صدیق الرحمن قدوائی(دہلی)
میں اور میری عمر کے لوگوں نے جب پہلی پہلی بار اپنے گردو پیش پر نظر ڈالی۔ تو بنّے بھائی کی شخصیت میں ہمیں اپنا پہلا ہیرو ملا تھا۔ اس وقت بنّے بھائی جو کچھ کہتے اور لکھتے تھے وہ ہم پوری طرح سمجھ بھی نہ سکے ہوں گے۔ پھربھی کوئی جذبہ ، کوئی آئیڈیلزم کوئی اَن دیکھی اور اَن کہی سی بات تھی جو دلوں کو اور ذہنو ں کو عمر کے ایک خاص دَور میں طرح طرح کی وابستگیاں عطا کرتی ہے۔ چنانچہ بنّے بھائی سے میری وابستگی اس وقت سے ہے جب میں نے انہیں دیکھا بھی نہ تھا۔ دیکھنا تو یوں بھی مشکل تھا کہ وہ اُن کی ’’روپوشیوں‘‘ کا زمانہ تھا بس ان کے بارے میں سنتے تھے یا تھوڑا بہت کہیں پڑھ لیتے تھے۔ پھر ملک تقسیم ہوا، بنّے بھائی پاکستان چلے گئے۔ گرفتار ہوئے اور پھانسی کے تختے تک پہنچ کر واپس آئے۔ اس واقعہ کے بارے میں سوچتا ہوں تو فیضؔ کی بات یاد آتی ہے۔
گلوئے عشق کو دارورسن پہنچ نہ سکے تو لوٹ آئے ترے سر بلند کیا کرتے
پاکستان سے رِہا ہو کر جب بنے بھائی ہندوستان آئے تو انہیں قریب سے دیکھنے اور ان سے بات کرنے کا موقع ملا۔ پھر آخر وقت تک اُن سے نیاز حاصل رہا۔
بنّے بھائی اردو میں ترقی پسند تحریک کے بانی تھے جو ہماری زندگی میں اس صدی کی سب سے بڑی ، سب سے با اثر اور نتیجہ خیز ادبی تحریک ثابت ہوئی۔ ترقی پسند تحریک کے زیر اثر وجود میں آنے والے شعرو ادب نے ہندوستان میں مار کسزم اور ترقی پسند سیاسی و سماجی نظریات کو پھیلانے میں بہت اہم حصّہ لیا۔ اور زندگی کے حقائق کو محسوس کرنے اور سمجھنے سمجھانے کے لئے ایک نیا ذہنی اور جذباتی ماحول پیدا کیا سچ تو یہ ہے کہ نوجوانوں کی پوری نسل ترقی پسند ادب کے توسط سے مارکسزم تک پہنچی، تحریکات کو وجود میں لانے اور فروغ دینے کا عمل ہمیشہ ان افراد کے ذریعے ہوتا ہے جو اپنے عہد کے تقاضوں کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ایسے افراد کا ایک گروپ ۱۹۳۵ء کے بعد ظہور میں آیا۔ اور اس کے سر براہ بنّے بھائی تھے۔ چنانچہ انہوں نے اس عہد کے نوجوانوں کے ذہن و مزاج کی تربیت اور اس دَور کے ہندوستان کی دانشورانہ زندگی کی تشکیل میں بہت اہم حصّہ لیا۔
اشتراکی نظرئیے کی مقبولیت، دنیا کے ایک بڑے حصّے میں اشتراکی تحریکات کی کامیابی اور عوامی حکومتوں کے قیام کے ساتھ ساتھ نظریاتی مباحث بھی زور و شور سے ہونے لگے۔ مختلف اشتراکی ممالک میں اور خود ہمارے ملک میں اشتراکیوں کے درمیان نظریاتی اختلافات بھی نمودار ہوئے اور ایک جان دار نظریہ حیات کو عمل میں لانے کے دوران تجربات و تغیرات کے اختلافات کا پیدا ہونا کوئی حیرت کی بات نہیں بلکہ یہ اس کی صحت کی نشانی ہے یا خود مارکسزم کے مطابق اس کشاکش ہی سے علم و عمل کی راہیں روشن ہوتی ہیں۔ بنّے بھائی مارکسی تحریک سے تمام عمر عملی طور پر وابستہ رہے تھے۔ اس لئے ان مباحث میں ان کا شامل ہونا اور خود ان کے رول کا معرض بحث میں آنا قدرتی امر تھا۔ بنّے بھائی ان بحثوں میں ہمیشہ بڑی خندہ پیشانی کے ساتھ شریک ہوئے اور اپنے چھوٹوں سے تو ان کا رویّہ نہ صرف مشفقانہ رہا بلکہ وہ تو اس بات کی ہمّت افزائی کرتے تھے کہ لوگ سوچیں ، اختلافات ہوں تو ان کا جرأت کے ساتھ اظہار کریں باہمی گفتگو اور بحث مباحثے کے ذریعے مسائل کی وضاحت اور ان کے حل کی تلاش کی کوشش کریں۔ ان کی ذات شریف رواداری کا ایک نمونہ تھی۔ ان کا خیال آتا ہے تو ان کے ہونٹوں کی دلکش مسکراہٹ نگاہوں میں دمکنے لگتی ہے اور اس وقت یہ احساس فنا ہو جاتا ہے کہ وہ آج ہم میں نہیں ہیں۔
٭٭٭
’’ادب کبھی بے مقصد نہیں ہو سکتا۔اگر اخلاقیات کا ایک اپنا مقصد ہے اور سیاسیات کا اپنا!
اسی طرح اگر کاروبار،زراعت حتیٰ کہ ورزش اور کھیل تک کے اپنے اپنے مقاصد ہیں تو کوئی وجہ نہیں
کہ ادب کا بھی ایک اپنا مقصد نہ ہو۔مگر یہ مقصد زندگی کے باقی شعبوں کے مقاصد سے قطعاَ جدا ہی
اور جمالیاتی تسکین کے ذریعے تزکیۂ نفس پر منتج ہوتا ہے۔
ادب اپنے خالق اور قاری دونوں کے جذباتی تشنج کو فرو کرکے انہیں ایک ارفع تر انسانی سطح پر لے آنی
کی کوشش کرتا ہے اور اس سے بڑا مقصد اور کیا ہو سکتا ہے؟۔کیسی عجیب بات ہے کہ ادب کو اس کی اصل
کارکردگی اور مقصد سے ہٹا کر بعض دوسرے مقاصد کے لیے آلۂ کار بنانے کی کوشش کی جائے۔ضمناَ
یہ بھی عرض کر دوں کہ ادب کی تخلیق کا عمل ایک قطعاَ آزاد عمل ہے۔اسے اگر کسی مینی فیسٹو کے تابع کر دیا
جائے تو یہ فی الفور رُک جائے گااور ادب کے بجائے اشتہارات چھپنے لگیں گے۔
ادب اور مقصدیت از ڈاکٹر وزیر آغابحوالہ دائرے اور لکیریں
اک تم ہو جو غم کو ٹھوکر مار کے آگے بڑھتے ہو
اک ہم ہیں جو سینے میں اس غم کو بلونے لگتے ہیں
وزیر آغا