شاہد نقوی(کراچی)
غالباَ ۵۷۔۱۹۵۶ء کا زمانہ تھا میں حسب معمول اپنے والدین و دیگر اعزّا و احباب سے ملنے لکھنؤ گیا ہوا تھا، وزیر منزل بھی گیا۔ اس زمانے میں یو پی کی صوبائی کا بینہ میں بنّے بھائی کے بڑے بھائی سید علی ظہیر صاحب وزیر عدل و انصاف تھے۔ بنّے بھائی کی چونکہ شہریت کا تعین نہ ہوا تھا۔ لہذا وہ خاصے پریشان سے تھے کیونکہ ہندوستان کی حکومت عملاَا نہیں ’’بے ملک فرد‘‘ قرار دے رہی تھی۔ بہر نوع ان کی علمی و ادبی کاوشیں جاری تھیں۔ پنڈت نہرو کے ذاتی اصرار پر لوئی آراگوں کی تصنیف کا ترجمہ کر رہے تھے۔
دوران ملاقات میں نے محسوس کیا کہ پاکستان میں دوستوں اور ساتھیوں کی جدائی کا جو قلق انہیں تھا، سوتھا مگر سب سے زیادہ رنج انہیں لائبریری کا تھا جو حکومت کی تحویل میں تھی اور بقول بنّے بھائی خود مرحوم راجہ غضنفر علی خان (جواِن دنوں ہندوستان میں سفیر تھے) وزیر منزل میں ان سے وعدہ کر آئے تھے کہ وہ سفارتی ذرائع سے ان کی تمام کتابوں کی ہندوستان منتقلی کی ذاتی سطح پر کوششیں کریں گے۔ لیکن یہ کوشش بار آور نہ ہو سکی۔ انہی دنوں میرے گھر پر یونیورسٹی کے پُرانے اہل قلم ساتھیوں کی ایک نشست ہوئی جس میں مہمان خصوصی بنّے بھائی تھے۔ اس محفل کے شرکاء میں شارب ردولوی ، ڈاکٹر پروفیسر محمود الحسن رضوی ، نواب عالم، بی بی سی کے آل حسن کے بھائی پروفیسر نجم الحسن (اس وقت سب لکھنؤ یونیورسٹی کے طالب علم تھے) ۔ پروفیسر احتشام حسین مرحوم، متاعِ غالبؔ کے مصنف مرزا جعفر حسین ایڈووکیٹ اور فرحت حسین وغیرہم شامل تھے۔ اس نشست میں خاص طور پر قابل ذکر اور چونکا دینے والی بات بنّے بھائی کی شاعری تھی۔ ہم میں سے بیشتر انہیں نثر نگار ، ناول نگار اور مترّجم کی حیثیت سے جانتے تھے لیکن جب احتشام صاحب نے بنّے بھائی سے فرمائش کی کہ وہ غزل سنائیں تو ان کے اس جملے نے ہم سب ہی کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔ کچھ دوستوں کا اصرار تھا کہ وہ پنڈی سازش کے متعلق تا ثرات پیش کریں ۔ جنھیں بنّے بھائی نے بہت خوب صورتی سے ٹال دیا۔ با لآخر احتشام صاحب کی فرمائش کا پاس رکھتے ہوئے انہوں نے اپنی غزل سنائی جس کا مطلع اب تک ذہن میں محفوظ ہے۔
تجھے کیابتاؤں ہمدم،اسے پوچھ مت دوبارہ کسی اور کا نہیں تھا، وہ قصور تھا ہمارا
غزل کیا تھی واقعات و حادثات کی ایک ایسی داستان تھی جس میں اَن کہی باتوں کو بڑے خوب صورت و سادہ انداز میں بیان کر دیا گیا تھا۔ ہم لوگوں کے علم میں یہ ان کی پہلی غزل تھی جس کو سب ہی نے سراہا۔ اپنی غزل کے بعد انہوں نے فیضؔ کے اپنی پسند کے کچھ اشعار سنائے۔ بہر نوع ’’لندن کی ایک رات‘‘ جو ناول نگاری میں ایک بالکل نیا تجربہ تھی اسی طرح ’’پگھلا نیلم‘‘ جو حال ہی میں شائع ہوا۔ شاعری کی ایک نئی شاہراہ کی حیثیت سے کم نہیں ہے۔
بنّے بھائی طبعاَ و عملاَ دونوں اعتبار سے سوشلسٹ تھے۔ پاکستان سے جانے کے بعد انہوں نے اپنی رہائش کے لئے وزیر منزل کے کوارٹروں کا انتخاب کیا تھا۔ کوٹھی میں غالباَ انکم ٹیکس اپلیٹ ٹریبونل کا دفتر تھا اور بیشتر حصّہ سرکاری اہل کاروں کے مصرف میں تھا۔ بڑے بھائی سیّد علی ظہیر صاحب جو وزیر بھی تھے۔ اوٹرم روڈ کی کشادہ کوٹھی میں رہتے تھے۔ بنّے بھائی عموماَ پیدل یا سائیکل رکشہ پر سفر کرتے تھے۔ شام کو حضرت گنج میں کافی ہاؤس میں یا پیدل نظر آتے تھے۔ لباس کی صفائی اور سادگی بھی اسی چیز کی غمّاز تھی۔ باوجود یہ کہ ایک متمول تعلق دار گھرانے سے ان کا تعلق تھا۔ ان کی طرز رہائش اور بود و باش ان فرسودہ تکلفات سے بالکل عاری تھا۔ راقم کو یاد ہے کہ جب پنڈی سازش میں قید کاٹ کر وہ کوئٹہ سے لاہور آئے تھے تو ان کے پاس صرف ٹین کا ایک چھوٹا سا بکس تھا جس پر چاک سے سجّاد ظہیر لکھا ہوا تھا اور مذکورہ سفر بھی انہوں نے ریلوے کے تیسرے درجے میں کیا تھا۔
بعض لوگ عام طور پر انہیں ملحد سمجھتے تھے۔ ممکن ہے وہ ہوں ۔ مگر جہاں تک مجلسی و تہذیبی زندگی کے آداب تھے، معاشرتی میلانات اور اخلاقی روائتیں تھیں وہ ان پر پوری طرح کاربند بھی تھے اور ان کا صدقِ دل سے احترام بھی کرتے تھے۔ کوئی آٹھ سال کی بات ہے لکھنؤ کے محلہ وزیر گنج کی مشہور آتو جی کی مسجد میں جب بنّے بھائی عید کی نماز پڑھنے گئے تو کئی ثقہ قسم کے بزرگوں کو زیر لب کہتے سنا گیا کہ بنّے بھائی کو غلط طور پر لا مذہب مشہور کیا گیا ہے۔ کچھ ایسی ہی بات ایک اور واقعے سے ملتی ہے۔ غالباَ سات یا آٹھ محرّم کی تاریخ تھی۔ قیصر باغ بارہ دری میں شہر کی ایک انجمن کی ثقافتی تقریب تھی۔ منتظمین میں مشہور کمیونسٹ رہنما ڈاکٹر محمد اشرف پیش پیش تھے۔ بنّے بھائی، رضیہ سجاد ظہیر پروفیسر احتشام وغیرہ بھی مدعوئین میں سے تھے۔ تقاریر کے بعد جب اسٹیج سکریٹری نے ایک فن کارہ کا نام لیا کہ وہ لوک ناچ پیش کریں گی تو ایک دم سے یہ حضرات اپنی نشستوں سے اُٹھ کھڑے ہوئے اور باہر جانے لگے۔ ڈاکٹر اشرف مرحوم فوراَ آئے اور جانے کی وجہ پوچھی۔ بنّے بھائی نے بڑی ملائمت سے کہا کہ یہاں تک تو برداشت کیا جا سکتا تھا لیکن آج آٹھویں محرّم ہے۔ ہم لوگ ناچ کسی قیمت پر نہیں دیکھ سکتے۔ ڈاکٹر اشرف نے بڑی معنی خیز نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا کہ یار تم کمیونسٹ بھی رہے اور شیعہ بھی اور ہمیں کہیں کا نہ چھوڑا ۔
بنّے بھائی کے لکھنؤ واپس پہنچنے پر انجمن ترقی پسند مصنفین کی لکھنؤ شاخ کو دوبارہ زندگی مل گئی تھی یوں تو آل احمد سرور اور احتشام حسین اس کی دل چسپیوں کو قائم کئے ہوئے تھے اور نعمت اللہ روڈ پر باقاعدگی سے ہفتہ وار نشستیں بھی ہوتی تھیں مگر سرور صاحب سے ادیبوں کا عنصر کچھ کشیدہ سا لگتا تھا۔ بنّے بھائی نے بڑی خوبصورتی سے ان اختلافات کو ختم کیا اور نوجوان حلقہ پوری تن دہی سے پھر سر گرم عمل ہو گیا۔ چونکہ بنّے بھائی خود اس انجمن کے بانیوں میں سے تھے لہذا جتنا ان پر اعتماد کیا جاتا تھا اتنا کسی اور ذات پر نہ ہو سکتا تھا۔
ظہیر کے بعد اگر کوئی دوسری مقتدر ہستی تھی تووہ پروفیسر احتشام حسین مرحوم کی تھی جن کی غیر جانب داری، رواداری اور نئے ادیبوں کی حوصلہ افزائی قابل رشک حد تک تھی۔ کچھ ہی عرصہ بعد احتشام صاحب صدر شعبۂ اردو الہ آباد یونیورسٹی مقرر ہو کر چلے گئے۔ سرور صاحب علی گڑھ چلے گئے اور بنّے بھائی نے بھی مستقل دہلی میں ہی سکونت اختیار کی۔
بنّے بھائی اپنے ہم عصروں کے علاوہ نئی نسل میں جس قدر مقبول تھے۔ وہ حیثیت کم ہی لوگوں کو میسر تھی۔ ان کے بڑے بھائی سید علی ظہیر جو وزیر وسفیر بھی رہ چکے ہیں اور کانگریس کے پُرانے رہنماؤں میں شمار کئے جاتے ہیں۔ انہیں بھی عوام میں وہ مرتبہ حاصل نہ تھا جو سجاد ظہیر کو حاصل تھا۔ بنّے بھائی ہر قسم کے تعصبات سے عاری تھے۔ میں پاکستان میں نیا نیا آیا تھا۔ بنّے بھائی کوئٹہ سینٹرل جیل میں تھے۔ اپنے ایک خط میں انہوں نے لکھا تھا۔
’’میرا مشاہدہ رہا ہے کہ عام طور پر یوپی سے آنے والے حضرات یہاں سے ناخوش ہیں اور انہیں شکوہ ہے کہ پنجابیوں کا اخلاق، زبان، آداب معاشرت ہم جیسی کیوں نہیں۔ یہ بڑے سطحی الزامات ہیں اور عموماَ تاریخ سے عدم واقفیت کی بنا ء پر لگائے جاتے ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ تم ان میں سے نہیں ہو اور یہاں آکر مقابلتاَ زیادہ خوش ہو۔‘‘۔۔۔۔۔۔۔ ’’یہ سر زمیں مولانا عبد المجید سالک، مولانا غلام رسول مہر، احمد ندیم قاسمی اور فیضؔ کی ہے اور اس اعتبار سے بڑی خوش قسمت ہے۔‘‘
۱۹۷۱ء کی پاک بھارت جنگ میں جب ہندوستانی دانش وروں کی تقریریں ہندوستانی ریڈیو سے ریلے کی گئیں تو اس میں بہت سے لوگ اپنا دامن آلودہ کر بیٹھے۔ البتہ بنّے بھائی کی تقریریں ہمیشہ دوستی مفاہمت کے جذبے سے سرشار رہیں۔ خاص طور پر جب کہ یہ مقرر پنجاب کو مورد عتاب ٹھہرا رہے تھے تو سجّاد ظہیر ہی تصویر کا دوسرا رُخ بھی پیش کر رہے تھے۔لکھنے کو تو دفتر کے دفترموجود ہیں مگر چند بے ربط واقعات اس عظیم دانش ور کے حضور پیش کرنا ضروری سمجھا تھا۔ جس کے فیض سے میں نے اکتساب کیا ہے۔٭٭٭
زندگی کا راز کیا ہے ،سلطنت کیا چیز ہے
اور یہ سرمایہ و محنت میں ہے کیسا خروش
علامہ اقبالؔ