کالو خاں، فخرو اور فخرو کی ماں، تینوں باورچی خانے میں بیٹھے چائے پی رہے تھے۔ ان کے چائے پینے کے انداز سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ الگ الگ کسی نہ کسی فکر میں اُلجھے ہوئے ہیں۔ ماں نے لمبا گھونٹ حلق سے اُتارا اور رمضان خاں کو بد دعا دی۔
’’اللہ کرے اسے تو کسی کی آئی آ جائے۔‘‘
’’آپا! کسی کو اس طرح بد دُعا نہیں دیا کرتے۔‘‘ کالو خاں بولا۔
’’کیوں بد دُعا نہ دوں۔ مصیبت بن گیا ہے ہمارے لیے۔ اب کہتا ہے کہ وہ میری امانت ہے۔ میں لے جاؤں گا۔‘‘
کالو خاں مسکرایا، ’’آپا، یہ گدھا اس کی امانت نہیں تو کیا ہے۔ تمہارے لعل نے دو سو روپے لے کر اسے بیچ دیا تھا۔‘‘ فخرو کو اس بات پر غصہ تھا کہ چچا نے گدھے کو گدھا کہا تھا۔ بادشاہ سلامت نہیں کہا تھا۔
’’چچا! وہ بادشاہ سلامت۔۔ ۔‘‘
’’چُپ رہ، بادشاہ سلامت کے بچے! میرا منھ نہ کھلواؤ۔ بادشاہ سلامت ہے تو اُسے دو سو روپے میں بیچ دیا تھا۔‘‘ فخرو کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا۔
’’وہ اول درجے کا غنڈہ ہے۔ ساری منڈی پر اس کا اثر ہے۔‘‘ چچا نے کہا۔
’’تو ہم کیا کریں۔۔ ۔؟‘‘ ماں نے پوچھا۔
’’آپا! اصول یہ ہے کہ جو شخص جو چیز خریدتا ہے وہ چیز اس کی ملکیت ہو جاتی ہے۔
’’ہائے اللہ! تو کیا گدھا۔۔ ۔‘‘ فخرو تلملا ا تھا، ’’اماں، بادشاہ سلامت۔‘‘
کالو خاں کے تیور بدل گئے:
’’ارے تو باز آتا ہے کہ نہیں۔ بادشاہ سلامت، بادشاہ سلامت کی رٹ لگا رکھی ہے۔‘‘
کالو خاں سے ڈانٹ سن کر فخرو نے پیالی زمین پر رکھ کر اپنا سر جھُکا لیا۔
’’تم لوگ گھبراؤ نہیں۔ جو کچھ ہو گا بہتر ہو گا۔‘‘ کالو خاں نے کہا تو ماں بولی:
’’پر کالو خاں! وہ گدھا لینے آئے گا تو ہم کیا کریں گے؟‘‘ فخرو اپنے بادشاہ سلامت کی توہین برداشت نہ کر سکا، اُٹھ بیٹھا۔
’’سرکار کا ارادہ کدھر کا ہے؟‘‘ کالو خاں نے اُسے اٹھتے ہوئے دیکھ کر کہا۔
’’میں بیٹھ نہیں سکتا۔‘‘
کالو خاں نے غصے سے کہا، ’’بیٹھ جاؤ!‘‘ فخرو مجبوراً بیٹھ گیا۔
’’یہ کوئی گھبرانے والی بات نہیں ہے۔ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘ کالو خاں نے کہا۔
’’وہ لینے آ جائے گا۔‘‘ فخرو نے اپنا سوال دہرایا۔
’’تو آ جائے۔‘‘ ماں نے اس طرح دائیں ہاتھ کو ہلایا جیسے کہہ رہی ہو کہ میری سمجھ میں تو خاک نہیں آیا۔ پھر اس نے کہا:
’’کریں گے کیا؟‘‘
’’آپا! مجھے اور تم دونوں کو الگ الگ کام کرنے ہوں گے۔ مجھے جو کچھ کرنا ہے وہ میں کروں گا اور تم دونوں کیا کرو گے؟‘‘
’’ہوں۔‘‘ ماں کے ہونٹوں سے نکلا تو کالو خاں بولا:
’’صرف ایک کام، خاموش رہو گے۔ کچھ بولو گے نہیں، کچھ پوچھو گے نہیں۔ کوئی سوال نہیں کرو گے، بس۔‘‘
’’بتاؤ گے نہیں، خود کیا کرو گے تم؟‘‘ ماں نے سوال کیا۔
’’نہیں، کچھ نہیں بتاؤں گا۔ آپا! بتاؤں کیا۔ یہ جو تمہارا عقل مند بیٹا ہے نا حماقتوں کی پوٹلی ہے۔ سب سے بُری بات یہ ہے کہ اس کا ہاضمہ بہت ہی کمزور ہے۔ کوئی بات چھپتی ہی نہیں۔ اس کے پیٹ کے اندر ایک ڈھول ہے ڈھول۔ بجائے پر آ جائے گا تو بجاتا ہی چلا جائے گا۔ آپا! تم سب کچھ جانتی ہو۔ اب میں جاتا ہوں۔‘‘ کالو اُٹھنے لگا تو اماں نے کہا، ’’جا کہاں رہے ہو کالو خاں؟‘‘
’’آپا! میں تو رو رہا تھا کہ ہمارے فخرو کا معدہ کم زور ہے۔ اب تمہارا حافظہ بھی کم زور ہو گیا ہے۔ میں نے کہا نہیں کہ مجھ سے کچھ مت پوچھو۔ یاد نہیں رہا؟‘‘
’’اچھا بابا، جو جی میں آئے کرو۔‘‘
’’کروں گا۔ کرنے ہی تو جا رہا ہوں۔‘‘ کالو خاں جانے لگا۔
’’واپس کب آؤ گے کالے خاں؟‘‘
کالو نے زور سے اپنا ہاتھ جھٹکا، ’’آپا! کمال کر رہی ہو تم بھی!‘‘
’’توبہ میری اب تم سے کچھ پوچھنا بھی جرم ہو گیا۔‘‘
’’اس سے بڑی خرابی ہو گی آپا۔‘‘
ماں لوٹ آئی۔ کالو خاں ان کی نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ دونوں ماں بیٹے بیٹھے رہے۔
’’فخرو پُتر!‘‘ ماں نے بیٹے کو پیار سے پُکارا، ’’تمہارا منھ کیوں سوجا ہوا ہے؟ تمہارے چاچے نے جو کچھ کہا ہے غلط نہیں ہے۔ اگر تجھے ڈانٹتا ہے تو مجھے بھی ڈانٹتا ہے حال آنکہ وہ مجھ سے چھوٹا ہے اور مجھے آپا کہتا ہے۔‘‘
’’تو؟‘‘ فخرو نے زور سے کہا۔
’’سب کچھ ہضم کرو۔ پوچھو کچھ نہیں۔ کسی سے کہو کچھ نہیں۔‘‘ ماں نے یہ الفاظ اُس طرح کہے جس طرح کالو خاں نے کہے تھے۔
ان کے گھر سے کچھ دور کالو خاں گدھے کی رسی پکڑے ایک با رونق بازار میں سے گزر رہا تھا۔ آتے جاتے ہوئے لوگ حیران ہو رہے تھے کہ آج کالو خاں دُکان بند کر کے گدھے کو کہاں لے جا رہا ہے۔ اس سے پہلے انھوں نے فخرو ہی کو گدھے کو لے جاتے ہوئے اور لاتے ہوئے دیکھا تھا۔ کالو خاں بے نیازی سے چلا جا رہا تھا۔ اگر وہ قریب سے گزرتے ہوئے لوگوں پر نظر ڈالتا تو ان کے چہروں پر بکھرے ہوئے سوال کو پڑھ لیتا، مگر اُس نے اِدھر اُدھر دیکھنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔ آگے ہی آگے چلا جا رہا تھا۔ چلتے چلتے وہ ایک نئی آبادی میں پہنچ گیا۔ کچھ دور جا کر اس نے ایک دو منزلہ عمارت کے دروازے پر دستک گی۔ دروازہ کھل گیا۔ ایک ادھیڑ عمر کا شخص اس کے سامنے کھڑا تھا۔
’’آؤ کالو خاں بڑی مدت کے بعد صورت دکھائی ہے۔‘‘
’’کیا کہوں ہاشم! تم کو معلوم نہیں ہو گا۔ میں دُکان دار بن چکا ہوں۔‘‘
ہاشم نے کہا، ’’مجھے معلوم ہو گیا تھا۔ اور یہ دو معزز مہمان باہر کیوں کھڑے ہیں؟ اندر آؤ۔‘‘
’’ہاشم! ایک تکلیف دینے آیا ہوں۔‘‘
’’اندر آ کر کہو۔‘‘
’’نہیں ہاشم مجھے جلدی جانا ہے۔ سنو تم نے کہا ہے دو معزز مہمان باہر کیوں کھڑے ہیں۔‘‘
’’یار کالو خاں معاف کرنا وہ ہنسی مذاق کی بات تھی۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔ ان دو معزز مہمانوں میں سے ایک چلا جائے گا۔ دوسرے کی میزبانی تم کرو گے۔ تھوڑے دنوں کے لیے۔‘‘
’’سر آنکھوں پر، مگر یہ چلا جائے گا؟‘‘ ہاشم نے گدھے کی طرف دیکھ کر کہا۔
’’معاملہ اس کے اُلٹ ہے۔‘‘
’’کیا کہا؟ یعنی یہ۔۔ ۔۔‘‘
’’بالکل یہی۔‘‘ دونوں بے اختیار ہنس پڑے۔
’’میں کچھ سمجھ نہیں سکا کالو خاں!‘‘
’’ہاشم! میں یہی تکلیف دینے آیا ہوں۔ اس کی وجہ بتاؤں گا ضرور لیکن ابھی نہیں۔‘‘
’’مگر کالو خاں۔۔ ۔‘‘ کالو نے سمجھ لیا کہ ہاشم کیا کہنا چاہتا ہے۔ بولا، ’’یہ بڑا شریف جانور ہے۔ ذرہ برابر تکلیف نہیں دے گا گھر والوں کو۔ جہاں رکھو پڑا رہے گا۔ جلدی لے جاؤں گا۔ کوئی اعتراض ہے تم کو؟ ہاشم نے جواباً کہا:
کالو خاں! تم میرے بچپن کے دوست ہو۔ میں تمہاری کوئی بات نہ مانوں، یہ ہو ہی نہیں سکتا۔‘‘
’’تو بسم اللہ، اصل میں یہ گدھا امانت در امانت ہے ہمارے پاس۔ میرا بھتیجا جہاں سے اسے لایا تھا امانت کے طور پر لایا تھا۔ پھر اس نے اسے بیچ دیا ہے۔ اب پکڑو اسے۔‘‘
کالو خاں نے گدھے کی رسی ہاشم کے ہاتھ میں دے دی۔
’’کیا مطلب؟ اسی طرح چلے جاؤ گے؟‘‘
’’ہاں تمہارا شکریہ۔ مجھے جانے کی اجازت دو۔‘‘
’’اچھا نہیں لگتا کالو خاں، خیر، تم کہتے ہو تو ٹھیک ہے۔‘‘
کالو خاں دو قدم جا کر رُک گیا۔ ہاشم گدھے کی رسی پکڑے دروازے پر کھڑا تھا۔
’’کیا یاد آ گیا ہے، کہہ ڈالو۔‘‘
’’اس کے یہاں رہنے کا کسی کو بھی علم نہیں ہونا چاہیے۔‘‘
’’راز ہے کوئی؟‘‘
’’یہی سمجھ لو۔‘‘
کالو خاں ایک طرف چلنے لگا۔ اب وہ ایک ایسے علاقے میں پہنچ گیا تھا جہاں تیلی، لوہار، بڑھئی اور کمہار وغیرہ رہتے تھے۔ ایک جگہ کئی گدھے بندھے تھے۔ یہ ایک کمہار کا گھر تھا۔ کالو خاں ایک ایک گدھے کو بڑے غور سے دیکھنے لگا۔ ایک گدھے کے قریب اس کے قدم رُک گئے۔ ایک بچہ ذرا دور کھڑا یہ منظر بڑی دل چسپی سے دیکھ رہا تھا۔ وہ بھاگ کر چلا گیا۔ دو تین منٹ بعد ایک آدمی آ گیا اور بولا، ’’کیا بات ہے؟‘‘ اس کے لہجے سے برہمی نمایاں تھی۔
’’شاید آپ نے مجھے چور سمجھا ہے۔‘‘ کالو خاں نے ہنس کر کہا۔
’’دو مہینے ہوئے ہمارے دو گدھے چوری ہو گئے تھے۔‘‘
’’میں چور نہیں ہوں جناب۔ مگر گدھا ضرور لے جانا چاہتا ہوں، منھ مانگی قیمت دے کر۔‘‘
اب کمہار کا لہجہ بدل گیا۔ وہ بولا، ’’گدھا خریدنا چاہتے ہو؟‘‘
’’جی ہاں، جو قیمت مانگیں گے دوں گا۔‘‘
’’کیوں خریدنا چاہتے ہو؟‘‘
’’بس! مجھے ضرورت ہے۔ قیمت بتائیے۔‘‘
’’ذرا ٹھہر جاؤ۔‘‘ وہ آدمی تیزی سے اندر چلا گیا۔ کالو خاں کھڑا رہا۔ وہ آدمی واپس آ گیا۔ اور آتے ہی پوچھا، ’’کون سا چاہیے؟‘‘
’’یہ۔‘‘ کالو خاں نے اس گدھے پر ہاتھ رکھ دیا جسے وہ غور سے دیکھتا رہا تھا۔
’’کیا دے سکتے ہو؟‘‘
’’جو بھی آپ مانگیں گے۔‘‘
وہ آدمی پھر چلا گیا اور پھر واپس آ کر کہنے لگا، ’’یہ میرے خالو کا ہے۔ سات سو سے کم۔۔ ۔‘‘
’’ٹھیک ہے، مجھے یہ قیمت منظور ہے۔‘‘
کالو خاں نے جیب میں ہاتھ ڈال کر نوٹوں کا ایک بنڈل نکالا۔ نوٹ گنے اور بولا:
’’یہ لیجیے۔ دیکھ لیں۔‘‘
کُمہار نے نوٹ گنے۔ سر کے اشارے سے اپنے اطمینان کا اظہار کیا۔ اور کالو خاں گدھے کی رسی پکڑ کر چل پڑا۔
٭٭٭
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...