خاور اعجاز(ملتان)
اُٹھا کے باقی سِتارے بھی لانا چاہتا ہُوں
مَیں اپنے خواب میں دوبارہ جانا چاہتا ہُوں
ترے جہاں کے مناظر بھی خُوب ہیں لیکن
اَب اپنے شوق کا منظر بنانا چاہتا ہُوں
گزار کر یہ وبالِ حیات کا عرصہ
کِسی نہال زمانے میں جانا چاہتا ہُوں
بدل رہا ہُوں یقین و گماں کے پیرائے
کہ اِس عذاب سے اَب باہر آنا چاہتا ہُوں
ہیں اُس سے اور کئی ماوراء کے رِشتے بھی
یہی نہیں کہ فقط غائبانہ چاہتا ہُوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بدل رہے ہیں مِرے خد و خال تیزی سے
گزر رہے ہیں کہیں ماہ و سال تیزی سے
اُبھرتا ہے کِسی آئندہ لمحے میں اور پھِر
سمٹتا جاتا ہے ماضی میں حال تیزی سے
ہم اُس کے جال میں آتے گئے قدم بہ قدم
زمانہ چلتا گیا اپنی چال تیزی سے
علاجِ رنج کی مہلت نہ مِل سکی ہم کو
لہو میں پھیل گئے کچھ ملال تیزی سے
عبور کرتے ہی پچّاس کی دہائی کو
بدن میں آنے لگا ہے زوال تیزی سے
ٹھہر ٹھہر کے جِسے دیکھنے کی حسرت تھی
گزر گئی وہی ساعت کمال تیزی سے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زمینوں ، آسمانوں کے عِلاوہ
دِکھا کچھ اِن جہانوں کے عِلاوہ
سُنا پھِر سے کوئی زرّیں کہانی
مگر گزرے زمانوں کے عِلاوہ
ہمارے حافظے میں اور کیا ہے
پُرانی داستانوں کے عِلاوہ
ہم اُن تِیروں کی زَد میں آ گئے ہیں
جو چلتے ہیں مچانوں کے عِلاوہ
نظر آتا نہیں بارِش کو شاید
کچھ اِن کچّے مکانوں کے عِلاوہ
ہے اِک آسیب کا سایہ یہاں پر
مکینوں اور مکانوں کے عِلاوہ
کہاں چلتا ہے کوئی زور اپنا
فقط گز بھر زبانوں کے عِلاوہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اُسے نِگاہ میں بھر لینا چاہتا ہُوں مَیں
یہ کام چپکے سے کر لینا چاہتا ہُوں مَیں
وُہ جانتا ہے یہ دُنیا مجھے قبول نہیں
کوئی جہانِ دِگر لینا چاہتا ہُوں مَیں
مَیں تھک نہ جاؤں بہت اِبتداء کے رستوں میں
سو اِنتہا کا سفر لینا چاہتا ہُوں مَیں
اِک اور پردہ گِرا لیتا ہے وُہ اپنے گِرد
کبھی جو اُس کی خبر لینا چاہتا ہُوں مَیں
بسائے رکھتا ہُوں جِس شہر کی فضاء خُود میں
وہیں کے شام و سحر لینا چاہتا ہُوں مَیں