ممتاز انور
پوری اردو شاعری میں عام طور پر اور ترقی پسند شاعری میں خاص طور پررات اور دن کا استعمال علامت کے طور پر خوب کیا گیا ہے۔ رات ، غلامی پستی ظلم و ستم اور بدحالی کی علامت اور دن آزادی، امن، چین، خوشحالی وغیرہ کی علامت۔ دن اور رات، علم اور جہالت ،اندھیرا اور اجالا، صبح اور شام، تاریکی اور روشنی وغیرہ کا جن حالات کے پیش نظر جہاں کہیں بھی ہمارے ادیبوں اور شاعروں نے علامت کے طور پر استعمال کیا ہے ان حالات تک ہمارے ذہن کو پہنچنے میں کسی طرف کی دشواری پیش نہیں آتی۔ لندن کی ایک رات کے شروع میں ہی اگر دیکھا جائے تو اندھیرا اور روشنی کا بطور علامت بڑی خوبصورتی سے استعمال ہوا ہے۔
’اندھیرے اور روشنی میں معلوم یہ ہوتا ہے کہ لڑائی ہو رہی ہو‘۔ اب اگر آپ ۱۹۳۶ء کے ہندوستان اور پوری دنیا کے حالات پر نگاہ ڈالیں تو اس اندھیرے اور روشنی کے بیچ محسوس کی جانے والی لڑائی کا اندازہ خود بہ خود ہو جائیگا۔ شائد یہ ہی وجہ ہے کہ یہ ناولٹ محض کسی ایک رات کی پارٹی کا قصہ نہیں معلوم ہوتا بلکہ اس میں رات کی تاریکی میں روشن خیال زندگی کا ایک اہم اور لمبا سفر طے کیا گیا ہے جو شام سے شروع ہوتا ہے اور صبح کی پھیکی روشنی پر آکر رکتا ہے۔
’’آسمان کے ایک کونے کی تاریکی سے پردوں کو پھاڑ کر روشنی جھانک رہی تھی۔ ۔۔۔ صبح کی پھیکی روشنی چور کی طرح کھڑکی کے راستے سے دبے قدم اندر آنے لگی۔‘‘
لندن کی ایک رات کا مصنف چونکہ ہندوستانی ہے لہٰذا لندن میں رہتے ہوئے اس نے ہندوستان کی تاریکی کا سفر طے کیا۔ تاریکی کا یہ سفر اس نے یورپ میں چلنے والی انقلابی ہواؤں کے دوش پر سوار ہوکر کیا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ناولٹ کافی جوشیلا اور دلچسپ ثابت ہوا ہے۔ اب اگر اس ناولٹ کے لکھے جانے کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ یہ وہ زمانہ ہے جب ہندوستان میں ترقی پسند تحریک کی پہلی کامیاب کانفرنس ہو رہی ہے اور ملک کی تحریک آزادی دھیرے دھیرے اپنی منزل کی طرف بڑھ رہی ہے۔عوام انگریزوں کی غلامی سے چھٹکارہ پانے کے لئے جد و جہد کر رہے تھے۔ ترقی پسند تحریک نے ایک نئے جوش اور منظم فکر کے ساتھ تحریک آزادی میں حصہ لینا اپنا فرض سمجھا۔ ترقی پسند تحریک کیسے اور کیوں وجود میں آئی یہ جاننے کے لئے ایسا لگتا ہے کہ صرف روشنائی کا مطالعہ کافی نہیں۔بلکہ یہ جاننے کے لئے ہمیں روشنائی کے ساتھ ساتھ لندن کی ایک رات کا بھی بغور مطالعہ کرنا چاہئے۔
ناولٹ کی شروعات بڑی عمدہ منظر کشی کے ساتھ ہوتی ہے۔ لندن ایک نہایت گھنے زردی مائل گاڑھے تاریک کہرے سے ڈھکا ہے۔ دن کا تیسرا پہر بھیانک رات میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ اوس کی مہین مہین بوندیں ہر چیز پر جمی ہوئی ہیں۔ اس اندھیری اورتکلیف دہ سردی میں زندگی کس طرح رواں دواں رہتی ہے، ناولٹ کی یہ منظر کشی قاری کو بہت متاثر کرتی ہے۔ حالات کیسے بھی ہوں وقت کبھی نہیں رکتا۔ جو لوگ وقت کی قدر و قیمت جانتے ہیں انکی زندگی بھی وقت کے ساتھ رواں دواں رہتی ہے۔ برے حالات میں بھی وہ پیچھے مڑ کر دیکھنا گوارا نہیں کرتے۔ یہ جملے دیکھئے:
’’اس کیفیت کے باوجود لندن کی چہل پہل میں کوئی کمی نہ تھی۔ دوکانیں روشن اور سڑکیں موٹروں لاریوں اور بسوں سے بھری ہوتی ہیں۔کنارے کی پٹڑی جہاں لوگ پیدل چلتے ہیں۔ دفتروں سے نکلے ہوئے لوگ ،منشی ، محرر، کاروباری، ٹائپ کرنے والی لڑکیاں، طالب علم اور چھوٹے کارخانوں میں کام کرنے والے مرد اور عورتیں تیز تیز قدم بڑھاتے ہوئے چلے جا رہے تھے۔ ‘‘
آخر کیوں آج کی ترقی کی دوڑ میں یورپ سب سے آگے ہے۔ کیوں کہ وہاں کے لوگ وقت کی قدر و قیمت جانتے ہیں۔ وہاں جہالت بھی کم ہے۔ وہ یہ جانتے ہیں کہ تاریک زندگی کو روشن اور رواں دواں کیسے بنایا جاتا ہے۔ لہٰذازندہ قومیں محنت و مشقت سے نہیں گھبراتیں اس کے بر عکس جو قومیں مردہ ہوتی ہیں انھیں بالکل بھی وقت کی اہمیت کا اندازہ نہیں ہوتا۔وہ تاریکی سے مقابلہ کرنے کے بجائے اس سے ڈر کر اپنے آپ کو اس کے حوالے کر دیتی ہیں۔ ان کے اندر محنت و مشقت کا جذبہ بھی مر جاتا ہے۔ لہٰذا ایسی قومیں زندگی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ جاتی ہیں۔
یورپ کی آب و ہوا کو لے کر ایک اور سوال ابھرتا ہے کہ آخر وہاں کیا ہے اور وہاں کی آب و ہوا کی تاثیر کیا ہے۔ اکثر وہاں جانے والے ہندوستانی طالب علموں کی فکر میں تبدیلی آ جاتی ہے۔ علامہ اقبال بھی یورپ جانے کے بعد کہتے ہیں کہ یہاں کی آب و ہوا نے مجھے مسلمان بنا دیا۔ آخر اس بیداری کی وجہ کیا ہے۔ میرا اپنا خیال ہے کہ جب ہندوستان کا طالب علم یورپ کا سفر کرتا ہے تو اسے اپنے ملک و قوم کو دور سے دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ کچھ بے رحم حقیقتیں ایسی ہوتی ہیں جو قریب سے نظر نہیں آتیں۔ ہم جس زندگی میں جیتے ہیں اکثر اسی کو سب کچھ سمجھ بیٹھتے ہیں۔ لیکن جب ہمیں دوسروں کی زندگی کو دیکھنے کا موقع ملتا ہے تب ہمیں اپنی زندگی کا صحیح اندازہ ہو پاتا ہے۔یورپ جاکر ہندوستانی طالب علموں کو جو تلخ تجربے ہوتے ہیں وہ انھیں چونکاتے ہیں۔
ناولٹ کا ایک روشن پہلو یہ ہے کہ اس نے ادب میں رائج عشق و عاشقی کے روایتی تصور کو ہی بدل کر رکھ دیا جو آگے چل کر ترقی پسندوں کا سب سے بڑا وصف ثابت ہوا۔ اس تصور نے عاشق کے دل میں ایک لڑکی کی جگہ ملک قوم اور پوری کائنات کی تصویر ابھار دی۔ فیضؔ نے یوں ہی تو نہیں کہا تھا
اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا
ناولٹ سے مثال کے طور پر شیلا کی زبانی ہیرن کے یہ جملے ملاحظہ کیجئے:
’’تم بار بار مجھ سے کیوں کہلوانا چاہتی ہو کہ انسانی زندگی کا دائرہ صرف عشق و عاشقی تک محدود نہیں ۔ کیا اس کے علاوہ اور بہت سے مسائل اور بہت سی دلچسپ اور غیر دلچسپ چیزیں نہیں ہیں جن سے ہم وابستہ ہیں؟‘‘
ناولٹ میں ’پوری دنیا کے مزدور ایک ہوں‘ والا نظریہ بھی صاف طور پر نظر آتا ہے۔ لندن کا انگریز مزدور جب ہندوستانی مزدور کی موت کی خبر سنتا ہے تو اسکے اندر بھی ایک بے چینی پیدا ہو جاتی ہے۔ لندن کے مزدور کی عالمانہ گفتگو ناولٹ کا ایک روشن حصہ ہے۔ لندن کے مزدور کا یہ سوچنا، جب ہم اپنے ملک پر کسی دوسرے ملک کی حکومت برداشت نہیں کر سکتے تو پھر دوسروں کے ملک پر ہماری حکومت کیوں قائم ہو؟ کیوں نہیں ہندوستانیوں کو انکا ملک سونپ دیا جاتا؟ لندن کے یہ انگریز مزدور حکمران انگریز وں کے رویوں کی مذمت اور انکے ظلم کی مخالفت کرتے ہیں۔ انگریز جو ظلم کرتے تھے اور یہ کہتے تھے کہ میری وجہ سے ہی ہندوستان میں امن قائم ہے اس بات پر سوالیہ نشان ایک انگریز مزدور ہی لگاتا ہے اور دھوکے کی بنیاد پر قائم انگریزوں کی حکومت کا پردہ فاش کرتا ہے۔
اعظم، راؤ، نعیم ، شیلا اور کریم جیسے طالب علموں کے بیچ مشرق اور مغرب میں پھیلی برائیوں کو لے کر ہونے والی دانشورانہ گفتگو ادب میں ایک نئی بحث کو جنم دیتی ہے۔ دوران گفتگو یہ سوال بھی ابھرتے ہیں کہ اچھائی اور برائی کا معیار کیا ہے؟ کون اس بات کا فیصلہ کریگا کہ فلاں رسم اچھی ہے اور فلاں رسم بری؟ہر انسان کو اس بات کی پوری آزادی ہے کہ وہ اپنی پسند اور نا پسند کا اظہار کرے۔ اور یہ بھی سچ ہے کہ ہر انسان کی پسند اور نا پسند اس کی تہذیب اور اس کی ثقافتی زندگی سے متاثر ہوتی ہے۔ ظاہر طور پر کچھ لوگ کریم کی طرح دوسری تہذیب میں ڈھل جاتے ہیں پھر بھی ان کی ذہنیت اپنے کلچر سے جڑی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان کبھی ظاہر میں کچھ ہوتا ہے اور باطن میں کچھ۔ اس بحث سے جو روشنی چھن کر آتی ہے وہ یہ کہ کسی چیز کی اندھی تقلید نہیں کرنی چاہئے۔ عقل جس کام کے لئے اجازت دے بس وہی کام کرنا چاہئے۔
ناولٹ کے اس سفر کا ایک اور روشن پہلو اس وقت سامنے آتا ہے جب متوسط گھرانے سے تعلق رکھنے والے ہندوستانی طالب علم اپنے بارے میں بھی باتیں کرتے ہیں۔ ان طالب علموں کو اس بات کا احساس تھا کہ وہ کس پس منظر سے تعلق رکھتے ہیں وہ لوگ اسی لئے اپنی زندگی اور حرکت و عمل پر تنقید کرتے ہیں۔
’’ہماری حیثیت کسی طرح چوروں اور ڈاکوؤں سے کم نہیں، کون کہہ سکتا ہے کہ ہندوستان کی دولت جو ہم یہاں لٹا رہے ہیں ہم کو اس کا حق ہے۔ ہماری زندگی سے ہندوستان کو کیا فائدہ پہنچ رہا ہے۔‘‘
دراصل مصنف نے متوسط گھرانے کے نوجوانوں کے بدلتے ہوئے رجحان پر روشنی ڈالی ہے۔ ساتھ ہی وہ اس ناولٹ کے ذریعے نو جوانوں کی سوچ بدلنے کا کام لینا چاہتا ہے۔ مصنف نے ان نوجوانوں کی اور طالب علموں کی اصلاح اور حوصلہ افزائی کرنے کی بھی وکالت کی ہے کہ جن کے اندر ذرا سا بھی مظلوم اور غلام ہندوستانیوں کی بے بسی اور بے کیفی کا احساس کیا جاتا ہے ۔
’’ہم ان کو اس راستے کی طرف لانے میں مدد دیں جدھر زندگی کی روشنی ہے۔ جدھرتکلیف اور مصیبت اور مشکل تو ضرور ہے لیکن موت کا گھٹا ٹوپ اندھیرا نہیں۔ جدھر ہر بیہودہ بے حسی کا نام خوشی نہیں ہے بلکہ جدھر مسرت کا ایک نیا احساس ہے۔ قدرت کی اندھی طاقتوں کو زیر کرنے کی مسرت ۔ انسانوں کو بے شعوری، بد نظمی اور خود غرضی کی بربریت سے نکال کر ایک منظم ، مہذب ،متمدن دنیا بنانے کی مسرت ،محنت اور مشقت کی مسرت۔‘‘
ہندوستان کی بے رحم اور تلخ حقیقتوں و تاریکیوں کے بیچ سے بھی مصنف نے ایک روشن و تابناک پہلو اجاگر کیا ہے جس میں ہندوستان کی حیات اور ثقافت کی جھلک پائی جاتی ہے۔
’’ تصویر کا ایک دوسرا رخ بھی ہے وہاں بہت سی چیزیں بھی ہیں۔ شام کے وقت جب برسات میں سورج ڈوبتا ہے اور آسمان پر آگ لگ جاتی ہے اور جب چاندنی نکلتی ہے اور ہمارے ملک کے ہرے بھرے کھیتوں اور سر سبز میدانوں کے بیچ سے گذرتے ہوئے دریا پگھلی ہوئی چاندی کی ایک تھرائی ہوئی درخشاں لکیر بن جاتے ہیں اور اس ملک کے کروڑوں محنت کرنے والے انسان جو اپنی غریبی اور غلامی کی زنجیروں کو توڑ دینا چاہتے ہیں یہ سب بیش بہا ہے۔‘‘
اس مضمون میں لندن کی ایک رات کا مطالعہ سرسری اور خارجی سطح پر ہی کیا گیا ہے اور ناولٹ کے چند اہم روشن پہلوؤں کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے حالانکہ اس کا مطالعہ اس کی تہہ میں جاکر کرنا چاہئے۔ کیوں کہ اس ناولٹ کی تہہ میں ہی اس کے اصل راز پوشیدہ ہیں۔آخر میں اپنے مطالعہ کی بنیادپر عرض کروں کہ نا امیدی سے امید کا ، جہالت سے علم و دانش کا، غلامی سے آزادی کا، شام سے صبح کا یہ لمبا سفر ناول میں بڑی خوبصورتی سے طے کیا گیا ہے ۔ اس سفر میں زندگی کی چہل پہل بھی ہے اور سکوت و خاموشی بھی۔ فکر و فلسفہ بھی ہے اور عشق و محبت کی داستان بھی، وصل کی خوشی بھی ہے تو جدائی کا غم بھی۔ زندگی کی بھیڑ بھاڑ بھی ہے اور اکیلاپن و سونا پن بھی۔ مغرب و مشرق کی تہذیب و ثقافت بھی اور مادیت و روحانیت بھی۔ اگر اس کے ماضی میں روس کا انقلاب ہے تو مستقبل میں ہندوستان کی آزادی ہے۔ اس میں اعلیٰ طبقے کی بے رحمی و بے حسی بھی ہے اور نچلے طبقے کی بے بسی و بے کسی بھی ۔ بے روزگار نوجوانوں کی بے چینی بھی ہے اور متوسط طبقے کے نوجوانوں کی کش مکش بھی ۔ اگر اس ناولٹ پر مغربی فن کے اثرات ہیں تو مشرقی فکر کے اثرات بھی نمایا ں ہیں۔ کرداروں میں نیا پن ہے اور ناولٹ کا سب سے بڑا وصف یہ ہے کہ اس میں اشتراکی رجحان شروع سے آخر تک موجود ہے۔
٭٭٭
کل ہند انجمن ترقی پسند مصنفین
سجاد ظہیر کا سب سے عظیم کارنامہ
’’سجاد ظہیر کا سب سے عظیم کارنامہ کل ہند انجمن ترقی پسند مصنفین کا قیام ہے جس میں عصر حاضر کے تمام مشہور اور ممتاز ادیب شامل ہوئے اور نوجوان ابھرتے قلم کار بھی۔ اس تحریک کو ٹیگور، نہرو، اقبال، سروجنی نائڈو، پریم چند جیسی شخصیتوں کا آشیرواد اور نیک تمنائیں حاصل تھیں۔یہ ہندوستان کی تاریخ میں سب سے بڑی ادبی تحریک تھی جو ملک کی تمام زبانوں کو اپنی آغوش محبت میں سمیٹے ہوئے تھی اتنا زبردست تہذیبی ابھار اس سے پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔‘‘ (سردار جعفری)
مارچ ۱۹۵۳ء میں دہلی میں ہوئی
کل ہند انجمن ترقی پسند مصنفین کانفرنس
’’اس کانفرنس میں گوپال متّل شریک تو نہیں ہوئے لیکن وہ آس پاس گھومتے پھرتے یا لان میں بیٹھے ہوئے دکھائی دیتے۔یہ بات مشہور ہو گئی تھی کہ وہ امریکی امداد سے ترقی پسندوں کے خلاف ایک رسالہ نکالنے جا رہے ہیں۔میں نے یہی بات ان سے دریافت کی ۔ان کے چہرے پر ناگواری کے اثرات ظاہر ہوئے۔کہنے لگے کہ جو بھی ترقی پسندوں کی آمریت کے خلاف کچھ بولتا یا لکھتا ہے اسے امریکی ایجنٹ قرار دے دیا جاتا ہے۔دوسرے مہینے ’’تحریک‘‘ کا پہلا شمارہ منظر عام پر آگیا‘‘
(مظہر امام کے خاکوں کے مجموعہ اکثر یاد آتے ہیں سے اقتباس)