سرور عالم راز سرورؔ(امریکہ)
(خلیل طوقؔ ار کے مجموعہء منظومات پر ایک نظر)
(خلیل طوقؔ ار ایک ترک نژاد شاعر اورادیب ہیں۔ آپ نے اپنے شوق سے اردو سیکھی ہے اور پھر اس میں اعلی اسناد بھی حاصل کی ہیں۔ آپ نے ’’میرزا اسد اللہ خاں غالبؔ: زندگی اور آثار ‘‘ پر مقالہ لکھ کر اردو میں ایم اے کی سند ۱۹۹۲ء میں حاصل کی۔ بعد ازاں ۱۹۹۵ء میں اردو میں ہی پی ایچ ڈی کی تکمیل کی۔ ڈاکٹریٹ کے لئے آپ نے ’’ہندوستان میں فارسی اور اردو شاعری: بہادر شاہ ظفرؔ کے عہد کے شعرا‘‘ پر مقالہ لکھا۔آج کل ڈاکٹر خلیل طوقؔ ار استنبول یونی ورسٹی، ترکی میں شعبہ اردو میں پروفیسر اور صدر کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ حال ہی میں موصوف کی اردو آزاد نظموں کا مجموعہ ’’ایک قطرہ آنسو‘‘ پاکستان سے شائع ہوا ہے۔ یہ مضمون اسی مجموعہ کے جائزہ اورتعارف پر مشتمل ہے۔)
::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
جب حضرت داغؔ دہلوی نے اردو کی مقبولیت کے حوالہ سے یہ شعر کہا تھا کہ :
اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغؔ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
تو ان کے ذہن میں معلوم نہیں ’’سارے جہاں‘‘ کا کیا تصور تھا۔ یہ بات تو ظاہر ہے کہ ان کے زمانہ کے محدود وسائل آمد ورفت و ترسیل معلومات کے پیش نظر ان کو ہندوستان کا ہی نہایت محدود علم رہا ہو گا۔ اور اگر دوسرے ممالک کاتھوڑا بہت علم تھا بھی تو وہ نہ صرف محدود و مختصر ہی ہو گا بلکہ بڑی حد تک افسانوی بھی رہا ہو گا۔ آج ریڈیو، ٹی وی،
ٹیلی فون ، ہوائی جہاز او ر انٹر نیٹ نے جس طرح ساری دنیا کو ایک نہایت ہی مختصر بستی میں تبدیل کر کے ہم سب کو ایک دوسرے کا ہمسایہ بنا کر رکھ دیا ہے اس کا تصور بھی چند سال قبل تک موجود نہیں تھا۔ اگر آج حضرت داغؔ زندہ ہوتے اور دنیا کے تقریبا’’ ہر گوشہ میں اردو زبان اور شعرو ادب کی گو ناگوں جو لانیاں دیکھتے تو اپنی پیشین گوئی کی اس حیرت انگیز صداقت پر انگشت بدنداں ہو کر رہ جاتے۔ آج دنیا کا شاید ہی کوئی ایسا حصہ ہو گا جہاں اردو اپنا جھنڈا نہیں گاڑ چکی ہے اور جہاں اردو کے پرستار شعر و ادب کی شمع نہ جلائے بیٹھے ہوں۔ انٹر نیٹ پر بھی اردو نے اپنی دنیا الگ بسا رکھی ہے۔ درجنوں محفلوں پر مشتمل اس الیکٹرانک دنیا میں ہر ملک سے عاشقان اردو آ آ کر اپنی زبان کے ابلاغ میں حصہ لے رہے ہیں اور طرح طرح سے اس کی آبیاری میں مصروف ہیں۔مشاعرے ہورہے ہیں، کتابیں شائع ہو رہی ہیں، اور ساتھ ساتھ اردو کی روایتی معاصرانہ چشمکیں بھی پوری آب و تاب کے ساتھ ان محفلوں کی رونق بڑھا رہی ہیں!
لفظ اردو ترکی الاصل ہے۔ پھر یہ کیسے ممکن تھا کہ اردو ساری دنیا میں تو جاتی لیکن ترکی کو نظر انداز کر جاتی ۔ چنانچہ وہ اپنے وطن مالوف میں بھی ادب و شعر کے مختلف حوالوں سے موجود ہے اور اپنی ضو فشانیوں سے وہاں کی ادبی فضا کو پر نور بنا ئے ہوئے ہے۔ خلیل طو قؔ ار ایسے ہی لوگوں میں سے ہیں جو اردو کی دلنوازی سے سرشار ترکی میں اس کی خدمت میں دل و جان سے روزو شب مصروف ہیں اور اپنی ادبی اور شعری کوششوں سے اردو کے لئے ترکی کے ادبی منظر نامہ میں نت نئے اورروشن امکانات پیدا کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ خلیل طو قؔ ار سے میری ملاقات تا دم تحریر خط و کتابت اور ای میل تک ہی محدود ہے، لیکن ایک مختصر عرصہ ہی میں ان کے اخلاق ، خلو ص اور دوست داری نے مجھ کو اپنا گرویدہ بنا لیا ہے۔ میرے سامنے موصوف کی آزاد نظموں کا پہلا مجموعہ ’’ایک قطرہ آنسو‘‘ ہے جو ان کی اردو شاعری سے متعارف ہونے کا اب تک واحد ذریعہ ہے ۔ اس کتاب میں ا ن کی اردو کی بہتر (۷۲) آزاد نظمیں اور ایک فارسی کی پابند نظم ہے۔ اس مضمون میں خلیل طوقؔ ار کے اسی مجموعہ کی اردو نظموں پر گفتگو مقصود ہے۔
شاعری کیا ہے؟ اس سوال کا جتنا جامع اور واضح جواب منشی برج نارائن چکبستؔ لکھنوی دے گئے ہیں اس سے بہتر جواب ممکن نہیں ہے:
شاعری کیا ہے؟ دلی جذبات کا اظہار ہے
دل اگر بیکار ہے تو شاعری بیکار ہے!
جب شاعری دلی جذبات کا اظہار ہی ٹھہری تو یہ اظہار ہر رنگ ، ہر زبان اور ہر ہیئت میں لازمی طور سے دلپذیر ہونا چاہئے خواہ ہم ان ظروف اور طرز ادا کے ہر رمز سے واقف ہوں یہ نہ ہوں جو اس کے لئے استعمال کئے گئے ہیں۔ ہر زبان اپنے مخصوص سماجی تناظر میں پروان چڑھتی ہے اور مقامی اثرات ، تاریخ اور روایات سے متاثر ہو کر ایسے سانچوں میں ڈھل جاتی ہے جو اس معاشرہ اور ماحول کا آئینہ ہوتے ہیں۔ پھر یہی پیمانے اور سانچے اس زبان و تہذیب کی شاعری اور ادب کو جانچنے، پرکھنے اور اس سے لطف اندوز ہونے کے لئے معیار کا کام دیتے ہیں۔ چنانچہ اردو شاعری میں غزل، نظم، رباعی، قطعہ وغیرہ سب اصناف سخن اپنے اپنے اصول و ضوابط رکھتی ہیں اور ہر تخلیق کو اپنی صنف کے تمام مخصوص اصول اور تقاضے پورے کرنے ہوتے ہیں۔ موجودہ زمانہ میں اردو میں بھی غیر زبانوں کے اثر سے کئی نئی اصناف سخن در آئی ہیں جوپہلے اس کی تہذیب اور خمیر کا حصہ نہیں تھیں لیکن اب بن کر رہ گئی ہیں ۔ان اصناف کا ہمارے ادب میں نفوز و قبول عام خود اردو کی ترقی پسندی اور فراخ دلی کا ثبوت بھی ہے اور اس کے اور زمانہ کے درمیاں ربط اور ہم آہنگی کی دلیل بھی۔ ہندی سے دوہے، جاپانی زبان سے ہائیکو اور انگریزی سے سانیٹ اور آزاد شاعری کی مختلف صورتیں اردو میں اسی دروازہ سے آئی ہیں اور اب ہمارے شعری منظر نامہ کو مالا مال کر رہی ہیں ۔
خلیل طوقؔ ار کی اردو نظمیں بھی اسی آزاد اور جاندار عمل کا ایک جیتا جاگتامظہر ہیں ۔ جو لوگ ’’ایک قطرہ آنسو‘‘ کا مطالعہ اردو نظم کے مسلمہ روایتی پیمانوں اور اصولوں کو سامنے رکھ کر کریں گے ان کو شاید مایوسی کا سامنا ہو گاکیونکہ خلیلؔ کی اردو شاعری ان اصولوں کی پابند نہیں ہے۔ ان کی شاعری میں ردیف و قوافی اور زمین و بحر سے وابستہ رموزو نکات ڈھونڈنا تحصیل لا حاصل کے مترادف ہے۔ لیکن اگر ہم قافیہ، ردیف، وزن اور بحروغیرہ کے طلسم سے باہر نکل کر خلیل طوقؔار کے ساتھ ساتھ ان کی شعری دنیا کا ذہنی سفر کریں تو یہ ممکن نہیں ہے کہ ہم ان کے جذبات کی صداقت ، انداز فکر کی اثر پذیری او ر ان کے خلوص بیان سے متاثر نہ ہوں۔ ان کی تمام آزاد نظمیں اپنی سادگی میں پرکاری اور اپنی منفرد ہیئت اور زیر و بم میں جو حسن رکھتی ہیں ان کو روایتی نظم کے خشک تکنیکی پیمانوں سے ناپنے کے بجائے دل سے محسوس کرنے کی ضرورت ہے۔ چونکہ ہر شاعر اور شعر پرست شخص کو ایسی چھٹی حِس قدرت کی جانب سے ودیعت ہوتی ہے اس لئے میرا خیال ہے کہ یہ ذہنی سفر ایک عام قاری کے لئے چاہے اتنا آسان نہ ہو لیکن اہل دل کے لئے نہایت آسان اور خوش آئندہو سکتا ہے۔
خلیلؔ کی نظمیں نہ صر ف اردو کی روایتی شاعری کے جملہ تقاضوں اور پابندیوں (ردیف، قوافی، بحر وغیرہ) سے آزاد ہیں بلکہ ان میں سے اکثر و بیشتر اردو کی آزاد شاعری کے اصولوں سے بھی بے نیاز نظر آتی ہیں اور اپنے مصرعوں کی تشکیل میں کسی عروضی اصول کی تابع نہیں ہیں۔ چنانچہ ان کے مطالعہ کے وقت ذہن و دل کو ان بندھے ٹکے اصولوں سے یکسر آزاد رکھنے کی ضرورت پیش آتی ہے جو روایتی شاعری کو پرکھنے میں عام طور سے استعمال ہوتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ خلیلؔ ان اصولوں سے ناواقف ہیں۔ اردو کے ایک ایسے طالب علم کی حیثیت سے جس نے اپنی تعلیمی اسناد مرزا غالبؔ اور ہندوستان کے اردو اور فارسی کے دوسرے شاعروں پر تحقیقی کام کر کے حاصل کی ہیں اورجو اب ترکی کی استنبول یونی ورسٹی میں اردو اور فارسی کی تدریس کے فرائض ادا کر رہے ہیں خلیل طوقؔ ار اردو شاعری کے تمام رموز و نکات، اصول و ضوابط ، مقتضیات اور مضمرات سے بخوبی واقف ہیں۔ لیکن مختلف خارجی اور داخلی وجوہات کی بنا پر وہ اپنے آپ کو ان مسلمہ اصولوں کی پابندی پر راضی نہیں کر سکے ہیں۔ جیسا انہوں نے اپنی کتاب کے دیباچہ میں خود بھی اعتراف کیا ہے ’’ممکن ہے کہ بعضوں کے لئے اس مجموعہ میں موجود نظموں کو نظم کی صنف میں شمار کرنا مشکل ہو۔ شاید میرا شما ر بھی شاعروں کی صف میں نہیں کیا جا سکتا۔۔یہ بھی ممکن ہے کہ یہ نظمیں بعض اہل ہنر کے اعلی معیا ر پر پوری نہ اترتی ہوں۔‘‘ لیکن ایسے اہل ہنر کے ایک ممکنہ فیصلہ کو خلیلؔ کی شاعر ی پر مسلط کر کے اہل دل اس لذت اورحسن سے نا آشنا رہ جائیں گے جو ان مختصر اور سادہ نظموں کا خاصہ ہیں، اور اس طرح اپنے اوپر بڑا ظلم کریں گے۔
در اصل خلیلؔ خود چونکہ تُرک نژاد ہیں اور ترکی زبان ہی کے ادبی و شعری ماحول میں پروان بھی چڑھے ہیں اس لئے انہوں نے کچھ شعوری اور کچھ غیر شعوری طور پراپنے جذبات ، احساسات اور تجربات اپنی مادری زبان کے شعری سانچوں سے ملتے جلتے سانچوں میں ڈھال کر انہیں اردو نظموں کی شکل دی ہے۔ حالانکہ بیک نظر یہ سانچے ہماری نظروں اورذہن کو یک گونہ اجنبی سے لگتے ہیں لیکن اپنے خلوص اظہار اور صداقت جذبات کی وجہ سے وہ اپنے اندر ایک ایسی جاذبیت بھی رکھتے ہیں جو زمان و مکان سے آزاد ہے۔اگران نظموں کو ’’دیدہء عبرت نگاہ ‘‘ سے دیکھا اور ’’گوش حقیقت نیوش ‘‘ سے سنا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم ان کے سوزو گداز ، معنویت، سادہ کاری اور شعریت سے متاثر نہ ہوں۔ ان کی نظم ’’میں ہوں ثبوت‘‘ اس دعوہ کے ثبوت کے لئے کافی ہے۔ ملاحظہ فرمائیے:
برگ و بار کی زبان سے کہتا ہے تو کہ::: میں ہوں!
پرندوں کی پرواز سے دکھاتا ہے تو کہ::: میں ہوں!
پہاڑوں کے سجدہ سے بتاتا ہے تو کہ ::: میں ہوں!
فضاؤں کی وسعت میں ، آسماں میں،زمیں میں
رنگ و بو کے عالم میں، ازل میں ، ابد میں
سچ ہے کہ تو ہے، تیرا نام ہے، حکم تیرا ہی جاری ہے
مجھے علم ہے ان کا کہ اس کا ثبوت
میں ہوں!
خلیل طوقؔ ار نے نہ صرف اردو شاعری کا گہرا مطالعہ کیا ہے بلکہ وہ اسی سلسلہ سے ایک عرصہ تک لاہور (پاکستان) میں مقیم بھی رہے ہیں۔وہاں ان کو اردو شاعروں کو نہایت قریب سے دیکھنے ، سننے اور سمجھنے کا موقع ملا ہے۔انہوں نے اردو کی شعری اور ادبی محفلوں میں شرکت بھی کی ہے ۔ یہ بات توجہ طلب ہے کہ وہ اردو کے ادبی منظر نامہ سے نہ صرف مطمئن نہیں ہیں بلکہ اس کی بلاخیزیوں سے ایک حد تک خوف زدہ بھی ہیں!اس سے تو انکار ممکن نہیں ہے کہ تنگ نظری، عصبیت، بے جامعاصرانہ چشمکیں اور ’’ہم چو ئے من دیگرے نیست‘‘ کی ذہنیت ہمارے ادبی منظرنامہ کا المناک حصہ ہو کر رہ گئی ہیں۔ خلیلؔ اس ماحول سے بیزار ہیں اور شاید ایسے ہی خارجی عوامل کی وجہ سے انہوں نے شعوری طور پر روایتی انداز کی شاعری سے احتراز کیا ہے اور اردو زبان میں ترکی انداز شعر گوئی کے حوالہ سے داد سخن دی ہے۔
اس صورت حال کہ ایک وجہ اور معلوم ہوتی ہے ۔ خلیلؔ کا مزاج اپنی مادری زبان ترکی سے فطری طور پر ہم آ ہنگ ہے ۔اردو اور ترکی شاعری کے درمیان انہوں نے کافی تضاد محسوس کیا ہے۔ چنانچہ اپنے دیباچہ میں وہ خود کہتے ہیں کہ ’’بعض خصوصیتیں جو اردو شاعری میں قابل مدح ہیں وہ ترکی میں قابل تنقید ہیں کیونکہ ترکی میں یوروپین ادب کے اثرات بہت گہرے مرتب ہوئے ہیں‘‘۔ گویا وہ شاعری تو اردو میں ضرور کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کا انداز فکر اور اسلوب بیان ترکی شاعری کی روایات کی جانب مائل ہے۔ اسی ذہنی اجتماع ضدین نے ’’ایک قطرہ آنسو‘‘ کی شکل میں ڈھل کر خلیلؔ کی شاعری کو وہ انفرادیت بخشی ہے جو ایک بڑی حد تک اس کا طرہ امتیاز ہے۔ اس فکر میں ایک آزاد اور ادب دوست ذہن کارفرما ہے او ر یہ طرز بیان ایک کھلے مزاج اور متنوع تراش کے قلم کا مرہون منت ہے۔ اس اچھوتے اسلوب بیان کی یہ دو مثالیں دیکھئے ۔ دونوں نظمیں بلا عنوان ہیں :
کوئی تجھے ڈھونڈتا رہا
جنگل جنگل ، صحر ا صحرا
کبھی زمینوں کے نیچے
کبھی ستاروں کے پیچھے
کوئی پہاڑوں پر چڑھا
کوئی غاروں میں جا بیٹھا
ایک کی خواہش ناکام پھر بھی
دوسرے کی تلاش ادھوری!
یا تو تھا گم یا وہ خود گم تھے
یا میں خود کھو گیا ہوں کہ
’’جہاں جہاں میں نے دیکھا
وہاں تجھے حاضر پایا!‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بھیگی تنہائیوں کی سنسان راتوں میں
چاند کے سامنے بیٹھتا رہا
بیٹھتا رہا، دیکھتا رہا، گھورتا رہا اسے
شاید کہ میرے چہرے کے نقوش
ابھر آئیں اس کے اوپر!
تاکہ تم بھی دیکھتی رہو میری تصویر
جیسا کہ مجھے نظر آ تی رہیں تم
چاند کے سفید اور چمکدار چہرے کے اوپر!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خلیل طوقؔار اپنی نظموں میں ایک آزاد خیال اورفطری شاعرکی حیثیت سے بہت نمایاں ہیں۔ان کی شاعری کے مطالعہ کے دوران کہیں بھی یہ محسوس نہیں ہوتا ہے کہ وہ ارادی طور پر کسی مخصوص موضوع پر نظم کہنے بیٹھے ہیں۔ ان کی بیشتر نظمیں نہایت سادہ، صاف اور اپنے قاری سے براہ راست مخاطب نظر آتی ہیں۔ تصنع، بناوٹ یا بھرتی کا ان خوبصورت نظموں میں مکمل فقدان ہے۔وہ سر راہ زندگی جو کچھ دیکھتے ، سنتے یا محسوس کرتے ہیں اس کو قلم برداشتہ صفحہ ء قرطاس پر رقم کر دیتے ہیں۔ ان کے موضوعات بہت عام
اور روز مرہ کی زندگی کی طرح معمولی لیکن دلچسپ ہیں۔ اسی مناسبت سے ان کی زبان بھی سادہ اور شائستہ ہے اور بیان بھی سیدھا اور تصنع سے عاری ہے ۔ وہ شاعری کے فطری تقاضوں کے تحت اپنے خیالات کے اظہارمیں اشارے، کنایے ، تشبیہات اور استعارات استعمال تو کرتے ہیں لیکن بہت کم اوراس طرح سنبھل سنبھل کر کہ ان میں پوشیدہ معانی بیک نظر ہم پر عیاں ہوجاتے ہیں اورافہام و تفہیم کے کسی مرحلہ میں ہم ابہام کا شکار نہیں ہوتے ہیں۔ ایسی بے ساختگی اور سلاست بیان اسی وقت ممکن ہوتی ہے جب شاعر کی سوچ اور طبیعت اپنے قاری اور اس کے گرد و پیش کامکمل ادراک رکھتی ہو اور اس سے اپنے ربط و ضبط میں پرخلوص ہو۔
یہ بے ساختگی ہی خلیل طوقؔارکے فن شاعری کو ایک امتیازی شان عطا کرتی ہے۔ ان کی نطموں کے بیشتر عنوان ( مثال کے طور پر :وہ پیڑ، میں انسان ہوں، تیری مسکراہٹ، اے گذرتے ہوئے دنو! وغیرہ) اسی سادہ دلی ،بے ساختگی اور صداقت نفس و احساس کے غماز ہیں۔ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ شاعر نے اپنی نطمیں محض محفل آرائی کی خاطر نہیں کہی ہیں بلکہ یہ اس کی زندگی کے ایسے لمحات کا دلسوزو دلپذیر اظہار ہیں جو اس کے حساس دل پرکاری ضرب لگا کر اپنا گہرا نشان چھوڑ گئے ہیں اور جن سے وابستہ اپنی محسوسات اور رشتہء محبت و ارتباط میں وہ دنیا کو اپنا شریک بنانا چاہتاہے۔ ان کی درج ذیل بلا عنوان نظم دیکھئے کہ کتنی دل سوزی، سادگی اور اثر پذیری سے اپنا مافی الضمیر ادا کرتی ہے ۔ اس نظم کا اختصار ہی اس کی جان ہے۔ اس کے استعارے اور کنائے مکمل اور معنی سے لبریز ہیں اور اس کا ٹیپ کا مصرع اپنے پیغام میں مکمل اورمطلق بے رحم ہے :
ہستی اور نیستی کے خاک و غبارسے
اپنا دامن پاک کیا میں نے!
زمان و مکاں کے ناقابل فہم
مسائل سے بندھن توڑ دیا میں نے!
تخیل کے شاہینِ بلند پرواز کو
لوہے کے قفس میں بند کیا میں نے!
خزائن سے بھرا ایک شہر معمور
دانے کی قیمت میں بیچ دیا میں نے!
پہاڑوں کی سنسان چوٹی کے اوپر
اپنا آشیانہ بنایا میں نے!
انسانوں کی انسانیت دیکھنے کے بعد
اپنی انسانیت کو چھو ڑ دیا میں نے!
خلیلؔ کے فطری طرز فکر اور بے ساختہ نظم نگاری کی دلیل ایسی ہی دوسری وہ منظومات ہیں جن کو شاعر نے کتاب میں کوئی عنوان نہیں دیا ہے۔ کتاب کے مشمولات کی فہرست میں تو شناخت کی خاطر ان نظموں کے پہلے مصرع کو بطور عنوان استعمال کیا گیا ہے لیکن خود نظموں کو دیکھئے تو وہ عنوان سے بے نیاز نظر آتی ہیں۔ کہیں کہیں تو عنوان کے نہ ہونے سے یہ مغالطہ ہو جاتا ہے کہ پچھلے صفحہ کی نظم ہی اگلے صفحہ پر بھی جاری ہے! دراصل یہ وہ نظمیں ہیں جن کو اپنے مطلب کی ادائیگی کے لئے کسی عنوان کی حاشیہ آرائی کی بالکل ضرورت نہیں ہے۔ یہ شاعر کی زندگی کے ان لمحات کی فطری ترجمان ہیں جب اس کا دل کسی حادثہ ، سانحہ یا احساس کا شکار ہو کرہم سے براہ راست اور بلا تکلف مخاطب ہونا چاہتا ہے۔اگر ’’تن کی آنکھیں بند کرکے اور من کی آنکھیں کھول کر ‘‘ غور سے ان نظموں کو پڑھا اور محسوس کیا جائے تو یہ بے عنوان نظمیں اس مجموعہ کے حسن میں ایک نمایاں اضافہ کا باعث ہیں۔
’’ایک قطرہ آنسو‘‘ کی بیشتر نظمیں بہت مختصر ہیں۔ خلیل طوقؔار کو چند سطروں میں اپنے جذبات و خیالات کوصداقت بیان کے ساتھ قاری تک پہنچانے کا ہنر خوب آتا ہے۔ ان کی نظموں کی ایک خصوصیت ان کے آخری یا ٹیپ کے مصرعے ہیں، جہاں نظم کا بنیادی خیال چند خوبصورت سطروں میں مختلف پہلوؤں سے اجا گر ہو کر اپنے فطری انجام کو پہنچ جاتا ہے اور قاری کو اپنی بے ساختگی اورجذبات کی شدت بھری ادائیگی کے اثر سے جھنجھوڑ کررکھ دیتا ہے۔
نظم ’’بھیگی تنہائیاں ‘‘ ایسی ہی ایک نظم ہے جو ہستی کے کھیل کے راز ہائے سربستہ چند سطروں میں کھول کر ہمارے سامنے نہایت کرب کے ساتھ رکھ دیتی ہے۔ اس کی داخلیت اور اس کے استعاروں کی صد رنگی اپنی مثال آپ ہیں:
بھیگی تنہائیوں کی ہولناک رات میں
بجھی ہوئی امید کی بارش تلے
ایک بے کس بچہ چھت کے کنارے
لا پروائی کے عالم میں سو رہا ہے!
سنہری خوابوں کی دھوپ کے نیچے
کھوئے ہوئے مستقبل ڈھونڈ رہا ہے!
بھولی ہوئی خوشیوں کی یادوں سے
ہستی کا کھیل کھیل رہا ہے!
زیر نظر مجموعہ ’’ایک قطر ہ آنسو‘‘ اردو کی شاہراہ سخن پر خلیل طوقؔار کا پہلا قدم ہے۔ یہ قدم اس قدر خوش آئندہے کہ یہ ا ن کی شاعرانہ زندگی کا حرف آ خر ہر گز نہیں ہو سکتا ہے۔ اہل فکر و نظر کی پذیرائی اور داد و تحسین یقینا خلیلؔ کے ذوق شعر گوئی پر مہمیز کا کام کریں گی اور ہم اردو میں ان کی سخن سنجی سے آئندہ بھی فیض یاب ہوتے رہیں گے۔ ایسی کتنی ہی ادبی راہیں ہیں جو ان کی آمد کی منتظر ہیں اور کتنی ہی شعری منزلیں ایسی ہیں جو ابھی خلیلؔ کے ہاتھوں سر ہونی ہیں۔ یہ ان کی فطرت اور شاعرانہ مقام کا بھی تقاضہ ہے اور ان کی تقدیر بھی! خود ان کی ہی زبان میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ:
فاش کر دیتی ہے یہ ظالم زباں
دل کے خانہء تاریک کے اندر
محبوس شدہ اسرار نہاں!
حالانکہ بند کئے رکھتا ہوں میں
اس کے دریچے ہر آں!
روک نہ سکے اس کو دنداں!
گویا بنا یا تھا جنہیں میں نے نگہباں!
بد تمیز ہے یہ زبا ں کہ اس نے
پھر کر دیا ہے مجھے عالم میں بد عنواں!