پروفیسر نذر خلیق(خانپور)
محمد حامد سراج افسانوی ادب میں اپنا اعتبار قائم کر چکے ہیں۔ ان کا ایک افسانوی مجموعہ ’’وقت کی فصیل‘‘ اشاعت پذیر ہوکر اہل علم سے داد اور ستائش حاصل کر چکاہے۔ ان کا ایک افسانوی مجموعہ ’’ذہن بازار‘‘اور ایک خود نوشت’’میری خانقاہ سراجیہ‘‘ بھی زیر طبع ہیں۔ امید ہے کہ حامد سراج کی یہ دونوں تخلیقات جب منصہ شہود پر نمودار ہوں گی تو حامد سراج کے ادبی مقام میں مزید اضافہ ہو گا ۔میا ان کی ایک ایسی تخلیق ہے کہ اس پر فنی اور فکری اعتبار سے بحث ہو سکتی ہے۔
والدہ کے حوالے سے لکھنے والوں میں قدرت اللہ شہاب کا ’’ماں جی‘‘ شاید پہلا بھرپور ادبی اظہاریہ ہے۔ان کے بعد اکبر حمیدی اورحیدر قریشی نے قریبی رشتہ داروں کے خاکے لکھنے کا سلسلہ شروع کیا تو اکبر حمیدی نے اپنی دادی کا خاکہ بعنوان ’’ماں جی‘‘ اور حیدر قریشی نے اپنی والدہ کا خاکہ’’بعنوان مائے نی میں کنوں آکھاں‘‘تحریر کیا۔دونوں خاکے ادبی رسالہ’’اوراق‘‘میں شائع ہوئے اور دونوں خاکہ نگاروں کے خاکوں کے مجموعوں میں بھی شامل ہیں۔خوشی کی بات ہے کہ ماں جیسی اہم ہستی کے بارے میں ہمارے شاعروں اور ادیبوں کی توجہ بڑھنے لگی ہے۔اس سلسلے کی ایک اہم تحریر حامد سراج کی ’’میا‘‘ہے۔
ناصر عباس نیر اپنی عمر سے بہت آگے کی سوچ رکھتے ہیں ان کے نقدو نظر کے شہ پارے قومی اور بین الاقوامی رسائل میں نظر آتے رہتے ہیں۔ ناصر عباس نیر نے میا پر بڑی جامع رائے کا اظہار کیا ہے۔پہلے وہ رائے دیکھئے ۔
’’ میّا اپنی طرز کی ایک انوکھی اور منفرد، یک موضوعی کتاب ہے۔موضوع اور ہیئت دونوں حوالوں سے !اسے کسی مخصو ص صنف کے تحت نہیں رکھا جا سکتا ۔ یہ معروف معنوں میں نہ افسانہ ہے نہ خاکہ! حقیقت یہ ہے کہ کتاب افسانے اور خاکے کی مسلمہ تعریفوں کی پس پشت ڈالتی ہے اور ایسی ڈگر پر رواں ہوتی ہے، جہاں اصناف کی روایتی سرحدیں اور حدبندیاں دُھندلانے لگتی ہیں۔ اس منحرف روش کو اختیار کرنے کا جواز اس کتاب کا ’’تھیم‘‘ ہے ، جسے دکھ کا نام دیا جانا چاہیے۔ ’’دکھ، موت کا دُکھ!‘‘ یہ دکھ ایک سیل کی طرح ہے۔ سیلِ اشک بھی اورسیلِ خون بھی! یہ باہر کی طرف رُخ کرتا ہے تو پوری کائنات اس میں ڈوبتی محسوس ہوتی ہے اورجب اندر کی جانب بڑھتا ہے تو نبضِ ہستی ڈوبنے لگتی ہے۔ سو ایسے غم کو کسی صنف کی مروجہ (اور مردہ )حدوں میں کہاں قید اور پابند کیا جا سکتا ہے! یہ غم اپنا راستہ خود بناتا ہے۔ آدمی اور آدمی کے بنائے ہوئے اصول اس غم کی تیز رو کے آگے بے بس اور پسپا ہو کر رہ جاتے ہیں۔ ماں کی دائمی جدائی کے دکھ کے آگے آدمی کی بے بسی اور روایتی ادبی اصولوں کی پسپائی کتاب میں جابجا موجود ہے۔
’’میّا‘‘ میں حامد سراج نے ہیئت بیک وقت افسانے اورخاکے کی تکنیک ڈرامائی مونولاگ کی اور اسلوب شاعری کا استعمال کیا ہے۔ انہوں نے اپنی جنت مکانی ماں کو مخاطب کر کے ان احوال و کیفیات کا اظہار کیا ہے، جن سے وہ ماں کی علالت کے دوران میں، ماں کی موت کے وقت اور ماں کی موت کے بعد گزرے (اور شاید گزر رہے) ہیں۔ تینوں حالتوں میں ایک روح کو مسل دینے والا دکھ ان کے پورے وجود کو محیط رہا ہے۔۔۔سو یہ کتاب ماں کی موت کا مرثیہ بھی ہے اور ماں کے ساتھ اپنے تعلق کی لمبی مسافت کا محضر نامہ بھی ہے۔۔۔ہر چند اس کتاب میں شخصی عنصر حاوی ہے مگر متعدد مقامات پر محمد حامد سراج اور ان کی میّا ’’آر کی ٹائپ‘‘ میں بدل جاتے ہیں۔ شخصی عنصر منہا ہوجاتا اور فن غالب آ جاتا ہے۔ مصنف اور میّا بیٹے اور ماں کے ازلی و ابدی رشتے کی علامت بن جاتے ہیں اور یہ بات اس کتاب کو غیر معمولی بناتی ہے۔‘‘(۱)
ناصر عباس نیر کی رائے کی روشنی میں اگر ہم دیکھیں تو میّا ایک ایسی تخلیق ہے جو موضوع اور ہیئت کے حوالے سے آزادانہ متن لیے ہوئے ہے جس میں ہیئتوں کے کئی تجربے نظر آتے ہیں لیکن ڈاکٹر پروفیسر غفور شاہ قاسم نے میّا کے دیباچے میں میّا کو ایک خاکہ کہا ہے۔ پروفیسر غفور شاہ قاسم کی رائے بھی قابل توجہ ہے۔
’’زیرِ نظر خاکے کے ضمن میں اس رائے کا اظہار کرنے دیجیے کہ خاکہ نگاری کی اس کاوش نے اس صنف کا مزاج ، موسم، ماحول اور موڈ بدل کر رکھ دیاہے۔ یہ تحریر درِ سماعت پر ہی نہیں درِ دل پر بھی دستک دیتی محسوس ہوتی ہے۔ اس خاکے کا قاری اسے اپنے وجود کی اندرونی تہوں میں اترتا محسوس کر تاہے۔ ’’میّا‘‘ میں کہانی کا سحر بھی ہے اور رپورتاژ کا گہرا تاثر بھی۔۔!مرقع کشی کی نظر نوازی بھی ہے اور ڈرامے کی بیانیہ منظر نگاری بھی۔ فقروں کی موزوں خشت کاری نے اسے ایک تخلیقی نثر پارہ بنا دیا ہے۔‘‘(۲)
پروفیسر ڈاکٹر غفور شاہ قاسم کا دیباچہ تخلیقیت لیے ہوئے ہے ۔ لفظوں اور جملوں کا جادو موجود ہے۔ ان کی رائے سے اتفاق کرنا پڑتا ہے کہ یہ ایک ایسی تخلیق ہے جو انفرادیت لیے ہوئے ہے۔ میّامیں کہانی اور جذبات نگاری کے ساتھ ساتھ منظر نگاری بھی موجودہے۔میّا میں شعریت ،تخلیقیت، آپ بیتی، منظر نگاری،زمانے کی بے حسی، جذبات نگاری اور عمومیت ایسی خوبیاں ہیں جو مجھے آج تک کسی ایک تخلیق میں یکجا نظر نہیں آئیں۔کہنے کو یہ ایک نثری خاکہ ہے لیکن اس میں جگہ جگہ شعریت کی خوبی نظر آتی ہے۔آئیے دیکھیں کہ میّا میں شعریت کے کیا رنگ ہیں۔
’’اور۔۔۔وہ رات۔۔۔!جب ستارے متبسم اور چاند کی جبیں روشن تھی۔فرشتے محوِ حیرت تھے۔کیوں کہ ایسی راتیں مقدر والوں کا ہی نصیب ٹھہرتی ہیں۔اس رات خواب میں تمہیں حضورِاکرم ﷺکی زیارت نصیب ہو گئی۔
تمہارے بھاگ جاگ گئے،تمہارے رتجگے ثمر بار ہوگئے۔۔۔اور پھر تہجد تمہاری روح میں سرایت کر گیا۔ہر سانس مشک بیز ہو گئی۔‘‘(۳)
’’وہ کہہ رہا تھا:
اس راڈ کی ضرورت نہیں تھی یہ عملے والے اور نرسیں بعد میں آدھی قیمت پر کسی بھی سٹور پر دے کر دام کھرے کر لیں گے۔ وہ جانے کیا کہہ رہا تھا اور کیوں کہہ رہا تھا ۔ میں دونوں ہاتھوں میں شاپر لٹکائے لوٹ آیا۔
ڈاکٹر سو رہا تھا۔ بے حسی کی نیند اور ابو کی آواز میری سماعت پر ہتھوڑے بن کر برس رہی تھی۔
میرا مثانہ پھٹ رہا ہے۔ وقت کی ڈور ہاتھ سے پھسلتی جا رہی تھی۔ نرس کی آواز دل کو ریزہ ریزہ کر رہی تھی۔ وہ کہہ رہی تھی۔ آپ کے مریض کا زندہ رہنا مشکل نظر آ رہا ہے۔ ڈاکٹر سوتا رہا۔ شاید اس کا والد زندہ تھا۔‘‘(۴)
’’ماں۔۔۔تمہیں پت جھڑ کے موسموں میں ہی جانا تھا۔تمہارے بعد موسم نہیں بدلے۔تمہیں لحد میں اتار کر پلٹے تو زمانے بدل گئے تھے۔یا ایتھا النفس المطمئنہ۔اے اطمینا ن والی روح۔ارجعی الیٰ ربک راضیۃ مرضیۃ۔تو اپنے رب کی طرف لوٹ چل اس طرح کہ تو اس سے راضی وہ تجھ سے خوش سامنے ٹالہی کے درخت میں چڑیاں روئیں۔۔۔‘‘(۵)
میّا میں شعریت کے علاوہ جگہ جگہ تخلیقیت بھی نظر آتی ہے۔ ان کی یہ تخلیق اس اعتبار سے قابل توجہ ہے کہ جذبات کے فشار نے حامد سراج کو ایک مکمل تخلیق کار کے طور پر پیش کیا ہے۔ تخلیقیت کے نمونے تلاش کرنے لگیں تو میّا میں سے بیسیوں اقتباسات ایسے نکل آئیں گے کہ جسے آفاقی تخلیقیت کا نمونہ کہا جا سکے گا تاہم چند اقتباسات ملاحظہ ہوں ۔
’’کمروں کی قطار۔۔۔شیشم کے درخت۔۔۔ صحن میں دانہ دنکا چگتی مرغیاں۔۔۔اور مغربی کمرے کے اس دروازے کو دیکھا ۔ جہاں میری ماں اب بھی موجود تھی۔۔۔لیکن ماں تو ہسپتال میں ہے۔۔۔ ماں کے بغیر پور ا گھر بے ترتیب ہو گیا۔‘‘(۶)
’’ابو نے سفر مکمل کر لیا اور ابھی ہم سفر میں تھے۔نشتر ہسپتال کی پر شکوہ عمارت لرزنے لگی۔راہداریوں کا سفر کیسے طے ہوا۔‘‘(۷)
’’کئی ماہ تلک قلم وقت کے صحرا میں سیاہی کی بوند کو ترستا رہا ہے۔ ماں میں یہ تحریر روشنائی کے بجائے اپنے آنسوؤں سے لکھ لیتا لیکن میری آنکھ کی دوات میں رکھی روشنائی بے رنگ ہو گئی ہے۔ بے رنگ اشکوں میں، میں رنگ کیسے بھروں۔۔۔؟‘‘(۸)
ان اقتباسات کو ملاحظہ کرنے کے بعد یقین کرنا پڑتا ہے کہ حامد سراج میں ایک مکمل تخلیق کار موجود ہے جو مختلف زاویوں اور مختلف رنگوں میں تخلیقات پیش کرتا ہے۔آئیے حامد سراج کی میّا سے منظر نگاری کے کچھ ٹکڑے دیکھتے ہیں۔
’’ماں۔۔۔ابو کے حادثے کے زخم میرے اندر تر و تازہ ہیں۔وہ صبح کتنی اندوہناک تھی جب ابو اپنے ایک کام کے سلسلے میں گھر سے سر گودھا کی جانب جو ہر آباد کے لیے نکلے۔ سفر اتنا تو نہیں تھا۔۔۔ جو ہر آباد تک ہی تو جانا تھا۔
ابو جوہر آباد کی بجائے عدم آباد کو نکل گئے۔وہ تو کار بہت محتاط انداز میں چلاتے تھے۔ کراسنگ کے دوران میں پوری سڑک چھوڑ دینا ان کا معمول تھا۔
یہ کیا ہوا۔۔۔؟سرگودھا سے قائد آباد آنے والی ویگن ان کی تاک میں کیوں تھی؟خبر آنے پر گھر میں کہرام مچ گیا۔
بے چینی ،خوف، وسوسے، اندیشے۔۔۔‘‘(۹)
’’سر شام تمہاری یادیں دل کے آنگن میں چارپائیاں بچھا لیتی ہیں اور جب رات اپنا خیمہ تان لیتی ہے تو خواب نگرکی سیر کو جانے کے لیے میں دن بھر کا تھک اماندہ تھکن اوڑھ کے سو جاتا ہوں۔ تمہارے جانے کے بعد خواب نگر کی سیر ہی وہ راستہ ہے جہاں سے گزر کر عہد رفتہ سے ملاقات ہوتی ہے۔
ہر رات امید کا دیا روشن کیے نیند کی گود میں سر رکھ دیتا ہوں کہ صبح جاگنے پر رات کے خواب ہم سفر ہو جائیں۔‘‘(۱۰)
’’ہمارے صحن میں شیشم کا بوڑھا درخت برگزیدگی کی ردا اوڑھے کئی نسلوں کی محبتوں کا امین تھا۔ اسے کہو لت نے آلیا ہے۔ شیشم کے دائیں جانب دالان اور منقش کمرہ اپنی عمر پوری کر چکے ہیں۔ دونوں کی بوسیدہ چھتیں زمین بوس ہو گئی ہیں اور ان میں حشرات الارض کا ڈیرہ ہے۔ کبھی ان میں بھی زندگی سانس لیتی ہوگی ۔ قمقمے روشن ہوتے ہوں گے۔ قہقہے گونجتے ہوں گے۔
اب یہ چپ کھڑ ے سرنہوڑائے عہدِ رفتہ کی مٹتی یادوں کے امین اپنی خاموش زبان سے کئی کہانیاں سناتے ہیں۔ ان کہانیوں کو کون سنے۔۔۔؟‘‘(۱۱)
منظر نگاری میں یہ کمال بہت کم تخلیق کاروں کونصیب ہوتا ہے۔ چونکہ حامد سراج کی تخلیق میّا جذبات میں ڈوبی ہوئی تخلیق ہے اس لیے حامد سراج کا اندر کا تخلیق کار اپنے پورے جوبن پر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تخلیق کی جتنی بھی خوبیاں میّا میں یک جا ہوئی ہیں وہ کامل ہیں۔ ان خوبیوں کو جزوی نہیں کہا جا سکتا ۔منظر نگاری کے علاوہ اس تخلیق (میّا) میں عمومیت کا عنصر بھی پایا جاتا ہے جہاں حامد سراج کا غم اور دکھ صرف اس کا غم اور دکھ نہیں رہتا بلکہ ہر زندہ دل اور حساس شخص کا غم بن جاتاہے آئیے دیکھیں ان کے ہاں عمومیت کے کیا رنگ ہیں؟
’’ماں۔۔۔میرے سامنے ایک جنازہ رکھا ہے۔یہ میرے دوست غفور شاہ قاسم کی ماں ہے،اس نے جب رختِ سفر باندھا،میں وہاں موجود تھا۔۔۔وہ ضعیف العمر تھی لیکن وہ میرے دوست کی چھاؤں تھی۔چھاؤں کا عمرسے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔شجر بوڑھا بھی ہوجائے تو اس کی چھاؤں ٹھنڈی رہتی ہے۔برگد جتنا قدیم ہو اس کی چھاؤں اتنی گھنی ہوتی ہے۔وہ ماں تھی۔وہ غفور شاہ قاسم کا سائباں تھی۔ماں۔۔۔’’ماں کی موت کا یقین کس کو آتا ہے۔۔۔؟‘‘
جب عبدالباسط کی ماں نے زمین اوڑھی تو میں کئی سال بے یقین رہا۔ایک سال گزرنے پرایک دن میں عبدالباسط سے فون پر بات کر رہا تھا۔میں نے پوچھا عبدالباسط ماں کیسی ہے۔۔۔؟
سیکڑوں میل کی دوری پر فون میں ایک آنسو بولااور پھر خاموشی چھا گئی۔ماں چلی جائے تو سناٹے بولتے ہیں۔
جس روز بشارت احمد کی ماں نے رختِ سفر باندھا اس روز میرے اند رایک بار پھر تنہائی اپنی پوری توانائی سے کرلائی اور میرے اندر درد کا شیشہ ٹوٹا۔ہمدردی کے سارے لفظ پرندے زبان کی ڈالی سے اڑگئے اور میں اپنے دوست کے دل کی کیاری میں تسلی کا ایک ننھا سا پودا بھی نہ لگا سکا۔‘‘(۱۲)
یوں تو عمومیت کی کئی مثالیں مل سکتی ہیں لیکن اس مثال سے حامد سراج کا غم عمومیت میں بدل کر ڈاکٹر غفور شاہ قاسم کا غم بن گیا ہے۔حامد سراج نے میّا میں صرف اپنی ماں کا غم بیان نہیں کیا بلکہ تمام ماؤں سے بچھڑنے کا غم بیان کیا ہے۔ اس غم کو موضوع بنایا ہے جو ہر بیٹے کا غم ہے۔ ہر اس بیٹے کا غم جو ماں کے بچھڑنے کے بعد پھوٹ پھوٹ کر روتاہے اس کی دنیا ویران ہو جاتی ہے۔ وہ بے آسرا ہو جاتاہے۔ ہر طرف اندھیرا اور ہر طرف دکھ کے سانپ پھن پھیلائے نظر آتے ہیں۔ حامد سراج نے میّا میں ایک مرکزی منظر میں کئی چھوٹے چھوٹے منظر بنائے ہیں جن کو اگر مرکزی منظر سے الگ کر دیا جائے تو بھی معنویت رکھتے ہیں اور اگر مرکزی منظر سے جوڑ دیا جائے تو بھی ایک بڑے منظر میں رنگ بھرتے ہیں۔ حامد سراج کی تخلیق سے ابھرنے والا غم ہر شخص کا غم ہے کیونکہ ہر شخص کسی نہ کسی ماں کا بیٹا ہوتا ہے گویا میّا کا موضوع ایسا موضوع ہے جو آفاقی بھی ہے اور کلاسیکی رنگ بھی لیے ہوئے ہے۔
ایک تخلیق کار یا فن کار اپنے دکھ اور اپنے کرب کو جب بیان کرنے لگتا ہے تو وہ تخلیق کا کوئی بھی سانچہ اور کوئی بھی پیکر تراش لیتاہے اور بعض اوقات مخصوص سانچے اور پیکر ساتھ نہ دے رہے ہوں تو وہ خود بھی کوئی نیا اورمنفرد سانچہ اور پیکر تراش لیتا ہے۔ ہمارے اردو ادب میں نت نئی اصناف کا اضافہ اسی وجہ سے ہو رہا ہے۔
حامد سراج کی تخلیق میّا ایک ایسا سانچہ اور پیکر ہے کہ جس میں بہت سی ہیئتوں نے مل کر ایک نئی صورت اختیار کی ہے۔میرے نزدیک میّا ایک ناول بھی ہے کہ اس میں ایک ماں سے جدائی کا مضمون پوری جزئیات کے ساتھ موجود ہے۔کردار اور پلاٹ موجود ہیں۔میرے نزدیک میّا ایک خاکہ بھی ہے کہ اس میں ایک ماں کا خاکہ بیان کیا گیا ہے اور ماں بھی ایسی جو صرف حامد سراج کی ماں نہیں بلکہ پوری بنی نو ع انسان کی ماں ہے۔ میر ے نزدیک میّا ایک طویل آزاد یا نثری نظم بھی ہے کہ اس میں شعریت اور غنائیت بھر پور انداز سے موجود ہے۔ میرے نزدیک میّا ایک مرثیہ بھی ہے کہ اس میں ایک عظیم ہستی سے جدائی پر خلوص اور محبت کے آنسو بہائے گئے ہیں۔ میرے نزدیک میّا ایک ایسی تخلیق ہے جو کئی اصناف کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔مختصراً میّا ایک ایسی تخلیق ہے جو حامد سراج کو تخلیق کار ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔ اس میں فن کی مخصوص جکڑ بندیوں سے بغاوت کی گئی ہے۔ میں کہہ سکتاہوں کہ حامد سراج نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ تخلیق کار جب وفورِ جذبات کا اظہار کرتا ہے تو تخلیق کے سانچے خود بخود بنتے چلے جاتے ہیں۔ یہاں فن کی باریکیوں کی تمام بحثیں دم توڑ دیتی ہیں گویا فن کا ر اور تخلیق کار کسی مخصوص سانچے کا پابند نہیں ہوتا بلکہ سانچے تخلیق کار سے اپنا وجودپاتے ہیں۔حامد سراج مبارک باد کے لائق ہیں کہ انہوں نے میّا لکھ کر ماں کی عظمت اور شخصیت کو پیش کیا ہے اور بتایا ہے کہ ماں ہی ایک ایسا رشتہ ہے جو دنیا میں باقی تمام رشتوں سے بلندو برتر ہے۔
حوالہ جات
(۱)(میّا از محمد حامد سراج مثال پبلیشرز رحیم سینٹر پریس مارکیٹ امین پور بازار فیصل آباد ، اگست ۲۰۰۴ء ص:فلیپ)(ص۱۰۵)
(۲)ایضاً ص:۲۲، (۳) ایضاَ ص (۴) ایضاَ ص ۵۵، (۵)ایضاَ ص ۹۹
(۶) ۳۱، (۷)۵۶، (۸)۵۶، (۹) ا۵۴
(۱۰) ۱۰۳، (۱۱) ۱۰۵، (۱۲) ۱۳۳،۱۳۴
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’راج دلارے!او میری اکھیوں کے تارے؍میں توواری واری جاؤں۔۔راج دلارے․․․․․‘‘
یہ مشہور لوری میں نے کوثرپروین کی آواز سے پہلے اپنی امی جی کی آواز میں سنی۔ امی جی نے یہ لوری اپنے سارے بیٹوں میں سے صرف میرے لئے گائی۔ ماں کی محبت اور دعاؤں سے بھری اس لوری نے مجھے پروان چڑھایا۔ امی جی کی وفات سے کوئی سال بھر پہلے مجھے چند ماہ گوجرانوالہ میں گزارنے پڑے۔ وہیں ایک روزشام کا کھاناایک ہوٹل میں کھارہاتھا۔ اچانک یہ لوری کیسٹ پلیئر سے نشر ہونے لگی۔ لوری شروع ہوتے ہی میں جیسے بچہ بن گیا اور میں نے دیکھا کہ امی جی نے مجھے۔۔ چھ ماں کے بچے کو۔۔گود میں اٹھایاہوا ہے اور لوری سنارہی ہیں۔لوری ختم ہوگئی۔۔ میں بچپن عبور کرکے اپنی اصل عمر تک پہنچاتو دیکھاکہ، میں جو ابھی ماں کی گود میں کھلکھلارہاتھا، میری آنکھیں بھیگی ہوئیں تھیں۔ عجیب سا تجربہ تھا۔ کئی بار سوچا امی جی کو اس تجربے سے آگاہ کروں گا مگر پہلی محبت کے اظہار کی طرح اس تجربہ سے امی جی کو آگاہ نہ کرسکایہاں تک کہ وہ وفات پاگئیں۔ پہلی محبت سے یاد آیاکہ میری پہلی محبت بھی میری امی جی ہیں اور آخری محبت بھی امی جی ہیں۔ اس اوّل اور آخر کے بیچ میں بہت سی محبتیں آئیں مگر درحقیقت وہ سب میری پہلی اور آخری محبت کا عکس تھیں۔
(حیدر قریشی کے خاکہ مائے نی میں کنّوں آکھاں سے اقتباس)