ڈاکٹر صالحہ زریں
منشی پریم چند کے ناول’’ گؤدان‘‘ کے بعد سجاد ظہیر کا ناول ’لندن کی ایک رات‘ اردو ناول نگار ی کی تاریخ میں ایک خاص اہمیت کا حامل ہے۔اس ناول سے اردو میں جدید ناول نگاری کی ابتدا ہوتی ہے۔ ’لندن کی ایک رات‘ میں صرف ایک رات کا ذکر ملتا ہے۔ اس ایک رات میں سارے کردار مکمل طریقے سے ہمارے سامنے آتے ہیں۔ قاری صرف اُن کی نفسیات سے ہی واقف نہیں ہوتا بلکہ پورے ماضی سے واقف ہو جاتا ہے اور حال سے روشنی حاصل کر لیتا ہے۔ نعیمؔ اور شیلا گرینؔ کی ملاقات اور اُس کی گفتگو سے متاثر ہو کر خیالات کی رو میں بہہ نکلتا ہے۔ اور شعور کے پردے پر اپنا عکس ڈالتا ہے۔ وہ شیلا سے محبت کرتا ہے۔ اُس سے زندگی، ادب، سائنس، فلسفہ، شعریات سیاسیات غرض سبھی موضوعات پر دلچسپ گفتگو کرتا ہے ۔ یہ گفتگو پڑھے لکھے اور سوچے سمجھے انداز کی ہوتی ہے۔
یوں تو کچھ ہندوستانی طلباء لندن تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے گئے تھے ہر طبقے کے نوجوان ،ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگ جن میں ہندو، مسلمان، بنگالی جین، پارسی وغیرہ شامل تھے۔ لندن جانے سے قبل وہ سوچتے تھے کہ وہاں پر خوب عیش و عشرت او رسیرو تفریح ہو گی۔ اور تقریباَ سبھی لوگوں کا تعلق امیر طبقے سے ہوگا۔ لیکن اصلاَ ایسا کچھ نہیں تھا۔ انہیں وہاں کے لوگوں میں بھی عمل و حرکت نظر آئی۔
یہ سارے نوجوان لندن کی چہل پہل چمک، دمک، رنگینیوں میں کھو جانے کے باوجود بھی ہندوستان کی تحریکوں میں شریک اور کروڑوں مزدوروں کسانوں عام انسانوں کے ساتھ ساتھ سانس لیتے ہیں۔ اور ان کی دل کی دھڑکن اور حرارت کو محسوس کرتے ہیں۔ یہ سبھی نوجوان الگ الگ نوکری اور پیشے سے تعلق رکھتے ہیں۔ کوئی ساہوکار کے گھر سے تو کوئی دولت مند طبقے سے، کوئی وکیل ، ڈاکٹر انجینئیر وغیرہ۔ ان سبھوں کی نسل و قوم بھی مختلف ہے۔ یہ سب اعلیٰ تعلیم اور اعلیٰ ڈگریاں حاصل کرنے کی غرض سے آئے ہیں۔مختلف طبقہ اور مختلف نسل، مختلف مذہب سے تعلق رکھنے کے باوجود بھی وہ سبھی ایک ذہن ہو کر ہندوستان کے مسئلے پر ایک ہی طرح کی فکر رکھتے ہیں کہ ہندوستان کس طرح غلامی سے چھٹکارا پائے اور آزادی حاصل کرے۔
سجاد ظہیرؔ اپنے اس ناول میں داخلی خود کلامی کے ذریعہ کرداروں کو نمایاں کرنے کی کوشش میں کامیاب نظر آتے ہیں۔ اعظمؔ پوری طرح جینؔ کی محبت میں گرفتار ہے اُسے کسی طرح کی فکر نہیں کہ وطن میں کیا ہو رہا ہے لیکن راؤؔ کے مل جانے سے وہ سیاست اور ملک کی طرف مائل نظر آنے لگتا ہے۔ وہ ہندوستان کے حالات کے بارے میں راؤؔ سے سیاسی گفتگو کرتا ہے۔
’’وطن کی بھلائی کے لئے سب کو شاں ہیں۔ چرکھا کاتنے میں وطن کی بھلائی، مہاتما گاندھی کی سچ کی کھوج، اچھوت کانفرنس میں حصہ لینے میں وطن کی بھلائی، سرکاری ملازمت میں وطن کی بھلائی، ہندو مہاسبھا اور مسلم لیگ میں وطن کی بھلائی ہر شخص کے پاس وطن کی بھلائی کا ایک نسخہ ہے—— ہر شخص پکار کر یہ کہتا ہے کہ وطن کی بھلائی کے لئے کام کر رہا ہے۔ حد ہو گئی دیکھا دیکھی انگریز گورنمنٹ تک کہنے لگی کہ وہ ہندوستان کی بھلائی ہے ،اور ملک کی حالت کیا ہے۔ایک طرف تو غربت اور بھوک کا سایہ ملک پر پھیلتا جا رہا ہے۔ دوسری طرح ظلم و جبر کا جال چاروں طرف ہم کو جکڑ رہا ہے۔‘‘
اعظمؔ ہندوستان کی بدترین صورتِ حال، نا قابلِ اعتنا سیاسی حالات، منتشر فضاپر گہرا طنز کرتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ انگریز حکمراں اور سامراج کو بھی نہیں بخشتا۔ سجاد ظہیر لندن میں موجود ہندوستانی نوجوانوں کے نفسیاتی اور ذہنی فکر کو ہی نہیں بلکہ وہ اُن کے ذریعہ ہندوستان کے نوجوان کی ذہنی کشمکش، اُن کے سوچنے کے انداز اور مختلف رجحانات پر بھی روشنی ڈالتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ ان کی آپس کی بحثوں سے ہندوستان کے مسائل بھی اُبھر کر سامنے آتے ہیں۔
اُس وقت کا ہندوستان جن بدترین اور دشوار ترین انتشار کے حالات سے گزر رہا تھا۔ اور جو خیالات نوجوانوں کے دل و دماغ میں پرورش پا رہے تھے ناول میں جگہ جگہ نظر آتے ہیں کہ کس طرح نوجوانوں کا ذہن انقلابی رجحان اور تشدّد کی طرف راغب ہو رہا تھا۔ اور اشتراکی خیالات کی جڑیں مضبوط ہو رہی تھیں۔ اعظمؔ اور راؤؔ ایک پب میں جاتے ہیں تو وہاں جمؔ اور ٹامؔ انگریز ہندوستان کی سیاست کو موضوع بحث بناتے ہوئے نظر آتے ہیں — اس ناول کے ذریعہ سیاسی تبدیلی کی خواہش کو بھی پیش کیا گیا ہے۔ جیسا کہ فلپ ہنڈرسنؔ نے کہا ہے—
’’اپنے المناک اور باغیانہ عہد میں جہاں سیاست، اخلاقیات اور مذہب پر چھا گئی ہے۔ ہم اپنے ناول نگاروں سے سوائے اس کے کوئی اور توقع نہیں کر سکتے کہ وہ سیاسی تبدیلی کو اپنا مطمع نظر بنائیں‘‘
سجاد ظہیرؔ اس ناول میں مختلف اور متضاد، رجحانات رکھنے والے نوجوانوں کو پیش کرتے ہیں۔ راؤؔ قانون کی ڈگری لینے کے لئے لندن آتا ہے اور سیاست میں گہری دلچسپی رکھتا ہے۔ اپنے وطن ہندوستان سے اُسے گہرا لگاؤ ہے۔ انگریز حکومت کا غلام ہے، غلامی سے سخت نفرت کرتا ہے۔ اس نفرت کا اظہار اپنی بحث میں بڑے جوش و خروش سے کرتا ہے اور ہندوستانیوں کو کمزور ، ذلیل اور بزدل خیال کرتا ہے اس کے ساتھ ہی ساتھ راؤؔ کی نفسیاتی زندگی پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ راؤ اشتراکی رجحان تو رکھتا ہے لیکن وہ بنیادی طور پر تشکیک پسند ہے۔ لڑکیوں سے بہت جلد اس کی دوستی ہو جاتی ہے۔ کیوں کہ اس کی نظر میں زندگی کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
راؤؔبیسویں صدی کو جو گذشتہ جنگ میں ہونے والے، جنگ کے اثر سے اور جدید سائنسی نظریات کی وجہ سے انسانی عظمت کو ذلیل ترین شئے تصور کرتا ہے۔ کیوں کہ آئندہ زندگی میں وہ فیصلہ نہیں کر پاتا کہ کیا ہوگا۔ لیکن ان سب کے باوجود دوسری عالمی جنگ اور انقلاب نے بین الاقوامی سطح پر جو سیاسی اور سماجی اثرات مرتب کئے تھے۔ان سے براہ راست ہندوستان متاثر تھا۔۔ راؤ،ؔ اعظمؔ سے بات کرتے کرتے درمیان میں ہندوستان کے حالات اُس کی آنکھوں کے سامنے گھوم جاتے ہیں۔ وہاں کی جیتی جاگتی تصویریں نظر آنے لگتی ہیں۔۔
’’راؤؔ کی آنکھوں کے سامنے یکبارگی ہندوستانیوں کی ایک بھیڑ نظر آتی ہے جس میں زیادہ ترغریب میلے کچیلے کپڑے پہنے ہوئے لوگ تھے جن کے چہروں پر دھوپ ، ہوا، اور بھوک کے اثر سے جھرّیاں اور گڈّھے پڑے ہوئے تھے۔ جن کی آنکھوں میں محنت کی روشنی تھی جنکے کندھے جھکے ہوئے تھے جن کی ٹانگیں اُن کی میلی دھوتیوں سے لکڑی کی طرح نکلی ہوئیں تھیں گورے بندوقیں لئے ہوئے سامنے کھڑے ہیں، مشین گنیں ہیں۔ سنگین دھوپ میں چمک رہی ہے سپاہیوں کے پیچھے گھوڑوں پر سوار انگریزی افسر ،تیز دھوپ گرمی چہروں پر پسینے کے قطرے نمایاں ہیں —- آخر ہم لوگ آگے کیوں نہیں بڑھتے اتنی دور تک آئے اب رُکے ہوئے ہیں۔ ’’آگے بڑھو‘‘ ’’آگے بڑھو‘‘کی آواز یکبارگی اُس کے کانوں میں آئی اور سارے جسم میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ۔ ‘‘
ایک طرف تو راؤؔ کے ذہن میں ہندوستان کے ستم رسیدہ لوگوں کے مرجھائے ہوئے اور مایوس چہرے غربت زدہ نظر آتے ہیں تو دوسری طرف اُن پر ظلم کرنے والے انگریز حاکم ظالموں کی تصویریں گھوڑوں اور بندوقوں کی شکل میں پیش ہوتے ہیں۔ اور ساتھ ہی انگریز اُن سے مقابلہ کر کے انہیں شکست دے کر آزادی بھی حاصل کر لیتا ہے۔ پب میں انگریز جمؔ اور ٹامؔ ہندوستان میں پیدا کئے گئے ہندو مسلم تفرقہ اور وہاں کے کمزور لوگوں کے بارے میں طنز کرتے ہیں اور اخبار کے ذریعہ ہندوستان کے بگڑے ہوئے حالات پر تبصرہ کرتے ہیں۔ جم اورٹامؔ کی باتوں کو سن کر اعظم اور راؤؔ کا چہرہ غصہ سے سرخ ہونے لگتا ہے۔
راؤؔ کے بالکل بر عکس احسان ہے۔ جو پکّاا اشتراکی ہے۔ احسانؔ پنجاب کا رہنے والا۔ اس کی فکر انقلابی ہے لیکن سوچ اشتراکی ہے۔ اسے انگریز سامراج سے نفرت، غلامی سے عداوت، برائی سے چڑھ ہے۔ چاہے وہ ہندوستان کی ہو یا مغرب کی، وہ اندھی تقلید کے خلاف ہے ۔چاہتا ہے کہ جو ہندوستانی نوجوان تعلیم کی غرض سے یہاں آئے ہیں وہ یہاں کی رنگینیوں میں گم نہ ہو جائیں۔ بلکہ اپنی حیثیت کو پہچانیں اور ہندوستان کی پستی اور زوال پر نظر ڈالیں۔ ذاتی مفاد کو دور کر کے اصل مقصد کوذہن میں رکھیں اور بڑی بڑی تحریکوں میں حصہ لیں۔ اپنی دوربین نگاہوں سے احسانؔ ہندوستان کی آزادی کا خواب دیکھتا ہے، انگریز سامراج کے خلاف ہے اور کہتا ہے کہ سرمایہ داری زیادہ دیر تک قائم نہیں رہے گی۔
’’تم رئیس، بنئے، مہاجن، بیرسٹر، وکیل، ڈاکٹر، پروفیسر، انجینئیر، سرکاری نوکر جونک کی طرح ہو اور ہندوستان کے مزدوروں کااور کسانوں کا خون پی کر زندہ رہتے ہو۔ ایسی حالت قیامت تک نہ رہے گی۔ کسی نہ کسی دن تو ہندوستان کے لاکھوں کروڑوں مصیبت زدہ انسان خواب سے چونکیں گے پس اسی دن تم سب کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہو جائے گا ‘‘
احسانؔ کے خیال سے اتفاق رکھنے والا اُس کا دوست عارفؔ بھی ہے جو آئی۔ سی۔ایس۔ کے امتحان کی تیاری کر رہا ہے اس کی زندگی کا مقصد تو امتحان کی تیاری کرنا اور کامیابی حاصل کرنا اور اس کی عقل بھی سرکاری ہے۔ اپنی زندگی کا ہر لمحہ وہ مقصد کے پیچھے لگا دینا چاہتا ہے اعظمؔ کی طرح یہ بھی کسی لڑکی سے محبت کرنے لگتا ہے آخر کار دونوں کو اس کام میں ناکامیابی ہوتی ہے۔
یہ تمام نوجوان اپنے اپنے خیالات کا اظہار ہی نہیں بلکہ اُس دور کے ہندوستانی نوجوانوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اُن کے ذہنوں میں بیسویں صدی کا جدید ذہن کام کر رہا ہے جو کچھ تاریک ہے اور کچھ روشن بھی۔ پرانی قدروں کے چھن جانے پر جدید قدروں کی طرف سرگرداں نظر آتے ہیں۔ راؤؔ، عارفؔ اور احسانؔ سے کہتا ہے کہ تم اپنے ذاتی مفاد کو چھوڑ کر ملک اور دنیا کے مسائل کو سمجھو اور بڑی بڑی تحریکوں میں حصّہ لو۔ سچائی کے بوجھ کو برداشت کرنے کی قوت اپنے میں پیدا کرو۔ احسان ؔ کے جواب میں زیادہ سختی نظر آتی ہے۔ سرمایہ دار جن کا مقصد صرف روپیہ جمع کرنا ہے، عورت کے جسم کی خرید فروخت میں اپنا ذاتی ذہن بیچ دیتے ہیں۔ لیکن ان کے ذہن میں بڑی بڑی خوبیاں ہیں۔ جن کا استعمال یہ صحیح ڈھنگ سے نہیں کرتے۔ وہ روس کی اشتراکیت سے جلدی واقف نہیں ہو سکتے اور ان کا وجود نسلِ انسانی کی ترقی کے راستے میں حائل ہے۔ یہ تبدیلی اور سمجھ یکبارگی نہیں پیدا ہو سکتی۔ بلکہ آہستہ آہستہ ان کے دماغ اور جسمانی مشقت سے حاصل ہو سکتی ہے۔ اس ناول کے بارے میں پروفیسر احتشام حسینؔ کا خیال ہے کہ —–
’’نئے انداز کا پہلا ناول ’’لندن کی ایک رات‘‘ جس میں سجاد ؔظہیرنے یورپ کی کئی ایک اسالیب کا تجزیہ کیا ہے۔ مگر اس کی اہمیت صرف اس لئے نہیں ہے کہ اس کی تصنیف میں یورپ سے فیضان ملا ہے۔ بلکہ یہ پہلا ناول تھا ، جس میں ہندوستان کے نوجوانوں کے تصورات اور خواہشات کی یہاں کے سیاسی پس منظر میں دیکھا گیا ہے‘‘
ایک اور کردار ہیرن پالؔ جو بنگالی نوجوان ہے اور شیلاؔ سے محبت کرتا ہے۔ یہ انقلابی فکر رکھنے والا نوجوان ہے ۔سوئٹزرلینڈ میں ایک سال کی چھٹیاں گزارنے جاتا ہے۔ جہاں اُس کی ملاقات شیلاؔ سے ہو جاتی ہے وہ دونوں پیار و محبت کی باتوں کے ساتھ ساتھ ہندوستان کے سیاسی اور سماجی پس منظر میں گفتگو کرتے ہیں۔ہندوستان کے کروڑوں غلام ، محکوم عوام کو ذلّت ، جہالت اور تاریکی کے گڈھے سے باہر نکالنے کا مقصد ہے۔ہیرن پالؔ، شیلاؔ سے گفتگو کے درمیان سیاسی اور سماجی مسائل ،مادّیت اور روحانیت غرض کہ ہندوستان کے تمام موضوعات پر باتیں کرتا ہے ۔
’’جو قوم غلام ہو جس میں ۸۰فی صد انسانوں کو پیٹ بھر کر کھانا نہ ملتا ہو جس میں مرض، و با، بیماری اس قدر پھیلی ہو کہ سارے ملک میں مشکل سے تندرست انسان نظر آتے ہوں۔ جہاں علم گنتی کے لوگوں تک محدود ہو جہاں بچے تک کمھلائے ہوئے پھولوں کی طرح ہوں۔ جہاں اکثر لوگوں کے چہروں پر بھوک، فاقہ، غربت ، مصیبت لکھی ہو اور باقیوں کے چہروں سے ، حماقت ، جہالت اور ایک کلروقسم کی خوشحالی نظر آتی ہو، وہاں زندگی کے ان رنگین تحفوں کی تلاش کرنا سراسر حماقت ہے۔‘‘
ہیرنؔ کا جسم تو سوئٹرز لینڈ میں ہے لیکن اس کی روح، ذہن، دل و دماغ ہندوستان کے زوال ، پستی غلامی اور محکومی سے پیدا شدہ سماج مسائل و مشکلات سے الجھا ہوا ہے وہ اُسے سلجھانا چاہتا ہے اور اپنے مستحکم ارادوں سے ان برائیوں اور مسائل کے خلاف جہاد کرنے کا پختہ و مصمم اردہ رکھتا ہے۔۔اردو کے ممتاز نقاد پروفیسر ممتاز حسینؔ صاحب کا خیال ہے کہ۔۔’’اس نے ہمارے ادبی فکر و شعور کا دھاراغمِ جاناں سے غمِ دوراں کی طرف موڑنے میں بے حد اہم کردار ادا کیا ہے‘‘
سجاد ظہیرؔ کا یہ مختصر سا ناول چند ہندوستانی طلباء کی جذباتی اور نفسیاتی زندگی کی پیچیدگیوں کو ظاہر کرتا ہے۔ ہندوستان کے سیاسی اور سماجی حالات کو پورے انہماک کے ساتھ اُس دور کے ماضی کی تاریک اور حال و مستقبل کو منعکس کرتا ہے اس ناول کے ذریعہ اُس وقت کے ہندوستانی زندگی کے مختلف رجحانات اور نفسیاتی حالات و کیفیات کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ اور اُن حالات کو ساز گار بنانے اور تبدیلی پیدا کرنے کی کشمکش اس ناول میں نظر آتی ہے۔۔
سجاد ظہیرؔ کا یہ ناول اگر چہ مختصر اور پتلا سا ناول ہے لیکن اپنی معنویت ہئیت اور فکر و فن کے حوالے سے اردو ناول کی تاریخ میں غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔ یہ تکنیک اور طرز ادائیگی میں اپنی مثال آپ تو ہے ہی ، نیز نئی حقیقت نگاری اور گہرے سماجی وسیاسی اور طبقاتی شعور کی کچھ ایسی معرفت پیش کر تا ہے کہ اس ناول کے ذریعہ اردو ناول کی تاریخ کا ایک نیا باب شروع ہوتا ہے۔