اکبر حمیدی(اسلام آباد)
اردو ادب میں خاکہ نگاروں کی کتنی ہی مختصر فہرست کیوں نہ بنائی جائے، بابائے اردو مولوی عبدالحق، رشید احمد صدیقی اور محمد طفیل کے نام اس فہرست کالازمی جزو ہوں گے۔
اپنے ہم عمروں اور ہم عصروں میں ڈاکٹر سید معین الرحمن کا نام مولوی عبدالحق، رشید احمد صدیقی کے نام لیواؤں اور ان کے کارناموں کو سر سبز اور تازہ رکھنے والوں میں سب سے زیادہ نمایاں ہے۔ اس میں بھی کوئی کلام نہیں کہ وہ مرحوم محمد طفیل کے حددرجہ بااعتماد اور عزیز دوست رہے ہیں۔
ان تین شخصیتوں سے گہرے امتیازی تعلقِ خاطر کی وجہ سے اگر معین صاحب کو خاکہ نگاری یا شخصیت نگاری سے شغف نہ ہوتا تو حیرت ہوتی ۔ ڈاکٹر سید معین الرحمن کی پیش نظر شخصی نگارشات میں حوالوں کو مولوی عبدالحق کے اثرات ، دلگداز درد مندی کو رشید احمد صدیقی کا فیضان اور برجستگی و خوش دلی کو طفیل صاحب کے حساب میں شمار کیا جائے تو بھی جو کچھ بچ رہتا ہے وہ بڑا نمایاں، امتیازی اور پُر کشش ہے اور تمام تر معین صاحب کا اپنا ہے۔
محبت اور شفقت کی چاپ، اخلاص و اخلاق کی چھاپ، ایثار اور اعترافِ کمال پر اصرار۔۔۔ پھر ان کی قوتِ برداشت اور برتاؤ کے مظاہر اور ناگوار کو گوارا بنا دینے کا رویہ انہیں اپنے معاصرین سے منفرد اور مختلف بناتا ہے، اس لیے میرے نزدیک وہ کہہ سکتے ہیں کہ
الفاظ تو سب میری غزل کے بھی وہی ہیں لیکن ہیں میرے زیر و زبر اور طرح کی
میں معین صاحب کے شخصی مضامین کے اس دوسرے مجموعے کا دلی خیر مقدم کرتا ہوں۔
ڈاکٹر سید معین الرحمن صاحب کے خاکوں کا نومطبوعہ مجموعہ’’چند عزیز اور حفیظ شخصیتیں‘‘ملا۔ میں تو سمجھ رہاتھا کہ مجموعہ چند شخصیتوں کے اجمالی ذکر پر مشتمل خاکوں کا ہو گا مگر جہاں شوق ہو وہاں بات بڑھ جاتی ہے اور رقعہ لکھتے وقت بھی دفتر لکھے جاتے ہیں۔سو اچار سو صفحات کی دلکش گٹ آپ کے ساتھ چھپی ہوئی یہ مبسو ط ادبی دستاویز دیکھ کر میں حیران کن مسرت سے سر شار ہو گیا۔ اس لیے بھی کہ پہلے ہی تین خاکوں میں ایک خاکہ میرے لیے بھی ہے۔ ایک دو حرفِ ستائش بھی آدمی کو مسحور کر دیتے ہیں اور یہاں تو انہوں نے میرے لیے حروف ہی نہیں مضامین ستائش کے انبار لگا دئیے ہیں۔ میرا شروع سے یہ موقف رہا ہے کہ خامیاں تلاش کر لینا اور انہیں بیان کر دینا بڑا سہل کام ہے کہ اس سے لکھنے والے کے دل میں ایک جذبہ افتخار اور احساس برتری اور بھی پھولتا پھلتا ہے اور اس کانفس خوب پرورش پاتا ہے مگر خوبیاں تلاش کرنا اور انہیں بیان کردینا اور فراخ دلی سے بیان کر دینا صرف اہل نظر عالی ظرف لوگوں کا ہی حصہ ہے ۔ منٹوکی طرح نہیں کہ جس کا خاکہ لکھا اسے ذلیل کر کے رکھ دیا اور خود نشہ خودی سے سرشار ہوتے رہے بلکہ مولوی عبدالحق کی طرح، محمد طفیل کی طرح اور ڈاکٹر سید معین الرحمن کی طرح جس پر خاکہ لکھنا اس کی عزت و توقیر میں سچائی کے ذکرِ جمیل کے ساتھ اضافہ کر دینا صرف خوش سرشت تخلیق کاروں کو ہی مقدر ہوا ہے اور یہی لوگ دراصل زمین کا زیور اور انسانوں کا افتخار ہوتے ہیں۔ یہ صفت میں نے سید ضمیر جعفری صاحب میں اور ڈاکٹر سید معین الرحمن صاحب میں بدرجہ اتم پائی اور ایں سعادت بزورِ بازو نیست ۔عزت والے ہی دوسروں کو عزت دیتے ہیں اور سادات سے بڑھ کر کون معزز ہو سکتا ہے۔میں نے معین صاحب کی بہت سی تحریریں پڑھی ہیں اور یہ خاکے بھی چند ایک تو پہلے ہی ہلے میں پڑھ گیا ہوں۔ ایک تو ذکر پری رخوں کا اور پھر بیان ڈاکٹر سید معین الرحمن صاحب کا ۔ یہ خاکے ادبی دنیا کی آنکھوں کا تار ابنیں گے۔خاکہ نگاری کو میں خاک ڈالنا یا خاک میں ملانا نہیں سمجھتا بلکہ خاک سے اٹھانا خیال کرتا ہوں۔ ادب میں بھی شخصیت کے Bestکا ذ کر ہونا چاہیے جیسے دوسرے شعبوں میں مروج ہے تاکہ شخصیت زیر نظر اپنے پورے جمال و جلال کے ساتھ ابھرے اور پورے باطنی دل پذیر اثرات کے ساتھ ہمارے دل و دماغ پر اتر آئے۔ یہ وصف بلکہ اوصاف معین صاحب کے خاکوں کا زیور ہیں اور ان کی وسعتِ نظر اور عالی ظرفی کا ثبوت ہیں۔
میں یہ خاکے پڑھ کر محسوس کر رہا ہوں کہ اندازِ بیان کے لحاظ سے بھی ان پر متقدمین میں سے کسی کے سائے نہیں ہیں بلکہ معین صاحب کی اپنی پر کشش شخصیت کی نمایاں چھاپ ہے جو ایک لکھنے والے کی بہت بڑی خوبی ہوتی ہے۔ ان کے اس انداز بیان میں آورد نہیں سراسر آمد ہے جیسے ایک دریا ساون کی بارشوں میں آس پاس کی زمینوں کو سرشار اور آباد کر دیتا ہے۔یہ خاکے معین صاحب کے اندازِ فکر ، انداز بیان اور طرز احساس کے اعتبار سے بھی بے حد متاثر کرتے ہیں۔یہ خاکے میں نے پہلے بھی پڑھے تھے اور ایسے ہی اثرات میرے دل و دماغ پر مرتب ہوئے تھے۔ مجھے یقین ہے یہ خاکے ادبی دنیا میں ڈاکٹر سید معین الرحمن کے نام کو اور سر بلند کریں گے اور جن شخصیتوں کو انہوں نے موضوع بنایا ہے ان کی عزت و اعتبار میں بھی اضافے کا باعث بنیں گے۔
٭٭٭
’’اکبر حمیدی کے خاکے سرسبز پیڑوں کی طرح ادبی آلودگی کو ختم کرنے میں معاون ثابت ہو رہے ہیں۔انہوں نے ثابت کر دکھایا ہے کہ خاکہ نگاری نہ تو شخصیت کی خاک اڑانے کا نام ہے اور نہ شخصیت پر خاک ڈالنے کا۔بلکہ یہ تو پل صراط پر سے گزرنے کا عمل ہے جبکہ ادیب نما صحافیوں کے خاکے سرکس کے رسوں پر چلنے کا منظر دکھاتے ہیں۔‘‘
(حیدر قریشی کے خاکہ بلند قامت ادیب سے اقتباس ،بحوالہ کتاب میری محبتیں ص۱۲۲)