بات چیت : علی احمد فاطمی (الٰہ آباد)
سجاد ظہیر کے حوالے سے
فراق ؔ گورکھپوری سے انٹر ویو لینے جب میں ان کے دولت کدہ پر پہنچا تو خلاف امید وہ اس دن کچھ زیادہ ہی بشاش نظر آ رہے تھے۔ مجھے قدرے تسکین ہوئی۔ کیوں کہ فراقؔ صاحب سے اس طرح کی باتیں کرنے کے لئے ان کے موڈ کو دیکھنا اور پھر اس کو بنانا پڑتا ہے۔ وہ گدے دار کرسی پر دراز تھے۔ کنگ سائز سگریٹ ان کے ہونٹوں میں دبا ہوا تھا۔ چائے کی پیالی میز پر رکھی ہوئی تھی اور اخبار زانوں پر پھیلا ہوا تھا۔
حسب عادت انھوں نے شعبۂ انگریزی کی خیریت پوچھی ، الہ آباد یونیورسٹی کا حال جانا اور پھر ادھراُدھر کی باتوں میں گم ہو گئے۔ میں نے ماحول خوش گوار پایا اور مقصد کی طرف رجوع ہوتے ہوئے بات چھیڑ دی۔
حضور ! آپ سے سجاد ظہیر کے سلسلے میں کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں آپ کو اگر زحمت نہ ہو تو—– ‘‘
’’کیوں بھئی خیریت تو ہے — کیا ریسرچ کا موضوع بدل دیا ہے۔‘‘
نہیں نہیں در اصل بات یہ ہے کہ حیاتؔ کا سجاد ظہیرؔ نمبر نکل رہا ہے اسی نمبر کے لئے سجاد ظہیر کے بارے میں آپ کے کچھ تاثرات جاننا چاہتا ہوں۔
’’ارے بھئی– اب یادرفتگاں کی بھی طاقت نہیں رہی — اسی ۸۰سال کا ہو گیا ہوں، میرا بھائی تو ۶۱سال میں چل بسا، دوسرا بھائی بیما ر چل رہا ہے۔‘‘ انھوں نے یہ جملے بڑے دکھ کے ساتھ ادا کئے اور پھر بولنے لگے۔
سجاد ظہیر، سروزیر حسن کے لڑکے تھے۔ ان کے والد کچھ طبقاتی کمزوریوں کے باوجود ایک عظیم آدمی تھے۔ الہ آباد کے مشاہیر میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ ہم لوگوں کے یہاں سے آمد و رفت تھی۔ بس انھیں کے ذریعے سجاد ظہیر سے ملاقات ہوئی۔ شروع شروع میں سجاد ظہیر سے کم ان کے دوسرے بھائیوں سے زیادہ اچھے تعلقات رہے۔ لیکن رفتہ رفتہ میں اپنے آپ یہ محسوس کرنے لگا کہ میرا ذہنی جھکاؤ سجاد ظہیر کی طرف ہوتا جا رہا ہے۔ بعد میں تو سجاد ظہیر سے ایسے تعلقات ہو گئے کہ میں انھیں کلیجے کا ٹکڑا سمجھتا رہا– بڑا افسوس ہوا مجھے ان کے انتقال کا ۔‘‘
سوال :- ’’جی ہاں، سجاد ظہیر کا انتقال یقینا ایک سانحہ تھا۔ آپ کو سجاد ظہیر صاحب میں کیا پسند آیا۔ ان کی شخصیت یا تحریر—- ؟ ‘‘
کاپنتے ہوئے ہاتھ پیالی کی طرف بڑھے۔ چائے تھر تھرا اٹھی اور آخری گھونٹ ان کے حلق تک جا پہونچا، سگریٹ بجھ چکی تھی، انھوں نے اس کو دوبارہ جلایا اور ایک طویل کش فضا میں تیر گیا۔ اور وہ کہنے لگے۔
جواب:۔ ’’بھئی — سجاد ظہیر کی شخصیت ان کی تمام چیزوں پر بھاری تھی۔ ظہیرؔ میں ایک عجیب مقناطیسی کشش تھی، اتنا پیا ر،اتنا اخلاص اور اتنی مسکراہٹ میں نے آج تک کسی کے چہرے پر نہیں دیکھی– ایک عجیب شکل میں لوگ ان کے بارے میں محسوس کرتے اور سوچتے تھے کہ کیا دلکش چیز ہے یہ سجاد ظہیر بھی۔ سجاد ظہیر نے اگرچہ لکھنے پر زیادہ زور نہ دیا۔ مگر مجھے ان کی تحریر زیادہ پسند ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ سجاد ظہیر ایک نہ تھے بلکہ دو تھے۔ پہلے Loverاور دوسرے Lover Workerوہ ادیب کی حیثیت سے زیادہ رہے اور Workerوہ عوا م میں رہے۔
سوال : فراقؔ صاحب ، جب آپ ان کی تحریرکو اس قدر پسند کرتے ہیں تو آپ کو ان کی تخلیقات میں سب سے زیادہ کیا چیز پسند آئی ؟‘‘
جواب : ’’حافظؔ پر ان کی کتاب میرے خیال میں سب سے اچھی ہے جو ان کی شعر فہمی اور سخن فہمی کی صلاحیتوں کی زبردست مثال ہے۔‘‘
سوال : ایک بات اسی سلسلے میں آپ سے اور دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ جب آپ نے ان کی شعر فہمی اور سخن فہمی کی صلاحیت کو تسلیم کیا ہے تو آپ کی شاعری کے بارے میں کبھی سجاد ظہیر صاحب نے اپنی ناقدانہ رائے اپنی تحریر یا تقریر میں ظاہر کی یا آپ سے کبھی اس بارے میں زبانی بات چیت کی ہے۔ انھوں نے کیا رائے دی ؟‘‘
شاید یہ سوال دلچسپ تھا بڑی سنجیدگی سے کہنے لگے۔
جواب:۔ ’’مجھے اپنی زندگی میں اپنی شاعری کے اتنے بڑے قدر شناس اور قدر دان شاید ایک دو ملے ہوں جتنے بڑے قدر دان سجاد ظہیر تھے۔ میرے ایک مصرعہ کو ایک بار میرے ہی اوپر چسپاں کر دیا
ع میں ایسا وقت ہوں جس کا کبھی گھٹنا نہیں ممکن
اور سجاد ظہیر نے اپنے اخبار میں لکھا تھا۔ ’’ فراقؔ تم ایسا وقت ہو جس کا گھٹنا ممکن نہیں۔‘‘ سخن فہمی میں بنے کے برابر کم ہی لوگ ہوئے ہیں۔ حافظؔ پر ان کی کتاب اس بات کا ثبوت ہے۔ بہت سے ترقی پسندوں میں، میں نے ایک بات محسوس کی ہے کہ وہ ہر ادبی تخلیق میں کوئی پیغام یا سیاسی تحریک ڈھونڈتے ہیں۔ سجاد ظہیر اس نقطۂ نظرسے بہت بلند تھے اور اسی بات نے ان کو حافظؔ کا اتنا پر ستار بنا دیا۔ خود میری شاعری میں کہیں پیغام ہے اور وہ مقصد ی بھی ہے لیکن زیادہ تر خالص جمالیاتی ہے۔ جہاں تک میرا ذہن کام کر رہا ہے میری نظم ’’شام عیادت‘‘ کا سب سے پہلا ریویو ظہیر نے اپنے اخبار میں کیا۔ اسی سے ان کی سخن فہمی کا پتہ چلتا ہے۔ ایک جگہ انھوں نے میری شاعری کے بارے میں لکھا تھا کہ ’’فراقؔ کے بعض اشعار نشتر ہوتے ہیں اور بعض بلا وجہ استادی کے لئے کہے ہیں۔‘‘میں نے یہ جملہ پڑھا تو چالیس ۴۰شعر کہہ کر بھیج دئے اور لکھ دیا کہ جو چاہو کاٹ دو جو چاہو چھاپ دو۔ انھوں نے پوری غزل چھاپ دی۔ ایک شعراسی غزل کا یاد آ رہا ہے، لکھ لو
کسی نے نیم نگاہی سے مجھ کو دیکھا تھا یہ زندگی ہے اسی زخم نا تمام کی یاد
اس کے علاوہ میری بعض دوسری غزلیں بھی ان کو بہت پسند تھیں۔ خاص طور سے میری اس غزل کو بہت پسند کرتے تھے
شام بھی تھی دھواں دھواں حسن بھی تھا اداس اداس
دل کو کئی کہانیاں یاد سی آکے رہ گئیں
اور یہ شعر تو ان کو بہت ہی پسند تھا
مجھ کو خراب کر گئیں نیم نگاہیاں تری
مجھ سے حیات وموت بھی آنکھیں چرا کے رہ گئیں
سوال : – سجاد ظہیرؔ کے بارے میں کچھ اور بتایئے آپ تو ان سے بہت قریب رہے ہیں۔‘‘
جواب : سجاد ظہیر میں کوئی چھوٹی بات نہ تھی۔ وہ کسی معاملے میں چھوٹے پن کے ساتھ قطعی نہ سوچتے تھے۔ آج تک کوئی خوردبین ایجاد نہیں ہوئی جس سے ان کی شخصیت میں، ان کے عمل میں، ان کے نظریے میں چھوٹا پن نظر آ سکے۔ لڑکپن میں لیڈری اور دلفریبی کی ہر آن ان کی پیشانی پر تھی۔ذرا سی دیر میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو جمع کرنا ان کے لئے بہت آسان تھا۔ لکھنؤ کی راتیں سجاد ظہیر کے سلسلے میں یادگار رہیں گی۔ آج تک میں فیصلہ نہ کر سکا کہ اس سے اچھا آدمی میں نے اپنی زندگی میں دیکھا بھی ہے یا نہیں۔ میرے اچھے دوستوں میں مجنوںؔ اور جوشؔ رہے لیکن اتنی کشش ان دونوں میں بھی نہ تھی۔یہاں تک کہ جواہر لال نہرو، موتی لال نہرو، یا کسی بڑے آدمی میں بھی میں نے ایسی بلا کی کشش نہیں پائی۔ ایسی ہر دل عزیز شخصیت کا دشمن ہونا اس آدمی کے لئے بھی ممکن نہیں جو اس کا دشمن ہو۔‘‘
’’بس حضور ! ایک چھوٹا سا سوال اور عرض ہے۔‘‘
’’پوچھو بھئی۔ ’’انھوں نے کچھ مخمور انداز میں کہا۔
’’جس وقت آپ نے سجاد ظہیر کے انتقال کی خبر سنی تو آپ کا کیا رد عمل رہا۔‘‘
’’جب میں نے سجاد ظہیر کی موت کی خبر سنی تو بہت غمگین ہو گیا۔ بڑی دیر تک یہ سوچتا رہا، ایک نہایت قابل قدر ہندوستانی اور ایک بہت اچھا دوست اور ایک Born and Highly gifted Leaderاب ہمارے درمیان نہیں رہا۔
باتیں تو شاید اور بھی ہو سکتی تھیں لیکن اب میں ان کو زحمت دینا مناسب نہیں سمجھ رہا تھا۔ کیوں کہ اب وہ کچھ تھکے تھکے سے نظر آ رہے تھے۔ اس لئے اجازت لے کر رخصت ہوا۔