افسانہ (پشتو ادب سے انتخاب)
اجمل اند (کابل) ترجمہ: عبدالہادی حیران
سارا راستہ وہ بوڑھا آدمی میری آنکھوں کے سامنے رہا جس کا گریبان چاک اور داڑھی نسوار سے لتھڑی ہوئی تھی۔ وہ بار بار مجھے پکار رہاتھا۔ ’’ دیکھئے جناب ۔۔۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ۔۔۔ وہ کالے رنگ کی گاڑی تھی۔۔۔ سرکاری گاڑی تھی۔۔۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔۔۔ گاڑی کے شیشے بھی کالے تھے ۔۔۔ میں ۔۔۔نے۔۔۔۔‘‘
پولیس والے اسے دھکے دے کر مجمع سے باہر نکالنے کی کوشش کررہے تھے مگر وہ ہماری طرف زور لگارہاتھا۔ وہ اپنی گلوگیر آواز میں کہہ رہا تھا ’’ صبح سویرے ۔۔۔ جب میں اپنی دکان کھولنے لگا تھا تو ۔۔۔اس وقت اس کالی گاڑی سے یہ لاش پھینک دی گئی۔ ۔۔میں نے دیکھا ۔۔۔ وہ سرکاری لوگ تھے۔۔۔۔‘‘
میں نے لوگوں سے یہ بھی سُنا کہ ’’یہ بوڑھا آدمی یہاں موچی ہے‘‘۔
میں اپنے صحافی دوست کے ساتھ گاڑی میں بیٹھااپنے دفتر کی طرف جارہا تھا مگر اس دلخراش منظر نے میرے رونگھٹے کھڑے کردئیے تھے۔ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کونسا غم اپنے ساتھ لے کر جارہاہوں۔ ایک بیش بہا اور حسین جوانی کے لُٹ جانے کا غم یا اپنی ادھوری رپورٹ کا غم ،جو جائے واردات تک جانے کے باوجود ادھوری تھی۔
وہ بوڑھا آدمی بار بار میری آنکھوں کے سامنے آجاتا تھا۔ لگتا تھا کہ اس کے پاس واقعہ کے بارے میں کافی معلومات ہیں جو میری رپورٹ کی تکمیل میں معاون ثابت ہوسکتی تھیں۔ میں نے بھرپور کوشش کی کہ اس کی تمام باتیں ریکارڈ کروں ۔ لیکن پولیس نے آنکھ جھپکتے ہی اسے وہاں سے غائب کرادیا۔ جب میں واپس لاش کے پاس آیا تو وہاں کئی دیگر صحافی بھی اپنے فوٹوگرافروں کے ساتھ کھڑے تھے۔ معلوم ہوا کہ ہم اور پولیس بہ یک وقت جائے واردات پر پہنچے ہیں۔
لاش ایک جوان لڑکی کی تھی۔ پولیس نے چہرہ دیکھ کر کہا کہ لاش کی شناخت چہرے سے ممکن نہیں ہے۔ لاش پر پڑی ہوئی بوسیدہ چادر ، جو اس موچی کی لگ رہی تھی، سے اس کے پاؤں باہر کو نکلے ہوئے تھے جس سے یہ اندازہ لگانا آسان تھا کہ لڑکی کاقد کافی اونچا ہے۔ اس کی برف جیسی سفید پنڈ لیوں پر ضرب کے نشانات دکھائی دے رہے تھے جن کے اوپر خون کے دھبے سوکھ گئے تھے۔ اس نے بلیو رنگ کا کاؤبوائے پتلون پہن رکھا تھا۔ پولیس کسی کو لاش کا چہرہ دیکھنے کی اجازت نہیں دے رہی تھی۔ نہ کسی کو لاش کے نزدیک جانے دے رہی تھی۔پولیس والے مسلسل ایمبولینس کو طلب کررہے تھے۔ اسی وقت پولیس کا ایک اعلیٰـ افسر وہاں پہنچ گیا۔ تمام صحافیوں نے اس کی طرف دوڑ لگادی۔ اس نے صحافیوں کو اپنی طرف دوڑ لگاتے ہوئے دیکھ کر اپنے کوٹ پر ہاتھ پھیرا اور پوز کے انداز میں کھڑا ہوگیا تاکہ ٹی وی پر تصویر خوبصورت آئے۔ اس کے ساتھ ہی وہ بول پڑا۔ ’’ پلیز مجھے زیادہ تنگ نہ کیجئے۔۔۔پہلے ہمیں اپنی تحقیقات پوری کرنے دیجئے۔۔۔ فی الحال ہمارے پاس بھی زیادہ معلومات نہیں ۔۔۔‘‘
’’یہ جو لاش پڑی ہے اس کے بارے میں آپ کی معلومات کیا ہیں؟‘‘ کسی نے اس کی وضاحت کے باوجود پوچھ لیا
’’میں نے بتایانا کہ ہمارے پاس زیادہ معلومات نہیں ہیں۔ ہم صرف اتنا جانتے ہیں کہ اس علاقے کی ایک بیس سالہ لڑکی دو دن پہلے یونیورسٹی سے گھر جاتے ہوئے اغواء ہوگئی تھی۔۔۔۔ ابتدائی تحقیقات کے مطابق ہوسکتا ہے کہ یہ وہی لڑکی ہو۔۔۔‘‘
’’ تو کس نے اغواء کیا تھا اس لڑکی کو اور کیوں؟‘‘ کسی نے پھر سوال داغا۔
’’میں نے آپ کو کہہ دیا کہ زیادہ معلومات دستیاب نہیں ۔۔۔۔ تحقیقات ہورہی ہیں۔۔۔۔۔۔ میں نے جو کہا یہ صرف اندازہ ہے۔۔۔۔۔۔اس سلسلے میں تحقیقات جاری ہیں۔۔۔۔ بہت جلد ہم معلوم کرلیں گے۔۔۔۔‘‘
اسی لمحے ایمبولینس بھی آگیا۔ لاش ایمبولینس میں رکھ دی گئی۔ پولیس افسر بھی اپنی گاڑی کی طرف لپک گئے۔ اس نے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے بھی صحافیوں کو اپنی وہی بات دہرادی۔
’’ زیادہ معلومات نہیں ہیں۔۔۔۔۔۔۔ تحقیقات جاری ہیں۔۔۔۔‘‘
یہ سب باتیں یاد کرتے ہوئے مجھے اپنے چیف پر بہت غصہ آگیا۔ اس نے صبح سویرے ہی مجھے اس بے سروپا کیس میں پھنسادیا۔ آپ یقین کریں میں میدانِ جنگ سے رپورٹس دینے پر خوش ہوں مگر اس شہر کے کرائم رپورٹس سے میری جان نکلتی ہے۔ ۔۔۔۔ یہاں کے واقعات انتہائی عجیب اور پیچیدہ ہوتے ہیں۔ یہ صرف میرا مسئلہ نہیں ہے۔ بہت سخت دل لوگ بھی یہ واقعات دیکھ کر ماتم کرنے لگ جاتے ہیں !۔مگر مرتا کیا نہ کرتا۔ اب یہ رپورٹ میرے ذمہ تھی ۔ کچھ بھی ہو اب مجھے یہ کام کرنا تھا۔
پاس بیٹھے ہوئے دوست نے پوچھا ’’کیوں اتنے پریشان ہو یار؟‘‘
’’ پریشان کیوں نہ ہوں؟ ایک تو وہ واقعہ پریشان کرنے والا تھا اور دوسرا یہ کہ اب میں اس ادھوری رپورٹ سے ریڈیو کے لئے کیا تیار کروں؟ نہ لاش کی شناخت ہوسکی نہ واقعہ کے بارے کچھ معلوم ہوا۔ اس بابا کی باتیں ایک عینی شاہد کے طور پر لی جاسکتی تھیں۔ مگر یہ لڑکی کون تھی؟ کس نے اسے قتل کیا؟ کیوں اتنے دردناک طریقے سے اسے مارا؟ ان تمام سوالوں کے جوابات نہیں ۔۔۔۔ جب تک یہ جوابات نہ ملے ہوں رپورٹ تیار نہیں ہوسکتی۔۔۔۔‘‘
صحافی دوست، جو ایک اور خبری ادارے کے ساتھ کام کرتا ہے، نے اتفاق میں سر ہلاکر کہا
’’ ٹھیک کہا آپ نے۔ اس پولیس افسر نے بھی کوئی کام کی بات نہیں کی‘‘۔
’’ تو اب کیا کریں اس رپورٹ کے ساتھ؟‘‘
’’ ہوووو، ایسا کرتے ہیں کہ تم اپنے دفتر جاؤ اور میں تھانہ جاتا ہوں۔ پوسٹ مارٹم سے کوئی بات ہاتھ آگئی تو تجھے فون کرکے بتادوں گا۔‘‘
کچھ دیر بعد میں اپنے دفتر میں بیٹھا اس شہر کے مقدر پر سوچ رہا تھا۔ آج کا واقعہ یہاں معمول کی بات ہے۔ یہاں ہر روز ایسے کئی واقعات رونما ہوتے ہیں۔ یہ زورآور لوگوں کا شہر ہے۔ یہاں ایسے زورآور لوگ رہتے ہیں کہ جن کے پاس اسلحہ اور زور کی کوئی کمی نہیں ہے۔۔۔ اور میری بدقسمتی دیکھو۔ میں ایسے واقعات کی رپورٹوں سے دور بھاگتا ہوں۔وجہ یہ ہے کہ ایسے واقعات دیکھ کر میری کیفیت بدل جاتی ہے۔ مگر آج پھنس گیا ہوں۔ اب مجھے یہ رپورٹ تیار کرنی تھی۔ تیار نہ کرتا تو چیف مجھے کسی اور مخمصے میں پھنسادیتا۔ میں انہی سوچوں میں گُم تھا کہ میرا موبائل بجنے لگا۔ دوسری طرف میرا وہی صحافی دوست تھا۔ وہ کہہ رہا تھا ’’ میں نے معلوم کرلیا‘‘
’’ مجھے جلدی جلدی بتاؤ‘‘
’’یہ وہی لڑکی ہے جو دو دن پہلے یونیورسٹی سے لاپتہ ہوگئی تھی‘‘
’’اسے قتل کس نے کیا ہے؟‘‘
’’ پولیس افسر کہہ رہا ہے کہ اس کے خیال میں ڈاکوؤں کے ایک گروپ نے سرکاری گاڑی سے فائدہ اٹھاکر اسے اغوااور پھر قتل کیا ہے‘‘۔
’’ قاتل تو پھر بھی معلوم نہیں ہوسکے؟‘‘
’’انہیں تو ایک سال کی تحقیقات کے بعد بھی کوئی معلوم نہیں کرسکے گا‘‘
’’ اُف۔۔۔ تو میں رپورٹ میں کیا کہوں؟‘‘
’’ رپورٹس میں روزانہ ہم کیا کہتے ہیں؟ تم نے کبھی یہ بھی سُنا ہے کہ قاتل پکڑے گئے ہیں؟‘‘
’’ تو اَب میں کیا کروں؟‘‘
’’ بس ایک رپورٹ تیار کرو۔ اس میں پولیس کا حوالہ دیکر کہو کہ ڈاکوؤں کے ایک گروپ نے سرکاری گاڑی استعمال کرکے لڑکی کو اغواء اور پھر قتل کردیا ہے۔ تحقیقات جاری ہیں‘‘۔
’’ویسے مجھے یہ تو بتاؤ کہ پوسٹ مارٹم کا نتیجہ کیا ہے کہ اسے کیوں قتل کیاگیا ہے؟‘‘
,, پوسٹ مارٹم کا نتیجہ یہ ہے کہ قتل کی گئی لڑکی کے ساتھ دو دن مسلسل اجتماعی زیادتی کی گئی ہے۔ اور گزشتہ آدھی رات کو اسے اذیتیں دے دے کر قتل کردیاگیا ہے‘‘
’’ بس بس۔۔۔۔ شکریہ‘‘
موبائیل فون بند کرکے دیکھا تو چیف میرے پاس ہی کھڑا تھا۔ اس نے فورا پوچھا ’’ صبح والے کیس کا کیا بنا؟‘‘
’’ وہ ۔۔۔ دو دن پہلے ایک لڑکی کو یونیورسٹی سے اغواء کیا گیا اور گزشتہ رات اسے قتل کردیاگیا ہے‘‘
’’ نہیں ۔ نہیں۔ صبح تم کو شہر کے جنوبی علاقہ میں بھیجا تھا ایک کیس کی رپورٹ کے لئے۔ اس کا کیا بنا؟‘‘
’’سر! ۔۔ وہی بتارہاہوں۔ وہاں اس لڑکی کی لاش پھینک دی گئی تھی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اغواء کاروں نے سرکاری گاڑی سے فائدہ اٹھاکر اسے اغواء اور اجتماعی زیادتی کے بعد قتل کیا ہے‘‘
’’اوہ ۔۔۔ یہ تو اتنا اہم واقعہ نہیں جس پر رپورٹ تیار کی جاسکے۔۔۔۔ کوئی دوسرا موضوع ڈھوندلیتے ہیں۔۔۔۔‘‘
میں نے دل ہی دل میں اسے کئی گالیاں دیں ’’ اہم کیوں نہیں سر! میں نے لاش اپنی آنکھوں سے دیکھی ہے۔ پولیس رپورٹ ہے۔ عینی شاہد ہے۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ ہے۔ لڑکی کے رشتہ داروں سے بات کی ہے۔۔۔۔‘‘
’’ پاگل مت بنو۔۔۔۔ وہی کرو جو کہتا ہوں۔ ۔ ایسے واقعات تو روزانہ سینکڑوں ہوتے ہیں۔ ہم ریڈیو کے لئے ہر چھوٹے چھوٹے واقعے پر تو رپورٹ نہیں بناسکتے۔ ان واقعات کی خبری اہمیت کوئی نہیں۔۔۔‘‘
’’ اوکے سر! تو پھر کیا کروں؟‘‘
’’ کوئی نئی خبر آئی تو اس پر کام کرو‘‘یہ کہہ کر وہ دفتر سے نکلنے لگا۔ مگر دروازے سے واپس میری طرف آکر کہا،
’’ ہاں۔۔ ایک کام ہوسکتا ہے‘‘
مجھے اب اس پر بہت غصہ آرہا تھااس لئے ’’سر‘‘ کے لفظ کے استعمال کے بغیر ہی کہا:’’ کیا ہوسکتا ہے؟‘‘
’’ اگر تم کل بھی اس پر کام کرو اور شہر میں گزشتہ ایک ہفتے میں ایسے واقعات پر ایک تفصیلی رپورٹ تیار کرو تو بات بن جائے گی‘‘
’’ کوشش کرلوں گا‘‘ میں نے بے دلی سے کہا۔
’’ اب کہیں نہیں جانا۔ کوئی دوسرا مسئلہ پیدا ہو تو اسے تعقیب کرو۔ میں ایک کام سے چند منٹ کے لئے باہر جارہاہوں۔۔۔ کوئی بات ہو تو فون کرلو‘‘۔اس کے نکل جانے کے بعد میں نے اپنا غصہ میز پر بکھرے ہوئے ان یادداشتوں کو پھاڑ ڈالنے پر نکالاجو میں نے اس رپورٹ کے سلسلے میں لکھی تھیں۔
’’عجیب بات ہے۔۔۔۔ کہتا ہے اس کی خبری اہمیت نہیں ہے۔۔۔۔ ایک چنار قد دوشیزہ جو یونیورسٹی کی طالبہ ہے دن دیہاڑے اغواء ہوئی ہے۔اس پر تشدد ہوا ہے۔ وہ مسلسل دو دن اجتماعی زیادتی کا شکار ہوئی ہے۔ اغواکاروں نے اس واردات میں سرکاری گاڑی استعمال کی ہے۔ یہ تو Breaking News ہے۔ وہ کہتا ہے اس کی خبری اہمیت نہیں ہے۔۔۔ خبری اہمیت پھر کس چیز کی ہے؟؟؟؟؟‘‘ایک ایک لمحہ گزرنے کے ساتھ میرا غصہ سر کو چڑھ رہا تھا۔
اچانک میرا خیال اس طرف گیا جس طرف عموما ایسے حالات میں جاتا ہے۔ یعنی میں انٹرنیٹ پر جاب سرچ میں لگ گیا۔ جب بھی میں کام سے بور ہوجاتا ہوں تو انٹرنیٹ پر جاب سرچ کرتا ہوں کہ شاید کوئی موزوں جاب مل جائے۔ اگر چہ مجھے کبھی بھی انٹرنیٹ جاب سرچ سے کوئی جاب ملی نہیں ہے۔
میں تھوڑی دیر اسی کام میں مگن تھا کہ فون کی گھنٹی بج اٹھی۔ ریسیور اٹھایا تو دوسری طرف چیف کی آواز تھی،
’’جی سر!‘‘
’’سُنو ایک ارجنٹ خبر ہے‘‘
’’ اچھا سر!‘‘
’’ اپنا ای میل چیک کرو۔ صدر صاحب کے دفتر سے ایک پریس ریلیز جاری ہوا ہے۔ وہ تم کو ای میل کردیاگیا ہے‘‘
’’ پریس ریلیز کس بارے میں ہے سر !‘‘
’’ دو وزیروں کو ہٹادیاگیا ہے‘‘
’’دو وزیر۔۔۔۔۔؟‘‘
’’ہاں ۔ ہاں ۔ جلدی کرو ۔۔۔ اس سے ایک مختصر رپورٹ لکھ کر Breaking Newsکے طور پر Live سُناؤ‘‘
’’ اوکے سر!‘‘ میں نے فورا ای میل چیک کیا۔ پریس ریلیز پڑھا تو سمجھا کہ بات اہم ہے۔ دو وزیروں کو ہٹادیاگیا تھا اور ان کی جگہ نئی تقرریاں بھی کردی گئیں تھیں۔ فورا ایک مختصر رپورٹ تیار کی اوراسٹوڈیو جاکر انتہائی تیزی کے ساتھ Liveنشر کی تاکہ ہم سے کوئی آگے نہ ہوجائے۔ جب رپورٹ نشر ہوچکی اور میں واپس اپنے کمرے کے دروازے پر پہنچ گیا تو فون کی گھنٹی انتہائی بے صبری کے ساتھ بج رہی تھی۔ دوڑ کر ریسیور اٹھایا تو دوسری طرف سے چیف اپنی موٹی آواز میں دھاڑ رہاتھا:’’ یہ تم نے ریڈیو پر کیا بکواس کی؟‘‘
’’ سررررررر ! ۔۔۔ و۔۔ہی ۔۔۔ پریس ریلیز۔۔۔‘‘
’’ وزیروں کو کرپشن کی وجہ سے ہٹادیاگیا ہے۔۔۔ انہوں نے کوئی قتل نہیں کیا ہے‘‘
’’ نہیں سر! میں نے تو قتل کی کوئی بات نہیں کی۔ ۔۔۔ میں نے کرپشن کا۔۔۔۔‘‘
’’تم نے قتل کہا۔۔۔ اور۔۔۔ دوسرا جو بکواس تم نے کیا اس کی کیا ضرورت تھی؟۔۔‘‘
’’میں سمجھا نہیں سر!۔۔۔ میں نے تو وہی کہا جو پریس ریلیز میں تھا‘‘
’’ ابھی آتا ہوں میں۔۔۔ وہیں تمہیں سمجھادوں گا‘‘ اور فون بند ہوگیا۔
میں نے ایک بار پھر صدر صاحب کے دفتر سے ای میل کیاگیا پریس ریلیز غور سے پڑھا۔ اس میں کہاگیا تھا کہ دو وزیروں کو کرپشن کی وجہ سے ہٹادیاگیا ہے۔ پھر کمپیوٹر میں اپنی ٹائپ کی ہوئی خبر پڑھنے لگا تو مجھے لگا جیسے مجھ پر پاگل پن کا دورہ پڑا ہو۔ میں نے لکھا تھا: ’’ افغانستان کے صدر نے آج ایک صدارتی فرمان کے ذریعے دو وزیروں کو قتل کے الزام کی وجہ سے اپنے عہدوں سے برطرف کردیا ہے۔ جناب صدر نے یہ اقدام ایسے وقت میں اٹھایاہے کہ آج صبح سویرے شہر کے جنوب میں ایک بیس سالہ طالبہ کی لاش پڑی ہوئی ملی جسے دو دن پہلے یونیورسٹی سے گھر جاتے ہوئے سرکاری گاڑی میں اغواء کیاگیا تھا۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اس کے ساتھ دو دن مسلسل اجتماعی زیادتی کی گئی ہے اور پھر اسے اذیتیں دے کر ماراگیا ہے‘‘۔
میں نے چیف کے آنے تک یہ خبر کئی دفعہ پڑھی مگر سمجھ پھر بھی نہیں آئی کہ یہ میں نے کیسے لکھ دیا ۔ بے شک یہ اس ریڈیو میں میری آخری خبر تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’عالمِ اسلام کی مجموعی حالت کا اندازہ کرنے کے لئے اگر سعودی عرب اور پاکستان کی حکومتوں(عرب و عجم) کومثالی نمونے مان لیا جائے تو اس سے صورتحال کافی حد تک واضح ہو سکتی ہے۔ان دونوں ملکوں کے معاملات میں زیادہ گہرائی میں جانے کی ضرورت نہیں صرف سامنے کے دو محکموں کی کار کردگی سے ہی بہت کچھ سمجھ میں آجاتا ہے ۔ دونوں ملکوں کا ٹریفک کا نظام اور دونوں ملکوں کی پولیس کا نظام۔۔دونوں نظام مل کر نظامِ حکومت کی بہترین عکاسی کرتے ہیں۔ دونوں ملکوں کی ٹریفک کا نظام افراتفری اور نفسانفسی کا مظہر ہے جبکہ پولیس کے دو کام ہیں ایک حکمرانوں کے ذاتی اقتدار کا مکمل تحفظ اور دوسرا اپنے ہی عوام کی تذلیل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔قانون کی حکمرانی کے لمبے چوڑ ے دعوے تو موجود ہیں لیکن عملاَایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ ان کے بر عکس امریکہ اوردوسرے مغربی ممالک میں بھی پولیس اور ٹریفک کے دو محکموں کی کار کردگی سے ہی ان سارے ممالک کی مجموعی حالت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔قانون کی خلاف ورزی کوئی بڑے سے بڑا اعلیٰ عہدیدار کرے اسے اسی طرح قانونی کاروائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جیسے کسی بھی عام شہری کو کرنا پڑتا ہے۔ان ملکوں کی پولیس کے پاس بے پناہ اختیارات ہیں لیکن ان کی پولیس کا عمومی رویہ قانون کے مطابق اپنے فرائض ادا کرنا ہی ہے۔اسی لئے کسی بھی عام شہری کو کسی پولیس مین یا ان کے اعلیٰ افسر سے بات کرتے ہوئے کبھی کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔
۔۔۔۔امریکہ نے تیسری دنیا یا اسلامی دنیا کے ساتھ جو کچھ بھی کیا ہے،وہ سب اپنی جگہ لیکن خود اپنے شہریوں کے ساتھ اس کا رویہ ان کی عزت نفس کا احترام کرنے کا ہی نہیں بلکہ ان کی عزت نفس کی حفاظت کرنے کا بھی ہے۔اس ایک بنیادی فرق سے ہی اسلامی ملکوں کے حکمرانوں اور اور مغربی دنیا کے حکمرانوں کے فرق کو سمجھا جا سکتا ہے۔ ‘‘
(حیدر قریشی کی کتاب منظر اور پس منظر کے آخری کالم سے اقتباس
صفحہ نمبر ۱۲۰،۱۲۱، کالم مطبوعہ ۱۸؍نومبر ۲۰۰۳ء)