تبصرہ نگار: حیدر قریشی
انگلستان میرا انگلستان مصنف:یعقوب نظامی
صفحات:424 قیمت:500 روپے ناشر:ادبستان۔۳۴رَیٹی گن روڈ۔لاہور
یعقو ب نظامی بنیادی طور پر صحافی ہیں تاہم ان کے ہاں ادبی رنگ غالب رہتا ہے۔برطانوی اردو صحافت میں ’عقاب‘،’آوازِملّت‘،اور ’راوی‘تک ان کی صحافتی سرگرمیوں کی روداد بکھری پڑی ہے۔ان کی کتابیں ”پاکستان سے انگلستان تک“اور سفر نامہ”پیغمبروں کی سر زمین“ادب اور صحافت کے سنگم کا خوبصورت اظہار ہیں۔زیرِ نظر کتاب”انگلستان میرا انگلستان“ان کی تازہ ترین تصنیف و تالیف ہے۔اس کتاب میں انہوں نے برطانیہ میں ایشیائی تارکین وطن کی چار سو سالہ تاریخ کو انتہائی اختصار کے ساتھ پیش کرنے کے ساتھ بریڈ فورڈکے حوالے سے بطور خاص تحقیقی کام کیا ہے۔بیسویں صدی کے نصف اول تک آباد ہونے والے ایشیائیوںکے احوال،ساٹھ کی دہائی میں آکر بسنے والوں کے خیالات،نئی نسل کے رجحانات،خواتین کے مسائل اور ایشیائی آبادی کے مختلف معاملات کو اس کتاب میں بڑی عمدگی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔
تحقیقی لحاظ سے یہ ایک انتہائی مشکل اور جان لیوا کام تھا جسے یعقوب نظامی نے بڑی آسانی سے کر لیا ہے۔اس کتاب میں عزم و عمل کی حیران کن داستانیں بھی ہیں،سیرابی و سرشاری بھی ہے،دکھ ، حسرتیں اور احساسِ تنہائی بھی ہے اور مختلف نوعیت کے دلچسپ قصے بھی۔
یعقوب نظامی نے کتاب میںشامل ”اپنی بات“میں ایک بڑی سچی بات یوں لکھی ہے:
”برطانیہ ایسا ملک ہے جہاں ہر چیز کا ریکارڈ محفوظ ہے۔انسان تو انسان یہاں پرندوں، چرندوں ، حیوانوں، عمارتوں،سڑکوں کی تاریخ موجود ہے،اگر کوئی مکین یہ معلوم کرنا چاہے کہ جس مکان میں وہ رہتا ہے کب تعمیر ہوا تھا؟اُس وقت اس پر کتنے اخراجات آئے تھے؟اور آج تک کون کون اس مکان میں مقیم رہا؟تو یہ تمام ریکارڈ دستیاب ہے۔اگر ریکارڈ محفوظ نہیں ہے تو برطانیہ میں آباد ایشیائیوں کا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم مزاجاَ تاریخ پڑھنا اور اس سے عبرت حاصل کرنا پسند نہیں کرتے۔“
مغربی ممالک میں فکشن کے نام پر ،بالخصوص ثقافتی کشمکش کے حوالے سے جو کچھ لکھا جا چکا ہے، اس میں سے گنتی کے چند افسانے ہی ایسے ہیں جو تخلیق کی اہم سطح پر پہنچتے ہیں،باقی سب کا بیان محض سطحی واقعہ نگاری سے آگے نہیں جاتا۔یعقوب نظامی کی اس کتاب کا طرزِ تحریر اتنا خوبصورت ہے کہ وہ مغربی ممالک کے ایسے بیشترمذکورہ افسانہ نگارں کے افسانوں سے کہیں آگے نکل گئے ہیں۔ بعض واقعات اور داستانیں اتنی حیران کن ہیں کہ ان میں یہاں کے عام افسانوں سے زیادہ ادبی اظہار ہوتا ہے۔اسی مقام پر مجھے یعقوب نظامی مغربی ممالک کے متعدد افسانہ نگاروں سے کہیں بہتراور بڑے تخلیق کار محسوس ہوئے ہیں۔انہوں نے تحقیق جیسے کام کو عمومی طور پر تحقیقی دیانت کا دامن چھوڑے بغیر تخلیق کے قریب تر کر دیا ہے۔یہ ان کی شاندار کامیابی ہے جس پر انہیں تہہ دل سے مبارکباد پیش کرتا ہوں!
کھلا آسمان(کالموں کا مجموعہ) مصنف: فیاض ناروی
صفحات: 384 قیمت:350 روپے ناشر: میڈیا گرافکس۔A-997،سیکٹر11-Aنارتھ کراچی
فیاض ناروی طویل عرصہ تک،لگ بھگ ۵۳سال تک پاکستان انٹرنیشنل ائرلائنز میں خدمات سرانجام دیتے رہے ہیں۔ ریٹائرمنٹ سے لگ بھگ سال بھر پہلے انہوں نے تیکنیکی حوالوں سے کالم نگاری کا آغاز کردیا تھا تاہم ملازمت سے ر یٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے اپنے تجربات کی روشنی میں پی آئی اے کے لیے مشوروں کے طور پر متعدد کالم لکھے،پھران کالموں میں وسعت آئی اور مشوروں سے بڑھ کر ان میں ان کی یادیں بھی چمکنے لگیں ۔ زندگی میں جن اہم شخصیات نے انہیں متاثر کیا ان میں سے بعض کے بارے میں تعارفی اور تاثراتی مضامین بھی لکھے،ملک کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر درپیش حالات کی روشنی میں سیاسی نوعیت کے کالم بھی لکھے۔یوں ان کے رنگارنگ کالموں کا مجموعہ ”کھلا آسمان“شائع ہو گیا۔
ملکی اور بین الاقوامی صورتحال پر لکھے کالموں میں وطن کی ہمدردی کا جذبہ نمایاں ہے،شخصی مضامین میں ان شخصیات سے تعلقِ خاطر واضح ہے یادوں کی اپنی چمک ہے۔تاہم اپنے وسیع تجربہ کی بنیاد پر ائر ٹرانسپورٹ کے موضوع پر لکھے ان کے کالم نہ صرف کالم نگاری میں ان کی امتیازی پہچان ہیں بلکہ اس کتاب کا حاصل بھی یہی کالم ہیں۔متعدد شخصی مضامین میں بھی ائر ٹرانسپورٹ کا حوالہ مضامین کا جواز بنا ہے۔ابن صفی اور ڈاکٹر حمیدا للہ کے بارے میں شخصی مضامین میں ان شخصیات کی اپنی قوت کارفرما ہے۔ابنِ صفی کے ساتھ فیاض ناروی کا بچپن سے تعلق رہا،سو اس بارے میں انہوں نے جتنا لکھا ہے اس لکھے کی اہمیت ہے۔ممتاز اسلامی اسکالر ڈاکٹر حمید اللہ سے رابطہ ائر سروس کے سلسلہ میں ہی ہوا لیکن ان کی علمی خدمات کے باعث ان پر لکھے مضمون میں ڈاکٹر حمید اللہ کے بارے ”کچھ نیا “بھی سامنے آتا ہے۔
فیاض ناروی کی تحریروں میں اسلام سے وابستگی کے ساتھ فکرو نظر میںکشادگی کا احساس ہوتا ہے۔وہ نہ صرف تنگ نظری کے مخالف ہیں بلکہ اسے پاکستان کے لیے انتہائی نقصان دہ سمجھتے ہیں۔اس کتاب میں سیاسی اور اشرافیہ طبقہ کے بعض کرداروں کے واقعات کے ذریعے ان کی شاہانہ مزاجی کے قصے بھی سامنے آئے ہیں،بین الاقوامی طور پر ائر سروس کے کے انداز سے لے کر ہماری قومی ائر لائن کی سروس کے انداز کی کہانیاںملتی ہیں۔ان میں منفی اور مثبت دونوں شامل ہیں۔ بیان کردہ واقعات میں شامل بعض کرداروں کی عبرت انگیز داستانیں ہیں تو بعض کردارعزم و عمل کے پیکر دکھائی دیتے ہیں۔مثلاََ لاہور کے مائیکل چودھری جو امریکہ میں جا بسے اور اب وہاں اٹلس ائر کے مالک ہیں جن کا ہوائی بیڑہ پی آئی اے سے زیادہ ہے۔جرمنی میں مقیم پاکستانی ایم شمیم جو جرمنی میں ایک ائر کرافٹ ہنیڈلنگ کمپنی کے مالک ہیں۔ بقول فیاض قادری ایم شمیم نے نئی ائر لائن”لفت لائن“ کا لائسنس لے لیا ہے اور جلد ہی چارٹر ائر لائن سروس شروع کرنے والے ہیں۔
فیاض ناروی عدن،فرانس،جاپان اور جرمنی میں پی آئی کے لیے خدمات انجام دے چکے ہیں۔اگر ان کی ایک آدھ بار ناروے میں پوسٹنگ ہو گئی ہوتی تو وہ نارہ کی نسبت سے ناروی ہونے کے ساتھ بین الاقوامی طور پر بھی ناروی ہو جاتے۔
شورِ بادباں(شاعری) شاعر:اکبر حمیدی
صفحات:112 قیمت:100 روپے ناشر:بٹر پبلشرز،H.2029,St.32,Sect.10/2اسلام آباد
اردو شاعری میں اکبر حمیدی کا تازہ اور ساتواں شعری مجموعہ”شورِ بادباں“ پیشِ نظر ہے۔یہ مجموعہ اکبر حمیدی کی غزل گوئی کے سفر کی اب تک کی کہانی سناتا ہے۔پہلے والی روانی کے ساتھ انہوں نے اس بار کچھ ایسے اوزان میں بھی غزلیں کہی ہیں جن میں انہوں نے پہلے غزل نہیں کہی۔اس سے قادرالکلامی تو ظاہر ہوتی ہے لیکن اکبر حمیدی کی غزل کا جو ایک مخصوص بہاؤ تھا وہ گائب ہو جاتا ہے۔تاہم ایسی غزلیں کم تعداد میں ہیں۔عمومی طور پر اکبر حمیدی اپنے مخصوص انداز میں اپنی غزل کا سفر طے کر رہے ہیں۔اس سفر میں ان کے مزاج کی خوش خیالی اور خیالات کی پرواز دونوں کا ارتقا دیکھا جا سکتا ہے۔چند اشعار سے میری بات کا اندازہ کیا جا سکتا ہے:
کس روز یہ اصرار ہمارا نہیں ہوتا کچھ اور بھی،اتنے میں گزارا نہیں ہوتا
غزل گلی سے کئی آسماں گزرتے ہیں زباں سنبھال کے اہلِ زباں گزرتے ہیں
کچھ اتنی تیز ہے رفتارِ عالم زمانے بے نشاں ہونے پہ آئے
کہاں تک ذکر قیس و کوہکن کا بہت ہم نے بھی ٹکریں ماریاں ہیں
جان پیاری ہے تو بس چلتے چلے جاؤ میاں کیوں کھڑے ہو یہ درِ یار نہیں ہے بھائی
زور و زر کا ہی سلسلہ ہے میاں لفظ کو کون پوچھتا ہے میاں
یہاں تلک بھی ہمیں پائمال ہونا تھا ہمیں مثال،انہیں بے مثال ہونا تھا
عجیب زاویے اس کی جیومیٹری میں ہیں کہیں خطوط ، کہیں دائرے نکلتے ہیں
عقل بھی،جذبہ بھی،دونوں مِرے ساتھی ہیں مگر بعض اوقات میں دونوں کو اٹھا دیتا ہوں
سابقہ شعری مجموعوں کے حوالے سے ابھی تک اکبر حمیدی کے ہاں پیش آمدہ صورتحال پر صبر و تحمل،دعا، اور ایمان کی مضبوطی کا تاثر ملتا تھا لیکن اس مجموعہ میں وہ اپنے ان رویوں سے کچھ آگے بڑھے ہیں اور برملا کہنے لگے ہیں:
کب تلک وقت ٹالنا ہوگا راستہ تو نکالنا ہوگا
عقل بھی عشق کرنا جانتی ہے خود کو بس اعتدالنا ہوگا
اگلی نسلوں کو کفر سازی کے چکروں سے نکالنا ہوگا
”شورِ بادباں“ میں اکبر حمیدی نے کسی بڑے شاعر،ادیب یا نقاد سے کوئی پیش لفظ یا دیباچہ نہیں لکھوایااور اس سلسلے میں اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ دیباچے کتاب کے لیے نقصان دہ ہوتے ہیں کیونکہ پھرقارئین دیباچے کے افکار کی روشنی میں ہی کتاب کا مطالعہ کرتے ہیں۔اکبر حمیدی کا موقف وزن رکھتا ہے۔انہوں نے اپنی وضاحت میں جس نکتے کو ابھارا ہے یقیناَ غور طلب ہے۔یوں بھی ایک طویل عرصہ تک شاعری کرنے کے بعد اکبر حمیدی اب اپنی شعری عمر کے اس حصہ میں ہیں جہاں ان کا نام ہی ان کی شاعری کا دیباچہ،پیش لفظ ،معتبر حوالہ اور سب کچھ ہے۔ادب کے سنجیدہ قاری کے لیے اتنا حوالہ ہی بڑا حوالہ ہے کہ وہ اکبر حمیدی کی شاعری کو پڑھ رہا ہے۔
”شورِ بادباں“سے مزید چند اشعار پیش کر کے کتاب کا یہ تعارف مکمل کرتا ہوں۔
ملنا نہیں، رستہ بھی بدلنا ہو ا مشکل اس شہر میں اب گھر سے نکلنا ہوا مشکل
جن وقتوں میں انجان تھا، آساں تھا بہلنا اب جان لیا ہے تو بہلنا ہوا مشکل
جل اُٹھتے تھے ہم آتشیں نظروں سے بھی اکبر اب آگ دکھاؤ بھی تو جلنا ہوا مشکل
ضد نہ کر آج پہ اتنی اکبر ورنہ وہ کل سے مکر جائے گا
کچھ سال تو آئین بنانے میں لگے ہیں باقی کے ترامیم کرانے میں لگے ہیں
ان حربوں سے وہ اونچا اڑا سکتا تھا خود کو جو حربے اسے مجھ کو گرانے میں لگے ہیں
”شورِ بادباں“ اکبر حمیدی کی مجموعی شعری شخصیت کے تاثر کو مزید گہرا کرتا ہے!