ڈاکٹر محمد علی صدیقی(کراچی)
صبا اکبر آبادی ہمارے عہد کے ایک ایسے ہمہ جہت، خوش گو اور خوش سیرت شاعر تھے جنہوں نے ایک طرف اردو مرثیہ کو فکری اعتبار سے اپنے عہد کے ساتھ وابستہ کیا، دوسری جانب اردو کے دامن میں خیام،خسرو ، حافظ اور غالب کی فارسی رباعیات کا سارا ذخیرہ انڈیل دیا اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے یہ بھی ثابت کیا کہ غزل گوئی ایسا پیراہن تو نہیں ہے جو ہر غزلگو کے جسم پر سجے اور موزوں لگے۔صبا صاحب کی غزل گوئی میری رائے میں کلاسیکی غزل کی تمامتر شیرینی اور لطافت کے ساتھ ہمعصری دور کی تلخ حقیقتوں کی صورت گری سے مشابہہ ہے۔صبا صاحب غالباَ اپنی نسل کے واحد شاعر ہیں جنہوں نے غزل گوئی کے ذریعے غزل پر ممکنہ اعتراضات کا کامیابی کے ساتھ بطلان کیا ہے اور زشت و خوب کی وہ حدِفاصل واضح سے واضح تر کر دی جس کے عدم ادراک سے غزل کے بارے میں بہت سے غزل کے مخالف نقادوں نے غیر ضروری اور سراسر چونکا دینے اور یورپی تنقید کے کافی گھسے پٹے بلکہ پامال جملوں کی جگالی کی تھی۔
مجھے صبا اکبرآبادی کی غزل کے جس رخ نے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ یہ ہے کہ ان کی غزل ایک صاحبِ اسلوب
شاعر کی غزل ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مخصوص شعری مزاج کی حامل چھلنی سے چھن کر شعری احساس کو قابلِ اعتبارجذبہ اور ہر قابلِ اعتبار جذبے کو ہمارے سماج کی خلقی اور صحت مند روایات کے ساتھ یک سوئی سے ہم آہنگ کر کے اظہارپاتی ہے۔
ہمارے ہاں کے متعد د شاعر موزوں کلام اور بسا اوقات اچھا کلام پیش کرنے کا ملکہ رکھتے ہیں لیکن اس کے باوجود
ان کے اشعار میں شعری مزاج کی یکسانیت نظر نہیں آتی ہے۔درست ہے کہ ہر احساس اور ہر جذبے کا نفسِ مضمون جدا ہوتا ہے،شاعر کے لئے یکسو رہنا مشکل ہوتا ہے،وہ زندگی کے مسائل پر غور کرتا رہتا ہے، کبھی خوشی ، کبھی ملال،کبھی اضطراب اور کبھی طمانیتِ قلب، کبھی اپنے محبوب سے واصل ہونے کی تڑپ میں دامنِ احتیاط خیرباد کہتا ہوا دکھائی دیتا ہے اور کبھی باہمہ اور کبھی بے ہمہ۔غرضیکہ اُسے متنوع احساسات سے واسطہ پڑتا ہے اور
وہ ان احساسات کو شعری پیکر میں ڈھالتا رہتا ہے،لیکن شعری مزاج ہی وہ انفرادیت ہے جو اس کے اشعار کے لئے مزاج پیما کا کردار ادا کرتا ہے۔جن شاعروں کے یہاں یہ وصف نہیں ملتا وہ مزاجاََ’’ہرجائی‘‘ ہو جاتے ہیں اور
اگر ایسا ہو تو پھریہ کہنا بجا ہوتا ہے کہ “A Roling Stone Gathers no Mass“(یعنی ایک لڑھکتا ہوپتھر)اُس وصف سے عاری ہوتا ہے جسے بھاری بھرکم وجود کہہ سکیں۔
شعری مزاج کی بحث فی زمانہ پسِ پشت جاتی ہوئی معلوم ہوتی ہے اور ٹھیک ہے کہ جب بعض قارئین نقاد متن
(Text) کی تکثیریت(Plurality) اور اضافیت(Relativity) کے قائل ہونے پر مائل ہوں تو پھر شعری مزاج کی اہمیت بھی لا محالہ متاثر ہوگی،حالانکہ متن کی اضافیت کے نظریہ کی پشت پناہی میں صحیح مفاہیم تک رسائی کے عمل میں بھی شاعر کے منفردمزاج کوایک اہم جگہ مل جانی چاہئے۔ایک مشہور فرانسیسی نقاد کا قول ہے “فن شعری مزاج کے آئینہ کے ذریعہ مطالعہ کی جانے والی زندگی کا نام ہے۔” Art is life seen through a temperament اِ س قول نے دو پہلوؤں پر زور دیا ہے کہ فن بذاتِ خود زندگی کی ترجمانی نہیں بلکہ زندگی کی تخلیق ہے۔ شاعر اپنے مخصوص احساس کے تعارف کے ساتھ ساتھ اپنے مزاج یعنی اپنی منفرد شخصیت کا تعارف کراتا ہے۔یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ ایک منظر سو فوٹو گرافروں کےs Lenseکے ذریعہایک نہیں رہتا، سو منظروں میں تبدیل ہوجاتا ہے۔
ہر فوٹو گرافر کا زاویہء نظر، روشنی اور سائے سے نمٹنے کا نظام اور کسی منظر کی جزئیات میں زیادہ اہم اور غیر اہم جزئیات کے ادراک کا انداز جدا ہوتا ہے۔ارسطو نے ٹھیک ہی کہا تھا کہ آرٹ فطرت کی نقل نہیں بلکہ اس پر اضافہ یا اسے زیادہ خوبصورت بنانے کا عمل ہے،شاید یہ تعریف شاعری پر بھی اسی طرح صادق آتی ہے۔
اگر کسی مضمون نے متعدد شعرا کے یہاں اظہار پایا ہے تو اہم بات یہ ہو گی کہ یہ کس خاصیت کے شعری مزاجوں کی چھلنی سے گزر کر ہم تک آئے ہیں۔اگر ادب میتھیو آرنلڈ کے خیال میں زندگی کی تنقید ہے تو پھر ہر شاعر زندگی کو اپنے انداز میں دیکھنے پر مکلف ہے اور یہی Conditioningلائقِ مطالعہ ہے۔ایسے پیمانے پر شاعر اور شاعری پر گفتگو زیادہ مناسب رہتی ہے اور وہ یوں کہ شاعری کے بارے میں نقاد کے خیالات اُسی وقت زیادہ پایہ اعتبار کو پہنچ پائیں گے جب وہ شاعر کے مطمح نظر یا زندگی کے بارے میں اُس کے تنقیدی شعور کو بھی قرار واقعی اہمیت دے۔جب شاعر کا یہ دعویٰ تسلیم کرلیا جائے کہ وہ زندگی کا ناقد ہے تو پھر نقاد کی تنقید شاعرکے تنقیدی زاویہء حیات سے متصادم نہ ہونی چاہئے تا وقتیکہ شاعر اپنے نمائندہ مزاج اورفکر کی حدود سے باہر نہ چلا گیا ہو۔یہ صورتِ حال نہ صرف ممکن ہے بلکہ بعض اوقات شاعر اپنے شعری مزاج سے رو گردانی کرتا ہے اور ہم اسے آنکھ مچولی کا کھیل Escapadesکہہ سکتے ہیں۔
صبا اکبرآبادی کی شاعری “ذاتی تجربات” پر زور دیتی ہے۔ آپ کہیں گے کہ بیشتر شعرا کے ساتھ یہی معاملہ ہے لیکن اِ س صورتِ حال کو شعری مزاج کی یکسوئی کے آئینہ میں دیکھا جائے تو اکثر وبیشتر دعویٰ کے ساتھ دلیل کا تال میل دکھائی نہیں دیتا۔جب تک قارئین شاعر کے ذاتی تجربات کو محسوس کرنے کے لئے ضروری قوتِ ادراک سے آراستہ نہ ہوں اس وقت تک شاعری سے لطف اندوزی تو ایک طرف رہی ،دیگر شعرا کے تجربات کے ساتھ تقابلی مطالعہ کی منزل بھی نہیں اور یوں ہماری بیشتر تنقیدی نگارشات چار و ناچار ظنّیات یا رائے زنی کے ذیل میں آجاتی ہیں اور اِس درجہ موضوعی(Subjective)ہو جاتی ہے کہ حیرت ہوتی ہے کہ جن نقادوں نے مسلّمہ طور پر بڑے شعرا کو اپنے تنقیدی پیمانوں پر انحصار کرتے ہوئے قرار واقعی اہمیت نہیں دی تھی،وہ ایک کم اہم شاعر کے بارے میں اِس درجہ رطب اللسان کیوں نظر آتے ہیں کہ ان کی تنقیدی معروضیت معرض بحث میں آجائے۔تنقیدی نگارشات اس لئے اضطراری فیصلوں کے خانے میں نہیں آنا چاہئے۔
صبا اکبرآبادی کی شاعری کے مطالعہ کے لئے ۔اور ہر شاعر کے کلام کے مطالعہ کے لئے۔ سب سے پہلی شرط اس شاعری سے قریبی تعلق کی ضرورت ہے۔ جب تک زیرِ مطالعہ شاعر کو قارئین اپنے مزاج کی مختلف کیفیات میں نہیں پڑھیں گے اس وقت تک مفاہیم کی نازک تہیں اور رنگ نارسیدہ رہیں گے جن کی تخلیق کیلئے فن کی بساط پر ندرتِ خیال کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔
میں نے صبا اکبرآبادی کے بیشتر کلام کا مطالعہ کیا ہے۔ مگر یہ مختصر مضمون لکھتے وقت میں نے اُن کی غزل کا صرف ایک مجموعہ’’چراغِ بہار‘‘ پیشِ نظر رکھا ہے، اور میں اسی مجموعے کے حوالے سے اپنی معروضات پیش کروں گا۔
سب سے پہلے میں صبا صاحب کی شعری زبان کے بارے میں یہ عرض کرتا ہوں کہ صبا اکبرآبادی کے یہاں زبان اور بیان کی سادگی اور پُرکاریکاہنر لائقِ تقلید ہے۔ میں نے شعوری طور پر دقّت پسند شاعروں کا کلام بھی دیکھا ہے
اورشعوری طور پر آسان اور غیر مبہم زبان لکھنے والوں کا بھی، لیکن ان حضرات کا شعوری اندازِنظر ان کے مزاج سے متصادم تھا،میر فارسی زدگی کا شکار ہو سکتے تھے اور طرزِ بیدل میں ریختہ کہتے تو کوئی قیامت نہ آجاتی۔ ان کا تذکرہٗ شعرا بھی فارسی میں ہے اور خطوط بھی،لیکن ان کی شاعری سے پتہ نہیں چلتا کہ ان کا شعری مزاج فارسی زبان کے خمیر سے یک جان تھا۔یہی حال نظیر اکبرآبادی کا ہے وہ فارسی زبان پر مکمل عبور رکھنے کے بعد بھی اردو؍ہندی زبان کے رسیا تھے۔ غالب کا مزاج ہی فارسی اور وہ بھی قبل از اسلامی دور کی فارسی سے متشکل ہوا تھا اور کوئی تعجب نہ ہوتا کہ وہ اردو کی جانب اپنی زندگی کے آخری دور میں متوجہ ہوئے اور وہ بھی شاید اس وجہ سے کہ حکومتی اداروں میں 35 18سے اردو زبان کا عمل دخل بڑھنے لگا تھا۔غالب کی شاعری کے اولین دور کی شاعری، کہ مسلم ضیائی کے مرتبہ غالب کے ’’منسوخ دیوان‘‘ میں موجود ہے۔گواہ ہے کہ طرزِ بیدل میں ریختہ کہنا اوروں کے لئے مشکل ہو توہو غالب کے کیلئے مشکل نہ تھا۔
صبا صاحب کے اسلاف غالب کے ننھیالی عزیز تھے اور ۱۳سال کی عمر میں غالب کی سادہ اور سلیس اردو شاعری اِس امر کا ثبوت ہے کہ وسطی ایشیائی خاندان پر فخر و مباہات کا خوگر غالب اردو؍ہندی کو مادری زبان کہہ سکنے کے قابل صبا اکبرآبادی کے خاندان کے ساتھ ہم رشتہ ہونے کی وجہ سے ہی ہوئے صبا اکبرآبادی کی زبان شرفائے آگرہ کی زبان تھی جو دہلی کے شاہجہاں آباد ہونے سے پہلے ہندوستان کا پایہ تخت تھا۔میر اور غالب کے خاندان ہی پر کیا موقوف دہلی کے بیشتر اکابر نے آگرہ ہی سے مراجعت کی ہے۔
صبا اکبرآبادی کی زبان قابل رشک حد تک میر تقی میر کی زبان سے میل کھاتی ہے،البتہ ناسخ ۔۔ میر کی شعری صحت کے حسن الفاظ کو غیر فصیح یا ضرورت سے زیادہ عوامی لہجہ کا نمائندہ تھے،وہ مرورِ ایّام سے صبا اکبرآبادی کے یہاں
خود بخود نکھر گئے ہیں اور اِس طرح صبا کی زبان صحیح معنوں میں عصری دَور کے معیارِ قبولیت پر پورا اترتی ہے لیکن اِس زبان کی سج دھج وہی ہے جو عہدِ موجود کی زبان سے ذرا سی مختلف لیکن ممتاز ہے۔مثال کے لئے یہاں ایک غزل اور چند دوسری غزلوں کے اشعاردیکھئے۔
بات کو تول رہا ہو جیسے عشق لب کھول رہا ہو جیسے
بارہا قید میں گزرا یہ گماں کوئی در کھول رہا ہو جیسے
ہمہ تن گوش ہوا جاتا ہے دل حُسن سچ بول رہا ہو جیسے
اُن سے دوری میں ہوئیں یوں باتیں دل سے دل بول رہا ہو جیسی
اُس کے آتے ہی یہ محسوس ہوا وقت پَر تول رہا ہو جیسی
دلِ بے قدر مجھے یوں ہے عزیز کبھی انمول رہا ہو جیسی
شاخ پر کھلتا ہے غنچہ ایسے زخم لب کھول رہا ہو جیسی
تیرے اشعار میں پایا ہے صبا لفظ خود بول رہا ہو جیسے
ظلمت و نور نے بتایا ہے رات اپنی ہے دن پرایا ہے
میں اُسے دیکھ بھی نہیں سکتا کوئی اِتنا قریب آیا ہے
پسِ دیوارِ یار بیٹھا ہوں کیا خبر دھوپ ہے کہ سایا ہے
جس طرف جاؤں وہی قیدِ عناصر سامنے مجھ کو اُس زنداں میں رکھا جس کا دروازہ نہ تھا
تمہاری انجمن آرائیوں میں میری تنہائیوں کی داستاں ہے
ہے تری یاد خود فراموشی کس کو سوچیں ترے خیال کے بعد
ہر نفس پر ہے احتمالِ اجل یوں جو گزرے یہ زندگی تو کیا
صبا اکبرآبادی اپنے زمانے کی آویزشوں اور اتھل پتھل سے واقف تھے اس لئے کڑھتے ہیں، اپنے اسلاف اور اپنے اخلاف کے دور میں کافی فرق پاتے ہیں اور اِسے نئے دور کی ’’ترقی‘‘ کے بجائے پستی سے تعبیر کرتے ہیں اور پھر ایک ثقافت کی پسپائی پر اِس نوع کا ردِ عمل پیدا ہوتا ہے۔
دل میں کب تک رہے امید کا ویران محل اب تو یہ کُہنہ عمارت بھی گرادی جائے
میری غرقابی کی تاریخ ہے ساحل پہ رقم اب تو یہ ریت کی تحریر مٹا دی جائی
تیرگی کو کہاں تلاش کروں ہر اندھیرا چراغ میں گم ہے
دل ٹوٹ کے اب شہر کی صورت ہی نئی ہے آئینہ نظر آتے ہیں دیوار بھی در بھی
صبا اکبرآبادی کی شاعری میں موجودہ دور میں پائی جانے والی ناامیدی کی تمثالیں(Images)افقِ ذہن پر ابھرتی رہتی ہیں اور ہم یہ سوچنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ صبا اکبرآبادی نے اپنے فن سے زندگی کی تنقید کا کام بھی لیا ہے، اور وہ اس گو مگو کی کیفیت کو بہت منفرد انداز میں شاعری کا پیرہن دیتے ہیں۔شاعری مسائل کا حل نہ ہوتے ہوئے بھی خود ایک سوال ہے،سوچنے اور سمجھنے کے نئے زاوئیے فراہم کرتی ہے۔ صبا اکبرآبادی کی شاعری عصری حسیت کا فرض بہت عمدگی کے ساتھ ادا کرتی ہے اور نا امیدی کی فضا میں بھی امید کا دیا جلاتی ہے۔یہاں یہ بھی دیکھنے کی بات ہے کہ رواں دواں،سادہ زبان استعمال کرنے والے صبا کے یہاں فکری انجماد بھی نہیں ہے، اس لئے کہ تازہ ہوا کے لئے ان کے ذہن کے دریچے کھلے رہتے ہیں ۔
کم سرِ دامنِ قاتل نہیں ہونے پاتے خون کے داغ ہیں زائل نہیں ہونے پاتی
شہرِ افکار میں چلتی ہی رہی تازہ ہوا ذہن پابندِ سلاسل نہیں ہونے پاتے
میری آشفتہ سری قید سے مایوس نہ ہو سر سلامت ہے تو دیوار میں در بھی ہوگا
نا خدا کی فکر کیا ، طوفاں سے کرلو دوستی خود بخود لگ جائے گی کشتی کنارے دوستو
کہاں یہ عالم تھا کہ آئینہ دیوار و در تھا اور ایک عالم یہ ہے کہ سر سلامت ہے تو دیوار میں در بھی ہوگا۔ یعنی امکانات کا در سعیء پیہم کی ضربات کا محتاج ہے اور یہی زندگی کی تنقید کا وہ فریضہ ہے جو صبا اکبرآبادی کی شاعری میں تغزل کے ساتھ ساتھ اِس دور کے ’’ کوہ کن‘‘ سے سنگلاخ زمین سے جوئے آب نکالنے کی دعوت دے رہا ہے۔یہ ان کی منزل کا آخری سرا نہیں ہے۔اگر شاعر کا کام شہرِ تمنا کی تزئین ہے تو پھر یہ لا متناہی کاوش بھی چاہتا ہے۔
کیا نقوشِ قدم تھے راہوں میں شوق آمادہء سفر ہی رہا
آپ نے دیکھا کہ صبا اکبر آبادی نے ’’انقلاب‘‘ کو مبدل ’’بہ شوق ‘‘ کس خوبصورتی سے کیا ہے۔یہی وہ خوبی ہے جو صبا اکبرآبادی کو ہمارے زمانے کے منفرد اور اہم غزل گوؤں کی فہرت کا ممتاز شاعر بناتی ہے۔