فخرو کے گھر میں گدھا کیا آیا ماں اور بیٹے کے لئے ایک مسئلہ بن گیا۔ دونوں کی رائے یہ تھی کہ یہ گدھا دے کر ان بزرگ نے ان کے ساتھ زیادتی کی ہے۔ گھر کا خرچ مشکل سے پورا ہوتا ہے اب اس کے چارے کا انتظام کیسے کریں گے اور اس کی رکھوالی کیسے ہو گی۔ ماں کو خدشہ تھا کہ محلے کے بچے اسے چھوڑیں گے نہیں، جب بھی موقع ملا اسے لے جائیں گے اور پھر یہ کبھی واپس نہیں آئے گا۔
’’چلو اچھا ہوا۔ یہ ہمارے کس کام کا ہے۔‘‘ ماں نے اپنا فیصلہ سنا دیا۔
اور فخرو کا فیصلہ تھا، ’’ماں اسے بیچ دیں تو بہتر ہے۔ کچھ نہ کچھ مل ہی جائے گا۔‘‘
ماں کو یہ بات سوجھی ہی نہیں تھی۔ سن کر خوش ہو گئی۔
یہ خیالات تو ماں اور فخرو کے تھے۔ چچا کو جب ان کے ان خیالات کا علم ہوا تو وہ کہنے لگا، ’’میری رائے یہ نہیں ہے۔ وہ صاحب جنہوں نے اتنی محبّت سے یہ گدھا بطور تحفہ دیا ہے ضرور کوئی خوبی ہے اس میں، ورنہ انھیں خاص طور پر اپنے دوست کرم الٰہی سے اس کا ذکر کرنے کی کیا ضرورت تھی؟‘‘
ماں بھری بیٹھی تھی، ’’مگر ہم اس کا کریں کیا؟ چارا کہاں سے لائیں گے؟‘‘
چچا بولا، ’’چارے کی کوئی فکر نہ کریں آپا! یہ ذمہ داری مجھ پر چھوڑ دیں۔‘‘
’’یہ تو ہوا، لیکن اس سے ہمیں کیا فائدہ ہو گا؟‘‘ ماں نے پوچھا۔
’’فائدہ؟ فائدہ ضرور ہو گا۔‘‘
’’کیا چچا؟‘‘ یہ سوال فخرو نے کیا۔
’’سنو فخرو! تمہیں کچھ کام کرنا پڑے گا۔ صبح سویرے گدھے کو لے کر سبزی منڈی جانا پڑے گا۔ منڈی میں سبزیوں کو اپنی دکانوں تک پہچانے کے لئے دکانداروں کو تانگوں اور ریڑھیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہوتی ہے یا نہیں؟‘‘
’’ہوتی ہے چچا۔‘‘
ماں بیٹے کی بلائیں لے کر بولی، ’’تم کیوں جاتے۔ میرا لال کسی کا محتاج نہیں ہے۔ اللہ نے چاہا تو اب ہر روز منڈی جایا کرے گا۔‘‘
’’ایسا ہی ہو گا۔ جاؤ بیٹا! اللہ تمہارا نگہبان ہو۔ خیر خیریت سے جاؤ اور خیر خیریت سے آؤ۔‘‘
’’اور جیبیں بھر کر آؤ۔‘‘ چچا نے ہنس کر کہا۔
’’ضرور ضرور۔‘‘ ماں خوش ہو کر بولی۔
ماں اور چچا دونوں خوش تھے اور ادھر فخرو کو ایک قدم اٹھانا بھی دوبھر تھا۔
ماں نے بیٹے کی پیشانی چومی اور چچا کچھ دور اس کے ساتھ گیا۔
فخرو پہنچنے کو تو منڈی میں پہنچ گیا، مگر اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کرے تو کیا کرے۔
سبزی فروش دھڑا دھڑ سبزیاں خرید رہے تھے اور تانگوں اور ریڑھیوں پر لاد کر لے جا رہے تھے۔ ہر طرف شور برپا تھا۔ کان پر پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔
فخرو گدھے کی رسی پکڑ ایک طرف کھڑا تھا۔ تین بار دھکّے کھا کر لڑکھڑا چکا تھا اور ہر بار لڑکھڑا کر چچا کو بد دعائیں دے چکا تھا۔ چوتھی بار دھکّا لگا تو وہ اس طرح ڈگمگایا کہ گدھے پر گر پڑا۔
’’اندھے ہو۔ راستے پر کھڑے ہو۔‘‘ ایک شخص نے اسے غصّے سے کہا۔
’’جی۔۔ ۔۔ وہ۔۔ ۔۔‘‘
’’کیا بات ہے؟‘‘ اس شخص نے پوچھا۔
فخرو نے ٹوٹے پھوٹے لفظوں میں وہ مقصد بتا دیا جس کے لیے وہ گدھے کے ساتھ گھر سے نکلا تھا۔
’’تو تم گھر سے مزدوری کرنے نکلے ہو۔ کیا نام ہے تمہارا؟‘‘
’’فخرو۔‘‘
’’فخرو کیا نام ہوا؟‘‘
’’میرا نام فخر دین ہے۔‘‘
’’بس یہ بات ہے جس کے لیے دھکّے کھا رہے ہو۔‘‘
’’جی۔‘‘
’’میاں! یہ تو کوئی بات ہی نہیں۔ شہر میں میری بڑی دکان ہے۔ منوں کے حساب سے سبزیاں لے جاتا ہوں۔ وہ چھکڑے دیکھ رہے ہو۔ ان کے پیچھے میرا اڈا ہے۔ روز آؤ۔ خوب کماؤ۔ آؤ میرے ساتھ۔‘‘
وہ آدمی فخرو کو اپنے ساتھ ایک بیوپاری کے پاس لے گیا۔
’’سراج! اس کے گدھے پر سبزیاں لاد دو۔‘‘
سراج اور دو تین آدمیوں نے مختلف قسم کی سبزیوں سے بھری ہوئی تین بوریاں گدھے پر لاد دیں۔
’’بس یہ زیادہ بوجھ نہیں اٹھا سکتا۔‘‘ اس شخص نے سراج اور اس کے آدمیوں کو گدھے پر نئی بوری رکھنے سے منع کر دیا۔
’’میاں فخرو! یوں کرو یہاں کھڑے رہو۔ میرے چھکڑے سبزیاں لے کر آ جاتے ہیں۔ پھر شہر چلیں گے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ چلا گیا۔
فخرو گدھے کے ساتھ کھڑا ہو گیا۔ آدھ گھنٹہ گزرا ہو گا کہ وہ شخص آ گیا۔
’’چلو میاں! میرے چھکڑے چل پڑے ہیں۔‘‘
منڈی سے باہر آ کر وہ شخص ایک چھکڑے میں بیٹھ گیا۔ چھکڑے روانہ ہوئے تو فخرو بھی چلنے لگا اور اس کے ساتھ اس کا گدھا بھی۔ منڈی شہر سے دور نہیں تھی۔ بیس پچیس منٹ کے بعد چھکڑے ایک بڑی دکان کے سامنے رک گئے۔ فخرو بھی ٹھہر گیا۔ دکان سے دو آدمی نکلے اور چھکڑوں کی بوریاں دکان کے اندر لے جانے لگے۔ جب وہ خالی ہو گئے تو گدھے کا سامان بھی اتار لیا گیا۔
اس شخص نے جیب میں ہاتھ ڈال کر پانچ کا نوٹ نکالا۔ ’’لو میاں! خوش ہو جاؤ۔‘‘
پانچ کا نوٹ دیکھ کر فخرو کا خوشی اور حیرت سے عجب حال ہو گیا۔
’’خوش ہو نا!‘‘
’’جی بڑا خوش ہوں۔‘‘
’’یہ میری دکان ہے۔ میرا اڈا تم نے دیکھ ہی لیا ہے۔ میرا نام ساری منڈی میں مشہور ہے۔ کبھی بھول جاؤ تو کسی سے بھی پوچھ لینا کہ رمضان خاں سبزی والے کے اڈے پر مجھے جانا ہے۔‘‘
گھر جا کر فخرو نے پانچ کا نوٹ اپنی ماں کو دیا تو وہ نہال ہو گئی۔ اس نے اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا کہ اس کے بیٹے نے زندگی میں پہلی بار کمائی کی ہے۔ چچا دکان بند کر کے آیا تو وہ بھی بہت خوش ہوا۔
پہلے پہل فخرو کو صبح سویرے منڈی جانا ایک مصیبت لگتا تھا، مگر ہر روز پانچ روپے ملنے لگے تو اسے اپنے اس کام سے کچھ دلچسپی ہو گئی۔
ایک رات بہت بارش ہوئی۔ منڈی میں اتنی کیچڑ ہو گئی کہ دو قدم چلنا بھی محال ہو گیا۔ فخرو بڑی مشکل سے رمضان خاں کے اڈے پر پہنچ سکا۔
رمضان خاں پراٹھے، چٹنی، اچار اور شامی کباب اپنے آگے رکھے ناشتہ کر رہا تھا۔
’’آ گئے میاں!‘‘
’’جی۔‘‘
’’آؤ پہلے ناشتہ کرو۔‘‘
فخرو رات کی روٹی اور سالن یا دہی کا ناشتہ کرتا تھا۔ یہ نعمتیں دیکھ کر اس کے منہ میں پانی بھر آیا۔ رمضان خان نے اسے شریک ہونے کے لئے کہا تو اس کا دل للچا رہا تھا تاہم اس نے کہا، ’’شکریہ جی۔‘‘
’’آؤ میاں! آؤ مزے سے کھاؤ۔‘‘
فخرو اس کے ساتھ کھانے میں شریک ہو گیا۔
ناشتے کے بعد رمضان خاں نے چھکڑے پر بوریاں لدوائیں اور انہیں اپنی دکان کی طرف بھجوا دیا۔ فخرو حیران تھا کہ وہ اس کے گدھے کی طرف توجہ کیوں نہیں کر رہا۔
اب آسمان پر سورج پوری طرح چمکنے لگا تھا۔ فخرو دری کے اوپر بیٹھا تھا۔ اس کا گدھا پاس کھڑا تھا اور رمضان خاں مزے سے حقے کے کش لگا رہا تھا۔
’’آج کیا معاملہ ہے۔ رمضان خاں میرے گدھے پر سبزیاں نہیں لدوا رہا۔‘‘
فخرو کو اور تو کچھ نہ سوجھا اٹھ کر اپنے گدھے کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرنے لگا۔
رمضان خان نے اسے کن اکھیوں سے دیکھا اور حقہ پیتا رہا۔
فخرو مایوس ہو گیا اور دری پر بیٹھنے ہی والا تھا کہ رمضان خان نے اسے ہاتھ کے اشارے سے اپنی طرف بلایا۔ فخرو اس کے پاس چلا گیا۔
’’بیٹھ جاؤ۔‘‘
فخرو اس کے پہلو میں بیٹھ گیا۔
رمضان خاں نے منہ سے کچھ نہ کہا اور جیب میں ہاتھ ڈال کر نوٹوں کی ایک گڈی نکالی اور اس کی جھولی میں ڈال دی۔
’’یا اللہ! یہ کیا؟‘‘
’’میاں!‘‘
’’جی۔‘‘
’’نوٹ جیب میں ڈالو اور جلدی جلدی گھر چلے جاؤ۔ تمہاری ماں تمہاری منتظر ہو گی۔‘‘
’’یہ نوٹ کیسے؟ آج تو میں نے کام بھی نہیں کیا۔‘‘
’’تو۔۔ ۔۔‘‘
’’میاں! یہ مزدوری کب تک کرو گے۔ عزت کا کام نہیں ہے۔ دو سو روپے میں دکان میں ڈھیر سارا سودا ڈالو اور مزے کرو۔‘‘
فخرو کچھ کہنا چاہ رہا تھا مگر کہہ نہ سکا۔ اٹھا اور گدھے کی رسی تھامی۔
’’اسے چھوڑ دو۔ یہ میں نے خرید لیا ہے۔ دو سو روپے میں۔‘‘
فخرو تنہا گھر پہنچا۔ ماں دروازے پر کھڑی تھی۔ روز فخرو دو ڈھائی گھنٹے کے بعد گھر آ جاتا تھا، مگر اس روز اسے گھر سے گئے ہوئے چھ گھنٹے گزر گئے تھے۔ فخرو آتا ہوا دکھائی دیا تو ماں تیزی سے اس کی طرف گئی۔
’’ہائے میں مر جاؤں۔ اتنی دیر لگا دی۔‘‘
فخرو نے کچھ کہنے کے بجائے نوٹوں کی گڈی ماں کے ہاتھ میں دے دی۔
’’اتنے نوٹ! آج تو میرے لال نے بہت کمائی کی ہے۔‘‘
ماں نے اسے بے اختیار گلے سے لگا لیا اور بار بار اس کا ماتھا چوما۔
’’وہ کہاں ہے؟‘‘
’’وہ رمضان خاں نے خرید لیا ہے۔ یہ روپے اسی کی قیمت تو ہیں۔‘‘
’’او تیرا بیڑا غرق۔ تیرا ستیا ناس کمائی والا گدھا بیچ دیا۔‘‘
’’اماں! میں نے نہیں بیچا۔ اس نے خرید لیا ہے۔‘‘
یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ چچا دوپہر کا کھانا کھانے کے لیے آ گیا۔
’’تمھارے لاڈلے نے گدھا بیچ دیا ہے۔‘‘
’’کہاں بیچ دیا۔ گدھا تو باہر کھڑا ہے۔‘‘
’’ہیں۔‘‘ ماں اور بیٹے دونوں کے منہ سے نکلا۔
تینوں بھاگے باہر۔ گدھا واقعی دروازے کے باہر کھڑا تھا۔
’’یہ آ کس طرح گیا؟‘‘ ماں نے سوال کیا۔
چچا ہنس کر بولا، ’’یہ آ اس طرح گیا کہ اللہ نے اسے چار ٹانگیں دی ہیں۔ یہ ٹانگیں اسے یہاں لے آئیں۔‘‘
فخرو پیار سے اس کی پیٹھ پہ ہاتھ پھرنے لگا۔
’’فخرو، بیچتے ہوئے اس کا خیال نہیں کیا۔ اب اسے پیار کر رہے ہو۔‘‘
ماں کے یہ لفظ سن کر فخرو نے شرم سے سر جھکا لیا۔
محلے کے لڑکے آ پہنچے تھے اور بڑی دلچسپی سے گدھے کو دیکھ رہے تھے۔
’’خالہ جان! ہم اسے ذرا سیر نہ کرائیں۔ اداس لگتا ہے۔‘‘ ایک لڑکا بولا۔
’’نہ نہ۔ بھاگو یہاں سے۔‘‘ خالہ بولی۔
’’لے جاؤ بیٹا!‘‘ چچا نے کہا، ’’کوئی حرج نہیں آپا! محلے کے بچے ہیں، خوش ہو جائیں گے۔‘‘
یہ سننا تھا کہ دو لڑکوں نے گدھے کی رسی پکڑی۔ ماں چیختی رہی۔ لڑکے گدھے کو لے گئے۔
دو گھنٹے گزر گئے۔ لڑکے گدھے کو لے کر واپس نہ آئے۔ ماں گھبرانے لگی۔ ایک گھنٹہ اور بیت گیا۔ ماں چچا سے جھگڑنے لگی ’’اور کراؤ سیر۔ روکا تھا میں نے۔ نہ جانے کہاں لے گئے ہیں بیچارے کو۔‘‘
وقت گزرتا جا رہا تھا اور ماں کے ساتھ فخرو اور چچا کی پریشانی بھی بڑھتی جا رہی تھی۔ شام کے بعد ماں فخرو کو ساتھ لے کر اس لڑکے کے گھر میں گئی جس نے کہا تھا، ’’خالہ اسے سیر نہ کرائیں۔‘‘
’’اکبر! کہاں ہے ہمارا جانور؟‘‘ ماں نے لڑکے سے پوچھا جو چارپائی پہ بیٹھا سلیٹ پر حساب کا کوئی سوال حل کر رہا تھا۔ ماں کا فقرہ سن کر اس نے اپنی ماں کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
’’بہن! اس کا جواب مجھ سے سنو۔ خیر سے تمہارے لاڈلے نے گدھے کے پیسے وصول کر لئے تھے۔ اب تمہارا گدھے سے کیا واسطہ؟‘‘
’’تو۔۔ ۔۔؟‘‘
ماں کہنا چاہتی تھی۔ گدھا تو تمہارا بیٹا ہمارے گھر سے لے کر گیا تھا، مگر بات کہہ نہ سکی۔ اکبر کی ماں فوراً بول اٹھی، ’’وہی لے گیا ہے۔‘‘
’’کون؟‘‘
’’جس نے اسے خریدا ہے۔‘‘
’’اکبر کون ہوتا تھا اسے گدھا دینے والا؟‘‘ ماں کو غصّہ آ گیا۔
اکبر کی ماں نے اسے غور کر دیکھا اور بولی، ’’اکبر بیچارا کیا کرتا۔ اس نے کہا، میں نے پورے دو سو رپے میں اسے خریدا ہے۔ یہ میرا ہے۔ منڈی سے بھاگ آیا ہے۔‘‘
دونوں ماؤں کے درمیان لڑائی شروع ہو گئی۔ اکبر کا باپ بھی آ گیا۔ وہ بھی بیوی کا ساتھ دینے لگا۔
محلے کے دو بزرگوں نے مداخلت کی۔ فخرو کی ماں کو سمجھایا، ’’گدھا جب بیچا جا چکا ہے تو یہ تمہارا نہیں رہا۔ اس کا ہو گیا جس نے اسے خریدا ہے۔‘‘
’’یہ تو ہمارے گھر سے لے کر گیا تھا۔‘‘ فخرو کی ماں نے اپنی طرف سے بڑی زبردست دلیل دی۔
بزرگ نے کہا، ’’یہ ٹھیک ہے اکبر گدھا تمہارے گھر سے لے گیا تھا، مگر یہ چیز اس کی تھی۔ وہ اس کا مالک ہے۔ کیوں فخرو! تم نے گدھا بیچا نہیں تھا؟‘‘
فخرو کیا کہہ سکتا تھا۔ خاموش رہا۔
’’بولتے کیوں نہیں جواب دو۔‘‘ بزرگ نے کہا۔
فخرو نے ہاں میں سر ہلایا۔
’’معاملہ صاف ہے۔ فخرو نے گدھا بیچا ہے۔‘‘
’’اور دو سو روپے وصول کے ہیں۔‘‘ اکبر کی ماں بولی۔
’’تم خاموش رہو اکبر کی ماں، ہمیں فیصلہ کرنے دو۔ تو میں کہہ رہا تھا فخرو نے گدھا بیچا۔ جس نے خریدا وہ اس کا مالک ہو گیا۔ گدھا بھاگ آیا، مگر اس سے خریدنے والے کی ملکیت تو ختم نہیں ہوئی۔‘‘
ماں وہی بات کہے جا رہی تھی، ’’اکبر گدھا ہمارے گھر سے لے گیا تھا۔ اس کا اور اس کے ساتھیوں کا فرض تھا کہ اسے واپس کرتے۔ گدھا لا کر دو ورنہ۔۔۔۔‘‘
اکبر کی ماں لال پیلی ہو گئی۔ کہنے لگی، ’’تمھاری سمجھ پر تو پتھر پڑ گئے ہیں۔‘‘
قریب تھا کہ لڑائی تیز ہو جاتی۔ چچا آ گیا اور وہ منّت سماجت کر کے فخرو کی ماں کو گھر لے جانے لگا۔ فخرو بھی ماں کے ساتھ ساتھ جانے لگا۔
٭٭٭
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...