لاہور کے ایک ادبی رسالہ نے میرے خلاف یورپ کے جعلی ادبی گروپ کا زہریلا مواد شائع کیا ہے۔ اس کے جواب میں میری طرف سے جو میٹر اس رسالہ کو بھیجا گیا وہ سارا میٹر میرے خط سمیت یہاں درج کیا جا رہا ہے ۔ مذکورہ رسالہ نے حسبِ توقع میرا جواب شائع نہیں کیا ،اس رسالہ کے زہریلے مواد کو پڑھ کر معروف شاعر جناب حمایت علی شاعر صاحب نے مجھے جو خط لکھا ہے اس کا متعلقہ حصہ خطوط کے سیکشن میں شامل کیا جا رہا ہے۔ان کے علاوہ بھی مجھے کئی اہم ادیبوں نے خطوط لکھے ہیں۔میں ان سارے دوستوں کا شکر گزار ہوں۔یہ اردو کی بد بختی ہے کہ یہاں مغربی ممالک امریکہ،کینڈا،یورپ میں خاص طور پر جعلی شاعر اور ادیب ڈالر،پاؤنڈ اور یورو کے جلو میں بدمعاشی اور غنڈہ گردی کے بل پر شاعر اور ادیب بننے پر تلے ہوئے ہیں۔آفرین ہے انڈو پاک کے ایسے ادبی رسائل پر جو سب کچھ جانتے ہوئے بھی نہ صرف ان جعلی لوگوں کو پروجیکٹ کر رہے ہیں بلکہ ان ممالک میں جو گنتی کے چند جینوئن لوگ موجود ہیں ان کی تذلیل کرکے مزید ثواب کما رہے ہیں،یورپ کے جعلی ادیبوں کا جواب دینا میرے لیے قطعاَ ضروری نہ تھا،لیکن ادب کے ایک بڑے اور اہم مرکز لاہور سے اس گندگی کو اچھالنے کے لیے لابنگ کی گئی ہے تو اس کے جواب میں اتنی وضاحت کرنا ضروری ہو گیا تھا۔ حیدر قریشی
٭٭٭
محترم مدیران ماہنامہ ادب دوست لاہور،
اے جی جوش صاحب، سعید اقبال سعدی صاحب، اعجاز رضوی صاحب سلام مسنون
آپ نے مئی کے شمارہ میں میرے خلاف جو غلیظ اور معاندانہ مواد شائع کیا ہے اس کے جواب میں اپنا موقف پیش کر رہا ہوں۔کیا آپ مجھے بھی اپنے موقف کی وضاحت کا حق دیتے ہیں یا نہیں؟ آپ کی صوابدید پر ہے۔جیسے انداز میں میرے خلاف چھاپا گیا ہے (ایک جھوٹے الزامات پر مبنی نیا مضمون اور ایک پرانا مطبوعہ مضمون)،اسی انداز میں جواب کے دو حصے ہیں۔ایک میرا جواب اور دوسرا ایک مضمون کے اقتباسات۔اللہ آپ لوگوں کو خوش رکھے۔والسلام دعا کے ساتھ حیدر قریشی ۲۳مئی ۲۰۰۵ء (جرمنی سے)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ میٹر ای میل کے ذریعے پروفیسر نذر خلیق صاحب کے توسط سے بھیج رہا ہوں۔وہ اس کا پرنٹ نکال کر آپ کو رجسٹری سے بھیجیں گے۔آپ کا کوئی ای میل کنٹیکٹ ہو تو آپ کو براہ راست بھی بھیج سکتا ہوں۔
حیدر قریشی(جرمنی)
مغربی ممالک میں ادب کے نام پر جعلسازی کا فروغ
چند وضاحتیں اور اصل ادبی مسئلہ
تشکیل کراچی کے شمارہ نومبر ۲۰۰۴ء میں کرشن مہیشوری کا مضمون شائع ہوا تھا۔کرشن مہیشوری اس انداز کی تحقیق کرنے اور اسی طرز کے مضامین لکھنے میں مسلسل پیش رفت کر رہے ہیں۔ان کے اس نوعیت کے مضامین شب خون الہ آباد،شاعر بمبئی اور کائنات مغربی بنگال تک چھپ چکے ہیں۔جدید ادب میں بھی ان کا ایک ایسا مضمون شائع کیا گیا تھا۔تشکیل میں چھپنے والے مضمون میں جو اصل مسئلہ پیش کیا گیا تھا،وہ یہ تھا کہ جرمنی میں مقیم سید اقبال حیدر نامی شخص قطعاَ شاعر نہیں ہے،اور اس کے لئے جو شواہد پیش کیے گئے تھے،ان کا جواب تاحال کسی نے نہیں دیا ۔البتہ اب لاہور کے ایک ماہنامہ ادب دوست میں لندن کے ادبی مافیا کے ایک صاحب نے کرشن مہیشوری کے مضمون کا مصنف مجھے قرار دیتے ہوئے میرے خلاف زہر فشانی فرمائی ہے۔اس سلسلے میں پہلے اس الزام جیسے ایک اور الزام کا قصہ بھی ریکارڈ پر لے آوٗں۔چند برس پیشتر لندن کے ماہنامہ پرواز نے ایک مضمون ادب کے کھیپیے شائع کیا تھا (یہ مضمون بھی اشاعت کے لیے ساتھ ہی بھیج رہا ہوں)۔مضمون نگار کا نام پروفیسر لطیف اللہ ۔کراچی درج تھا۔اس میں لندن کے ادبی مافیا کے اس صاحب کا علمی و ادبی حدود اربعہ علمی اور ادبی زبان میں کھول کر بیان کیا گیا تھا۔رسالہ چھپنے کے بعد مجھے پرواز کے ادارہ کی ایک اہم شخصیت نے فون کرکے بتایا کہ طباطبائی کہتا پھر رہا ہے کہ میرے خلاف مضمون حیدر قریشی نے لکھا ہے۔میری فارسی کا خانہ خالی ہے اس لیے اتنا ہی کہا کہ کاش میں ایسا علمی مضمون لکھ سکتا۔ اب انہی طباطبائی صاحب نے جعلی شاعر سید اقبال حیدر کے دفاع کے لیے الزام لگایاہے کہ سید اقبال حیدر کے خلاف مضمون حیدر قریشی نے لکھا ہے۔مجھے اس الزام کو بھی خود پر سجا لینے سے انکار نہیں ہے لیکن یہ حقیقتاَ کرشن مہیشوری کی محنت کے ساتھ زیادتی ہوگی۔
جہاں تک مغربی ممالک میں ادبی جعلسازیوں کے خلاف آواز اٹھانے کا تعلق ہے میں ایک عرصہ سے اس کے بارے میں لکھ رہا ہوں اور وہ لکھا ہوا اتنا زیادہ ہے کہ میری اس وضاحت اور پروفیسر لطیف اللہ کے مضمون کے برابر وہ سارے اقتباسات ہو جائیں گے۔ضرورت پڑی تو کبھی ایسے سارے اقتباسات یکجا کر دوں گا۔میں نے اپنے سچ کی قیمت بھی ادا کی ہے اور طباطبائی کے قبیل کے سارے چوروں اور جعلی شاعروں اور ادیبوں کو بخوبی علم ہے کہ انہوں نے میرے سچ کے جواب میں کیا گھناؤنا کھیل کھیلا تھا۔اس کھیل سے خوش وقتی تو ہو گئی لیکن علمی اور ادبی سطح پر میرا وہ سارا لکھا آج یونیورسٹی لیول پر استفادہ کے لیے منگایا جا رہا ہے ۔طباطبائی نے اصل مسئلہ سے توجہ ہٹانے کے لیے میرے خلاف جو زہر افشانی کی ہے مجھے ان میں سے صرف چند اہم امور کے سلسلہ میں وضاحت کرنا ہے۔
***میری ماہیا نگاری پر ان کی ساری طبع آزمائی سو سنار کی کہلا سکتی ہے اور اس پر ایک ہی جواب صرف یہ ہے کہ اس ادبی مافیا کے گاڈ فادر نے میرے موقف کی معقولیت کو نہ صرف تسلیم کیا تھا،ایک اخبار میں نہ صرف میری حمایت میں لکھا تھا بلکہ اپنے ماہیوں کا مجموعہ اشاعت سے پہلے نظر ثانی کے لیے مجھے بھیجا تھا۔میری بعض ترامیم کو قبول کیا تھا۔ خاص طور پر فرمائش کرکے اپنے مجموعہ ’’سوچ سمندر‘‘کا پیش لفظ مجھ سے لکھوایا تھا۔نہ صرف میرے لکھے پیش لفظ کو کتاب میں شامل کیا تھا بلکہ اسی کا ایک اقتباس اہتمام کے ساتھ کتاب کی پشت پر درج کیا تھا۔جبکہ اپنے شہر لندن میں موجود اپنے خادم’’ نقاد‘‘طباطبائی سے کسی قسم کی رائے لینا بھی گوارا نہیں کیا تھااور نہ ہی جعلی شاعر سید اقبال حیدر کی رائے لینے کا سوچا تھا۔
***کوئی بندہ علمی سطح پر مکالمہ کرنے کے لائق ہو تو اس کے ساتھ بات کی جا سکتی ہے۔میری جتنی سوجھ بوجھ ہے،اس کے مطابق میری مختلف تحریروں سے میرے فکری رجحانات کو بخوبی دیکھا جا سکتا ہے۔ لیکن مذہبی انتہا پسندوں کی طرح محض مذہبی ایکسپلائٹیشن کی جائے تو اس کا کیا جواب دیا جا سکتا ہے ۔اسلام کا نام استعمال کر کے اشتعال انگیزی پیدا کرنے والوں نے ہی آج مسلمانوں کو ایسے تکلیف دہ دن دکھائے ہیں۔تاہم طباطبائی نے جو دو باتیں لکھی ہیں کہ میں ہندوستان میں گیا تو وہاں جا کر ہندو ہو گیا اور یہ کہ میں نے اقبال حیدر سے اپنی ماہیا نگاری پر مضمون لکھنے کے لیے کہا تو یہ ایسے گھٹیا،بے بنیاد اور جھوٹے الزام ہیں کہ ان کا جواب دینا بھی اپنی توہین سمجھتا ہوں۔
ان وضاحتوں کے بعد میں کرشن مہیشوری کے مضمون کے اصل حقائق کی طرف آتا ہوں۔جن کی طرف سے توجہ ہٹانے کے لیے میرے خلاف گرد اڑائی گئی ہے۔تشکیل میں چھپنے والے مضمون کے مطابق سید اقبال حیدرکے شاعر ہونے نہ ہونے کا فیصلہ ان حقائق کی صحت یا عدم صحت پر ہو سکتا ہے۔یہاں کرشن مہیشوری کے مضمون کا ایک اہم اقتباس درج کر رہا ہوں۔
’’ان (جرمنی والے اقبال حیدر)کے بارے میں سب سے پہلے ماہنامہ ’’کتاب نما‘‘ دہلی کے شمارہ ستمبر ۲۰۰۱ء کے صفحہ نمبر 85-86 پر راشد انور راشد کا ایک تبصرہ دیکھنے کو اور پڑھنے کو ملا ،اس تبصرہ کے ذریعے ان صاحب کا ایک انوکھا تعارف سامنے آتا ہے۔راشد انور راشدرقمطراز ہیں:
’’دیارِ غیر میں رہ کر شعرو ادب سے دیرینہ اور جذباتی رشتہ برقرار رکھنے والوں میں سید اقبال حیدر بھی شامل ہیں۔فی الوقت وہ جرمنی میں مقیم ہیں لیکن بنیادی طور پر ان کا تعلق ہندوستان سے ہے۔تقسیم ہند کے دوران وہ اتر پردیش کے ضلع بجنور سے ہجرت کرکے پاکستان چلے گئے لیکن اپنے ساتھ شاعری کا وہ ذوق بھی لے گئے جو انہیں وراثت میں ملا تھا۔پاکستان میں قیام کے دوران بھی اقبال حیدر ادبی سرگرمیوں میں حصہ لیتے رہے اور پھر جرمنی منتقل ہونے کے بعد بھی تخلیقی عمل کا سلسلہ جاری رہا۔‘‘
اس میں تین جھوٹے دعوے کرکے ایک جعلی شاعر کواصلی اور اہم شاعر ظاہر کرنے کی بد دیانتی کی گئی ہے۔ اس کے لئے تبصرہ نگار نے کتنا مال کھایا ہے ،یہ وہی جانتے ہوں گے۔میں ان کے تینوں جھوٹ وضاحت کے ساتھ نشان زد کر رہا ہوں۔
۱)پہلا جھوٹ یہ کہ شاعری ان کو وراثت میں ملی۔ان کے گھر میں کون شاعر تھا؟یہ وضاحت کرنا اب راشد انور راشد پر واجب ہے۔
۲)دوسرا جھوٹ یہ کہ پاکستان چلے جانے کے بعد بھی ان کی ادبی سرگرمیاں جاری رہیں۔ اقبال حیدر کے جرمنی جانے سے پہلے تک کوئی ایک حوالہ بھی ایسا نہیں مل سکتا کہ یہ صاحب کسی قسم کے شاعر ہیں اور ان کی اس حوالے سے کوئی ادبی سرگرمی رہی ہے۔کوئی ایک چھوٹاسا حوالہ بھی نہیں ہے۔
۳)تیسرا جھوٹ اور سفید جھوٹ یہ کہ جرمنی منتقل ہونے کے بعد بھی ان کا تخلیقی عمل کا سلسلہ جاری رہا۔وہ لگ بھگ گزشتہ پچیس سال سے زائد عرصہ سے جرمنی میں مقیم ہیں۔اس دوران 1999 ء تک ان کی کوئی ادبی سرگرمی سامنے نہیں آئی۔صرف ایک سرگرمی سامنے آئی۔انہوں نے ڈیلی جنگ لندن میں محسن نقوی کاسلام اپنے نام سے چھپوالیا۔اس پر اگلے ہی شمارے میں انگلینڈ کے ایک ادیب نے اس کا نوٹس لیا اور لکھا کہ یہ کون چور اقبال حیدر ہے۔اس کے لئے علاوہ کوئی ایک ادبی سرگرمی کا ریکارڈ 1999 تک نہیں ملتا۔
بس ادھر نئی صدی 2000 شروع ہوئی اور ساتھ ہی سید اقبال حیدر یک دم شاعر بن کر سامنے آگئے۔ان کی سب سے پہلی غزل جو شائع ہوئی وہ جرمنی کے ایک رسالہ ’’فورم انٹرنیشنل‘‘ کے اپریل،مئی 2000 کے شمارہ میں صفحہ نمبر 37 پر شائع ہوئی۔یہ چار اشعار پر مشتمل ایک کمزور سی غزل بالکل ویسی ہے جیسے کسی نو آموزشاعر کی غزل کسی استاد کے ہاتھوں سے گزرنے کے بعد ہوتی ہے ۔‘‘
اب انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ ان حقائق کا سامنا کیا جائے اور ان کے مطابق سید اقبال حیدر کی بحیثیت شاعر اصلیت کو پرکھا جائے۔طباطبائی کے پورے مضمون کو دیکھ لیجیے ان حقائق کے جواب میں کچھ نہیں لکھا گیا۔میرے خلاف جتنا گند اچھال لیجیے،اگر سید اقبال حیدر خود شعر نہیں کہتے تو وہ شاعر نہیں ہیں۔کرشن مہیشوری کے سوالات اپنی جگہ اہم ہیں انہیں سے اخذ کرکے مزید وضاحتِ احوال کے طور پر میں بھی از سرِ نو ان نکات کو یہاں ترتیب دے دیتا ہوں، ادب اور تہذیب کے ساتھ ان کا معقول جواب دیا جائے تو کسی کو بھی موصوف کے شاعر ہونے پر اعتراض نہیں ہوگا۔ لیکن اگر حقائق بالکل واضح ہیں تو پھر ادب کے نام پر ’ ’غنڈہ گردی‘‘ کرکے ان کو شاعر منوانا ممکن نہیں ہے۔پہلا نکتہ یہ ہے کہ ۱۹۹۹ء تک سید اقبال حیدر کی شاعری کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ ۱۹۹۹ء تک کے زمانہ میں صرف ایک بار ان کے نام سے ایک سلام روزنامہ جنگ لندن کے ادبی صفحہ پر چھپا اور فوری طور پر وہاں ایک قاری نے خط چھپوایا کہ یہ کون چور ہے جس نے محسن نقوی کا سلام اپنے نام سے چھپوا لیا ہے۔
تیسرا نکتہ یہ ہے کہ موصوف کی سب سے پہلی غزل وہی ہے جواپریل مئی ۲۰۰۰ء میں شائع ہوئی۔گویا پچاس سال کی عمر کے لگ بھگ ،شاعری کا آغاز کیا گیا اور دو برسوں میں تین مجموعے چھپ گئے۔
چوتھا نکتہ یہ کہ اقبال حیدر کے مجموعوں کے کلام میں سے کوئی بحر لے کر اس کا قافیہ ردیف تبدیل کرکے مقتدر شعراء کی موجودگی میں ان سے وزن میں دوچار شعر لکھنے کا ٹیسٹ لیا جائے۔حقیقت یہ ہے کہ ایسا ٹیسٹ اقبال حیدر کی شاعری کا ڈی این اے ٹیسٹ ثابت ہوگا۔
ان چاروں نکات میں موجود الزامات کی صحت ثابت ہوجائے تو ظاہر ہوجاتا ہے کہ اقبال حیدر شاعر نہیں ہیں ۔ میری اطلاع کے مطابق انہیں لکھ کر دینے والے انڈیا میں بیٹھے ہیں اور فی غزل ،یا فی نظم ریٹ میں اشعار کی تعداد کو بھی مدِ نظر رکھا جاتا ہے۔انہیں بجنوری بنانا بھی زیادتی ہے کہ ان کی پیدائش ان کے والدین کے پاکستان میں آنے کے بعد ہوئی تھی۔ اقبال حیدربجنور سے ہجرت کرکے نہیں آئے تھے۔
ادب سے ہٹ کر بہت سارے حقائق مجھے بہت سے دوستوں نے فراہم کیے ہیں۔خود اقبال حیدر اور طباطبائی کے قریبی لوگوں نے بھی بہت سے ’’حقائق‘‘ بھیجے ہیں۔یہ حقائق انڈیا،ایران اور گوجرانوالہ تک کے علاقوں سے بھی متعلق ہیں اور بعض اور مقامات سے بھی۔لیکن ان سارے معاملات کا ادب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس لیے میرے لیے وہ ساری معلومات بے معنی ہے۔ ادبی طور پر کوئی اختلاف رائے ہے تو اس کا جواب ادبی سطح پر دینا ہی مناسب ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ ان جعلی لوگوں اور ادبی چوروں کے لیے ممکن نہیں کہ علمی سطح پر سنجیدگی کے ساتھ رک کر حقائق کا سامنا کر سکیں کیونکہ حقائق انہیں بخوبی معلوم ہیں۔اس لیے یہ لوگ آخر کار اپنی اسی گندگی کی طرف ہی لوٹ جائیں گے جو ان کی بنیادی شہرت ہے۔جن لوگوں کو اس مافیا کی بنیادی شہرت کا علم نہیں ہے ان کی معلومات کے لیے لکھ رہا ہوں کہ ان کا اصل میدان تگ و تاز اپنے مخالفین کے خلاف فحش اور غلیظ تحریریں گمنام طور پر ریلیز کرنا ہے۔اس سلسلے میں لندن میں نہ صرف ہاتھا پائی ہوئی بلکہ معاملہ کورٹ کچہری تک بھی چلا گیا۔ میرے خلاف بھی جو گمنام مراسلہ بازی ہوئی تھی اس میں یہی ادبی مافیا ملوث تھا اور میں نے تب ہی ان سب کے نام لکھ کر نشاندہی کر دی تھی۔سو میں اب بھی ان کی طرف سے ایسے کسی اوچھے وار کا سامنا کرنے کے لیے تیار بیٹھا ہوں!سید اقبال حیدر اگر شاعر ہیں تو سر آنکھوں پر ! لیکن اگر پیسے دے کر مجموعے لکھواتے ہیں تو پھر انہیں سنجیدہ ادبی حلقوں میں بطور شاعرنہیں مانا جاسکتا۔
ماہنامہ پرواز لندن میں چھپنے والے
پروفیسر لطیف اللہ کے مضمون ادب کے کھیپیے سے چند اہم اقتباسات
کھیپیے تجارتی دنیا میں تو پہلے سے موجود تھے، ادب کی دنیا میں ان کی ’’ولادت‘‘ بیسویں صدی کی آخری چوتھائی سے شروع ہوئی۔ مولدومنشا ان کا ’’تحسین باہمی‘‘ کی انجمنوں کے ڈرائنگ روم ہیں۔ یہ نومولود اسی یا وہ گوئی کی فضا میں پلتے بڑھتے ہیں اور اسی کی خُوبُو اُن کے وجود میں رچ بس جاتی ہے۔ بے جا تعصّب، کم سوادی، ذہنی پراگندگی، دُشنام طرازی اور دل آزاری ان کا شیوہ بن جاتا ہے۔ شجرِ خبیثہ کا پھل خبیث ہی ہوتا ہے، فطرت کا یہی قانون اور اصول ہے۔
تحسین باہمی کی یہ انجمنیں ان نونہادوں میں سے چند ایسے پراگندہ خیال اور طالبِ شہرت نوجوانوں کو منتخب کرلیتی ہیں جو اُن کے اغراض و مقاصد یعنی ادبی و ثقافتی تسلسل کو منتشر کرنے میں آلۂ کار بن سکیں، پھر انہیں ’’معروف دانش ور‘‘، ’’معروف محقق‘‘ اور ’’معروف نقاد‘‘ کے خود ساختہ خطابات سے نواز کر اپنے مشن پر روانہ کردیتی ہیں۔ اخبارات، رسائل اور جرائد اپنا اور کاغذ کا پیٹ بھرنے کے لیے ان کی لغو اور مہمل تحریروں کو شائع کرکے ان کے دماغوں میں خنّاس بھر دیتے ہیں۔ اگر ان کی تحریروں کو جانچا اور پرکھا جائے تو جگہ جگہ ’’دز د حنا‘‘ کا پتہ چلتا رہتا ہے۔اس کی تازہ مثال ایک کتاب بعنوان ’’آئین سخنوری‘‘ ہے، جس کے مولف لکھنؤ (بھارت) کے ایک باسی حیدر طباطبائی ہیں۔ یہ موصوف کے مضامین کا مجموعہ ہے۔ دہلی سے اپریل ۲۰۰۰ء میں شائع ہوئی ہے اس میں ایک مضمون ’’فخر الدین عراقی‘‘ ہے۔ اس نشست میں اسی مضمون کا حدود اربع دیکھتے ہیں۔
حدود تو مضمون نگار ایک ہی جست میں پھلانگ گئے ہیں البتہ اربع کی صورتِ حال یہ ہے: ۔۔۔۔۔ ۔۔ ۔ ۔ اب ہم اپنے اُن چار نکات کی جانب رجوع کرتے ہیں جن کی نشان دہی ہم نے حیدر طباطبائی کے مضمون ’’فخر الدین عراقی‘‘ کے سلسلے میں کی تھی اور جو اُن کی تالیف ’’آئینِ سخنوری‘‘ میں شامل ہے۔
(۱) یہ مضمون بے نام مقدمے اور میخانۂ عبدالنبی کی ’’کاریگرانہ‘‘ نقل ہے۔ جس طرح ملا عبدالنبی نے بے نام مقدمے سے بالترتیب اشعار اخذ کیے ہیں اسی ترتیب سے حیدرطباطبائی (نے) اتنے ہی اشعار نقل کیے ہیں۔ واقعات کی ترتیب اور عبارات کے اسلوب سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ محض ایک نقل نویس ہیں اس سے زیادہ کچھ نہیں۔
(۲) چوری کی موری قطعی طور پر واضح ہے کہ پورے مضمون میں اپنے ماخذ کا حوالہ نہیں دیا ہے۔ صرف تاریخِ وفات کے قطعات درج کرتے ہوئے خزینۃ الاصفیا کا حوالہ دیاہے۔ ایسا کرنا حیدر طباطبائی کی مجبوری تھی۔ بھارت کے لوگ یقینا جانتے ہوں گے کہ وہ ٹھیک سے فارسی نہیں جانتے شعر کیا کہیں گے۔ اپنے مضمون میں انھوں نے جس ہنر کو ظاہر کیا ہے اس سے کوئی بعید نہ تھا کہ وہ ان قطعات کو بھی بغیر حوالے کے نقل کردیتے۔ حضرت عراقیؒ سے متعلق وضع کردہ واقعات کی ترتیب میں بھی حیدرطباطبائی گم نام مقدمہ نگار اور ملا عبدالنبی کے قدم بہ قدم چلے ہیں، لیکن جن کی پیروی کی ہے مضمون میں نہ اُن کا ذکر ہے اور نہ حوالہ ہے، بظاہر اس اخفا کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی، ہوسکتا ہے کہ علم وتحقیق کا ’’دورِ ستر‘‘ شروع ہوگیا ہو۔ یہ عجیب معنی خیز صورتِ حال ہے کہ ایک شخص نے، جس نے اپنا نام پتہ تک نہیں بتایا، ایک مضمون گھڑا اور اسے حضرت عراقیؒ کے کلام سے منسلک کردیا، پھر ملا عبدالنبی فخر الزمانی قزوینی نے اپنے تذکرے میں نقل کردیا، انھی تحریروں کو اپنے منابع کا ذکر کیے بغیر حیدر طباطبائی نے اردو میں منتقل کردیا۔ اس طرح شروع سے آخر تک روایت و درایت کے اصول کی پاسداری کہیں نظر نہیں آتی۔ مذکورہ تینوں مضامین میں بیان کردہ روایات ہفوات ہیں، اس لیے ناقابلِ اعتماد ہیں۔
۳۔ ہم نے گزشتہ صفحات میں کہا ہے کہ حیدر طباطبائی نے ’’فخر الدین عراقی‘‘ حضرت عراقیؒ کی کردار کشی اور ان سے محبت کرنے والوں کی دل آزاری کے لیے تحریر کیا ہے۔ اس پہلو کی تنقیح کے سلسلے میں بہت نازک مقامات آنے کا اندیشہ ہے جن کی جانب ہم محض اشارات پر اکتفا کریں گے۔ یہ ہماری مجبوری ہے کیوں کہ ہمارے والدین، اساتذہ اور مشایخ نے ہمیں دشنام طرازی کی مشق نہیں کرائی ہے۔ اس وضاحت کے بعد اب ہم حیدر طباطبائی کے اُن جملوں کو نقل کرتے ہیں جو انہوں نے بغرض ’’ثواب‘‘ تحریر کیے ہیں۔
’’مزاج میں قلندری کچھ اس طرح سے کوٹ کوٹ بھری ہوئی تھی کہ کبھی ایک دیار میں مسکن نہیں کیا۔ عنفوانِ شباب سے ہی اس کو امردپرستی کا شوق تھا جو تمام زندگی باعثِ ذلت بنا رہا‘‘۔ (۱۶)
’’پھر ہمدان میں اس کے احباب نے آکر سمجھایا کہ ترے کاسۂ سر میں جو علم سے منور سر ہے اس کی فکر کرو، ورنہ ایسا نہ ہو کہ لواطت کے الزام میں تیرا محاکمہ ہو، وآخر سنگسار کردیا جائے‘‘۔ (۱۷)
’’اس محفل میں ایک نازک گل اندام لڑکا جو حسن قوّال کے نام مشہور تھا اور ہزاروں افراد اس کے ناز بردار تھے خاص طور پر مدعو تھا۔ عراقی نے جب حسن قوّال کو دیکھا تو پھر سے ان کا ذوقِ خفتہ جاگ اٹھا او رحسن قوّال پر دل و جان سے فریفتہ ہوگئے اب اسی محفل میں اس کی زلفوں کو چومنے لگے‘‘۔ (۱۸)
’’عراقی ایک دن قاہرہ کی بازار میں گھوم رہا تھا کہ اس کا جوتا ٹوٹ گا اور وہ ایک کفّاش کے پاس گیا۔ وہ ایک نہایت خوش بجمال لڑکا تھا، عراقی کی رال پھر ٹپک پڑی پوچھا کہ صبح سے شام تک کفش گری میں کتنا کما لیتے ہو۔ اس لڑکے نے جواب دیا فقط چار درہم۔ عراقی نے کہا کر ہر روزمیں تم کو آٹھ درہم دوں گا، فقط میری آنکھوں کے سامنے بیٹھے رہا کرو، اب اس کی دکان میں شیخ الشیوخ ہر وقت بیٹھے رہتے اور غزلیں پڑھی جا رہی ہوتیں یا عاشقانہ اداؤں سے چھیڑ چھاڑ چل رہی ہوتی۔ مستزاد یہ کہ نہ نماز کی فکر نہ برسرِ عام ان ناشایستہ حرکات سے اجتناب‘‘۔ (۱۹)
۔۔۔۔۔۔۔۔۴۔ ہم نے کہا ہے کہ ہماری دانست میں حیدرطباطبائی فارسی سے نابلد ہیں۔ اس کا ثبوت ہمارے پاس ہے جو ہم یہاں پیش کرتے ہیں۔ بے نام مقدمے کی ایک عبارت ہے:
’’کتاب ہارادور انداخت، از تفسیر کبیر (۱) نسیان کثیر حاصل شد، نحورا محو کرد اشارات (۲) رافشارات خواند۔ معالم التنزیل (۳) اسرار التاویل نمود، حاوی (۴) حل ساخت۔ جامع الدقایق (۵)لامع الحقائق گشت، روضۃ المنجمیں (۶) نزہتہ العاشقین بار داد‘‘ ۔ (۲۶)
(کتابیں دور پھینک دیں۔ تفسیر کبیر سے نسیان کثیر حاصل ہوا (بالکل بھلا دیا) نحوی مسائل (ذہن سے) محو ہوگئے۔ اشارات کوبکواس سمجھا۔ معالم التنزیل اسرار کی تاویل محسوس ہوئی۔ حاوی کو حل کردیا، جامع الدقائق روشن حقائق ہوگئے اور روضتہ المنجمین عاشقوں کی تازگی بن گئی)
مذکورہ بالا عبارت میں جن چھ کتابوں کا ذکر ہے، ان کی تفصیل یہ ہے۔ (۱) تفسیر کبیر مصنفہ امام فخر الدین رازی (۲) اشارات حکمت کے موضوع پر ابنِ سینا کی تصنیف ہے (۳) معالم التنزیل مصنفہ محی السنۃ ابو محمد حسین بن مسعود فراء بغوی جس کا موضوع تفسیر ہے۔ (۴) حاوی، محمد بن زکریا رازی کی طب کے موضوع پر تصنیف ہے۔ (۵) جامع الدقایق فی کشف الحقایق مصنفہ علامہ نجم الدین ابو الحسن علی بن عمر کاتبی۔ اس کا موضوع منطق ہے۔ (۶) روضۃ المنجمین فارسی زبان میں شہمر دان بن ابوالخیر رازی کی نجوم کے موضوع پر تصنیف ہے۔ یہ تفصیلات سعید نفیسی نے بے نام مقدمے کے پاورقی حاشیے میں دی ہیں (۷۲)۔ ہمیں یقین ہے کہ حیدرطباطبائی نے استاد سعید نفیسی سے استفادے کی کوشش کی ہوگی لیکن چونکہ ان کی فارسی کی استعداد واجبی سی ہے لہٰذا مذکورہ بالا فارسی عبارت کا مطلب سمجھنے میں ٹھوکر کھا گئے۔ اس ضمن میں ان کی عبارت ملاحظہ فرمائیں:
’’اب عراقی کا دل مدرسہ سے اچاٹ ہوگیا جہاں اس نے امام فخر الدین رازی کی تفسیر کبیر پڑھ لی تھی۔ حکمت پر ’’نسیان کثیر‘‘ اور ’’اشارہات‘‘ (۲۸) کی تمام جلدیں نحو پر حفظہ کرلی تھیں۔یہ کتاب تفسیر یحی السنہ ابو محمد حسن بن مسعود مراء (۲۹) بغدی شافعی نے لکھی تھی۔ طب پر محمد بن زکریا رازی کی کتاب ’’معالم التنزیل‘‘ ابوالخیر رازی کی معروف کتاب ’’اسرار التاویل‘‘ پڑھ لی تھی جو نجوم پر لکھی گئی فارسی زبان کی بہت ہی ضخیم کتاب تھی‘‘۔ (۳۰)
حیدر طباطبائی کی فارسی سے بیگانگی کا یہ سب سے بڑا اور زندہ ثبوت ہے کہ وہ ’’نسیانِ کثیر‘‘ کو حکمت کی کتاب سمجھے، جب کہ اس نام کی کبھی کوئی کتاب لکھی ہی نہیں گئی۔ مذکورہ فارسی اقتباس میں جس کا ترجمہ بھی ہم نے درج کردیا ۔ ’’تفسیر کبیر‘‘ کو فراموش کرنے کے عمل کو ’’نسیانِ کثیر‘‘ کہا گیا ہے۔ کتاب ’’اشارات‘‘ کو طباطبائی نے ’’اشارہات‘‘ لکھا ہے اور پھر اس کی تمام جلدوں کو نحو پر حفظ کرلینے کا ذکر کیا ہے۔ نحو پر حفظ کرلینا بے معنی بات ہے۔ مذکورہ فارسی اقتباس میں نحو کو محو کردینے کا ذکر ہے، جس کا مطلب ہے کہ جو علم نحو پڑھا تھا اسے بھلا دیا، شاید موصوف نحو کو تفسیر کی کتاب سمجھے جو بقول ان کے ابو محمد حسین بن مسعود کی تصنیف ہے جب کہ ان کی کتاب کا نام ’’معالم التنزیل‘‘ ہے جو تفسیر کی کتاب ہے مگر طباطبائی نے ’’معالم التنزیل‘‘ کو طب کی کتاب بنا دیا اور محمد بن زکریا رازی کو اس کا مصنف بنا دیا۔ بے نام مقدمے کے مصنف نے ’’معالم التنزیل‘‘ کے لیے اسرار التاویل کا کنایہ استعمال کیا ہے۔ طباطبائی ’’اسرار التاویل‘‘ کو کتاب کا نام سمجھے اور اسے طب کی کتاب قرار دیا اور تصنیف کا سہرا ابو الخیر رازی کے سر باندھا جب کہ رازی کی کتاب ’’روضۃ المنجمین‘‘ ہے، اس کا ذکر ہی نہیں کیا۔
اس تفصیل سے اندازہ ہوگیا ہوگا کہ جناب طباطبائی ایک سادہ سے فارسی اقتباس ہی نہیں سمجھ سکتے تو وہ عراقی پر مضمون لکھنے کے اہل کیسے ہوسکتے ہیں۔ حکیم مومن خاں مومن نے کہا ہے کہ:ہم الٹے با ت الٹی یار الٹا
یہاں مت الٹی ہوگئی ہے تو ’’حق‘‘ کا ورود کیسے ہو (۳۱)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۳۱۔ اس کی مثال جناب رفاقت علی شاہد کا وہ مقالہ ہے جو ’’ارتقا‘‘ کراچی کتابی سلسلہ (۲۲) دسمبر ۱۹۹۸ء میں شائع ہوا ہے۔ اپنے اس مقالے میں رفاقت علی شاہد نے جس کا عنوان ’’یگانہ کے بارے میں چند حقائق‘‘ حیدر طباطبائی کی بے شمار (تقریباً سو ۱۰۰) غلطیوں کی نشان دہی کی ہے۔ اس کا جواب موصوف نے ’’ارتقا‘‘ اگست ۱۹۹۹ء میں دیا ہے لیکن ایک اعتراض بھی منقح نہ کرسکے۔ ٭٭٭٭٭٭
ادیبوں شاعروں کا ایک مجمع بیرون ممالک سے تعلق رکھتا ہے جو ڈالر اور پونڈ کے رتھ پر بیٹھ کر اردو ادب میں داخل ہونے کی کوشش کر رہا ہے۔یہ لوگ اپنی بیرونی قوت کے بل بوتے پر راتوں رات بڑے ادیب اور شاعر بن جاتے ہیں۔یہاں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو ان ادیبوں کی کتابیں چھاپتے ہیں،ان پر مضامین لکھوا کر فائیو سٹار ہوٹلوں میں ان کے فنکشن کرتے ہیں۔یہ باقاعدہ کاروبار ہے،کچھ رسائل تو چل ہی رہے ہیں اسی حوالے سے۔کالم نویس تک ان کے گرویدہ ہیں،اور واپسی میں وہ نہ صرف ان کی عظمت کے گیت گاتے ہیں بلکہ ان کی بیوی بچوں تک کی سلیقہ شعاری پر کالم لکھتے ہیں۔باہر کے یہ ادیب شاعر کاروباری دنیا کے اصولوں کو استعمال کرنے کا فن جانتے ہیں۔ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ کس سے کیا فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے،سو اب یہ بیرونی بستیاں عظمت کے میناروں سے ایسی بھری ہیں کہ ہر انچ پر ایک عظمت کھڑی ہے۔‘‘
(ڈاکٹر رشید امجد کی خود نوشت تمنا بے تاب کے صفحہ نمبر ۲۶۸،۲۶۹سے اقتباس )