سجاد ظہیر
جب تم اپنے پھول جیسے بچوں کو
سکھ کی نیند سوتے دیکھو
جب پرسکون دل سے
فرصت کے اوقات میں
دوستوں کے حلقے میں بیٹھ کر
تم ادھرادھر کی؍غیر اہم دلچسپ گفتگو کرو
جب تمہارے دل کی دھڑکن کی گونج
دنیا جہان کے؍سب سے اچھے
سنگیت کی طرح
اس دوسرے سینے سے بھی
سنائی پڑے؍اور تمہیں ایسا لگے
کہ سب آسمانی دروازے؍کھل گئے
اور اچانک تم پر نور کی بارش
ہونے لگی
اور جب تم امن وامان کے
رو پہلے ماحول میں
محنت کے خون کی گردش کو
دور دور تک پھیلی ہر یالی
اور کنک کی سنہری بالیوں
کارخانوں فیکٹریوں اور مِلوں
اور راتوں کی تنہائی میں
کام کرنے والے سائنس دانوں کی
بنائی ہوئی چیزوں میں؍بدلتے دیکھو
اور شاعروں، ادیبوں اور کلاکاروں کی
رچناؤں سے
تمہارے سپنے میں
رنگ سنگیت اور خوشبو کی لہریں
اٹھنے لگیں؍تب اس سمے
ایشیا کے اس چھوٹے سے ملک
ویت نام کے بارے میں سوچو
جہاں ہمارے ہی دیش سے
شاکیہ منی کے بھکشو
اس مشقت، محنت اور سنگھرش
کے پسینے سے نمی حاصل کرتے ہیں
جو گرے ہوئے مظلوم انسانوں کو
آسمانی بلندیوں تک
پہونچانے کے لئے؍کی جاتی ہے
وہاں۔ اس زخموں کے باغ میں
آج ایسے ہی لہو رنگ پھول کھلے ہیں
فولادی ارادوں کی
سخت اور مشکل چٹانوں کی
تلوارسے زیادہ تیز بلندیوں پر نکلے
نایاب پھول !
مہیب ، اندوہناک، اندھیروں کی ہار
اور انسان کے طربناک؍عروج ۔ضمانت !
پریم اہنسا اور کرونا کا سندیش
لے کر گئے تھے
اور جہاں آج
ہزاروں میل سے آئے
منحوس فوجی قدموں نے
ماؤں سے ان کی مسکراہٹ
اور سب لوگو ں سے
ان کی خوشی چھین لی ہے
اور جیون کے سوتوں میں
زہر گھول دیا ہے؍لیکن سینے کے زخم
کبھی کبھی پھول بھی بن جاتے ہیں
بیش بہا، پاک پھول
جب وہ آزادی کے سورج سے روشنی
رفاقت اور محبت کی
دہکی آگ سے گرمی(پاتے ہیں!)