حسن عباس رضا(امریکہ)
سینے کی خانقاہ میں آنے نہیں دیا
ہم نے اُسے چراغ جلانے نہیں دیا
دُزدانِ نیم شب نے بھی حیلے بہت کیے
لیکن کسی کو خواب چُرانے نہیں دیا
اب کے شکست و ریخت کا کچھ اور ہے سبب
اب کے یہ زخم تیری جفا نے نہیں دیا
اِس بار تو سوال بھی مشکل نہ تھا،مگر
اِس بار بھی جواب قضا نے نہیں دیا
کیا شخص تھا، اُڑاتا رہا عمر بھر مجھے
لیکن ہوا سے ہاتھ ملانے نہیں دیا
ممکن ہے وجہ ترکِ تعلق اُسی میں ہو
وہ خط جو مجھ کو بادِ صبا نے نہیں دیا
اُس حیرتی نظر کی سمٹتی گرفت نے
اُٹھتا ہوا قدم بھی اُٹھانے نہیں دیا
شامِ وداع تھی،مگر اُس رنگ باز نے
پاؤں پہ ہونٹ رکھ دئیے،جانے نہیں دیا
کچھ تو حسنؔ وہ دادو ستد کے کھرے نہ تھے
کچھ ہم نے بھی یہ قرض چکانے نہیں دیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آنکھوں سے خواب، دل سے تمنّا تمام شُد
تم کیا گئے،کہ شوقِ نظارا تمام شُد
کل تیرے تشنگاں سے یہ کیا معجزہ ہوا
دریا پہ ہونٹ رکھے، تو دریا تمام شُد
دنیا تو ایک برف کی سِل سے سوا نہ تھی
پہنچی ذرا جو آنچ، تو دنیا تمام شُد
عشّاق پر یہ اب کے عجب وقت آپڑا
مجنوں کے دل سے حسرتِ لیلیٰ تمام شُد
شہرِ دلِ تباہ میں پہنچوں، تو کچھ کھُلے
کیا بچ گیا ہے راکھ میں،اور کیا تمام شُد
ہم شہرِ جاں میں آخری نغمہ سنا چکے
سمجھو کہ اب ہمارا تماشہ تمام شُد
اک یادِ یار ہی تو پس انداز ہے حسنؔ
ورنہ وہ کارِ عشق تو کب کا تمام شُد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انا کو مار کر اپنی مذمّت کررہے ہیں
یہ کیسے لوگ ہیں ہم جن کی خدمت کر رہے ہیں
مشقّت کے بغیر اُجرت ملا کرتی تھی ہم کو
سو، اب کے ہم بغیر اُجرت مشقّت کر رہے ہیں
کسے اتنی فراغت دل زدوں کا حال پوچھے
سو،ہم بیمار،خود اپنی عیادت کر رہے ہیں
محبت کرنے والوں سے محبت کر نہ پائے
اور اب اُن کے تصوّر سے محبت کر رہے ہیں
کبھی صحراؤں کی وسعت بھی ناکافی تھی ہم کو
اور اب چھوٹے سے اک کمرے میں وحشت کر رہے ہیں
حسنؔ اِک میں اور اِک ہمزاد ہے ساری رعایا
ہمی اِک دوسرے پر اب حکومت کر رہے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بدن میں قطرہ قطرہ زہر اُتارا جا رہا ہے
کہ ہم کو آج کل قسطوں میں مارا جا رہا ہے
بظاہر تو بہت ہی دور ہیں گرداب ہم سے
مگر لگتا ہے ہاتھوں سے کنارہ جا رہا ہے
جہاں کچھ روز پہلے راندۂ دہلیز تھے ہم
انہی گلیوں سے اب ہم کو پکارا جا رہا ہے
محلّے سے کرایہ دار کیا جانے لگے ہیں
کہ اُن کے ساتھ گویا دل ہمارا جا رہا ہے
قدم زینے پہ رکھا اُس نے،اور ہم نے یہ سمجھا
کہ سُوئے آسماں کوئی ستارا جا رہا ہے
ہم اہلِ درد جوئے میں لگی ایسی رقم ہیں
جسے دانستہ ہر بازی میں ہارا جا رہا ہے
حسنؔ اب تو وہاں کچھ بھی نہیں جُز کرچیوں کے
تُو کس آئینہ خانے میں دوبارہ جا رہا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خواہشِ دلداریٔ دنیا نے رُسوا کر دیا
ہم بہت تنہا تھے،اِس نے اور تنہا کر دیا
ضبط ایسا تھا کہ صحرا ہو گئے گُم آنکھ میں
اور جب روئے تو سارا شہر دریا کر دیا
آئنے میں ڈھونڈتے ہیں اب تو اپنے خد و خال
ہم کبھی ایسے نہیں تھے،تُو نے جیسا کر دیا
عشق میں پہلے ہوئے تقسیم در تقسیم ہم
آخرِ کار اپنا دل بھی خود سے منہا کر دیا
سوچتے ہیں بند ہو کر اب حصارِ ذات میں
ہم کو بزم آرائی نے کتنا اکیلا کر دیا
اپنی آنکھیں بھی میں چھوڑ آیا تری دہلیز پر
مجھ کو اس دیدار کی خوہش نے اندھا کر دیا
اُس کی چاہت تو امانت تھی مِرے دل میں حسنؔ
’’کیا کیا میں نے کہ اظہارِ تمنا کر دیا‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم تو یوں اُس کے دھیان سے نکلے
تِیر جیسے کمان سے نکلے
پھر کہیں بھی انہیں اماں نہ ملی
جو خود اپنی امان سے نکلے
کاش اک دن وہ ہم سے ملنے کو
ساتویں آسمان سے نکلے
حوصلہ ہو تو جوئے شِیر ہے کیا
پورا دریا چٹان سے نکلے
جیسی دھج سے گئے تھے اُس دل میں
ویسی ہی آن بان سے نکلے
بد نصیبی بھی ساتھ ہو لی تھی
ہم جب اپنے مکان سے نکلے
داستاں گو کو بھی خبر نہ ہوئی
کیسے ہم داستان سے نکلے
اصل میں ہم تھے مرکزی کردار
اور ہمی داستان سے نکلے
جانے کب جسم کا اسیر پرند
دکھ کے اس خاکدان سے نکلے