صبا اکبرآبادی
حسن خود عشق پہ نازاں ہے یہ معلوم نہ تھا
پھول کانٹوں کا نگہباں ہے یہ معلوم نہ تھا
ہائے اک شخص جسے جانِ تمنا سمجھا
وہ مری جان کا خواہاں ہے یہ معلوم نہ تھا
کتنے سامان کئے زیست کی آسانی کے
موت جینے سے بھی آساں ہے یہ معلوم نہ تھا
وہمِ فانوس نے دھوکہ دیا پروانوں کو
شمع اک شعلہ ء عریاں ہے یہ معلوم نہ تھا
وسعتِ دہر میں ترسا کئے آزادی کو
ایک پھیلا ہوا زنداں ہے یہ معلوم نہ تھا
لوگ کرتے رہے آشوبِ جہاں کی تاویل
وجہ آشوب خود انساں ہے یہ معلوم نہ تھا
دوستوں کے لئے کیا کیا نہ ادا کی قیمت
دوستی کس قدر ارزاں ہے یہ معلوم نہ تھا
کسی نمرود سے جب تک نہیں ٹکرائے تھے
آگ کا نام گلستاں ہے یہ معلوم نہ تھا
اے صبادل میں ہمیں خون کی گردش پہ تھا ناز
تاک میں گردشِ دوراں ہے یہ معلوم نہ تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب خزاں کے دن رنگِ فصلِ گل بدلتے ہیں
پھول مسکراتے ہیں آشیانے جلتے ہیں
وقت جب بدلتا ہے آدمی بدلتے ہیں
زندگی کے سانچوں میں انقلاب ڈھلتے ہیں
وہ کہیں تو پہنچیں گے جوبہک کے چلتے ہیں
گمرہی سے بھی اکثر راستے نکلتے ہیں
اے امید کے سورج وہ ابھی نہ آئیں گے
پھیلتی ہے تاریکی تب چراغ جلتے ہیں
ہے کوئی ، جو آئینہ سنگ کے عوض لے لے
بیچتے نہیں ہیں ہم دل سے دل بدلتے ہیں
وہ عبور کر لیں گے قلزمِ مصائب کو؟
روز جن سفینوں کے نا خدا بدلتے ہیں
ایک دن یہی شایداُس گلی میں لے جائے
دل جدھر چلے ہم بھی ساتھ ساتھ چلتے ہیں
وحشیوں کے رستے میں باغ ہوکہ جنگل ہو
پھول بھی کچلتے خار بھی کچلتے ہیں
اتنی تیز رفتاری کیوں ہے سوئے میخا نہ
اے صبا ذرا ٹہرو ہم بھی ساتھ چلتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عشق ہی مرکزِ اربابِ نظر ہو شاید
سوچتا ہوں یہی عیب ہنر ہو شاید
بے اثر ہوگئیں ا لفت میں دعائیں اپنی
یہ تمہاری ہی دعاؤں کا اثر ہو شاید
حیرتِ جلوہ سے تصو یر بنا جاتا ہوں
یہ تصویر ترے پیشِ نظر ہو شاید
میرے پہلو میں تھی اک چیز نہیں ملتی ہے
تیری شرمیلی نگاہوں کو خبر ہو شاید
موت کو بھی اِسی امید میں چاہا میں نے
موت کے بھیس میں وہ شعبدہ گر ہو شاید
چند تنکوں کو نشیمن کے بچا رکھا ہے
پھر کبھی معرکہء برق و شرر ہو شاید
جس طرح خاک اُڑائی ہے جنوں میں ہم نے
اِس طرح اور کوئی خاک بسر ہو شاید
جس طرح عشق مرے شوق کا آئینہ ہے
حُسن بھی میری ہی تخلیقِ نظر ہو شاید
انگلیاں باغ میں کانٹوں سے بچاتے ہو صبا
اِن کے جُھرمٹ ہی میں کوئی گلِ تر ہو شاید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آؤ کچھ باتیں کریں جی کھول کر
وقت کٹ جائے ذرا ہنس بول کر
زیست کو روشن کیا جی کھول کر
پی لیا ساغر میں سورج گھول کر
قید میں پرواز کی طاقت نہ تھی
پر شکستہ رہ گئے پَر تول کر
اے خریدارِ گُہر ہائے فضول
کچھ ہمارے آنسوؤں کا مول کر
پھینکتا ہوں دل کے ٹکڑے خاک پر
جس کادل چاہے اُٹھالے رول کر
اب زبانِ دار کے جوہر کُھلیں
ہم تو مجرم ہوگئے لب کھول کر
ٹھوکریں کھا کر یہ آتا ہے خیال
ہم بھی چل سکتے تھے آنکھیں کھول کر
اُف صبا ارزانیء جنسِ ہنر
بیچتے ہیں اب ادب کو تول کر