شہر سے بہت دور ایک گاؤں آباد تھا۔ گاؤں کے ارد گرد کھیت اور مالٹے کے باغ تھے۔ ہر گھر میں ایک، دو بھینسیں تھیں۔ گاؤں والے اپنے کھیتوں کی گندم کھاتے اور اپنی بھینسوں کا دودھ پیتے۔ دن بھر کی مشقت کے بعد گھنے درختوں کے نیچے بیٹھ کر گانے گاتے۔ سردیوں میں چولہے کے گرد بیٹھ کر مونگ پھلی کھاتے اور پرانے زمانے کے قصے سنتے اور سناتے۔
پھر ایک دن ایک سر پھرا مہم جو سفر کی صعوبتیں جھیلتے، بھوک پیاس سے بے نیاز وہاں آن پہنچا اور یکایک گاؤں کو دریافت کر ڈالا۔ گاؤں والوں نے اس کی خوب خدمت خاطر کی۔ اس نے گاؤں والوں کو بتایا: “شہر میں دودھ بکتا ہے۔ ”
گاؤں والوں کو یقین نہ آیا۔ مہم جو گاؤں کے بارے میں جب ساری معلومات اپنی میلی ڈائری میں لکھ چکا تو اس نے پھر کہا، “شہر میں دودھ بکتا ہے۔ ”
گاؤں والے چونک میں اکٹھے ہوئے، طویل مشورے کے بعد ایک بہادر اور تجربہ کار آدمی کو تھوڑا سا دودھ دے کر مہم جو کے ساتھ شہر بھیج دیا۔
آدمی شہر سے واپس آیا، دیہاتیوں نے اس کا استقبال کیا۔ “شہر میں تو واقعی دودھ بکتا ہے ” اس نے چھنچھناتے سکے دکھائے۔
دوسری دفعہ جب وہ شہر دودھ بیچنے گیا تو اس کے ساتھ ایک اور آدمی بھی تھا۔ ہوتے ہوتے وہ تین ہو گئے، پھر چار اور پھر سارا گاؤں دودھ بیچنے لگا۔ اب سردیوں میں گاؤں والے چولہوں کے گرد بیٹھتے تو پیسوں، مہنگائی، دوائیوں اور شہر کی باتیں کرتے۔
پھر دودھ لینے شہر سے گاڑی آتی۔ پھر گاڑی کا زمانہ چلا گیا۔ شہر والوں نے دودھ کے لئے پائپ لائن بچھا دی جس کے ذریعے دودھ منٹوں میں گاؤں سے شہر پہنچ جاتا تھا۔ پھر شہر کے لوگوں کو شک گزرا کہ گاؤں والے دودھ میں پانی ملاتے ہیں۔ انہوں نے بھینسوں کے تھنوں سے دودھ دوہنے والی مشینیں فٹ کر دیں۔ یہ مشینیں رات کو بھی بھینسوں کے تھنوں کے ساتھ چمٹی رہتیں اور جونکوں کی طرح دودھ چوستی رہتیں۔ اب گاؤں والے دودھ کو ہاتھ نہیں لگا سکتے تھے۔
” ہم اپنے بچوں کے لئے دودھ کہاں سے لائیں گے ؟” گاؤں والوں نے فریاد کی۔
” پوڈر سے۔ ہم تمہیں پوڈر سے بھرا ٹرک بھیجتے ہیں۔ یہ پوڈر تمہاری کالی غلیظ بھینسوں کے دودھ سے لاکھ درجے زیادہ توانائی بخش ہے ” شہر والوں نے کہلوا بھیجا۔
گاؤں والوں نے پوڈر کی بوریاں جوہڑ میں ڈالیں۔ پوڈر اور پانی کو بیلچوں، ڈنڈوں اور پاؤں سے ملایا۔ منٹوں میں تازے دودھ کا جوہڑ تیار ہو گیا۔ جوہڑ سے بلیاں بھی دودھ پینے آتی تھیں۔ پھر بلیاں اتنی زیادہ ہو گئیں کہ گاؤں والوں کو چوکیدار رکھنے پڑے مگر چوکیدار مینڈک، مچھلیوں اور سُسروں کو دودھ کے جوہڑ میں رہنے سے نہیں روک سکتے تھے۔
وقت گزرتا گیا۔
” بھینسوں کو فالودہ کھلا ؤ، انھیں پانی کی جگہ سوڈاواٹر پلاؤ اور انھیں چلنے پھرنے مت دو۔ بھینسوں کے چلنے پھرنے سے دودھ سوکھتا ہے۔ “شہر سے لکھا ہوا پیغام آیا اور ساتھ اصلی لوہے کے موٹے موٹے تالے بھی بھیجے جو گاؤں والوں نے بھینسوں کی ٹانگوں میں لگا دئیے۔
کچھ عرصہ بعد بھینسوں کے نام بھوری، کجلی اور ککی کی جگہ ولایتی طرز کے رکھ دیے گئے۔ ماہرینِ دودھیات کا کہنا تھا کہ ولایتی، خوبصورت اور ماڈرن ناموں کابھینسوں کے دماغوں پر خوشگوار اثر پڑے گا، جس سے ان کے معدوں پر اچھے نتائج مرتب ہوں گے، جو آگے چل کر ان کے دودھ والے غدود کو ریلیکس کر دے گا اور اس طرح ان میں دودھ پیدا کرنے کی صلاحیت 56.69فیصد تک بڑھ جائے گی۔
ایک دن شہر والوں نے بھینسوں کی اعلیٰ نسل کشی کے لئے اعلیٰ نسل کا ” ربڑ کا سانڈ” بھیجا۔ وہ اسے سانڈ کہتے تھے مگر اس کی شکل لنگور کی طرح تھی۔ شہر والوں نے کہلوا بھیجا” اس سانڈ سے بھینسوں کی جو نسل پیدا ہو گی وہ اعلیٰ اور معیاری ہو گی۔ ان کے رنگ خوبصورت ہوں گے۔ کالا بھی کوئی رنگ ہے ؟اب بھینسیں سبز، نیلے، گلابی اور جامنی رنگ میں آئیں گی۔ ان کے بھدے اور مڑے ہوئے سینگوں کی جگہ رنگ برنگے پھولوں کے گچھے اگے ہوئے ہوں گے۔ اور ان کی دُمیں بالوں کے بجائے اصلی ریشم کی ہوں گی۔
ولائتی سانڈ یا لنگور، گرم اور ٹھنڈی بھینس میں تمیز نہیں کر سکتا تھا۔ اسے توبس چمٹنے کا شوق تھا۔ وہ ہر وقت کسی نہ کسی بھینس سے چمٹا رہتا۔ بلکہ چمٹ کر سو جاتا تھا اور کئی دنوں تک چمٹا رہتا۔ اگر اسے بھینس نہ ملتی تو وہ کسی گدھے، درخت، دیوار یا پھر گوبر کے ڈھیر سے چمٹ جاتا۔
ایک دفعہ شہر والوں نے سیٹلائٹ کے ذریعے دیکھا کہ گاؤں گوبر میں دھنس رہا ہے اور دودھ کو جراثیم سے خطرہ لاحق ہے۔ انہوں نے مشینوں کے ذریعے بھینسوں کو غباروں کی طرح ہوا میں معلق کر دیا۔ دودھ دوہنے والی مشینیں اب بھی ان کے تھنوں سے بھوکی بلیوں کی طرح چمٹی ہوئی تھیں۔ جب بھینسیں رفع حاجت کرتیں تو گاؤں کے اوپر گوبر کی ژالہ باری ہوتی۔ اس وقت لوگ گھروں میں دبک کر بیٹھ جاتے اور اپنے بچوں کو چارپائیوں کے نیچے چھپا دیتے۔ اب بھینسوں نے آوازیں نکالنا بند کر دی تھیں۔ وہ سارا دن آنکھیں بند کیے ہوا میں جھولتی رہتیں۔
وقت گزرتا گیا۔ گاؤں والوں کے قد چھوٹے ہوتے گئے۔ ہوا میں معلق بھینسیں بھی سکڑتی گئیں۔ جیسے غباروں سے آہستہ آہستہ ہوا نکلتی ہے۔ اب وہ گوبر زیادہ اور دودھ کم دیتی تھیں۔ گاؤں گوبر میں دھنستا گیا۔ پھر آہستہ آہستہ بھینسوں سے دودھ آنا بند ہو گیا۔ دودھ دھونے والی مشینیں ان کا خون چوسنے لگیں۔ جب یہ خون پائپ لائن کے ذریعے شہر میں پہنچتا تو شہر والے اس میں ایک ٹاپ سیکرٹ کیمیکل ملا کر اسے خالص دودھ میں بدل دیتے۔
آخر ایک دن خون آنا بھی بند ہو گیا۔ شہر والے گاؤں کو بھول گئے۔
آدھی صدی بعد ایک من موجی سیاح خاکی شارٹس پہنے، ہاتھ میں چھڑی پکڑے دنیا کی رعنائیاں دیکھنے نکلا۔ وہ گوبر کے ڈھیر کے پاس رفع حاجت کیلئے بیٹھا تھا۔ اسے ڈھیر سے ہلکی آوازیں سنائی دیں اور اس نے وہیں بیٹھے بیٹھے گوبر کے ڈھیر کو دریافت کر ڈالا۔ وہ اپنے کپڑوں کی پروا کیے بغیر گوبر کے ڈھیر کے اندر گھس گیا۔ اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ لوبیا کے دانے جتنی بھینیس، چاول کے دانے کے برابر انسان اور چیونٹیوں جتنے بچے چل پھر رہے تھے۔ سیاح نے دریافت کی اس کہانی کو اخباروں، ٹی وی اور نیٹ پر دیا۔ ماہرین نفسیات، فلسفی، سا ئنسدان، شعراء اور ماہرین طب اکٹھے ہوئے اور انہوں نے گاؤں کے لوگوں کے چھوٹا ہونے اور بھینسوں کے سکڑنے پر تھیسس لکھے اور انہیں ڈگریاں ملیں۔ گوبر میں دھنسے گاؤں اوراس میں رہنے والے ننھے منے انسانوں اور چھوٹی چھوٹی بھینسوں کو دیکھنے، دنیا بھر سے لوگ آئے اور کھانے پینے کی پروا کئے بغیر کئی دنوں تک حیرت میں ڈوبے رہے۔
پھر دنیا کے میڈیا میں واویلا مچا” تم اجڈ گنوار لوگ، تم کیوں اپنے قیمتی اثاثے کو بارش اور ہوا کی نذر کر رہے ہو؟ اگر تمہارے پاس پیسے کی کمی ہے تو پیسے ہم تمہیں دیتے ہیں۔ ”
شہر کے دل میں گنبد نما، بلوری عمارت تعمیر کرائی گئی اور گوبر میں دھنسے گاؤں کو مشینوں کے ذریعے اٹھا کر اس عمارت میں منتقل کر دیا گیا اور اس عمارت کی پیشانی پر لکھ دیا گیا “گوبر گاؤں “َْ۔
دنیا بھر سے سیاح، ماہرین اور طلبائے آثارِ قدیمہ اس بے مثال عجوبے کو دیکھنے آتے ہیں اور حیرت میں ڈوبے رہتے ہیں، کچھ تو گوبر گاؤں کی خاموشی، اس کے حسن، اور اس کے خالص ہونے کی تعریفیں کرتے کرتے بے ہوش ہو جاتے ہیں۔
“ہم سے ساری ترقی، دولت، مشینری، سائنس اور علم لے لو اور اس کے بدلے میں ہمیں گوبر گاؤں دے دو۔ تم لوگ کتنے خوش نصیب ہو !تم ان لوگوں کے وارث ہو جنھوں نے گوبر گاؤں تخلیق کیا تھا۔ ” سیاح کہتے ہیں۔
“سوری ! ٹائم ختم …. کل آنا”
” لیکن ہم نے تو گوبر گاؤں کے curator سے ملنا ہے۔ ”
” وہ کل آئیں گے۔ غیر ملک گئے ہوئے ہیں۔ سوری !ٹائم ختم۔ کل آنا”۔
بلوریں عمارت سفید روشنیوں میں بقعۂ نور بنی ہوئی ہے۔ عمارت کا فرش چمک رہا ہے جیسے ہیروں سے بنا ہو، گوبر گاؤں کا کیوریٹر آتا ہے۔ اس کے پیچھے سینکڑوں غیر ملکی سیاحوں، طلبا اور علم کے پیاسوں کی بھیڑ ہے۔ وہ گوبر گاؤں کا تالا کھولتا ہے۔ لوگ اپنی سانسسیں روک لیتے ہیں۔ “آج موسم اچھا ہے ! اس لئے گوبر گاؤں کو کھولا ہے۔ “۔ کیوریٹر بہت احتیاط اور پیار سے اپنی انگلی گوبر کے ڈھیر میں گھساتا ہے۔ چھ سات آدمی، عورتیں، بچے اور بھینسیں اس کی انگلی پر چڑھ آتی ہیں۔ وہ بہت نرمی اور پیار سے لوگوں کو دکھاتا ہے۔ لوگوں کی آنکھیں حیرت سے باہر نکلی ہوئی ہیں۔
“واہ!Unbelievable! اسے کہتے ہیں تخلیق! کیا دنیا کے پاس اس قسم کی کوئی چیز ہے ؟لا جواب!” وہ انگلی اپنے ہونٹوں کے قریب لاتا ہے۔
” میری ساری تحقیق ان پر ہے۔ میں نے ساری زندگی ان کے لئے وقف کر دی ہے۔ یہ میرے بچے ہیں۔ ” وہ ان کو چومتا ہے۔ اس کی آنکھوں میں آنسوؤں کے موتی چمکتے ہیں۔ ” میں انہیں اپنے بچوں سے زیادہ پیار کرتا ہوں۔ میں گھر سے زیادہ ان کو وقت دیتا ہوں۔ اسے کہتے ہیں تخلیق! واہ!Incredible! اسے “گوبر گاؤں ” نہیں ” سونے کا گاؤں ” کہنا چاہیے۔ ”
٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...