ڈاکٹر غضنفر اقبال(گلبرگہ)
سوال: اردو افسانے کی روایت کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
جواب:اردو افسانہ ہی نہیں بلکہ ہر سماج کا افسانہ در اصل بولے ہوئے لفظ سے وابستہ ہوتا ہے۔اور بولا ہوا لفظ در اصل سنانے کے لیے ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے یہاں بھی پہلے جو روایت شروع ہوئی تھی وہ داستانوں سے وابستہ ہے۔داستانوی دور یہ تھا کہ جو باتیں عام زندگی میں نہیں ہو پاتیں،داستانوں میں طلسم کے توسط سے یا کہانی کے سنانے والے کی مرضی میں ،اگر ایسا ہو تو، اس کی خواہش سے وہ بن جاتی تھی۔زندگی میں تو نہیں بن پاتی تھی اور اس لیے جوں جوں وقت گزرتا چلا گیا تو ہم نے محسوس کیا کہ کہانی میں واقعیت ہونی چاہئے۔یعنی Realismآنا چاہئے،کہانی زندگی کے مانند ہونی چاہئے۔جب آدمی بھولا تھا بہت تو کہانیوں میں طلسم کو پسند کرتا تھا،کائیاں ہو گیا تو حقائق کی طرف آنے لگا،تو آج ہم دیکھتے ہیں ہم نے طلسم سے باہر آکے کہانی کوجتن کیا۔یوں تو اول میں درسیّت حائل رہی۔لوگوں کی یہ خواہش تھی کہ کہانی سے کوئی سبق ملے۔یہ اگرچہ کہ نیک خواہش ہے لیکن ضروری نہیں ہے کہ کہانی کو شعوری طور پر درسیّت سے ہی جوڑا جائے۔دلچسپیاں بھی چاہئے،حقائق کو اس طرح پیش کرنا کہ سننے والا پڑھنے والا کہانی سے اپنے نتائج خود اخذ کرنے کے قابل ہو سکے۔اس طریقے سے کہانی کی شکل بدلتی چلی گئی۔روایت جو تشکیل پاتی ہے،دھیرے دھیرے اپنی شکل اختیار کرتی ہے۔یوں بھی نہیں کہ فوری طور پر یہ کہہ کر روایت کو کتم کرنا ہے۔۔۔اس سے بھی نقصان کا اندیشہ رہتا ہے۔اور یہ بھی ہے کہ ہم نے اس طرح لکھنا ہے جو آج سے کئی سال پہلے لکھا کرتے تھے،یا سو سال پہلے لکھا کرتے تھے۔زندگی کے ساتھ ساتھ کہانی بھی اپنی شکل بدلتی چلی گئی اور کہانی جو ہے وہ زندگی کی نمائندگی کرے۔بلکہ ہمیں کہانی کوزندگی کی متوازی سطح پر دیکھنا چاہئے،یعنی زندگی کا نعم البدل سمجھے کہ اس کو پیش کرنا ہے ۔تاکہ کہانی کار کی طرح پڑھنے والا اس کو پڑھ کر جئیے اور جی جی کر نہ صرف اپنے آپ نتائج اخذ کرے بلکہ اس کی ساری راہیں تخلیق کار کی طرح دریافت کر کے آگے بڑھے۔
سوال:پریم چند اور سجاد حیدر یلدرم نے اردو افسانے کو کونسی دشائیں بتلائی ہیں؟
جواب: یلدرم نئی کہانی کے قریب تر ہیں۔ان سے پہلے کہانیوں میں پریوں ،دیو کا ذکر ہوتا تھا،یلدرم نے انسانوں کی کہانیاں کہنی شروع کیں۔لیکن جب ہم پریم چند اور یلدرم کی کہانیوں کا سوچتے ہیں تو یلدرم کے یہاں ایک خوابناکی ہے۔خواب ناک کیفیت ہے جو کہ زندگی کی طرح ہوبہو جبر نہیں برتتی اور اس میں اپنی فکری رو میں بہتے چلے جانے کی زیادہ گنجائش ہے۔لیکن پریم چند کے یہاں جس طرح کی واقعیت آئی ،اگر چہ کہ ان کے یہاں بھی ایک آدرش کا پیچھا کرنا،یہ بات بنی رہتی ہے۔بہت سی کہانیوں میں،اوائل کی کہانیوں میں یہ چیز بہت زیادہ ہے کہ آدرش کہانی کو پیش کرنا۔پریم چند کی آخری کہانی’’کفن‘‘ نئے دور کی پہلی کہانی ہے۔
سوال:کیا ترقی پسند افسانے نے ملک کے معاشی و معاشرتی حالات و کوائف کوہی قلم بند کیا ہے یا تخلیقی جہات عطا کیا ہے؟اس سلسلے میں آپ کیا کہنا چاہیں گے؟
جواب: ترقی پسند دور کے ابتدائی حصے کا اگر تجزیہ کریں تو ایسا لگتا ہے کہ ان سے پہلے کہانی آگے پیچھے جا رہی تھی۔اس سے اس کو ایک مہذب تر پیرائے میں بیان کرنا اور زندگی کے ساتھ جوڑ کر پیش کرنا،یہ ناگزیر ہو گیا تھا۔یہ زندگی کے ساتھ جوڑ کر،جبر کو جھیل کر کہانی لکھنے کا ادراک جو ترقی پسند تحریک نے ہمیں دیا وہ قابل ستائش ہے
یعنی آپ دیکھئے’’کفن‘‘میں جو ترقی پسند تحریک نے ہمیں دیا وہ قابل ستائش ہے۔یعنی آپ دیکھئے ’’کفن‘‘میں ترقی پسند عناصرہیں۔اس کے بعد ’’انگارے‘‘کا آنا۔۔۔’’انگارے‘‘اس لیے اہم نہیں کہ اس میں Topnoutchکی کہانیاں تھیں۔ایسا نہیں ہے،’’انگارے‘‘میں کئی کہانیاں ڈھلی ہیں،لیکن ’’انگارے‘‘کا اہم تر حصہ یہ ہے کہ اسباب تو ہیں،واقعاتی،اس سے وسعت پیدا ہوئی۔واقعات میں بڑی دلفریب وسعت ہے۔کسی بھی موضوع کو لے کر جو زندگی کے ساتھ جڑا ہوا ہے ،آپ اپنی کہانی بُن سکتے ہیں۔تو یہ رنگا رنگی عنوانات کی،کہانیوں میں یہ ’’انگارے‘‘ سے آئی۔منٹو کرشن چندر کو ترقی پسند تحریک کا دولہا کہتے ہیں،کیونکہ اس نے مسائل کا عام طور پر راست تذکرہ کیا۔اس سے فائدے اور نقسانات جتنے پہنچ سکتے ہیں وہ سب کرشن چندر کے یہاں ہیں۔مثلاََ’’اَن داتا‘‘ میں بنگال کے قحط کا ذکر روا رکھا تھاجو اس وقت ہر بنگالی کے ساتھ بیتی تھی۔در اصل بڑا فنکار وہ ہوتا ہے جو اپنے دور کو بھی پیدا کرتا ہے اور اپنے دور کی پیداوار بھی ہوتا ہے۔تو کرشن چندر اپنے دور کی پیداوار بھی تھا۔اُس زمانے میں سب سے بڑا با کمال فنکار سعادت ھسن منٹو تھا۔اُپندر ناتھ اشک کے یہاں بھی کہانی کا ادراک کسی حد تک ملتا ہے لیکن اس میں بے کلی (منٹو جیسی) اس حد تک دکھائی نہیں دیتی۔عصمت چغتائی کے یہاں عورت کے مسائل تھے،وہ قابل ستائش ہیں۔ترقی پسند دور میں ہمیں بہت سی اچھی کہانیاں ملیں۔اس وجہ سے اس وقت اردو کہانی نے زندگی سے جوڑنا سیکھا۔جوڑنے کے بعد بڑی معصومیت سے شخصی کہانیاں جو ہیں ،اس نئے جبر سے گزر گزر کر بنتی چلی گئیں،ٹھیک تھا۔لیکن جب وہ تبلیغ پر اتر آئے،کہانی انحطاط کا شکار ہونے لگی۔تحریک میں زوال آگیا۔اس کے بعد پھر جدیدیت پسند لوگ آگئے۔
سوال:کیا ترقی پسند تحریک ،اشتراکیت کے منشور کے تحت ہی کام کرتی رہی ہے ،کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اس کے زوال کے اسباب یہی ہیں؟
جواب:ترقی پسند تحریک میں زیادہ تر لوگ اشتراکی تھے۔لیکن تحریک اشتراکیت کا راست ذریعہ بن گئی تو کہانی انحطاط پذیر ہونے لگی۔کہانی کسی سلوگن کا نام نہیں ہے ۔یعنی اگر ہم یہ کہیں کہ میں نے کہانی لکھی ہے،کہانی پڑھ کے قاری اپنے نتیجے آپ اخذ کرے تو صائب ہے وہ بات میں۔لیکن اگر میں راست اسے نعرہ بنا کر پیش کر رہا ہوں اور خواہش رکھتا ہوں کہ آپ اس نعرے میں شامل ہو جائیں تو سیدھا ہی سیاسی پارٹی کا ممبر بن کر اس کا کام کیوں نہ کیا جائے۔کہانی کا رول کیا ہے یہ سارے اسباب پیدا ہونے لگے ،جو ترقی پسند تحریک کی بعض سچائیاں ،بعض قدریں تھیں ان سے ہٹ کرفنی طور پر افادیت تھی اور وہ مشکوک ہونے لگی۔
سوال:کیا جدیدیت رجحان سے تحریک میں تبدیل ہو گئی؟
جواب: ہم جدیدیت کو تحریکی عمل کہہ سکتے ہیں۔ان دنوں آپ کے سر پر ایسابھوت سوار کیا گیا تھا کہ آپ نعرہ لگا کے کہانی میں،کمیونسٹ پارٹی کا مینی فیسٹو پیش کیجیے۔سیاسی عمل میں شامل ہو کر کہانیاں لکھئے ،جو غلط تھا۔اس کے خلاف تحریکی عمل کی ضرورت تھی۔جب جدیدیت پردے پر نظر آنے لگی بہت سے لکھنے والے خوش ہوئے۔چلئے اس سلوگن کو روکنے کا ایک عمل شروع ہوا ہے۔جدیدیت اصل میں ایک رجحان ہی ہے۔یعنی کہ میں کہتا ہوں کہ میں نے نجی طور پر زندگی کو بھوگا ہے۔کسی سچائی کے لیے۔وہ سچائی میری زندگی کے سیاق میں اس طرح شکل اختیار کر لیتی ہے جو عوامی نعرے میں منتقل نہیں ہو سکتی تو یہ ساری باتیں تو یہ ساریباتیں اپنی جگہ صحیح ہیں۔جدیدیت تحریکی عمل سے پیدا ہو کر بھی ایک رجحان ہی بنا ہے۔جدیدیت اصل میں ایک رجحان ہی ہے،تحریک نہیں ہے۔
سوال:کیا واقعی مابعد جدیدیت اردو ادب میں اپنی روپ ریکھائیں بنا رہی ہے؟
جواب:آپ کو سوچنا ہوگا کہ مابعد جدیدیت سے آپ کیا مطلب لیتے ہیں۔یعنی پہلے ترقی پسند تحریک،جدیدیت ایک رجحان کے طور پرتو مابعد جدیدیت میں ہم جن باتوں کا ذکر روا رکھتے ہیں وہ در اصل اپنے بنیادوں پر جدیدیت کا حصہ ہیں۔مثلاََ کوئی کہانی ہے،نعرہ اس میں نہیں ،وارداتیں ہونی چاہئیں۔مابعد جدیدیت کا اصرار ہے کہ کہانی صرف وہی نہیں جو فنکار نے دی ہے،اُس میں قاری شامل ہوجاتا ہے۔قاری اپنے معانی ،اس کہانی کو عطا کرتا ہے جو ہو سکتا ہے کہانی لکھنے والے سے یکسر مختلف ہوں۔یعنی میں نے ایک خاص واردات کے تحت کسی کہانی کو رچا ہے،آپ نے اسے پڑھتے ہوئے اپنے تلازموں میں کچھ اس طرح بسا لیا ہے کہ کہانی میں آپ کو اپنے معانی نظر آنے لگتے ہیں۔یہ بھی جدیدیت کا کاصا تھا جسے واضح خطوط میں ما بعد جدیدیت نے پیش کیا۔جدیدیت فنکار کی آزادی کے طور پر آئی تھی تو مابعد جدیدیت کا یہی اصرار ہے کہ پوری آزادیاں روا رکھی جائیں۔قدروں کا پاس رکھنے کے باوجود آپ کسی قدر کو جب جبر کے طور پر برتنے لگے تو وہ فن کا حصہ نہیں بن پائے گی۔یہ ساری باتیں جو جدیدیت کی تھیں مابعد جدیدیت کا جو لیول تھیوری کی سطح پر ،عملی سطح پر ما بعد جدیدیت میں ان پر اصرار ہونے لگا۔یہ باتیں اپنی بنیاد میں جدیدیت میں بھی تھیں اور کسی حد تک زندگی سے جڑنے پر جو اصرار ہے ما بعد جدیدیت میں،کسی حد ترقی پسندوں میں تھا۔ لیکن ان ساری چیزوں میں ترمیم واقع کرنے،ایک ایسی ادا سے پیش کرنا کہ پہلے جو کنفیوژن واقع ہو گئے تھے،انہیں صاف کردیا۔ مابعد جدیدیت میں جتنی باتیں آرہی ہیں میرا خیال ہے کہ یہ باتیں ترقی پسند،جدیدیت اور کلاسیکی دور کی دین ہیں۔میں سمجھتا ہوں مابعد جدیدیت اس لیے اہم ہے کہ اس نے اولین دور کے طلسمانہ ترقی پسند دور کے نعرے بازی کو دور کیا اور اوڑھے ہوئے مصنوعی رویے جدیدیت کے جو تھے،ان سے بھی فنکار کو باہر لانے کا جتن کیا۔
سوال:آپ نے اپنے فن و فکر کو کس رجحان یا تحریک سے وابستہ کیا ہے؟
جواب:میں اپنے آپ کو کسی تحریک سے وابستہ نہیں سمجھتا۔ترقی پسند دور کو بہت اہم سمجھتا ہوں۔وہ اس طرح سے کہ انہوں نے زندگی کے اس کو جوڑا۔لیکن میں نے یہ محسوس کیاکہ ان کے یہاں بھی تحریکی کھٹ کھٹ پیدا ہونے لگی ہے ۔نعرے میں وہ بٹنے لگے ہیں تو میں نے محسوس کیا کہ میں ان نعروں میں شامل ہونا پسند نہیں کروں گا۔جدیدیت کا دور آیا تو مجھے بڑی خوشی ہوئی ۔انہوں نے جو علم بلند کیا ہے نعرہ بازیکے خلاف ،اس کو دیکھ کر مجھے ڈھارس سی بندھی۔لیکن انہوں نے بھی علَم اس طرح کھڑا کیا کہ تحریکی لہجہ اختیار کر لیا۔تحریکی لہجہ اختیار کرتے کرتے وہ جو ترقی پسند تحریک میں بعض سطحیں پیدا ہوئی تھیں،جو غیر خوشگوار تھیں،یہاں بھی وہ سطحیں پیدا ہونے لگیں۔ میں ذاتی طور پر اپنی آزادیوں کو محفوظ رکھنا چاہتا ہوں۔ایک فنکار کی حیثیت سے میرا یہ اصرار ہے کہ میں خالص واردات پر جانا چاہتا ہوں۔میرا جو ادب ہے وہ زندگی نمائندگی نہیں کرتا۔وہ زندگی کی ایک متوازی شکل ہے ،ہوبہو زندگی ہے۔جب آپ یہ کہتے ہیں کہ ادب زندگی کی نمائندگی کرتا ہے تو آپ ایک کنفیوژن پیدا کرتے ہیں۔ایک رپورٹ پیش کرکے بھی زندگی کی نمائندگی کر سکتے ہیں۔لیکن میں زندگی کو اس کی پوری دھڑکن سے اٹھا کے اسے متوازی زندگی میں پیش نہ کر سکوں تو مین سمجھتا ہوں کہ زندگی میں پوری طرح مطمئن نہیں ہو پاؤں گا۔میرے یہاں آرٹ ایک متوازی زندگی کی شکل ہے۔
سوال:آپ کے افسانوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ہر افسانہ ایک نئی تیکنیک کے ساتھ تخلیق ہوتا ہے،کیا یہ سچ ہے؟
جواب:تیکنیک از کود کوئی شئے نہیں ہے۔تیکنیک لاد کر اگر کوئی لکھتا ہے مثلاَ بیانیہ،علامتی،تجریدی لکھتاہے تو اس کا الگ ڈھنگ ہو گاجیسے زندگی میں ساری چیزیں ہوبہو نظر آنے کے باوجود جب آپ بڑے دھیان سے دیکھتے ہیں تو اپنے آپ کو شامل کرتے ہیں،اس میں کہیں تجریدی بن جاتی ہے،کہیں لگتا ہے کہ اسے بیان کیا جا رہا ہے ،کہیں یوں لگتا ہے کہ وہ تصویر ہے پوری،ٹھوس اور صاف صاف نظر آرہی ہے۔کہیں لگتا ہے کہ اشاریہ سا ہے جو بہت دور تک لے جاتا ہے۔تو اسی طرح آپ اپنی کہانی کے فنی تقاضوں کو محسوس کرکے اسے یہ شکل دیتے ہیں۔وہ اصل ہیئت میں آجاتی ہے۔اس کی طبع زادہیئت کو دریافت کر لیتے ہیں تو آپ کی کہانی میں آوازیں شامل ہو جاتی ہیں۔وہ بسنے لگتی ہیں۔کہانی میں ہمیں کوئی تیکنیک پیش کرنا نہیں ہوتا ہے بلکہ کسی تیکنیک کے توسط سے کہانی کو بسنا ہوتا ہے۔
سوال:آپ کے افسانے بالخصوص ’بستیاں‘میں شامل افسانے کھلے ڈلے انداز میں تخلیق ہوئے ہیں۔اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟
جواب: یہ وجہ تو آپ ڈھونڈیں۔میں کوشش کرتا ہوں کہ شروع سے ہی کھلے ڈلے انداز میں لکھوں۔آسکر وائلڈ نے کہا تھا کہ فنکار میں دھیرے دھیرے سوجھ بوجھ نہیں آتی بلکہ یکلخت آجاتی ہے۔میں اس کو غلط سمجھتا ہوں۔میرا خیال ہے کہ آپ کو ایک عمر درکار ہوتی ہے۔سوچنے اور سمجھنے کے لیے،آپ کسی چیز کے اندر گھستے چلے جاتے ہیں۔آپ کے ادراک میں وسعت پیدا ہوتی ہے اور آپ کو ضرورتیں دریافت کرنے میں وہ دقت شائد پیش نہیں آتی جو پہلے پیش آتی تھی،تو اس دور میں مجھے لگتا ہے کہ سب کچھ واضح خطوط میں نظر آنے لگتا تھاجو شاید کبھی کوشش سے نظر آتا تھا۔فنکار کو اس حوصلے کے بغیر چارہ نہیں کہ اپنی ناکامیوں کو قبول کرے۔بڑے سے بڑا ’اچیومنٹ‘ بھی
اپنی ناکامیوں کے ادراک کی بدولت نصیب ہوتا ہے۔کامیابیاں تو آپ آسانی سے حاصل کر سکتے ہیں۔لیکن اچیو (Achieve) کرنا،ناکامیوں کے ادراک کے بغیر ممکن نہیں۔یہی ادراک ہر فنکار اپنی آنے والی نسل کو سونپ کر مرتا ہے۔مگر اس نسل کا حاصل بھی وہی ہوگا کہ اگلی نسل کو کچھ دے۔اس طرح سے زندگی کا تسلسل رہتاہے اور اس طرح زندگی جو ہے خوبصورت تر ہوتی چلی جاتی ہے۔
سوال:افسانچوں کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟آپ کے افسانچوں کے تین مجموعے ’سلوٹیں‘،’کتھا نگر‘اور’پرندے‘(۱)منظر عام پر آچکے ہیں آپ مجھے یہ بتائیں کہ افسانچے کو اردو میں کیوں فروغ نہیں مل سکا اور اس کی کیا وجوہات ہو سکتی ہیں؟
جواب:پہلی بات تو آپ کا یہ کہنا کہ فروغ نہیں مل سکا،شروع میں یہ سچ ہے کہ لوگ اس طرف متوجہ نہیں ہو پا رہے تھے۔اب میں دیکھ رہا ہوں کہ بہت سے لوگ اس میں شامل ہو رہے ہیں۔اور میں سمجھتا ہوں کہ اس میں ان کی سوجھ بوجھ کا حصہ ہے کہ ’اَن کہی‘ کی بدولت وہاں تک پہنچیں جو کہنا چاہتے ہیں۔نئی تنقید کا خاصہ ہے کہ پڑھنے والا بھی تخلیق کار ہوتا ہے۔کہانی کو پڑھ کر کہانی کتاب پر ختم نہیں ہوتی۔کہانی وہاں سے شروع ہوتی ہے پڑھنے والے کے ذہن میں جہاں سے کتاب میں ختم ہوئی تھی۔تو اگر اس بات کو ذہن میں رکھیں تو افسانچہ کا بہت بڑا رول ہے یعنی افسانچہ میں ساری باتیں تو نہیں کہی جاتیں ،ایک نکتہ پر لا کرفنکار وہ ساری باتیں آپ پر چھوڑ دیتا ہے کہ آگے آپ تخلیق کریں۔افسانچہ نگار جو ہے اس اعتبار سے قاری کو اس کی تخلیق کاری کا پورا موقع عطا کرتا ہے کہ وہ اپنے تلازموں میں رکھ رکھ کر کہانی کو مکمل کرتا ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ آنے والے دور میں افسانچہ کی اہمیت بڑھتی ہی چلی جائے گی۔
سوال:آپ کے ناول نئی تیکنیک اور نئی فکر کے ساتھ صفحۂ قرطاس پر اُترے ہیں،کیا وجہ ہے کہ اردو دنیا نے اس طرح سے نہیں دیکھا جس طرح سے ہندی اور انگریزی والوں نے دیکھا ہے۔ویسے اردو ناقدین نے بھی خوب خوب لکھا ہے مگر قاری نے اس طرف توجہ نہیں دی،کیا وجہ ہو سکتی ہے؟
جواب: کوئی بھی کتاب اگر ذی جان ہے تو دھیرے دھیرے بڑی ہوتی ہے۔اشتہار کی بدولت جو کتابیں راتوں رات بڑی ہو جاتی ہیں،عام طور پر بہت اہم کتابیں نہیں ہیں۔کلاسیک کا تصور جو ذہنوں میں ہے کہ فلاں کتاب کلاسیک کا درجہ اختیار کر گئی تو کیونکہ اس کو ایک طویل عرصہ لگا۔بڑی کتاب جو رائٹر کی طرف سے لکھی جاتی ہے اور جسے پڑھنے والے بھی ایک طرح سے لکھ رہے ہوتے ہیں،اپنا شعور اس میں شامل کر کے،تو کلاسیک ہمیشہ بنتے بنتے بنتا ہے۔کوئی بھی اہم کتاب جو ہے اس کا معیار یہ ہے کہ وقت کی خلیج کو پاٹ سکے۔وقت گزرنے کے بعدبھی لوگ اس میں شامل ہوتے چلے جائیں۔شامل ہونے کے ان کے مفاہیم بھی اس میں شامل ہوتے چلے جائیں گیتو وہ کلاسیک کا درجہ اختیار کرکے بڑی کتاب بنے گی۔اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ کسی بھی رائٹر کو حوصلہ مند ہونا پڑتا ہے اور انتظار کرنا پڑتا ہے کہ شاید وہ کتاب اس کی موت کے بعداہم ہو۔ایک اچھی کتاب لکھنے کے لیے رائٹر کو اچھا ہونا پڑتا ہے۔اسی طرح ایک اچھی کتاب پڑھنے کے لیے ایک قاری کو بھی اچھا قاری ہونا پڑتا ہے۔اچھے قاری با اتفاق پیدا نہیں ہوتے اور اچھے لکھنے والے بھی با اتفاق پیدا نہیں ہوتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۱)اب تک جوگندر پال کے افسانچوں کا ایک اور مجموعہ’’نہیں،رحمن بابو‘‘بھی شائع ہو چکا ہے(ادارہ جدید ادب)
’’بسا اوقات جب میں زندگی کے تجربات سے گزرتا ہوں تو مجھے ایسا لگتا ہے جیسے میں کہانی لکھنے کے عمل سے گزر رہاہوں،اور جب میں کہانی لکھ رہا ہوتا ہوں تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میں واقعتاََ اس سارے عمل سے گزر ہا ہوں۔‘‘
(جوگندر پال سے گفتگو از سکریتا ۔ انگریزی میں ہوئے انٹرویو سے اقتباس بحوالہ’بے اصطلاح‘)