فیصل عظیم
سبھی ہیں اس فریب میں کہ زندگی سفر میں ہے
ہر ایک ذی نفس تغیرات کے اثر میں ہے
مگر یہ کیسی گردشِ زمین و آسمان ہے؟
ہمیں توکائنات کے جمود کا گمان ہے
وہی ہیں آفتاب کی تپش سے سوختہ بدن
وہی یہ پہاڑ بھی،وہی ہیں ان کے پیرہن
وہی ہے اب بھی تیشہ گر ازل سے اک عذاب میں
وہی ہے جوئے شیر کا سوال بھی جواب میں
وہی ہیں اونچ نیچ کی اضافتیں سماج میں
وہی ہے روشنی کی جنگ ظلمتوں کے راج میں
وہی دئیے کی کشمکش،وہی ہوا کا مسئلہ
وہی ہے اک ضعیف قوم کی بقا کا مسئلہ
وہی ہے کوزہ گر کا آندھیوں سے ٹوٹتا مکاں
وہی مفکروں کے سر ہتھیلیوں کے درمیاں
وہی ہے فن کا دیوتا شکستہ خواب کی طرح
وہ ظلمتوں کے درمیان ماہتاب کی طرح
وہ نیند اور خواب سب سپردِ شب کیے ہوئے
وہ رات رات بھر ہے خود کو جاں بہ لب کیے ہوئے
وہ ہانپتے ہوئے بدن تلاشِ روزگار میں
وہ اک ہجومِ بیکراں خداؤں کے حصار میں
وہی ازل سے جاری کشمکش ہے دن کی دھوپ میں
وہی ہے اک جمود سا ترقیوں کے روپ میں