سجاد ظہیر
لکھنؤ اس زوال کی حالت میں بھی علوم اسلامیہ کا مرکز ہے۔ متعدد عربی مدارس آج کل کے پُر آشوب زمانے میں شمع ہدایت روشن کئے ہوئے ہیں۔ ہندوستان کے ہر گوشہ سے حرارت ایمانی رکھنے والے قلوب یہاں آ کر تحصیلِ علم دین کرتے ہیں اور اسلام کی عظمت قائم رکھنے میں معین ہوتے ہیں۔ بد قسمتی سے وہ دو فرقہ جن کے مدارس لکھنؤ میں ہیں ایک دوسرے کو جہنمی سمجھتے ہیں۔ مگر اگر ہم اپنی آنکھوں سے اس فرقہ بندی کی عینک اُتار دیں اور ٹھنڈے دل سے ان دونوں گروہ کے اساتذہ اور طلبا پر نظر ڈالیں تو ہم ان سب کے چہروں پر اُس ایمانی نور کی جھلک پائینگے جس سے اُن کے دل و دماغ منوّر ہیں۔ ان کے لمبے کرتے اور قبائیں ان کی کفش اور سلیپر، ان کی دو پَلّی ٹوپیاں، ان کا گھٹا ہوا گول سر اور ان کی متبرک داڑھیاں جن کے ایک ایک بال کو حوریں اپنی آنکھوں سے ملیں گی، ان سب سے ان کا تقدس اور زہد ٹپکتا ہے۔ مولوی محمد داؤد صاحب برسوں سے ایک مدرسہ میں درس دیتے تھے اور اپنی ذہانت کیلئے مشہور تھے۔ عبادت گزاری کا یہ عالم تھا کہ ماہِ مبارک رمضان میں رات کی رات، تلاوت و نماز خوانی میں گزر جاتی تھی اور انھیں خبر تک نہ ہوتی۔ دوسرے دن جب دورانِ درس میں نیند کا غلبہ ہوتا تھا تو طالب علم سمجھتے تھے کہ مولانا پر کیف روحانی طاری ہے اور خاموشی سے اُٹھ کر چلے جاتے۔
رمضان کا مبارک مہینہ ہر مسلمان کے لئے رحمتِ الٰہی ہے۔ علی الخصوص جب رمضان مئی اور جون کے لمبے دن اور تپتی ہوئی دھوپ کے ساتھ ساتھ پڑے۔ ظاہر ہے کہ انسان جس قدر تکلیف برداشت کرتا ہے اسی قدر زیادہ ثواب کا مستحق ہوتا ہے۔ ان شدید گرمی کے دنوں میں اللہ کا ہر نیک بندہ مثل ایک بپھرے ہوئے شیر کے ہوتا ہے جو راہ خدا میں جہاد کرتا ہو۔ اس کا خشک چہرہ اور اس کی دھنسی ہوئی آنکھیں پکار پکار کر کہتی ہیں کہ :’’ اے وہ گروہ جو ایمان نہیں لاتے اور اے بد نصیبو!جن کے ایمان ڈگمگا رہے ہیں، دیکھو ! ہماری صورت دیکھو ! اور شرمندہ ہو۔ تمھارے دلوں پر، تمھاری سماعت پر اور تمھاری بصارت پر اللہ پاک نے مہر لگا دی ہے، مگر وہ جن کے دل خوفِ خدا سے تھرّا رہے ہیں، اس طرح اس کی فرماں برداری کرتے ہیں۔‘‘
یوں تو ماہِ مبارک کا ہر دن اور ہر رات عبادت کے لئے ہے مگر سب سے زیادہ فضیلت شبِ قدر کی ہے۔ اُس رات کو بارگاہِ خداوندی کے دروازے اجابتِ دعا کے لئے کھول دیے جاتے ہیں، گناہ گاروں کی توبہ قبول کر لی جاتی ہے اور مومنین بے حدو حساب ثواب لوٹتے ہیں۔ خوش نصیب ہیں وہ بندے جو اس شب مسعود کو نماز خوانی اور تلاوتِ قرآن مجید میں بسر کرتے ہیں۔ مولوی داؤد صاحب کبھی ایسے اچھے موقعوں پر کوتاہی نہ کرتے تھے۔ انسان ہر ہر لمحہ اور ساعت میں نہ معلوم کتنے گناہوں کا مرتکب ہوتا ہے۔ اچھے بُرے ہزاروں خیال دماغ سے گزر تے ہیں۔ قیامت کے ہولناک دن جب ہر شخص کے گناہ اور ثواب تولے جائیں گے اور رتّی رتّی کا حساب دینا ہوگا تو کیا معلوم کیا نتیجہ ہو ۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ جتنا زیادہ ثواب ممکن ہو حاصل کر لیا جائے۔ مولوی داؤد صاحب کو جب لوگ منع کرتے تھے کہ اس قدر زیادہ ریاضت نہ کیا کریں۔ تو وہ ہمیشہ یہی جواب دیتے۔
مولانا کا سن کوئی پچاس سال کا ہوگا، گو کہ پستہ قد تھے مگر توانا۔ گندمی رنگ، تِکُنّی داڑھی، بال کھچڑی تھے۔ مولانا کی شادی اُنیس یا بیس برس کے سن میں ہو گئی تھے۔ آٹھویں بچّے کی ولادت کے وقت ان کی پہلی بیوی کا انتقال ہو گیا۔ دو سال بعد اُنچاس برس کے سن میں مولانا نے دوسرا نکاح کیا۔ مگر ان نئی منکوحہ کی وجہ سے مولانا کی جان ضیق میں رہتی۔ ان کے اور مولوی داؤد صاحب کے سن میں قریب بیس برس کا فرق تھا۔ گو کہ مولانا انھیں یقین دلایا کرتے تھے کہ ان کی داڑھی کے چند بال بلغم کی وجہ سے سفید ہو گئے ہیں، لیکن ان کی جوان بیوی فوراََ دوسرے ثبوت پیش کرتیں اور مولانا کو چپ ہو جانا پڑتا ۔
ایک سال کے شدید انتظار کے بعد شبِ قدر پھر آئی۔ افطار کے بعد مولانا گھنٹے آدھ گھنٹے لیٹے، اس کے بعد غسل کر کے مسجد میں نمازو دعا خوانی کے لئے فوراَ روانہ ہو گئے۔ مسجد میں مسلمانوں کا ہجوم تھا۔ اللہ کے عقید تمند اور نیک بندے،تہبندیں باندھے، لمبی لمبی ڈکاریں لیتے ہوئے مولانا داؤد صاحب سے مصافحہ کرنے کے لئے لپکے۔ مولانا کے چہرے سے نور ٹپک رہا تھا، اور اُن کا عصا گویا اُن کے ایمان کی راستی کا شاہد بن کر سارے مجمع کو مرعوب کر رہا تھا۔ عشا کے بعد ڈیڑھ دو بجے رات تک اکتساب ثواب کا ایک لگاتار سلسلہ رہا، اس کے بعد سَحر گہی کی حاضر لذّت سے جسم نے نمو پائی اور مولانا گھر واپس چلے۔ جماہی پر جماہی چلی آتی تھی، شیر مال، پلاؤ اور کھیر سے بھرا ہوا معدہ آرام ڈھونڈھ رہا تھا۔ خدا خدا کر کے مولانا گھر واپس پہونچے۔۔روح اور جسم کے درمیان سخت جنگ جا ری تھے۔ لیلتہ القدر کے دو تین گھنٹے ابھی باقی تھے جو عبادت میں بسر کئے جا سکتے تھے۔ مگر جسم کو بھی سکون اور نیند کی بے انتہا خواہش تھی۔ آخر کار اس پرانے زاہد نے روحانیت کا دامن تھام لیا اور آنکھیں مل کر نیند بھگانے کی کوشش کی۔
گھر میں اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ لالٹین بجھی پڑی تھی۔ مولانا نے دیا سلائی اِدھر اُدھر ٹٹولی مگر وہ نہ ملنا تھی نہ ملی۔ صحن کے ایک کونے میں ان کی بیوی کا پلنگ تھا، مولاناد بے قدم، ڈرتے ڈرتے، اُدھر بڑھے اور آہستہ سے بیوی کا شانہ ہلایا۔ گرمیوں کی تاروں بھری رات، اور پچھلے پہر کی خنکی میں مولوی صاحب کی جوان بیوی گہری نیند سو رہی تھیں۔ آخر کار اُنھوں نے کروٹ بدلی، اور آدھے جاگتے، آدھے سوتے ہوئے، دھیمی آواز سے پوچھا : اے کیا ہے ؟‘‘
مولانا اس نرم آواز کے سُننے کے عادی نہ تھے ہمت کر کے ایک لفظ بولے: ’’دیا سلائی !‘‘ مولوی صاحب کی بیوی پر ابھی تک نیند غالب تھی مگر اس نیم بیداری کے عالم میں، رات کی تاریکی، ستاروں کی جگمگاہٹ، اور ہوا کی خنکی نے شباب پر اپنا طلسم کر دیا تھا۔ یک بارگی اُنھوں نے مولانا کا ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف کھینچا اور اُن کے گلے میں دونوں باہیں ڈال کر، اپنے گال کو اُن کے منہ پر رکھ کر، لمبی لمبی سانسیں لیتے ہوئے کہا : ’’آؤ لیٹو۔ ‘‘
ایک لمحہ کے لئے مولانا کا بھی دل پھڑک گیا۔ مگر دوسرے لمحہ میں انھیں حوا کی آرزو، آدم کا پہلا گناہ، زلیخا کا عشق، یوسف کی چاک دامانی،غرض عورت کے گناہوں کی پوری فہرست یاد آگئی اور اپنے پر قابو ہو گیا۔ چاہے یہ سن کا تقاضہ ہو، یا خوفِ خدا، یا روحانیت کے سبب ہو، بہر حال مولانا فوراَاپنی بیوی کے ہاتھ سے نکل کر اُٹھ کھڑے ہوئے، اور پتلی آواز سے پھر پوچھا : دیا سلائی کہاں ہے؟
ایک منٹ میں عورت کی نیند اور اُس کی بے ساختہ خواہش کی اُمنگ، دونوں غائب ہو کر طنز آمیز غصّہ سے بدل گئیں۔ مولانا کی بیوی پلنگ پر اُٹھ بیٹھیں، اور زہر سے بجھی ہوئی زبان سے ایک ایک لفظ تول تول کر کہا: ’’بڈ ھا موا !آٹھ بچوں کا باپ ! بڑا نمازی بنا ہے!رات کی نیند حرام کردی۔دیا سلائی، دیا سلائی ! طاق پر پڑی ہوگی ۔‘‘
ایک مسُن مرد کا دل دُکھانے کے لئے اِس سے زیادہ تکلیف دہ کچھ نہیں کہ اُس کی جوان بیوی اُسے بُڈھا کہے۔ مولانا کانپ گئے مگر کچھ بولے نہیں۔ اُنھوں نے لالٹین جلا کر ایک تخت پر جا نماز بچھائی اور قرآن خوانی میں مشغول ہو گئے۔ مولانا کی نیند تو اُڑ گئی تھی مگر تقریباَ آدھے گھنٹہ کے بعد بھرے ہوئے معد ے کے بخارات نے جسم کو چور کر کے آنکھوں کو دبا نا شروع کیا۔ سُورہ رحمن کی فصاحت اور مولانا کی دلآویز قرأت نے لوری کا کام کیا۔ تین چار مرتبہ اونگھ کر مولانا جا نماز ہی پر ’’ فَبِاَیِّ ۔ اَیِّ کہتے کہتے سو گئے۔
پہلے تو ان پر نیند کی گم شدگی طاری رہی، اس کے بعد اُنھوں نے یکا یک محسوس کیا کہ وہ اکیلے ، تنِ تنہا، ایک تاریک میدان میں کھڑے ہوئے اور خوف سے کانپ رہے ہیں۔ تھوڑی دیر کے بعد یہ اندھیرا روشنی سے بدلنے لگا اور کسی نے اِن کے پہلو سے کہا: ’’سجدہ کر تو بارگاہ باری تعالیٰ میں ہے۔‘‘ کہنے کی دیر تھی کہ مولوی سجدے میں گر پڑا اور ایک دل دہلادینے والی آواز، بادل کی گرج کی طرح، چاروں طرف گونجتی ہوئی مولوی کے کان تک آئی: ’’میرے بندے ہم تجھ سے خوش ہیں ! تو ہماری اطاعت میں تمام زندگی اس قدر محو رہا کہ کبھی تونے اپنی عقل اور اپنے خیال کو جنبش تک نہ دی جو دونوں شیطانی طاقتیں ہیں اور کفر و الحاد کی جڑ ہیں ! انسانی سمجھ ایمان و اعتقاد کی دشمن ہے۔ تو اس راز کو خوب سمجھا اور تونے کبھی نورِ ایمان کو عقل کے زنگ سے تاریک نہ ہونے دیا۔ تیرا انعام جنت ابدی ہے۔ جس میں تیری ہر خواہش پوری کی جائے گی۔‘‘ آواز یہ کہہ کر خاموش ہو گئی۔
تھوڑی مدت تک تو مولوی پر رعبِ خداوندی اس قدر غالب رہا کہ سجدے سے سر اُٹھانے کی ہمّت نہ ہوئی۔ کچھ دیر بعد جب دل کی دھڑکن کم ہوئی تو انھوں نے لیٹے لیٹے کن انکھیوں سے اپنے داہنے، بائیں نظر ڈالی۔ اِن آنکھوں نے کچھ اور ہی منظر دیکھا۔ سنسان میدا ن ایک عظیم الشان گول کمرے سے بدل گیا تھا۔ اس کمرے کی دیواریں جواہرات کی تھیں، جن پر عجیب و غریب نقش و نگار بنے ہوئے تھے، سُرخ،سبز، زرد، سنہرے اور روپہلے، جگمگاتے ہوئے پھول اور پھل ،معلوم ہوتا تھا در دیوار سے ٹپکے پڑتے ہیں۔ روشنی دیواروں سے چَھن چھن کر آ رہی تھی، لیکن ایسی روشنی جس سے آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچے، مولانا اُٹھ بیٹھے اور چاروں طرف نظر دوڑائی۔
عجب ! عجب ! ہر چہار طرف کمرے کی دیوار پر کوئی ساٹھ یا ستّر قدِ آدم کھڑکیاں تھیں اور ہر کھڑکی کے سامنے ایک چھوٹا سا دریچہ۔ ہر ایک دریچہ پر ایک حور کھڑی ہوئی تھی۔ مولانا جس طرف نظر پھیرتے حوریں اُن کی طرف دیکھ کر مسکراتیں اور دلآویز اشارے کرتیں۔ مگر مولانا جھینپ کر آنکھیں جھکا لیتے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دفعتہ مولانا نے اپنے جسم پر جو نظر ڈالی تو وہ خود بھی اس نورانی جامے میں تھے۔ گھبرا کر انھوں نے اِدھر اُدھر دیکھا کہ کوئی ہنس تو نہیں رہا ہے، مگر سوا ان حوروں کے اور کوئی بھی نظر نہ آیا۔ دُنیا کی شرم گو کہ بالکل غائب نہیں ہوئی تھی، لیکن اس کے وجود کی سب سے بڑی وجہ یعنی اغیار کا طنز و تمسخر جنّت میں کہیں نام کو بھی نہ تھا۔ مولانا کی گھبراہٹ کم ہوئی۔ اُن کی رگوں میں جوانی کا خون از سر نو دوڑ رہا تھا۔ وہ جوانی جس کا زوال نہیں !
مولانا نے اپنی داڑھی پر ہاتھ پھیرا اور مسکراتے ہوئے ایک کھڑکی کی طرف بڑھے۔ حور آگے بڑھی اور اُنھوں نے اُس پر سر سے پیر تک نظر ڈالی۔ اُس کے جسم کا دہکتا ہوا چمپئی رنگ، اُس کی کٹیلی آنکھیں، اُس کا دل فریب تبسم، اِس جنّتِ نگاہ سے مولانا کی آنکھیں ہٹتی ہی نہ تھیں ۔ لیکن انسان ایک اچھی چیز سے بھلا کب سیر ہوتا ہے۔ مولانا کے قدم اُٹھے اور وہ دوسرے در کی طرف بڑھے۔ اسی طرح وہ ہر در پر جا کر تھوڑی تھوڑی دیر رُکتے، ان بہشتی ہستیوں ۔۔۔ کو غور سے دیکھتے اور مسکرا کر درود پڑھتے ہوئے آگے بڑھ جاتے۔ کسی کے گھونگھر والے بالوں کی سیاہی انھیں سب سے زیادہ پسند آتی، کسی کے گلابی گال، کسی کے عنابی ہونٹ، کسی کی متناسب ٹانگیں، کسی کی پتلی انگلیاں، کسی کی خمار آلود آنکھیں، کسی کی ۔۔!
آخر کار ایک حور کی پیاری ادا نے مولانا کا دل موہ لیا۔ وہ فوراَ اُچک کر اُس کے حجرے میں داخل ہوئے اور اُسے بے ساختہ اپنے سینے سے لگا لیا۔ مگر ابھی لب سے لب ملے ہی تھے کہ پیچھے سے قہقہے کی آواز آئی۔ اس بے موقعہ ہنسی پر مولانا کے غصہ کی کوئی انتہا نہ رہی۔ ان کی آنکھ کھل گئی۔ سُورج نکل آیا تھا۔ مولانا جانماز پر پیٹ کے بَل پڑے ہوئے قرآن کریم کو سینے سے لگائے تھے۔ ان کی بیوی پہلو میں کھڑی ہنس رہی تھیں۔ ٭٭٭
’’مشکوٰۃ صفحہ۳۰میں حضرت علیؓ سے ایک حدیث مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ لوگوں پر عنقریب ایسا زمانہ آئے گا کہ اسلام کا نام رہ جائے گا اور قرآن کا رسمِ خط،اس وقت کے مولوی آسمان کے تلے بد ترین مخلوق ہوں گے۔سارا فتنہ فساد انہی کی وجہ سے ہو گا۔‘‘ (مطبوعہ اخبار اہلحدیث امرت سر،۲۵؍اپریل ۱۹۳۰ء ،ص ۵،کالم اوّل)