سلف خریدتے۔ اکثر بچے، عورتیں اور لڑکیاں تھال اور چنگیر لئے کمزور اور مریل گایوں کے پیچھے پیچھے چلتیں اور گوبر اکٹھا کرتیں۔ اگر ان کا بس چلتا تو گایوں کو ذبح کر کے، ان کے پیٹ چاک کر کے تمام گوبر ایک ہی وقت میں نکال کر ان سے تھاپیاں بنا لیتیں۔ بعض اوقات تو کچھ عورتیں اور بچے گوبر پر لڑ پڑتے۔
خوشحالی اور آبادی کے زمانے میں گاؤں والے، ایک دوسرے کی زمینوں سے مفت لکڑیاں، چارہ، خربوزے اور ساگ لے آتے۔ مگر اب غربت اور خشک سالی کی وجہ سے کوئی کسی کو گوبر بھی نہیں اٹھانے دیتا تھا۔ ایک دفعہ عصر کے وقت عورتیں، بچے، لڑکیاں اپلوں سے بھرے چھابے اور ٹوکریاں سروں پر اٹھائے گھروں کو جا رہی تھیں۔ راستے میں ایک لڑکی نے دوسری لڑکی کو شرارت سے اپلا مارا۔ دوسری لڑکی نے بھی اسے جواب میں اپلا مار دیا۔ ایک بوڑھی عورت ان پر غصہ ہوئی۔ ” خدا کا خوف کرو! اپلے کیوں ضائع کرتے ہو، میں تو اپلوں کو گُڑ کی طرح سنبھال کر رکھتی ہوں۔ ” پھر کیا تھا کہ سب گاؤں والے اپلوں کو گڑ کہہ کر پکارنے لگے۔ بعد میں علاقے کی مناسبت سے لوگ اپلوں کو “دامان کا گڑ” کہنے لگے۔
رات کے وقت لوگ چوّنک میں اکٹھے ہوتے تو گندم، فصلوں اور پانی کے بجائے اپلوں کے بارے میں باتیں کرتے۔ بہاول الدین نے کہا: ” یار پتہ نہیں گایوں کو کیا ہو گیا ہے ؟ ہماری گائے صرف دو پیالی دودھ دیتی ہے “۔
” اس میں گایوں کا قصور ہی کیا ہے ؟ ہم انہیں کھانے کے لئے دیتے کیا ہیں کہ وہ ہمیں دودھ کے پیپے دیں ؟ اگر دودھ نہیں دیتیں تو کیا، میں تو یہ کہتا ہوں کہ یہ بھی ان کی مہربانی ہے کہ وہ گوبر دیتی ہیں۔ آج کل گوبر مل جائے تو بڑی چیز ہے۔ ” مانجھو بولا۔
” ایک زمانے میں لوگ گوبر کو گند سمجھ کر پھینک دیتے تھے مگر آج کل یہ بکتا ہے “۔ فلکا نے حقے کا کش لیا۔
” ہاں بھائی یہ تو نصیب نصیب کی بات ہے ” چاچا خمیسونے آہ بھر ی۔ “پرانے زمانے میں ایک آدمی اونٹ پر گڑ کی دو بوریاں لاد کر گاؤں جا رہا تھا۔ راستے میں اس سے ایک اللہ والے نے پوچھا’ اونٹ پر کیا لے جا رہے ہو؟‘آدمی تھکا ہو تھا، اس نے غصے میں جواب دیا ’اپلے ہیں، کھاؤ گے ؟‘ جب وہ گھر پہنچا اور بوریوں کو کھولا تو گڑ اپلے بنا ہوا تھا۔ آدمی دوڑتا ہوا واپس اس جگہ پر آیا مگر اللہ والا غائب ہو چکا تھا۔ ایک دفعہ ایک دوسرا آدمی اونٹ پر اپلے لاد کر گھر جا رہا تھا۔ اسے ایک اللہ والا ملا اور پوچھا ’ اونٹ پر کیا لے جا رہے ہو؟‘ ’بابا گڑ ہے۔ ‘ آدمی نے جواب دیا۔ گھر پہنچ کر اس نے بوریوں کو کھول کر دیکھا تو اپلے گڑ بن چکے تھے۔ ”
“چاچا خمیسو گڑ کا نام نہ لے اس سے میرے منہ میں پانی آ جاتا ہے۔ ” سونونے اپنے ہاتھ کو زور سے کاٹا۔
” یار گڑ اتنا میٹھا کیوں ہوتا ہے ؟ پتہ نہیں کس چیز سے بناتے ہیں ؟” چاچا خمیسو نے پوچھا۔
“گڑ، کجھورسے بناتے ہیں “۔ فلکا نے رائے دی۔
” نہیں۔ میرے خیال میں گڑ مٹھائی سے بنتا ہے۔ ” سونو نے اس کی مخالفت کی۔
” تم سب غلط ہو!ہمیں یہ سوال چاچا وزیرو سے پوچھنا چاہیئے وہ بہت گھوما پھرا ہے۔ ” مولوی صاحب نے تجویز پیش کی۔
دوسرے دن جب چاچا وزیرو چونک پر آیا تو لوگوں نے اس سے پوچھا ” چاچا وزیرو گڑ کس چیز سے بنتا ہے ؟”
“گڑ کماد کے رس سے بنتا ہے۔ رس کو بڑی کڑاہیوں میں ابالا جاتا ہے۔ جب رس خشک ہو کر سخت ہو جاتا ہے تو اس کی مٹھیاں بنا بنا کر رکھتے جاتے ہیں۔ تازہ گڑ کھانے کی تو بات ہی کچھ اور ہے۔”
سب کے منہ میں پانی آ گیا۔
” گڑ، چاچا کہاں بنتا ہے ؟” سونو نے سوال کیا۔
” بہت دور، دریا کے پار، نہری علاقے میں۔۔ ۔ خدا کی عجب تقسیم ہے ! کسی کے نصیب میں گڑ لکھ دیتا ہے اور کسی کے نصیب میں اپلے۔ کسی کو ریشم اکٹھا کرنے کے کام پر لگا دیتا ہے اور کسی کو پتھر اکٹھا کرنے پر۔ کچھ کھیتوں میں کھار اور تمے اگا دیتا ہے اور کچھ کے کھیتوں میں زعفران اور الائچی۔ خدا تو بے نیاز بادشاہ ہے ! اس میں ہماری بہتری ہو گی، ہمیں صبر سے کام لینا چاہیے۔ خدا خیر کرے گا!”
سونو نے اس رات خواب میں دیکھا کہ وہ گڑ کے پہاڑ پر بیٹھا ہے۔ گڑکو بوریوں میں بھر تا ہے اور اونٹ پر لاد کر بازار میں بیچتا ہے۔ بہت سے پیسے کماتا ہے۔ پیسوں سے کپڑے اور زیور خریدتا ہے اور اپنی منگیتر بینا سے شادی کرتا ہے۔
سونو پورے دس دن تک اپلے جمع کرتا رہا۔ اس نے اپلوں کی پوری بیس بوریاں اکٹھی کیں۔ وہ خوش تھا۔ اس کے پاس اپنا ایک اونٹ تھا اور ایک اونٹ اس نے اپنے دوست سے مانگا۔ رات کے وقت دونوں کو گھر میں باندھا اور کھردرے بان کی کھاٹ پر لیٹ گیا۔
صبح درابن جا کر ان بیس بوریوں کو بیچوں گا۔ پورے دو روپے ملیں گے۔ دو روپے بڑی چیز ہے۔ دو روپے کا کیا کیا لوں گا ؟اماں کی پکھی، ایک سیر گھی، دو سیر گڑ، دمان کا گڑ نہیں بلکہ اصلی اور میٹھا گڑ، بینا کے لئے چوڑیاں، اپنے لئے چھوٹا شیشہ اور ہو سکا تو ایک موچنا۔ موچنا بڑے کام کی چیز ہے۔ اس سے ناک سے بال نکالو۔ پاؤں سے کانٹے نکالو۔ وہ سوچ رہا تھا۔
گرمی کا موسم تھا۔ مچھر بھگانے کے لئے ہر گھر میں بکریوں کی میں گیاں سلگ رہی تھیں۔ سونو کے گھر میں بھی مچھر بھگانے والا دھواں اٹھ رہا تھا۔ سلگتی ہوئی کچھ مینگنیاں ہوا کے ساتھ لڑھک کر اپلوں کی بوریوں تک پہنچ گئیں۔ اپلے ساری رات آہستہ آہستہ سلگتے رہے۔ صبح، منہ اندھیرے سونو اٹھا۔ اس نے اونٹوں پر پلان رکھے، اپلوں کی بوریوں کو ہاتھ لگایا تو وہ راکھ بنی ہوئی تھیں۔ اس کے پاؤں تلے کی زمین نکل گئی۔ اس رات اس نے خواب دیکھا کہ شمال سے گھٹائیں امنڈ کر آتی ہیں۔ گول اور خوبصورت اپلوں کی زور دار بارش ہوتی ہے۔ سب لوگ گھڑوں، مٹکوں اور کوزوں میں اپلے اکٹھا کرتے ہیں۔ مرغوں اور کبوتروں پر لاد کر درابن لے جاتے ہیں۔ بہت سے پیسے کماتے ہیں۔ وہ خود بھی بہت سے اپلے بیچتا ہے۔ بہت سے پیسے کماتا ہے اور اپنی منگیتر سے شادی رچاتا ہے۔
میٹھی عید آنے میں تین دن باقی تھے۔ “تھلیاں ” کے سب گھروں نے آٹھ آٹھ آنے جمع کر کے ایک بوری گڑ کے پیسے اکٹھے کئے۔ صبح سویرے رانجھو کو پیسے دے کر اونٹ پر بٹھایا اور گڑ لینے درابن روانہ کر دیا۔ عصر کے وقت گاؤں کے مرد، عورتیں اور بچے سب انتظار میں تھے کہ رانجھو اونٹ پر گڑ کی بوری لائے گا، گڑ کو بڑے بوڑھے چونک میں بیٹھ کر تیس حصوں میں تقسیم کریں گے۔ ہر کوئی اپنا حصہ گھر لے آئے گا اور سارے گاؤں میں گڑ کی پاگل کر دینے والی خوشبو پھیل جائے گی۔ رانجھو شام سے پہلے گاؤں پہنچ گیا مگر گڑ کے بغیر۔ راستے میں کچھ آدمیوں نے اس سے گڑ چھین لیا تھا۔ اس رات گاؤں میں ماتم کاساسماں تھا۔ گاؤں کے سب مرد دوبارہ چونک میں اکٹھے ہوئے، مشورہ ہوا۔ دوبارہ آٹھ آٹھ آنے جمع کئے گئے۔ صبح دو آدمیوں کو دوبارہ گڑ لینے روانہ کیا گیا مگر شام کے وقت وہ بھی خالی ہاتھ لوٹ آئے۔ انہیں خالی ہاتھ لوٹتا دیکھ کر لوگوں کے ہاتھ پاؤں شل سے ہو گئے۔
” درابن کی تمام دکانوں پر گڑ ختم ہو گیا ہے۔ ” انہوں نے اطلاع دی لیکن چاچا وزیرو کا اصرار تھا کہ دکانداروں نے گڑ ذخیرہ کر لیا تھا تاکہ وہ منہ مانگے پیسے مانگ سکیں۔
” تیری منگیتر کے گھر کیا دیں گے ؟ منگنی کے بعد کی یہ پہلی عید ہے۔ اگر کہیں سے مجھے گڑ کی ایک بھیلی بھی مل جائے تو میں اس سے شکر بنا کر میٹھی سویاں بینا کے گھر بھیج دوں۔ اگر اس نے منگنی کے بعد پہلی عید پر میٹھی سویاں کھا لیں تو تم دونوں کی ساری زندگی میٹھی میٹھی گزرے گی۔ ” سونو کی ماں نے اس سے روہانسی آواز میں کہا۔
رات کو سونو نے خواب دیکھا کہ ایک پہنچا ہوا بزرگ ان کے گھر آتا ہے، اپلوں، تھاپیوں پر دم پڑھ کر انہیں گڑ میں تبدیل کرتا جاتا ہے۔ اور ان کے گھر کے تمام برتن گڑ سے بھر جاتے ہیں۔
صبح عید کا دن تھا۔ سونو اپنی ماں کے جاگنے سے پہلے اٹھا۔ اس نے سوچا، ہو سکتا ہے کہ سچ مچ کوئی اللہ والا، رات کے اندھیرے میں برتنوں کو گڑ سے بھر گیا ہو، وہ برتنوں کی تلاشی لینے لگا۔ پیالوں، کٹوروں، تھالیوں، گھڑوں اور چنگیروں کو الٹ پلٹ کر دیکھا مگر ان سے کچھ نہ نکلا۔ کارنس پرسجے ہوئے برتنوں کی تلاشی لیتے وقت اس کے ہاتھ دو چوہوں سے ٹکرا گئے، دھول اور دھوئیں سے اٹے برتنوں سے چوہوں کی مینگنیوں اور مردہ جھینگروں کے سوا کچھ نہ نکلا۔ پھر ایک زنگلی صندوق سے اسے گڑ کی میلی بھیلی مل گئی۔ اس نے اسے دانتوں سے کاٹا، مٹی اور دھوئیں کے ذائقے کے بعد اسے میٹھے کا احساس ہوا۔ اسے لہلہاتی فصلیں، ٹھنڈے سائے، نیلے پانی، غلے سے بھرے کوٹھے، اور دودھ اور گھی سے بھرے مٹکے یاد آ گئے۔ ایک مریل بلی نے میاؤں کر کے اس کے تصور کے سارے افق توڑ ڈالے۔ اس نے ایک سال سے گڑ نہیں چکھا تھا۔ اس کے جی میں آیا، ساری بھیلی کو کھڑے کھڑے کھا جائے۔ پھر اسے عید، بینا اور سویاں یاد آئیں۔ وہ خوشی سے دوڑتا ہوا اپنی ماں کی چار پائی کے پاس آیا، اسے سرہانے سمیت اٹھایا اور ناچنے لگا۔
” کیا بات ہے ؟اتنے خوش کیوں ہوں، کیا باہر بارش ہو رہی ہے ؟ یا نالہ ولیٹری میں پانی آ گیا ہے ؟”
” نہیں اماں نہیں، مجھے گڑ کی بھیلی ملی ہے۔ بس تو سویاں ابال۔ میں اس گڑ کی بھیلی کو صاف کر کے اس سے شکر بناتا ہوں۔ آج پورے گاؤں میں سب لوگ گڑ کے بغیر چاول اور سویاں کھائیں گے اور صرف میری بینا میٹھی سویاں کھائے گی۔ ”
سونو کی ماں نے سویاں ابالیں، ان پر دیسی گھی اور شکر ڈالی اور خود چکھے بغیر سویوں کی تھالی کو ریشمی، پھول دار کندورے میں باندھا اور جوتی گھسیٹتی، خوشی خوشی اپنے ہونے والی بہو کو دے آئی۔
دیکھتے ہی دیکھتے سارے گاؤں میں خبر پھیل گئی کہ آج صرف بینا نے میٹھی سویاں کھائی تھیں۔
” بڑی بھاگاں والی ہے یہ لڑکی! آج عید کے دن گاؤں میں کسی کا منہ بھی میٹھا نہ ہوا۔ مگر صرف اس لڑکی کی قسمت میں میٹھی سویاں لکھی تھیں۔ بڑی خوش قسمت ہے یہ بینا!جب سونو کے گھر جائے گی تواس کے نصیب سے اس کے گھر کے کوٹھے گندم سے اور مٹکے دودھ سے بھر جائیں گے۔ خدا ان کی جوڑی کو سلامت رکھے !” عورتیں آپس میں باتیں کرتی رہیں۔ اس دن سونو ایسے محسوس کر رہا تھا جیسے اس نے گھی اور شکر میں تر بتر کئی من سویاں کھائی ہوں۔ سارا دن اسے اپنی ڈکاروں سے دیسی گھی اور شکر کی خوشبو آتی رہی اور وہ ان مہندی لگی ہوئی انگلیوں کے بارے میں سوچتا رہا جو میٹھی سویوں کو منہ تک لے گئی ہوں گی۔ وہ ان ہونٹوں کے بارے میں سوچتارہا جن سے گزر کر سویاں منہ تک پہنچی ہوں گی۔ وہ بینا کے دانتوں، آنکھوں، بالوں اور گالوں کے بارے میں سوچتا رہا۔
جب سونو کی منگنی ہوئی تھی تو اس کی ماں نے اس کی دلہن کے لئے دو طلائی زیور اور تین جوڑی کپڑے خرید کر رکھ دئیے تھے۔ جب قحط سخت ہوا تو وہ گہنے بیچ کر کھا گئے۔
” اگر بارشیں برسیں، ہماری فصلیں اچھی ہوئیں تو ایک سال کے اندر اندر سونو بیٹے کی شادی ہو جائے گی۔ ” اس کی ماں گھر آنے والی ہر عورت اور آدمی کو بتاتی۔ وہ اٹھتے بیٹھتے بارش کے لئے دعا کرتی رہتی مگر آسمان مہربان نہ ہوا۔ زمینیں بنجر اور ویران پڑی رہیں۔ ” تھلیاں ” میں قحط اتنا سخت ہو گیا کہ اکثر گھرانے وہاں سے کوچ کر کے دریا کے پار نہری علاقے میں مزدوری کرنے چلے گئے۔
جب تین سال تک مسلسل بارشیں نہ ہوئیں تو سونو کے ہونے والے سسر نے اپنی بیٹی کی منگنی تڑوا کر اس کی درابن میں شادی کر ادی۔ ایک مہینہ بعد سونو کی ماں چل بسی اور پھر ایک دن سونو نے چھوٹی کنگھی، شیشہ، مونچھیں بنانے والی مقراض، موچنا اور بارہ آنے جیب میں ڈالے اور دو جوڑی کپڑے ٹین کے ٹرنک میں رکھے۔ ٹرنک کو کندھے پر اٹھایا اور دریا کے پار نہری علاقے میں چلا گیا۔ وہاں وہ گڑ بنانے والے کاریگر کے ساتھ نوکر بن گیا۔ پہلے دن جب وہ گرم گرم گڑ کی بھیلیاں بنا رہا تھا تو اسے اپنی دادی یاد آ گئی جو صبح صبح گھر کے باہر کھلے میدان میں گوبر سے اپلے تھاپتی۔ اسے وہ دن یاد آیا جب بچپن میں غصے میں آ کر اس نے اپنی اماں کے تازہ اور نرم اپلوں پر دوڑ دوڑ کے انہیں کچل ڈالا تھا۔ اسے بینا یاد آ گئی، اسے اپنی منگنی یاد آ گئی جس میں اس نے گاؤں کے لوگوں میں گڑ تقسیم کیا تھا۔ اس نے منہ میں تھوڑا سا گڑ ڈالا مگر اسے میٹھے کا احساس نہ ہوا۔ اسے ایسے لگا جیسے اپلا کھا رہا ہے۔
٭٭٭