حسن عباس رضا، نصرت انور (تحریرو ترتیب:خلیق الرحمٰن)
حسن عباس رضا : اسلام علیکم ناظرین!کلرآف ایشیا ٹی وی کی جانب سے حسن عباس رضاحاضر ہے اور سلام عرض کرتاہے ۔ہماری خوش قسمتی ہے کہ آج ہمارے پروگرام ادب نامہ میں ہمارے درمیان موجود ہیں پاکستان کے بہت ہی ممتازافسانہ نگار‘ناول نگار اور ڈرامہ نگارجناب محمد منشا یاد،جوکسی تعارف کے محتاج نہیں ۔ میں سمجھتاہوں کہ آج پاکستان اور ہندوستان میں جوافسانہ لکھا جارہاہے اُس میں منشایادکانام سرفہرست ہے۔بہت خوبصورت کہانی لکھتے ہیں اور اُن کے کئی افسانوں پر ڈرامے بن چکے ہیں اور ان کی کئی کہانیاں ادب عالیہ میں شمار کی جاتی ہیں ۔آج اُن سے کچھ باتیں کریں گے ،میرے ساتھ شریک گفتگو ہیں نصرت انور صاحبہ۔
حسن عباس رضا : منشایاد صاحب سب سے پہلے تو ہم آپ کونیویارک امریکہ میں اور کلرآف ایشیا میں خوش آمدید کہتے ہیں۔
منشایاد : شکریہ
حسن عباس رضا : سب سے پہلے تویہ بتائیے کہ کسی زمانے میں آپ شاعری بھی کرتے تھے۔آپ نے اچانک شاعری چھوڑ کرکہانی کا انتخاب کیوں کیا؟
منشایاد : میں اس کے بارے میں تویہی کہہ سکتاہوں کہ نوجوانی میں توہر آدمی شاعرہوتا ہے۔ میں سکول کے زمانے میں کہانیاں لکھنے کے ساتھ ساتھ شاعری بھی کرتا تھا۔بعد میں مجھے احساس ہوا کہ کہانی کی طرف میرا رجحان زیادہ ہے ۔دوسری بات یہ ہے حسن کہ ہمارے ہاں شاعر بہت ہیں۔ میرے شاعری چھوڑ دینے سے شاعری کوکوئی فرق نہیں پڑتا کیوں کہ مجھ سے بہترلوگ شاعر ی کررہے ہیں لیکن افسانے میں یہ ہوتاہے کہ آپ کے جو مشاہدات اور تجربات ہوتے ہیں وہ آپ کے اپنے ہوتے ہیں۔ ان میں کمی یا اضافہ کر کے کہانی کی شکل صرف آپ ہی دے سکتے ہیں ۔اگر میں کہانیاں نہ لکھتاتو بہت سی کہانیاں جومیں نے لکھی ہیں وہ شاید وجود میں ہی نہ آتیں۔
حسن عباس رضا : جی بلاشبہ
منشایاد : یقیناً شاعری ایک بڑی صنفِ ادب ہے ۔لیکن موجودہ عہد میں دنیا بھر میں فکشن یانثر کی بڑی ضرورت ہے۔ ہم جو کچھ کہنا چاہتے ہیں وہ نثر میں کھل کر کہہ سکتے ہیں ۔ اظہار کے لئے بہترین میڈیم نثر ہی ہے ۔
حسن عباس رضا : یقیناً۔ اچھا آپ کی کتابوں کے حوالے سے یاد آیا کہ ’’بند مٹھی میں جگنو‘‘، ’’ماس اورمٹی ‘‘ ،’’خلا اندر خلا ‘‘ ، ’’وقت سمندر‘‘، ’’درخت آدمی‘‘ ، ’’دُورکی آواز‘‘، ’’تماشا ‘‘ ،’’اردو افسانوں کے سات مجموعے ہیں’وگداپانی ‘‘ پنجابی افسانے ہیں جبکہ ٹانواں ٹانواں تارا بہت مقبول اوربہت اچھاپنجابی ناول ہے جس کی بنیاد پر ایک اُردو ٹی وی سیریل راہیں بھی بن چکا ہے ۔میں باجی نصرت انو ر سے گزارش کروں گا کہ وہ ان افسانوں اورکہانیوں کے حوالے سے بات کریں ۔پھر بات آگے چلائیں گے۔
نصرت انو ر : سب سے پہلے تو میرے لئے یہ بہت بڑے اعزاز کی بات ہے کہ منشایاد کے ساتھ بیٹھی ہوں اوراُن سے بالمشافہ بات کررہی ہوں ۔جہاں تک میں نے اُن کی کہانیاں پڑھی ہیں۔ہرکہانی اپنے اندر تخلیق کابے پناہ درد لئے ہوئے ہیں۔اور وہ قاری کواُس درد میں شامل کرلیتے ہیں۔اس کے علاوہ عالمانہ اورمعلومات کادائرہ اتنا وسیع ہے کہ پڑھنے والاحیران ہوجاتاہے ۔اظہار و بیان پراتنی قدرت ہے کہ ہربات آپ کوچونکا دیتی ہے۔میں ایک کہانی ’پھندا‘ کاذکر کروں گی۔یہ اس طرح کی کہانی ہے کہ جس نے شروع سے لے کر آخر تک میرے اعصاب کوشل کردیااور مجھے اُس سارے کرب میں سے گزرناپڑا‘جس کرب میں سے وہ مرکزی کردار گزر رہا تھا۔اس کے علاوہ اس کہانی میں ایک بڑی اعجاز واختصار کی خوبی کی بات تھی۔اس میں ایک کردار ہے ’’آپ‘ ‘اور صرف اس ایک لفظ’’ آپ ‘‘سے ہی پورے معاشرے کی پکچر پیش کی گئی ہے اس کاموضوع معاشرتی تضاد اورسماجی اور مذہبی Exploitationہے۔ ایک دینی رہنما ہے جوEmotionallyنوجوانوں کو Exploitکررہاہے ۔ان کی کس کس کہانی کاذکر کیا جائے۔ایک کہانی ہے کرموں والی۔ میں نے اس سے پہلے موپاساں کی کہانیاں پڑھی ہیں جو اس طرح حیرانکردیتی اور چونکا دیتی ہیں جیسے کرموں والی نے مجھے چونکا یا ۔ اس سے پہلے میں نے کوئی کہانی آج تک ایسی نہیں پڑھی تھی۔اگر ہم ایک ایک کہانی پربات کریں تو بات بہت لمبی ہوجائے گی کیونکہ ہرکہانی بہت ہیSignificantہے ۔ایک کہانی اور ہے ’’کہانی کی رات‘‘ایک بہت ہی مختصرمگرپراثر۔جب آخری بار فوج نے ٹیک اوور کیا یہ اس کی کہانی ہے۔ مجھے صورتِ حال کاپتہ نہیں تھا کیونکہ میں اس وقت پاکستان میں نہیں امریکہ میں تھی‘ ۔اس میں جو اعصاب کو شل کردینے والاانتظار ہے رائٹر ہمیں اس میں سے گزارتاہے اورآپ اُس میں سے گزرتے ہیں‘اور اس کا جوکلائیمکس ہے وہ بہت ہی خوبصورت ہے ۔ ساتھ ساتھ منشایادکے ہاں خوبصورت معاشرتی طنز ہے ۔ان کا غیر طبقاتی مساوات کی طرف رجحان ہے مگر ہماراملک جوہے وہ طبقاتی تضادات سے بھراہوا ہے ۔ وہ اکثر اُس پر بات کرتے ہیں۔
حسن عباس رضا :ایک اوراہم بات جونصرت انور صاحبہ آپ نے بھی دیکھی ہوگی کہ منشایادکی کہانیوں میں ایک فوک وزڈم ہے ۔ان کی اکثر کہانیوں کا بیک گراؤنڈیا پس منظر دیہاتی ہوتاہے جس سے وہ اٹھ کرآئے اورشہر میں آکر بس گئے ۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے دیہاتی پس منظر کی جوکہانیاں تخلیق کی ہیں وہ کمال کی کہانیاں ہیں۔میں نے جو شروع میں دعویٰ کیا تھاکہ منشایادہمارے عہد کے بہت بڑے کہانی کارہیں اورکہانی بُنناجانتے ہیں۔منشایاد نے علامتی کہانیاں بھی لکھیں اور علامت توہر عہد میں چلتی ہے ان کی کہانیوں کے بین السطورمیں بھی علامت موجود ہوتی ہے لیکن مجھے منشایاد صاحب سے ایک سوال کرناہے کہ جن دنوں آج سے آٹھ دس برس پہلے ہمارے باقی افسانہ نگار دوستوں نے کہانی پن کوچھوڑکر تجریدی افسانہ لکھناشروع کیاتھا۔اورایک زمانے میں تجریدی کہانی کارواج پڑگیا تھاتواس کے باوجود منشا یاد نے اُس زمانے میں بھی جوکہانی لکھی وہ علامت سے بھرپورتو تھی مگر اس میں کہانی پن موجود تھا۔ قاری کی اُس سے Affiliationرہتی تھی ۔تومیں منشایادسے سوال کروں گا کہ کیا آپ نے یہ شعوری طور پرکوشش کی تھی کہ آپ اس زمانے کے فیشن کی رو میں نہیں بہے؟ اور آپ نے تجریدی کہانی کیوں نہیں لکھی؟
منشایاد : شاید آپ کویاد ہوگاکہ لاہور میں میری پہلی کتاب ’’بند مٹھی میں جگنو‘‘کی تقریبِ تعارف کی صدارت کرتے ہوئے جنابِ احمد ندیم قاسمی نے کہا تھا کہ منشایاد تم محض ایک افسانہ نگارنہیں ہو‘تم کچھ کہنا بھی چاہتے ہو۔ تمہارے پاس کہنے کوبہت کچھ ہے۔کھل کرکہوکہ مستقبل نے تمہاری جانب کان لگا رکھے ۔تومیں نے اُن کی بات پلے باندھ لی۔در اصل جس کے پاس کچھ کہنے کو ہوتا ہے اُسے پھر بے معنی تجرید کی ضرورت نہیں پڑتی ۔ یہ صرف فیشن کی بات ہے ورنہ اگر آپ کے پاس کوئی خبرہے اور آپ کسی عزیز کوسنانا بتانا چاہتے ہیں توآپ واضح لفظوں میں اس کا اظہار کریں گے ۔ اُس کو پہیلی یامعمہ حل کرنے کونہیں کہیں گے لیکن ہمارے ہاں ساٹھ کی دہائی میں زبان و بیان میں ایسا ہواجس پر میرے اعتراضات بھی ریکارڈ پرہیں ۔مگر خوشی کی بات یہ ہے کہ بالآ خر و ہ سارے لوگ اسی اعتدال کے راستے پر آگئے جس پر میں پہلے ہی چل رہاتھا۔میرے خیال میں عہد کے ساتھ خلوص سے چلناچاہئے ۔جدید یت فیشن نہیں ہے اس کو آپ کےContentsمیں آناچاہئے۔اگر آپ جدیدترلہجے میں بہت ہی گئی گزری ،آؤٹ ڈیٹڈ بات کررہے ہوں تو یہ کیاجدیدیت ہے اور اس کا کسی کوکیافائدہ؟ ۔میں سمجھتاہوں کہ یہ کہانی کاعنصر یا قصہ پن ہی ہے جو شروع سے آخر تک قاری کی دلچسپی برقراررکھتا ہے اور قاری کوجب تک آپ کی تحریر کے ساتھ دلچسپی نہیں ہوگی وہ ساتھ کیوں کر چلے گا۔مثلاًشاعری میں ایک لطف ہوتاہے جو پڑھواتا ہے ‘انشائیے یا مضمون میں بھی ایک شگفتگی کی کیفیت ہوتی ہے ۔مگر افسانے میں جو ایک قصے کاتار اور سسپنس ہوتاہے کہ آگے کیاہوا ،وہ پڑھواتاہے ۔اگروہ تار نکال دیں تو دلچسپی ختم ہو جائے‘لیکن ظاہرہے کہ قصہ بہت بدل گیاہے اور کہانی پن کی صورت اب اور طرح کی ہوگئی ہے۔ بعض اوقات اسے افسانے میں تلاش کرناپڑتا ہے۔آپ کویاد ہوگاکہ حلقہ ارباب ذوق میں جب افسانے پڑھے جاتے تھے‘جدید اور جدید تربھی ۔تومجھے پڑھنے سننے والے کہتے کہ یہ کہانی ہماری سمجھ میں بھی آئی ہے اور یہ جدید بھی ہے تو بس یہ میرے لئے کافی تھا۔
حسن عباس رضا :ہاں بے شک ۔ مجھے یاد ہے ۔ منشایاد کی کہانیوں کے حوالے سے میرا باجی نصرت سے سوال ہے کہ مجھے بے شمار مقامات پر محسوس ہوتا ہے کہ منشایاد اوراحمد ندیم قاسمی صاحب کی کہانیوں کے درمیان ایک بہت خوبصورت سارشتہ ہے‘جس بات کو قاسمی صاحب لے کر چلے اور بنیادرکھی منشایاد اس کو اپنی کہانیوں میں آگے بڑھا رہے ہیں۔ اس پر کچھ روشنی ڈالیں۔
نصرت انور :منشایادصاحب نے خود ایک جگہ کہا تھا کہ دیہی معاشرت زمین سے اس قدر جڑی ہوئی اوراتنی مضبوط ہوتی ہے کہ روایات کی پوشاک چاہے چھلنی چھلنی ہو جائے وہ اس کوچھوڑتی نہیں ہے تومنشایادصاحب کاافسانہ یاکہانی بھی ملک کی مٹی اوراس کی معاشرت کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ ان کی کہانیوں میں اسی معاشرت اور معاشرے کے کردار ہیں ۔ میں نے جب منشایادکوپڑھاتومیں نے ان سے ایک رشتہ جوڑلیاکیونکہ جو پہلی کہانی میں نے ان کی پڑھی ‘اس کاعنوان تھا’’بلارا‘‘۔تو مجھے لگا یہ سارے کردار جیسے ’’ واحد متکلم،خیروماچھی اور گاؤں کانمبردار وغیرہ۔اُن سارے لوگوں کو میں پہلے سے ہی جانتی ہوں ۔کرموں والی میں بھی ایسا ہی ہے ۔ مجھے بھی منشایاد سے بلارا افسانہ کے بارے میں ایک سوال کرناہے۔مجھے یہ علامتی یعنی Symbolicافسانہ لگ رہاہے.میں پوچھناچاہتی ہوں کہ کیاانہوں نے بٹیر کو علامتی حوالے ہی سے اپنے افسانے میں استعمال کیاہے؟
منشایاد : پہلی بات تو یہ ہے کہ دیہات اورقاسمی صاحب کے بارے میں آپ نے جوسوال کیاتو اس میں نقادوں نے یہ کہااورمجھے بھی محسوس ہوا کہ وہ جو پریم چند سے دیہات نگاری کی ایک روایت چلی تھی اس میں احمد ندیم قاسمی صاحب ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ہم اُن کے برابر نہ سہی لیکن اُس راستے پر چلنے والے تو ہیں۔ دیہات کی معاشرت اور روایت مضبوط ہوتی ہے ۔وہاں جو مخصوص ماحول اورچیز یں ہوتی ہیں وہ کرداروں کی پہچان بنتی ہیں۔بعض اوقات ایساہوتاہے کہ میرے پاس شہرکی کہانی ہے لیکن اس کے لئے میں دیہات کے ماحول کامیدان چنتاہوں کیونکہ دیہات کی بعض چیزیں آسانی سے سیاسی علامتیں بنائی جاسکتی ہیں مثلاً میرا ایک افسانہ ہے ’’بوکا‘‘۔ تو اس میں ایک کنواں ہے جس میں بار بار بوکا گرادیاجاتاہے ۔جیسے ہمارے ہاں جمہوریت یا Democracyکے بوکے کو باربارآمریت کے کنویں میں پھینک دیاجاتاہے ۔یہ علامت میں نے دیہی معاشرت سے چنی ‘ حالانکہ یہ شہری کہانی ہے نہ دیہاتی ۔ یہ سیاسی کہانی یا موضوع ہے ۔دوسری بات جوآپ نے ’’بلارا‘‘کے حوالے سے کی تو وہ میرے بچپن کا مشاہدہ تھا کہ پرندے کیسے پکڑے جاتے ہیں ۔ بلارے سے بٹیر اورتیتر کیسے پکڑتے ہیں ہمارے ہاں کی سیاسی صورتِ حال بھی یہی ہے ۔اورہماری سیاست میں ہی میں نہیں بڑے اورترقی یافتہ ملکوں کی سیاست میں بھی یہی کچھ ہے اور بلارے سے سیاسی پرندے پکڑے جاتے ہیں۔’’ بلارا ‘‘ایک پالتو اورسدھایاہوا پرندہ ہوتاہے اور وہ بالکل ویسی ہی بولی بولتاہے جیسی پنجرے کے باہر کے پرندے بولتے ہیں۔ نوازشریف کی وزارتِ اعلیٰ کے دور میں نمبرداروں کاایک کنونشن ہوا تھا بڑی اورچھوٹی کچہری ‘چودھری صاحب کاطرے والی پگڑی پہن کرجانا وغیرہ یہ اُسی کے حوالے ہیں کہ کس طرح ہمارے حکمران لوگوں کو اپنے ساتھ ملاتے ہیں او ر کس طرح وہ پارٹیاں بدلتے ہیں ۔بین الاقوامی سیاست میں یہی ہوتا ہے اورملکوں اور قوموں کو اپنے ساتھ اسی طرح شامل کیاجاتاہے۔اب چونکہ اُس میں بہت زیادہ واضع معنویت ہے ‘ اگر میں اس کو زیادہ کھولوں گا توپھر مزہ جاتارہے گا۔
حسن عباس رضا : منشایاد صاحب حال ہی میں آپ کو ایک بہت بڑا اعزاز ’’پرائڈ آف پرفارمنس ‘‘ملاہے جو میں سمجھتاہوں آپ کے لئے بہت بڑااعزاز نہیں ہے اُن لوگو ں کو فخر ہونا چاہئے جنہوں نے آپ کو یہ اعزاز دیا۔کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ آپ کوتاخیر سے ملا اورکیا اس کی کوئی اہمیت ہے اور کیا اس کے ملنے سے آپ کے ادبی قد وقامت میں اضافہ ہوا ہے؟
منشایاد : پہلی بات تویہ ہے کہ آپ نے میری کہانیاں پڑھی ہیں ‘آپ جانتے ہیں کہ حکومت نے پڑھی ہوتیں تو مجھے کبھی ایوارڈ نہ دیتی (قہقہہ سب کا)اور دوسری بات یہ ہے کہ یہ ایوارڈ سٹیٹ کی طرف سے ہوتاہے‘یہ کسی خاص حکمران کی طرف سے نہیں ہوتا ‘ پروسیجر کا آپ کوعلم ہی ہوگا کہ سفارشات نیچے سے جاتی ہیں اور صدر ‘وزیراعظم اور دوسرے اوپر والوں کو تو نہیں معلوم ہوگاکہ منشایاد کون ہے۔ انہوں نے میری کہانیاں پڑھی ہیں نہ اُن کے پاس وقت ہے۔اور نہ ہی اُن کو ضرورت ہے ۔وہ تو نیچے والے کیس بنا کر بھیجتے ہیں۔ اس لئے یہ سٹیٹ کا ایوارڈ ہوتاہے اس کو قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں۔جہاں تک تاخیر کی بات ہے تو میں یہ نہیں کہہ سکتا کیوں کہ مجھے اگر اللہ تعالیٰ نے ہمت دی اور فرصت ملی تو ابھی بہت کچھ کرناہے۔ بہت کچھ لکھنا ہے ۔ ہاں شاید کچھ لوگوں کووقت سے پہلے مل جاتاہے ۔لیکن مجھے یہ خوشی ہے کہ مجھے آخری وقت تک معلوم نہیں تھا کہ یہ ایوارڈ مجھے مل رہاہے ۔جس روز یہ اناؤنس ہوا‘دوگھنٹے پہلے میرے ایک دوست انجم خلیق نے پریس میں دیکھا اورمجھے فون پر بتایا۔یہ میرے لئے ایک بڑاخوش گوار سرپرائز تھاکیوں کہ میں نے کبھی اس پرتوجہ نہیں دی اور نہ ہی کبھی کوشش کی۔ میرے لئے وہ اعزاز ‘مثلاًمیری کتابوں وگداپانی اور ٹانوا ں ٹانواں تارا پر جواکاومی ادبیاتِ پاکستان نے دومرتبہ وارث شاہ ادبی ایوارڈز دئیے یا پاکستان ٹیلی ویژن نے میرے ڈراماسیریل راہیں پر نیشنل ایوارڈ دیاوہ میرے لئے بہت اہمیت رکھتے ہیں۔
نصرت انور :منشایاد صاحب ایک چھوٹا ساسوال ہے کہ آپ کی جوبھی کہانی میں نے پڑھی ، میں نے اُسے پڑھتے ہوئے خود ایک تکلیف اورایک درد کی کیفیت محسوس کی مثلاًکرموں والی پڑھ کراگلے دن تک شدت کے ساتھ تکلیف کا احساس ہوتارہاکہ کس طرح سے ایک دستکار کوکمی اور حقیرسمجھاجاتاہے ۔اسی طرح ’’کہانی کی ایک رات‘‘ کاکرب ہے ۔سوال یہ ہے کہ جب آپ لکھتے ہیں تو کیاآپ بھی اسی دردکی کیفیت میں سے گزرتے ہیں جوآپ دوسروں کومنتقل کرتے ہیں؟
منشایاد : ظاہر ہے اس کے بغیر تو یہ سب ہونہیں سکتا۔میں نے اس کے متعلق ایک جگہ لکھا ہے کہ میں اپنے کرداروں کی کھال میں چھپ کربیٹھ جاتا ہوں ‘اورتھوڑی دیر کے لئے فرض کرلیتا ہوں کہ میں وہی ہوں۔ آپ کویہ بات شاید دلچسپ لگے کہ بعض اوقات لکھتے ہوئے خود اپنے لکھے ہوئے لفظوں پرمیرے آنسو نکل آتے ہیں ۔
نصرت انو ر :کیا آپ افسانہ ایک ہی نشست میں لکھ لیتے ہیں ؟
منشایاد : جی نوجوانی میں ایک ہی نشست میں پورا افسانہ لکھ لیتاتھا اور سمجھتا تھابڑاتیر ماراہے۔اب نہیں لکھتا۔اب ذمہ داری کا زیادہ احساس ہوتاہے۔اب میں افسانہ دوتین نشستوں میں لکھتاہوں بلکہ اُس کوکئی کئی بار لکھتا ہوں پھر بھی ڈر رہتا ہے کہ تھوڑی بہت جو عزت بنائی ہے وہ خراب نہ ہو۔
حسن عباس رضا :آخر ی سوال کروں گاکہ ہمارے ملک میں فوجی حکومتوں اور مارشل لا کا جوغیرجمہوری تسلسل چل رہا ہے اس کے بارے میں آپ نے بہت سی کہانیاں لکھیں ‘ کیا موجودہ فوجی آمریت اور جولولی لنگڑی جمہوریت ہے اُس کے حوالے سے بھی آپ نے کوئی نئی کہانی لکھی؟
منشایاد : ابھی نصرت انور صاحبہ نے جس افسانے’’ کہانی کی رات ‘‘ کاحوالہ دیاہے اس کایہی موضوع ہے۔یہ ساری اسی رات کی باتیں ہیں جب موجودہ فوجی حکومت وجود میں آئی تھی بلکہ اس میں کچھ اور پیش گوئیاں بھی آگئیں۔
نصرت انور :ہاں یہ ایک بڑی کہانی ہے اور اس میں ایک بڑااطنزبھی ہے ۔
منشایاد : اس میں تویہاں تک بھی کہا گیا کہ جب معلوم ہوتاہے کہ اس ملک میں وزیراعظم بننے والے کاکیاحشر ہوگا تو پھر لوگ بنتے ہی کیوں ہیں۔ان موضوعات پرمیری اوربھی بہت ساری کہانیاں ہیں۔بلکہ میں سوشل موضوعات پرجو کہانیاں لکھتاہوں مثلاً کرموں والی جس کاذکر نصرت انور نے کیا اس میں بھی یہی ہوتاہے۔اُس میں بھی ایک گاؤں ہے جہاں ناانصافی ہورہی ہے ۔آپ اس گاؤں کوایک ملک سمجھ سکتے ہیں۔میں سمجھتاہوں کہ کسی بھی فوجی سربراہ کو حکومت پر قبضہ کرکے جمہوریت کے تسلسل میں دخل دینے کاآئینی اور اخلاقی حق نہیں پہنچتا۔اس سے ملک آگے کی بجائے پیچھے چلاجاتاہے۔لیکن یہ ایک عجیب اتفاق ہے کہ ہر فوجی حکومت کو اپنا کوئی نہ کوئی جوا ز مل جاتایاسیاستدان فراہم کردیتے ہیں۔جیسے جنرل ضیاء الحق کو روس اور افغانستان کی جنگ اوربھٹو مخالف سیاستدانوں نے پہلے احتساب پھر انتخاب کانعرہ لگاکر تقویت پہنچائی تھی اور موجودہ حکومت کوہمارے بنیاد پرست علما اور رجعت پسند سیاستدان دانستہ یانادانستہ طور پر جواز فراہم کررہے ہیں کہ وہ بنیاد پرستی اور دہشت گردی کے خاتمے اور روشن خیالی کی خاطر قائم رہے۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ ترادیب،شاعر اور پڑھے لکھے لوگ جو ماضی میں فوجی حکومتوں کے مخالف تھے وہ موجودہ حکومت کے حق میں ہیں۔
حسن عباس رضا :ناظرین کرام آج منشایادصاحب کے ساتھ گفتگو میں بہت اچھی باتیں ہوئیں۔میرے ساتھ گفتگو میں شریک تھیں نصرت انور ،آج کا پروگرام اختتام پذیر ہوتاہے حسن عباس رضاکواجازت دیجئے،اللہ حافظ!