ڈاکٹر رشید امجد(راولپنڈی)
قیام پاکستان کے وقت ترقی پسند تحریک پورے دم خم کے ساتھ موجود تھی اور اچھا لکھنے والوں کی ایک موثر تعداد اس سے وابستہ تھی۔ ترقی پسند تحریک نے موضوعات ہی کو وسعت نہیں دی بلکہ بیانیہ حقیقت نگاری میں بھی متنوع تجربات کے دروازے کھول دئیے ۔ نئی ادبی بحثوں اور عام طبقے کی نمائندگی نے تفہیم و ترسیل کے نئے معیار متعارف کروائے۔ افسانے میں شہری زندگی کے ساتھ ساتھ دیہاتوں کی زبوں حالی اور کسانوں کے مسائل نیز ان کے رہن سہن اور کردار و اطوارکی عکاسی نے اردو کہانی کا موضوعاتی کینوس بہت وسیع کر دیا۔ شاعری میں بھی محبت کے روایتی مضامین کے پہلو بہ پہلو معاشرتی و سیاسی مسائل کا ذکر ہونے لگا ،یوں ترقی پسند تحریک نے ادب کے موضوعاتی دائرے کو معاشرے کی نچلی سطح تک پھیلا کر ادب اور زندگی کے رشتوں کو وسیع اور مضبوط کر دیا۔ موضوعات کے اس تنوع نے اسلوب و اظہار پر بھی اثر ڈالا اور حقیقت نگاری میں اظہارو انداز کے نئے پیرائے وجود میں آئے۔ ترقی پسند تحریک کے ساتھ ساتھ رومانی تحریک کے اثرات بھی قائم رہے لیکن بیسویں صدی کی دوسری، تیسری اور چوتھی دہائی کے برعکس رومانیت پسندوں کے یہاں بھی ترقی پسند تحریک کے اثرات کی وجہ سے ایک تبدیلی آئی اور معاشرتی شعور گہرا ہوا۔ تیسری اور چوتھی دہائی کی نئی ادبی بحثوں ، مغربی افکار کے پھیلاؤ اور نئے اسالیب (جس کا زیادہ اظہار نظم میں ہوا)نے بھی اپنا اثر ڈالا اور ترقی پسند اور رومانیت پسند دونوں لکھنے والوں کے یہاں اسلوب و انداز اور اظہار کی تبدیلیاں ہوئیں۔حلقہ ارباب ذوق اگرچہ باقاعدہ تحریک نہ تھی لیکن ایک رجحان اور روئیے کے طور پر اس کے اثرات بھی گہرے ہیں۔اوّل اوّل حلقہ کو ترقی پسند تحریک کا ردعمل سمجھا گیا لیکن حلقہ کے ابتدائی جلسوں ہی میں بعض ترقی پسندوں کی شرکت نے اسے غلط ثابت کیا۔حلقہ موضوعات کی حد بندی کا قائل نہ تھا،وہ صرف ادبی و فنی اقدار اور جمالیاتی اقدار کی پاسداری کا مطالبہ کرتا تھا۔ اس کی بحثوں میں مغربی افکار کے اثرات نمایاں تھے۔ جنگ عظیم دوم کے دوران اور بعد میں جو اقتصادی اور معاشرتی ابتری پید اہوئی اس کا اثر اخلاقیات پر بھی پڑا۔جنگ عظیم دوم کے عالمی پس منظر میں ہونے والی شکست و ریخت کا اثر برصغیر پر بھی پڑا۔اقتصادی بحران، بیروزگاری اور سماجی عدم تحفظ نے نئے نئے موضوعات کو متعارف کروایا۔ ان نئے مسائل نے اظہار و اسلوب پر بھی اپنے اثرات ڈالے۔ قیام پاکستان کے بعد بھی یہ ساری ادبی صورتحال اسی طرح رہی البتہ موضوعاتی طور پر چار پہلو زیادہ نمایاں ہوئے۔
اوّل: فسادات کاا لمیہ ، محرومی اور انسانی جانوں کے ضیاع پر دکھ اور غم
دوّم :ہجرت کا دکھ، پرانی زمین اور آبائی گھروں کی یاد جس نے ایک نئی طرح کی تنہائی اور مایوسی کو جنم دیا۔
سوم: نئی مملکت کے بارے میں ٹوٹتے خواب کہ کچھ عرصہ بعد ہی احساس ہونے لگا کہ جس بڑے مقصد کے لیے اتنی بڑی قربانی دی گئی ہے وہ ابھی دور ہے اور لوٹ کھسوٹ ہی کا ایک نیا نظام وجود میں آ گیا ہے۔
چہارم :کچھ خوش فہمیاں جن کی بنیاد پر ہجرت کے سارے عمل سے مطمئن ہوناتھا۔
یہ چاروں رویّے مختلف طریقوں سے موضوعات کا حصہ بنے۔فسادات کا المیہ واقعاتی سطح پر افسانے میں کئی اچھی کہانیوں کا موضوع بنا۔شاعری میں یہ صرف تاثر اور احساس کی حد تک اظہار پایا۔ ہجرت کا دکھ اور تنہائی افسانے اور شاعری دونوں میں مختلف صورتوں میں ظاہر ہوئی۔دوسرے دونوں رویّے یعنی نئی مملکت کے بارے میں ٹوٹتے خواب اور خوش فہمی زیادہ تر شاعری کا موضوع بنے۔ اس دوران پاکستانی ادب او راسلامی ادب کی تحاریک کا ذکر بھی سننے میں آیا لیکن پاکستانی ادب کی تعبیر کرنے والے تخلیقی سطح پر کوئی قابل ذکر کام نہ کر سکے اور یہ موضوع صرف تنقیدی بحثوں تک ہی محدود رہا۔ اسی طرح اسلامی ادب کی بات کرنے والے بھی ادبی معیار اور جمالیاتی اقدار کی اعلیٰ سطح کو نہ چھو سکے اور اسلامی ادب لکھنے والے کبھی بھی ادباء کی فہرست میں شامل نہ ہو سکے۔ ان کی حیثیت دوسرے درجے کے ان لکھنے والوں ہی کی رہی جن کا ذکر قابل ذکر تنقید میں کبھی نہ آ سکا۔قیام پاکستان سے60ء تک کا زمانہ موضوعاتی اور فنی سطح پر روایت کے تسلسل کا زمانہ ہے۔ بیانیہ حقیقت نگاری اور زبان و بیان کے وہی سانچے، اپنی روایتی ہیئت و تکنیک کے ساتھ مقبول رہے اور پرانے لکھنے والوں کے ساتھ ساتھ اس زمانے کے نئے لکھنے والے بھی اسی ڈگر پر چلتے رہے جس کا آغاز بیسویں صدی کی پہلی دوسری دہائیوں میں ہوا تھا۔
ساٹھ کی دہائی میں موضوعاتی اور فنی دونوں سطحوں پر بڑی تبدیلیاں آئیں۔بعض انتہاپسند ترقی پسندوں کے رویّے نے تحریک کے بارے میں ایک منفی رد عمل پیدا کیا۔انجمن ترقی پسند مصنفین پر پابندی نے تنظیمی ڈھانچے کو ختم کیا تو تحریک کی مرکزیت بھی متاثر ہوئی، دوسری طرف پاکستانی ادب اور اسلامی ادب کا نعرہ لگانے والے خود تو تخلیقی سطح پر کوئی کارنامہ انجام نہ دے سکے۔ البتہ ان کے سارے استدلال اور قوت ترقی پسندوں کے خلاف اعتراضات پر صرف ہوئی۔اس سے بھی ترقی پسندوں کے بارے میں ایک عمومی منفی رویہ پیدا ہوا۔ تیسری طرف سیاسی حالات کی ابتری نے بھی ایک قومی بے سمتی کو جنم دیا۔چنانچہ ساٹھ کی دہائی میں جو نسل سامنے آئی اس نے خود کو اعلانیہ غیر نظریاتی کہا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ترقی پسند تحریک کی وجہ سے خارجی حقیقت نگاری کا جو رجحان پروان چڑھا تھا وہ داخل کی طرف مڑ گیا۔کردار سائے بن کر بے نام ہوئے اور ٹھوس واقعات کی بجائے خیال اور آئیڈیا کہانی میں اہم ہوئے۔ شاعری میں بھی جو افسانے کے مقابلے میں داخلی احساسات کی زیادہ ترجمان ہوتی ہے۔داخلیت پسندی گہری ہو کر نفسیاتی دروں بینی اوردوسری ذات کی تلاش کی محرّک ہوئی۔ نئی لسانی تشکیلات، استعارہ سازی کا نیا تصور ، علامت و تجرید کی بحثیں موضوعات پر حاوی ہو گئیں۔ہیئت و تکنیک کے نئے تجربوں اور اسلوب و اظہار کے نئے انداز نے تفہیم و ترسیل کے مسائل پیدا کر دیئے۔ایک حوالے سے دیکھا جائے تو یہ دہائی ترقی پسند تحریک کے رد عمل کا زمانہ ہے۔موضوعات کا دائرہ سمٹ گیا اور ہیئت و تکنیک اور اسلوب و اظہار کے نئے نئے تجربوں کی راہیں کھلیں۔ معاشرتی سطح پر یہ بے سمتی اور عدم فکر کا زمانہ ہے۔ سیاسی نظام کی جگہ لینے والا مارشل لائی نظام بھی نا کام ہو گیا تھا اور صورتحال کو بدلنے کے تمام دعوے غلط ثابت ہو گئے تھے۔ اس بے سمتی نے ایک مجموعی لا تعلقی کو جنم دیا ۔ جس کے نتیجے میں نظریات کی اہمیت کم ہو گئی اور تکنیک و ڈھانچہ جاذب نظر بن گئے۔ افسانے میں علامت و تجرید نے پرانے ڈھانچے کو یکسر بدل دیا، انتظار حسین نے اگرچہ داستانی لہجے اور کرداروں کی مدد سے روایت کو قائم رکھنے کی ایک سعی کی لیکن انور سجاد کے نئے انداز نے نوجوان نسل کو زیادہ متوجہ کیا۔ نظم میں افتخار جالب کے حوالے سے ایک پوری نسل اس راہ پر گامزن ہوئی۔ غزل نے اگرچہ اپنی مخصوص ہیئت و تکنیک اور اظہار کی وجہ سے زیادہ اثر قبول نہ کیا لیکن کسی نہ کسی حد تک اس کے اظہار کے انداز بھی بدلے۔ اس دور کی ساری ادبی بحثیں جدیدیت کے اسی نئے تصور کے گرد گھومتی ہیں۔ حلقہ ارباب ذوق کی نشستوں میں بھی انہی نئی تشکیلا ت اور ہیئت و تکنیک کے نئے تجربوں کی گونج سنائی دیتی ہے۔ساٹھ کی دہائی کے دوران ایک اہم رویہ اور رجحان زمین کی اہمیت کے حوالے سے سامنے آیا۔اس کے محرک وزیر آغا تھے۔اپنی دھرتی سے وابستگی کے اس احساس اور رویے نے پاکستانی ادب میں پہلی بار اپنی زمین کی اہمیت کا احساس پیدا کیا جو 65ء کی جنگ کے بعد اور مضبوط ہوا۔ شروع میں اسے دھرتی پوجا کہہ کر رد کرنے کی کوشش کی گئی لیکن 65ء کی جنگ کے بعد دھرتی کی محبت ایک زندہ حقیقت بن گئی ۔ ادبی قومیت کی ایک بحث جیلانی کامران نے بھی شروع کی لیکن اس ادبی قومیت میں مقامی زمین کی اہمیت نہ تھی اس لیے یہ مقامی ادبی قومیت کی بجائے عربی عجمی قومیت کی ایک بدلی صورت تھی۔ وزیر آغا کی ادبی قومیت اپنی دھرتی، اس کے مظاہر اور ثقافت سے منسلک تھی اور یہی ادبی قومیت پاکستانی ادب کی بنیادی اساس بھی ہے۔وزیر آغا ادب میں نئے تجربوں اور نئے اسلوب کے حامی تھے، اس لیے انہوں نے اظہار کے نئے رویوں کو خوش آمدید کہا اور اپنے تنقیدی مضامین میں ان کی بہتر توجیحات پیش کیں اور نئے لکھنے والوں کو پروموٹ کیا۔
ستر کی دہائی کے آغاز ہی میں معاشرتی اور سیاسی طور پر مارشل لاء کے خلاف ایک بڑے رد عمل نے سمت اور نظریے کی بحثوں کو پھر تازہ کر دیا۔اعلانیہ خود کو غیر نظریاتی کہنے والوں نے نظریہ کی بات شروع کر دی۔ افتخار جالب نے استعارے کی شاعری کو منافقت کی شاعری کہہ کر اپنی نئی لسانی تشکیلات کے سارے تصور کو دھندلا دیا۔وہ تمام نئے لکھاری جو ذات کے تشخص اور دوسری ذات کی تلاش کے سحر میں ڈوبے ہوئے تھے باطن سے خارج کی طرف مڑے تو ترقی پسندی کا آغاز ہوا گویا ایک حوالہ سے ترقی پسند تحریک کا احیاء ہو گیا لیکن اس فرق کے ساتھ کہ اب نو ترقی پسند موضوع کے ساتھ ساتھ فن کی جمالیاتی اقدار اور اظہار و اسلوب کی خوب صورتی اور ہنر کاری کے بھی قائل تھے۔ افسانہ ، نظم اور غزل کے حد سے بڑھے تجریدی اور علامتی رویہ میں ایک اعتدال آیا۔جس طرح قومی سفر اندر سے باہر کی طرف مڑا تھا اسی طرح فنکار کا رخ بھی باطن سے خارج کی طرف ہوا۔ انتہا پسند اسلوبی رویّے ایک متوازن انداز میں تبدیل ہوئے۔ ساٹھ اور ستر کے دوران بعض نئی اصناف کو بھی فروغ ملا۔ ان میں انشائیہ، نثری نظم اور ہائیکو قابل ذکر ہیں لیکن نثر میں نئی نسل کی زیادہ توجہ افسانے اور شعر میں نظم اور زیادہ تر غزل کی طرف ہی رہی۔
فنی سطح پر ساٹھ اور ستر کی دہائیوں میں جو نمایاں تبدیلیاں ہوئیں ان میں اول تو نئی لسانی تشکیلات کے اثرات ہیں۔ جن کے تحت فارسی مزاج کی بجائے اردو کا پاکستانی مزاج وجود میں آیا۔تراکیب سے گریز اور اصنافتو ں سے بچنے کی شعوری کوششوں نے شاعری کی زبان کو خاصا تبدیل کیا۔ غزل کی پرانی لغت میں نئے الفاظ کی شمولیت نے بھی غزل کی زبان کو وسعت دی۔ امیجز ، پیکر تراشی اور تمثیل کاری نے پرانے استعاراتی نظام کو یکسر بدل دیا۔ افسانوی زبان میں شعریت کے ٹچ نے بیانیہ کے مقابلہ میں ایک نئی زبان کی تخلیق کی ۔ علامت و استعارہ کے ساتھ ساتھ افسانوں میں امیجز اور تمثیل کاری نے معنوی دبازت میں اضافہ کر دیا۔داستانی انداز اور اسطوری علامتوں نے بھی افسانے کی زبان پر خاصا اثر ڈالا۔ افسانے کے بعد امیجز کا سب سے زیادہ استعمال غزل میں ہوا۔ستر کی دہائی میں جب باطن کا سفر پھر خارج کی طرف مڑا تو زبان و بیان پر بھی اس کے اثرات پڑے۔دبیز علامتوں کی بجائے اکہری اور قدرے واضح علامتیں استعمال ہونے لگیں۔غزل میں غیر اضافتی ترکیب سازی کے عمل نے بڑی سہولتیں پیدا کر دیں۔زبان و بیان اور موضوع کی ہم آہنگی نے ابلاغ اور ترسیل کی بحث کو بھی ختم کر دیا۔اس میں کسی حد تک نئے ادب کی پذیرائی کو بھی دخل تھا۔دس سالوں میں مسلسل پڑھنے سے قاری کی بھی کسی حد تک تربیت ہو گئی اور لکھنے والوں کے یہاں بھی ہنر مندی اور فنی ریاضت نے آسانیاں پیدا کر دیں اور ابلاغ کا جو بہت سارا مسئلہ عجزبیاں کا پیدا کر دہ تھا کسی حد تک دور ہو گیا۔
اسی کی دہائی میں پھر مارشل لاآگیا جس کے دوران1979ء میں بھٹو کو پھانسی دی گئی۔ ان دونوں باتوں کا شدید رد عمل ہوا اور نثر و نظم دونوں میں اتنی تخلیقات سامنے آئیں جنہیں جمع کرنے کے لیے کئی جلدوں کی ضرورت ہے۔یہ مزاحمتی ادب کے ایک نئے دور کا آغاز تھا۔ مارشل لاء کے صرف آٹھ ماہ بعد ہی مزاحمتی ادب کا پہلا مجموعہ ’’گواہی ‘‘شائع ہو گیا۔اس کے مرتب ڈاکٹر اعجاز راہی نے اسے بارش کا پہلا قطرہ کہا۔اس میں چودہ کہانیاں شامل تھی۔یہ آواز دیکھتے ہی دیکھتے شعر و ادب کی ایک توانا رو بن گئی۔ اظہار پر اس کے اثرات یہ ہوئے کہ اب بیان میں قدرے کھلا پن آ گیا۔ کہیں کہیں بیانیہ بھی اختیار کیا گیا لیکن اس فرق کے ساتھ کہ اب اس میں سادہ بیانیہ کی بجائے ایک دبازی اور نیم استعاری انداز بھی شامل ہو گیا۔ نو ے کی دہائی اور بعد کا عرصہ بھی اسی غیر مستحکم سیاسی نظام کی وجہ سے بحران ہی کا زمانہ تصور کیا جائے گا۔اس دوران چار منتخب اسمبلیوں کی برطرفی در پردہ آمریت اور نہ نظر آنے والی حکومت کے احساس کو پختہ کرتی رہی۔موضوعات و اظہار و انداز میں کوئی واضح تبدیلی نہ آئی اور یہ عرصہ کسی حد تک ستر کی دہائی کا تسلسل ہی دکھائی دیتا ہے۔
قیام پاکستان کے کچھ ہی عرصہ بعد پاکستانی ادب اور پاکستانی ثقافت کی بحثیں زور و شور سے شروع ہو گئی تھیں۔حسن عسکری اور ممتاز شیریں نے ’’نیا دور‘‘ میں اس مسئلہ کو اٹھایا اور مسلسل مضامین لکھے لیکن تخلیقی سطح پر وہ اور ان کے ہمنوا پاکستانی ادب کی کوئی مثال پیش نہ کر سکے ۔ دوسری طرف اسلامی ادب کے دعویداروں نے بھی شد ومد سے اسلامی ادب کے خطوط واضح کئے لیکن ان کی تخلیقات فنی اقدار اور جمالیات سے اتنی نیچے تھیں کہ وہ ادب میں شامل نہ ہو سکیں۔ترقی پسند تحریک کے خلاف جتنے محاذ بنے ان کی بحثیں چاہے کتنی بھی بے جان ہوں لیکن ان محاذوں میں کچھ ایسے بڑے لکھنے والے شامل تھے جن کی تخلیقات کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ افسانے میں منٹو اور ممتاز مفتی جیسے بڑے لکھنے والے خود کو اعلانیہ ترقی پسندوں کے مخالف کہتے تھے۔اس دور میں حلقہ ارباب ذوق کی بحثوں میں بھی ترقی پسند تحریک پر خاصے وزنی اعتراضات ہوئے ۔تنقیدی حوالے سے یہ بری بحثوں کا دور ہے اور تخلیقی میدان میں بھی نظم و نثر دونوں میں بڑے اہم نام سامنے آتے ہیں۔ساٹھ کی دہائی میں یہ ساری نظریاتی بحثیں غیر نظریاتی دور میں داخل ہو گئیں۔1958ء کے مارشل لاء نے خراب سیاسی نظام کو سنبھالنے کی بجائے اسے طرح طرح کے مسائل سے دو چار کر دیا۔ایک سیاسی اور فکری خلا پیدا ہو گیا جس کے نتیجے میں معاشرتی سفر کا رخ خارج سے باطن کی طرف مڑا۔موضوعات کی بجائے فنی اور لسانی بحثوں نے اہمیت حاصل کی اور انداز و اظہار میں ترسیل و ابلاغ کے مسائل نے جنم لیا۔1960ء کے قریب نئی لسانی تشکیلات کی بحث نے نظم کو زیادہ اور اس کے بعد افسانے کو متاثر کیا۔غزل پر یہ اثر قدرے کم پڑا۔ موضوعاتی طور پر یہ دروں بینی کا دور ہے۔
مارشل لاء کے اثرات آہستہ آہستہ سرایت کر کے معاشرے کی اندرونی پرت تک پہنچ گئے۔خوف ارور بے سمتی کی فضا نے داخلیت اور نئی مابعد الطبیعاتی فکر کو جنم دیا۔دوسری شخصیت کی دریافت، باطنی شکست و ریخت ، ایک شخصیت میں کئی شخصیتوں کی تلاش اور مجمع میں تنہائی کا احساس نمایاں موضوع بن گئے۔ستمبر65ء میں قومی شناخت کا ایک نیا مرحلہ شروع ہوا۔اس جنگ نے وطن پرستی اور زمین کی اہمیت کے جذبوں کو بیدار کیا۔ دفاع پاکستان کے حوالے سے ایک نیا موضوع سامنے آیا جس کا زیادہ اور عمدہ اظہار شاعری میں ہوا۔ خصوصاً نظم میں 1968ء کی عوامی تحریک نے نظریاتی بحث کو دوبارہ تازہ کر دیا اور نو ترقی پسندی کی اصطلاح مقبول ہونے لگی۔فرد کی بجائے اب اجتماع اور خارج کی باتیں بھی ہونے لگیں لیکن یہ پرانی حقیقت نگاری کی تجدید نہ تھی بلکہ خارجی حقیقت نگاری اور باطنی دروں بینی کا ایک نیا امتزاج تھا جسے ستر کی دہائی کی نسل نے آگے بڑھایا۔سقوط ڈھاکہ کا المیہ بھی ایک موضوع بنا۔اس کے اثرات غزل پر زیادہ ہوئے کہ ایمائیت و اشاریت میں زوال کا یہ لمحہ ایک بڑی معنویت کا استعارہ بنا۔نظم اور افسانے میں شاید اس کا اثر براہ راست نہیں ہوا لیکن مجموعی قومی فکر میں ایک مایوسی اور بد دلی نے ایک ایسی فضا کو جنم دیا جس کا اثر ادب پر بھی پڑا۔
1977ء کے مارشل لاء نے بے سمتی اور منافقانہ رویے کو پھر فروغ دیا۔گیارہ سالہ آمریت میں مزاحمت کا ایک نیا دور اور نیا لب و لہجہ وجود میں آیا۔1985ء کے بعد نیا سفر تو شروع ہو الیکن ایک حوالے سے یہ بھی پرانے سفر ہی کی بازگشت تھی۔ بارہ سالوں میں چار منتخب اسمبلیوں کی ٹوٹ پھوٹ نے جمہوری عمل کا اعتبار ختم کر دیا۔ایک مجموعی لا تعلقی نے بے حسی اور مایوسی کے رجحانات کو فروغ دیا۔ اس کی چھاپ ادب کی سبھی اصناف پر دکھائی دیتی ہے۔
اس ساری بحث کی فنی صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو یوں ہے کہ بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں جب نظم نئے فکری اور فنی تجربوں سے گزررہی تھی دو رویے واضح طور پر سامنے آئے تھے۔ایک ن م راشد اور دوسرا میرا جی کے یہاں۔ راشد پرانی بحور کو نئے آہنگ سے بدلنا چاہتے تھے اور قوافی کے خلاف تھے لیکن قافیہ کی تمام تر مخالفت کے باوجود وہ بعض اوقات صرف قافیہ کے شوق میں نیا مصرعہ لے آتے تھے اس لیے صوتی اور غنائی اعتبار سے ان کا مصرعہ غزل کے مصرعہ کے قریب رہتا ہے اس کے برعکس میر اجی کی نظم میں قوافی کا استعمال نسبتاً کم ہوا ہے ان کی نظم ایک وحدت ہے وہ Running Linesکی نظم ہے جس میں ہر مصرع اگلے مصرع میں ختم نہیں ہوتا بلکہ قافیہ کے ذریعے اپنے دائرے کو مکمل کرتا ہے۔ میرا جی کی نظم کا غنائی نظام مختلف ہے اور ان کا مصرع غزل کے مصرع کے مقابلے میں ست رو اور غنائی طور پر قدرے روکھا روکھا سا ہے۔پچھلے بچاس برسوں میں یہ دونوں روایتیں موجود رہی ہیں ۔ پہلی روایت میں نظم پر غزل کے غنائی اثرات نمایاں ہیں۔ اس کی مثا ل فیض ہیں اور یہ مزاج اختر حسین جعفری اور کئی دوسرے شاعروں کے ہاں موجود ہے۔ اسے راشد کی روایت کا تسلسل کہنا چاہے۔ دوسری روایت میرا جی کی ہے جہاں مصرع دوسرے مصرع سے مربوط ہے اور اس کی غنائیت غزل سے مختلف ہے اس کا تسلسل مجید امجد اور وزیر آغا کے یہاں ہے۔ اس کے علاوہ پرانی ہیئتوں میں یابند نظم میں بھی لکھی جاتی رہی ہے لیکن اس کا دائرہ زیادہ تر پرانی نسل کے شاعروں تک محدود ہے۔نئی نسل کے یہاں یہی دو رویے ملتے ہیں۔ان پچاس برسوں میں غزل کے فنی اورہیئتی ڈھانچے میں کوئی بڑا تغیر رونما نہیں ہوا البتہ غزل کی زبان،اظہار اور انداز و اسلوب پر جدیدیت کے اثرات ضرور پڑے۔مصرعہ بندی ، لفظوں کی نشست و چناؤ پر فارسی اثرات خاصے کم ہوئے۔امیجز کے استعمال اور غیر اضافتی ترکیب سازی نے غزل کی معنویت کو گہرا کیا۔آزاد غزل کے کچھ شور کے باوجود غزل کا مجموعی فنی ڈھانچہ برقرار رہا ۔غزل میں عصری صداقتوں کا اظہار، نئے افکار،نئے انکشافات اور غزل کی لغت میں نئے الفاظ کی شمولیت نے غزل کی پسندیدگی کے گراف کو قائم رکھا۔
ان پچاس برسوں میں نظم کے بعد جس صنف نے سب سے زیادہ نئے اثرات قبول کئے وہ افسانہ ہے۔ ساٹھ کی دہائی کے بعد تو افسانہ نئے ہیئتی ، تکنیکی اور اسلوبی تجربوں سے آشنا ہوا۔اسی دوران اگرچہ بیانیہ اور خارجی حقیقت نگاری کی روایت بھی چلتی رہی لیکن نئی نسل کے زیادہ افسانہ نگاروں نے تجرید، علامت اور امیجز کے امتزاج سے اردو افسانے کو ایک نئے ذائقے اور شناخت سے روشناس کرایا۔مونولاگ، آزاد تلازمہ خیال اورمکالماتی انداز نے افسانے کے فکری کینوس کو وسیع کیا۔ریاضی کی علامتوں، دائروں اور جیومیٹری کی اشکال کے استعمال سے تکنیک و ہیئت کے نئے تجربے ہوئے۔ان نئے تجربوں نے کہیں کہیں تہ دار ابہام بھی پیدا کیا لیکن ستر کی دہائی تک آتے آتے ان سارے تجربوں میں ایک اعتدال آ گیا۔غیر تخلیقی انداز سے سائنسی ، فلسفیانہ اور فکری مواد کو پیش کرنے کا رویہ بہت حد تک کم ہو گیا۔دوسری طرف بیانیہ حقیقت نگاری کا انداز بھی بدل گیا اور اس میں بھی خارجیت کے ساتھ ساتھ ایک داخلی دبازت آگئی۔
پاکستانی ادب کے پچاس سال اس کی تاریخ بھی ہیں اور شناخت بھی۔ پچھلے چند برسوں سے پاکستانی ادب کی شناخت کا مسئلہ پھرتازہ ہوا ہے لیکن یہ بحث پرانی بحث سے مختلف ہے کہ اس وقت اس بحث کا مطلب ترقی پسندوں کے خلاف محاذ بنانا تھا لیکن اب یہ بحث پاکستانی ادب کی حقیقی شناخت کا مسئلہ ہے کہ اردو کی دوسری بستیوں میں لکھے جانے والے ادب سے پاکستانی ادب کیسے اور کیوں مختلف ہے اور ہم اس سارے ادب کو اردو ادب کہنے کی بجائے پاکستانی ادب کیوں کہنا چاہتے ہیں۔پہلی بات تو یہ ہے کہ فکری ، تہذیبی اور لسانی تینوں حوالوں سے پاکستانی ادب کی اپنی ایک شناخت ہے۔ لسانی حوالوں سے دیکھا جائے تو پاکستانی اردو اپنے علاقائی اثرات اور دوسری پاکستانی زبانوں کے تال میل سے اس اردو سے بہت مختلف ہے جو اس وقت بھارت میں لکھی اور بولی جا رہی ہے۔پاکستانی اردو کا اپنا ایک مزاج اور لہجہ وجود میں آ چکا ہے۔یہ مزاج ذخیرہ الفاظ، تلفظ،لہجے اور زبان کی نئی تہذیبی روایت کی وجہ سے بھارتی اردوکے مزاج اور لہجے سے قطعی مختلف ہے۔ ہماری اردو نے پنجابی، سندھی، بلوچی،اور پشتو سے جو اثرات قبول کیے ہیں انہوں نے ایک نئے لہجے کو جنم دیا ہے جو خالصتاً پاکستانی لہجہ ہے چنانچہ اس زبان میں لکھا جانے والا ادب لسانی حوالوں سے الگ پہچان رکھتا ہے۔ دوسری بات فکری شناخت کی ہے۔ہماری فکری روایت کی بنیادی علامتیں ہمارے ملی جذبوں اور امت مسلمہ کے تاریخی سفر سے وابستہ ہیں۔جذباتی اور فکری طور پر ہمارے ڈانڈے اپنی مرکزیت ہی سے جڑے ہوئے ہیں۔ ہندی لہجے، ہندی روایات ور ہندی دیومالائی استعاروں کی بجائے ہمارے یہاں مسلم کلچر اور تاریخ کے حوالے سے زیادہ توانا ہیں جنہوں نے ہماری علیحدہ فکری روایت کو قائم رکھا ہے۔ ہماری سوچ کا انداز ہمارے اجتماعی خواب دوسروں سے مختلف ہیں۔چنانچہ اس فکری تناظر اور ہیئت و تکنیک اور زبان و بیاں کے حوالے سے لکھا جانے والا ادب پاکستانی ہے۔تیسری بات تہذیبی اثرات کی ہے۔تہذیب کی اس بحث میں پڑے بغیر کہ کسی جگہ کی تہذیب کن عوامل سے مل کر وجود میں آتی ہے یہ بات بالکل واضح ہے کہ پاکستانی تہذیب اپنی علاقائی تہذیبوں،اجتماعی سوچ، نظریہ حیات اور اجتماعی خوابوں سے مل کر بنی ہے۔ پاکستانی ثقافت کی یہ صورت جو مجموعی فضا بناتی ہے وہ پاکستانی ہے اور ہمارے اردو ادب میں اس فضا کا اظہار اسے پاکستانی ٹچ دیتا ہے۔مذہبی حوالہ بھی اپنی جگہ اہم ہے، دنیا بھر کا بڑا ادب اس حوالے سے خالی نہیں بلکہ عالمی ادب کے بعض ادب عالیہ کے پس منظر میں کوئی نہ کوئی مذہبی وابستگی موجود ہے۔سیاسی سماجی مسائل کی جو صورتیں ہمیں تیسری دنیا کے ممالک سے جو ڑتی ہیں اور الگ بھی کرتی ہیں ان کے اثرات بھی ہمارے ادب پر پڑے ہیں اور موضوعاتی طور پر ان سے ایک شناخت قائم ہوئی ہے۔زبان کے ورتارے ، فارسی اثرات سے دور ہو کر اردو کے خالص پاکستانی رنگ اور لغت میں نئے الفاظ کی شمولیت ، جذبات و احساسات کے اظہار میں عقیدے کے پہلو اور مجموعی فضا کے اثر نے پاکستانی ادب کو ایک الگ تشخص عطاکیا ہے۔ یہ علیحدہ تشخص ، مزاج اور ذائقہ ہی پاکستانی ادب کو اردو زبان میں لکھے جانے والی دوسری تخلیقات سے الگ کرتا ہے بلکہ اسی طرح جیسے انگریزی زبان میں لکھے جانے والے ادب میں بھی برطانوی ادب، امریکی ادب یا افریقہ میں انگریزی زبان میں لکھے جانے والے افریقن ادب کی مختلف صورتیں موجود ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان میں تخلیق ہونے والے اردو ادب نے پچیس ہی سال کے مختصر عرصہ میں ان ۔۔۔ رجحانات کا کسی نہ کسی حد تک مظاہرہ ضرور کیا۔مثلاََ موجود کے اقرار کا رویّہ اس ارضی وابستگی کی صورت میں نمودار ہوا جسے تمام اصنافِ ادب میں بآسانی تلاش کیا جا سکتا ہے۔مگر پھر اس کا ردِ عمل بھی ہوا۔وہ یوں کہ سر زمینِ پاکستان ازمنۂ قدیم ہی سے ایک زرعی معاشرے کی مظہر رہی ہے۔مگر جب پاکستان بننے کے بعد صنعتی ترقی ہوئی،شہر بڑے ہوئے ، معاشی اور معاشرتی مسائل نے شدت اختیار کی،میکانکی زندگی اپنے مشینی عفریتوں کے ساتھ ظاہر ہوئی اور فرد کو اپنے سلاسل میں جکڑنے لگی تو اس کے ہاں اس بند خول کو توڑ کر باہر آنے یا کم از کم خول میں روزن تعمیر کرنے کی خواہش ضرور جوان ہونے لگی۔یہ گویااظہارِ ذات کی وہ خواہش تھی جس نے ہمارے فنکار کو اس بات پرمائل کیا کہ وہ موجود(مادہ)کی دیواروں کو عبور کر کے’جوہر‘کی تلاش کرے۔۔۔۔۔۔ علامتی افسانے کے رجحان نے تجریدی افسانے کو بھی کروٹ دی۔بعینہ جیسے علامتی شاعری نے ’نثری نظم‘ کو تحریک دی تھی۔دلچسپ بات یہ ہے کہ تجریدی افسانہ اور ’نثری نظم‘ایک ہی شے کے دو نام تھے۔اس فرق کے ساتھ نثری نظم کو نظم کے انداز میں اور تجریدی افسانہ کو افسانے کے پیرائے میں لکھا جاتا تھا۔ورنہ اصلاَ دونوں نثر میں شاعری کی سطح پر پہنچنے کی کوششیں تھیں‘‘
(ڈاکٹر وزیر آغا کااقتباس از مضمون پاکستان کا عصری ادب
بحوالہ کتاب نئے تناظر مطبوعہ ۱۹۸۱ء)