محمدحامدسراج(چشمہ بیراج)
افسانہ الجھ گیا ہے۔
میں کئی ماہ سے اس افسانے میں ذہن کھپا رہاہوں۔ایک سرا پکڑتا ہوں تو دوسرا ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔پھر مجھے خیال آیا دنیا میں اتنے بہت سے مسائل الجھے ہوئے ہیں ‘الجھے ہونے کے باوجود وہ موجود ہیں تو میں نے اگر ایک الجھا ہوا افسانہ اپنے قاری کے سامنے رکھ دیا تو کون سے مشکل آن پڑے گی میرا قاری خود ہی مسئلے کو حل کر لے گا۔یہ الگ بات ہے کہ دو ایٹمی طاقتیں ابھی تک پاور میں ہونے کے باوجود مل بیٹھ کر اپنے مسائل حل نہیں کر سکیں ۔ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود ڈیڑھ سو سالہ غلامی کے جراثیم حکومتی نسلِ نو کو منتقل ہوتے چلے جا رہے ہیں ۔ایسے میں مجھے اپنے افسانے کی پڑی ہے کہ وہ الجھ گیا ہے جسے الجھے ہوئے ابھی چند ماہ ہوئے ہیں ۔یہ کوئی مسئلہ کشمیر‘فلسطین‘گجرات اور وانا تو ہے نہیں جس کے لیے تھنک ٹینک سر جوڑ کر بیٹھیں ۔سیدھا سادا ایک افسانہ ہے۔اب قاری کو الجھاؤ بتا دوں تا کہ ساٹھ کی دہائی کے افسانوں طرح وہ بد دل ہو کر افسانہ پڑھنا ہی نہ چھوڑ دے۔اور میری ساری محنت اکارت چلی جائے۔اس افسانے میں ایک انفرادی قتل کی کہانی ہے‘کہیں سے اجتماعی قتل کی لاشیں بھی کسی نے ڈھو کر افسانے میں ان کی اجتماعی قبر بنا دی ہے۔اس میں ایک مزدور کی کہانی ہے جس کی ایک دن کی مزدوری گم ہو گئی ہے۔اس افسانے میں اعلان بھی ہو رہے ہیں ۔چھوڑیے ان باتوں کو وقت کی آواز پر کان دھریے۔پہلے ہی کون سا کم پانی پلوں کے نیچے سے بہہ گیا ہے ۔دیر کی تو باقی زندگی قائم رکھنے کو ہم ایک بوند پانی کو ہی ترس جائیں گے۔اور انسانی خون سے پیاس تو نہیں بجھتی نا۔۔۔اور زندہ رہنا بھی ممکن نہیں ہوتا۔۔۔اس لیے آپ تھوڑا غور کریں ۔۔۔افسانے پر یا اعلان پر۔۔۔!
معلوم نہیں یہ نئے زمانے کی بات ہے یاپرانے زمانے کی ۔یہ بھی خبرنہیں یہ قصہ کہانی ہے کب کی ۔۔؟
اعلان ہو رہا تھا۔اور یہ بھی معلوم نہیں کہ اعلان ڈھنڈورچی ڈھول کی تھاپ پر شہر کی گلیوں میں الاپ رہا تھا۔کسی مسجد کے سپیکر سے یہ اعلان کیا جا رہا تھا‘ یا ریڈیو اور ٹی وی پر نشر کیا جا رہا تھا۔اعلان کو خود بھی معلوم نہیں تھا کہ اسے بار بار کیوں دہرایا جا رہا ہے۔بستی والے اعلان غور سے سن رہے تھے
ملک میں طاعون کی وبا پھوٹنے والی ہے۔اور طاعون کے پرندے ہر طرف منڈلا رہے ہیں ۔امکان ہے کہ وہ صرف ظلم وستم روا رکھنے والے افراد کوہی نشانہ بنائیں گے ۔ان کا ہدف اور کوئی نہیں ہو گا۔اس لیے عوام اور پر امن شہریوں کو با ا لکل گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے ۔اعلان میں یہ بھی کہا جا رہا تھاوہ ان پر بھی عذاب بن کر اتریں گے جو ملک میں بے جا خوف وہراس پھیلاتے ہیں اور دھماکوں کے ذریعے بے گناہ شہریوں کی نہ صرف نیندیں حرام کرتے ہیں بلکہ ان مظلوموں کے خون پر سیاست کے قصر تعمیر کرتے ہیں۔
بستی والے بھاگ کے گھروں سے اپنے سماعتی آلے اٹھا لائے۔وہ اعلان کو واضح اور صاف سننا چاہتے تھے۔یہ وہم بھی ہو سکتا تھا۔کچھ یہ بھی سوچ رہے تھے ممکن ہے یہ اعلان خواب میں ہو اور ابھی ہماری آنکھ کھلے تو ہم صدیوں کے اسی بدنصیب آہنی بستر پر ہی ہوں ۔اعلان کے بعد میڈیا نے خبر دی کہ ملک کے تمام تھانوں اور ہسپتالوں نے حکومت وقت کے سامنے اپنی بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ آسمان سے اترنے والے ہر عذاب کے سامنے انسان ازل سے بے بس چلا آرہا ہے۔پرندوں کا رخ مغرب سے مشرق کی سمت تھا
ایک اعلان کسی مسجد سے شاید اس لیے بھی ہو رہا ہو کہ ایک قتل نے پوری آبادی میں ہراس پھیلا دیاتھا معاملہ گڈ مڈ سا تھا۔ایک تو اسی روز کا وقوعہ تھا آبادی میں ایک قتل ہو گیا۔قتل کا خوف تو اپنی جگہ تھاپوری آبادی ہراساں تھی لیکن اسی روز ایک بڑے شہر کی مسجد میں ہونے والے دھماکے میں پچیس نمازیوں کے چیتھڑوں نے پورے ملک کی مساجد کے مستقل نمازیوں میں ایک خوف ایسا کاشت کیا کہ اگلی صبح ان کے بیوی بچوں نے اصرار کیا کہ وہ گھر پر ہی سجدہ ریز ہو لیں ۔آبادی ‘شہر اور ملک بھر کاخوف ایک سا تھا۔سب بے گناہ مارے گئے تھے۔
اخبارات اور میڈیا پر قتل وغارت کی خبریں معمول کا حصہ ہو گئی تھیں ۔بچے بھی یہ سمجھنے لگے تھے کہ ہماری ویڈیو گیمز کی طرح یہ بھی کوئی کھیل ہے اور جیسے ہم گھر بیٹھے پلے اسٹیشن پر یہ کھیل کھیلتے ہیں ایسے ہی کچھ بڑے لوگ اپنے پلے سٹیشن سے روزانہ یہ کھیل کھیلتے ہیں اور دنیا میں کہیں نہ کہیں سو پچاس لاشوں کا گرنا کھیل کا معمول ہے ۔آلۂِ سماعت اپنی اپنی جیب میں واپس ڈال کر اب لوگ سوچ رہے تھے۔قتل تو صرف ہماری بستی میں ہوا ہے۔لیکن خوف پورے ملک میں کیوں پھیل گیا ہے ۔یہ اعلان کس نے کرایا ہے۔یہ کوئی بچوں کا کھیل نہیں تھا ۔حقیقت میں ایک گھر اجڑ گیا تھا ۔جیسے زمین پر کمزور ممالک اجڑ رہے تھے۔ادھر ترقی یافتہ ممالک میں انتھراکس ڈاک کے لفافوں میں چھپ کر حملہ آور تھا۔حملہ آور تمام نا معلوم تھے سوائے ایک دو طاقتوں کے ۔۔۔! دو ا طاقتیں ایسی تھیں جنہوں نے ببانگِ دہل کمزور ممالک کو کچل دیا تھا۔کرہ ٔارض کے کچھ قلیل لوگوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ ان دو ممالک کی جرات اور عظمت کی دلیل ہے کہ انہوں نے حملہ پوری دنیا کو بتا کر کیا اگر وہ بتائے بغیر بھی حملہ کر دکھاتے تو کسی نے ان کا کیا بگاڑ لینا تھا۔ان کے ساتھ کسی کی دشمنی کا کوئی ثبوت بھی نہیں تھا۔
ادھر بستی کے مقتول کی کسی سے دشمنی نہیں تھی۔وہ ایک متوسط طبقے کا ایسا شخص تھا جو دن بھر دنیا کے دھندوں میں کھوئے رہنے کے بعد رات ڈھلے اپنی بیٹھک پر اپنے چند دوستوں سے گپ شپ کر لیا کرتا تھا۔جس روز نہر کنارے وہ شہر سے گاؤں کو لوٹ رہا تھا۔شکر دوپہر تھی ایک ریلوے کراسنگ پر جہاں نزدیک نزدیک آبادی کا نام ونشاں نہیں تھا۔وہ ریلوے لائن کراس کرنے لگا تو گولی اس کی پشت میں اتر گئی وہ چکرا کر گرا اور دوسری گولی نامعلوم افراد نے دل میں تاک کر اتاری۔جب پولیس پہنچی موٹر سائیکل غائب تھی۔تھانے میں جو رپورٹ درج ہوئی اس میں بھی قاتلین نامعلوم تھے۔یہ واردات بھی انہی وارداتوں میں ڈال دی گئی جو آئے دن موٹر سائیکلوں کے ڈاکے کے سلسلے کا معمول تھیں ۔
قاتل جو بھی تھے ‘لیاقت علی خان ‘ضیاء ا لحق‘ حکیم محمدسعید ‘ صلاح ا لدین ‘مولانا یوسف لدھیانوی ‘مولانا شامزئی ‘مولانامفتی جمیل کے قاتلوں کی طرح نامعلوم تھے۔حکومت کی طرح تھانے والوں نے بھی بستی والوں سے وعدہ کر لیا کہ قاتلوں کو ہر صورت میں گرفتار کیا جائے گا۔قتل کو بہت دن گزر گئے ۔زندگی اپنے معمول پر آگئی ۔ایک دن تنہائی میں بیٹھا میں سوچ رہا تھاہابیل قابیل سے چل نکلنے والا یہ سلسلہ رکا ہی کہاں ہے۔نسلِ انسانی کے ساتھ یہ بھی پھیلتا جا رہا ہے ۔کہا ۔۔۔نا ۔۔۔اب تو انسانی بے حسی سے یہ معمول کا حصہ ہو کر رہ گیا ہے۔
بستی کے معمولات تو معمول پر آگئے لیکن اس گھر میں دکھ ابھی بسیرا کیے ہوئے تھا۔درختوں کی ٹہنیوں اور آنگن میں درد کی ہوا جھلساتی تھی ۔قتل کا درد اتنی جلدی انسانی دماغ سے نہیں نکلتا۔وہ اندر ہی اندر انسان کو کھو کھلا کر دیتا ہے۔ میں بھی اسی بستی اور دکھ کا حصہ تھا۔درد بانٹنے اکثر میں مقتول کے بوڑھے باپ کے پاس گھنٹوں جا بیٹھتا۔ابھی میں نے اپنے حصے کا وقت مصروفیات کے مگر مچھ کے منہ میں نہیں جانے دیا تھا۔اللہ نے مجھے ٹویشن پڑھانے کے وائرس سے بھی محفوظ رکھا ہوا تھا۔ڈیوٹی سے پلٹ کر میں علم فروشی کی بجائے اپنے وقت کو اپنے حساب سے ترتیب دیا کرتا اور اس ترتیب میں سے بھی اتنا وقت بچا کر رکھتا کہ کوئی اچانک ملنے کو آنکلے تو مجھے کسی مصروفیت کی الجھن نہ ہو۔میں اس مہمان کو پورا وقت دے سکوں ۔اس روز بھی میں نے ڈیوٹی سے پلٹ کر اگلے دن کی چھٹی مقتول کے والد کے ساتھ گزارنے کا فیصلہ کیا۔۔جب میں وہاں پہنچا مجھے مقتول کے والد سے ملاقات کے لیے انتظار کرنا پڑا ۔خزاں اور بہار کی درمیانی رت تھی۔ہلکی ہلکی ہوا سے خزاں رسیدہ پتے درختوں سے ٹوٹ کر میرے اردگرد سر پٹخ رہے تھے۔شیشم کی اونچی شاخ پر ایک پرندہ چونچ میں دانہ لئے آیا۔خزاں رسیدہ درخت کی ننگی ٹہنیوں پر وہی ایک گھونسلہ بہار کی علامت تھا۔اس میں زندگی اور بہار کے آثار تھے۔لان کے اطراف میں لگے اکّادکّا کیلی کے پودوں پر سرخ اور پیلے پھول کھلے تھے۔
میں ایک رسالے کی ورق گردانی کررہاتھا۔خزاں رسیدہ پتوں کی طرح رسالے کے اوراق بھی پھڑپھڑارہے تھے اور مجھے معلوم نہیں تھا کہ میں کیا پڑھ رہا ہوں یا سوچ رہاہوں۔شاید میں کچھ بھی نہیں کررہا تھا۔۔۔۔۔۔ لیکن نہیں ۔۔ ۔ ۔ ۔ میں کچھ نہ کچھ توکررہاتھا۔میرے ذہن میں تحریروں کا ایک جال بچھاتھا،پرندے بول رہے تھے اور میں سلیمان نہ تھا کہ ان کی بولی سمجھ لیتا۔وہ یقینی طور پر ایک دوسرے کو اپنی کتھا سنارہے تھے۔بان کی کھردری چارپائی کی پائنتی رکھی ٹرے میں چائے کی پیالی سرد ہوگئی تھی۔
مجھے وہ شخص یاد آرہا تھا جس کے قاتلوں کی ابھی تک خبر نہیں تھی۔
انسان تنہا بیٹھا ہو تو وہ کچھ نہ کچھ سوچ رہا ہوتا ہے وہ کسی اور کے سامنے یا اپنے سامنے بھی اعتراف نہ کرے بہر حال وہ سوچ رہا ہوتا ہے اور یہی سوچ اسے ولیِ کامل یا ابلیس بنا دیتی ہے۔یہی تنہائی کی سوچ کے زاویے اس کی پوری زندگی اور شخصیت کو محیط ہوتے ہیں ۔میں بھی سوچ رہا تھا ۔۔لیکن کیا سوچ رہا تھا۔۔۔؟س کا جواب میرے پاس نہیں ہے۔ ۔ شاید میں اپنے افسانے کے بارے ہی سوچ رہا تھا کیوں کہ میری خواہش تھی کہ جیسے ہی کسی پرندے کی چونچ سے کوئی کہانی گرے، میں اسے اٹھا کر سنبھال لوں اور مکمل کرکے کسی جریدے میں اشاعت کے لئے بھیج دوں۔لیکن خیال آیا یہ شوقِ ناموری کس لئے۔۔؟ کسی پرندے کی چونچ سے گری ہوئی کہانی تو میری اپنی سوغات ہے، میں اسے عام کیوں کرنا چاہتا ہوں۔میں ایسی کہانیاں سنبھال کر کیوں نہیں رکھتا۔کیایہ تحریریں بھی کسی کی امانت ہیں؟ جو ہمیں لوٹانی ہیں۔
یہ خبر بھی ذہن کے ساتھ چپکی ہوئی تھی کہ پرندوں کا رخ مشرق کی سمت ہے ۔تخلیق کار کو معلوم ہی کب ہوتا ہے کہ وہ کس لئے تخلیق گری کے عمل سے گذررہاہے؟
اپنی ذات کی تشہیر کے لئے؟معاشرے کے لیے ‘قاری کے لیے ؟یا پھر کائنات کے لئے۔۔۔۔۔؟
کیا میری کہانی کا موضوع قتل ہے۔۔۔؟
نہیں ۔۔۔!
کیا طاعون ہے۔۔یا ۔۔۔طاعونی پرندے۔۔۔؟
شاید۔۔۔!
یہ تو ایک واقعہ تھا ۔۔۔ایک خبر‘ ان خبروں میں سے جو آئے دن اخبار ات میں توجہ کا مرکز ایک لمحے کے لیے بنتی ہیں ۔۔۔اور پھر اخبار کی طرح بوسیدہ ہو جاتی ہیں ۔۔۔
سامنے بکائن کے درخت کی ایک ٹہنی سے پنجرہ لٹکا ہوا تھا۔مجھے اپنے سامنے لٹکتے پنجرے میں بند توتے کو دیکھ کر خیال آیا۔اس بیچارے کو کیوں بند کر دیا گیا ہے۔۔۔؟ اس لمحے مجھے گوانٹا نامو بے کے قیدی بھی یاد آئے اورابوغریب جیل بھی ۔۔اسی زمین کے پنجرے۔۔۔!مجھے اپنے آنگن کی یاد آئی ۔میرے آنگن میں کوئی پنجرہ نہیں۔میں نے پرندے کبھی قید نہیں کئے۔بچپن میں چین کے طوطے جو پیغام لائے تھے وہ میں آج تک نہیں بھولا۔مجھے قید سے نفرت ہے۔۔۔۔ قید جبر کی علامت ہے، پرندے اور کہانیاں قید نہیں کرنے چاہئیں۔یہ قید ہو جائیں توفضا میں گھٹن بڑھ جاتی ہے جس سے دم گھٹنے لگتا ہے۔ میں گھر کے آنگن میں مٹھی بھر باجرہ بکھیر دیا کرتا ہوں، پرندے دانا چگتے، چہچہاتے اور مجھے کہانیاں سناتے رہتے ہیں۔کہانی تلاش کرنے کے لئے میں باجرہ نکال کر صحن میں بکھیر دیتاہوں تھوڑی دیر میں چڑیاں، لالیاں، کال کڑچی، کوے اور ہدہد میرے اردگرد اکٹھے ہو جاتے ہیں ۔۔۔میں اپنے خیالات میں گم تھا ۔۔ ۔ ایک آہٹ پر میں نے سر اٹھا کر دیکھا۔۔۔
سامنے پگڈنڈی پر ایک شخص آرہاتھا۔۔۔ دھیمی چال چلتا ہوا۔۔۔۔ آہستہ آہستہ اس کے نقوش واضح ہونے لگے۔اس کے پاؤں میں گانٹھ لگی چپل، سر پر بوسیدہ میلی سی پگڑی اور بغل میں خالی بوریاں تھیں۔پرندوں کی جگہ چارپائی پر وہ آ کر بیٹھ گیا۔کہانیاں پرندے اپنے ساتھ لے اڑے اور میں رسالے کے اوراق میں سے پرندے تلاش کرنے لگا۔خزاں کی خامشی میں اک آواز ابھری
“چارچار روپے۔۔۔۔سستیاں لے لو ۔۔چھابیاں لے لو۔۔ چارچار روپے”
میرا جی چاہا اٹھ کر ایک چنگیر لے لوں۔ممکن ہے چنگیر میں روٹی کی بجائے کوئی کہانی رکھی ہو۔اور بیچنے والی کی جیب میں رقم کی بجائے بھوک رکھی ہو۔وہ خزاں رسیدہ چہرے والی ایک پستہ قد عورت تھی۔اس کے کپڑوں میں جگہ جگہ پیوند لگے تھے۔وہ گذر گئی۔میں چنگیر سے کہانی اٹھا سکا نہ اس کی جیب سے بھوک۔دیر تلک اس کی پشت پر لٹکتے جھولے اور سر پر دھری چنگیروں کو دیکھتا رہا،رسالے کے اوراق چپ ہو گئے۔۔۔۔ گونگے اور بہرے۔۔۔۔۔ان کی قوت گویا کیا ہوئی۔۔۔۔؟ ان سے نطق کس نے چھین لی۔۔۔۔؟
یہ آدمی جو میرے سامنے بیٹھا ہے کون ہے؟ کہاں سے آیا ہے؟
ہم سب کہاں سے آئے ہیں۔۔۔۔؟ ہمیں جانا کہاں ہے۔۔۔۔ہمارے سروں پر رکھی چنگیروں میں کیا ہے؟روٹی یا بھوک۔۔۔۔؟ کائنات کی اصل کیا ہے۔۔۔؟ شکم سیری یا فاقہ کشی۔۔۔۔؟ہماری چنگیروں میں سے بھوک کہاں اڑگئی ہے؟ قناعت کے سکے ہم کہاں گراآئے ہیں؟ انہیں تلاش تو کرنا چاہیئے، شاید گم شدہ میراث مل جائے۔۔۔۔!اس آدمی کو یہ بوریاں کھول کر ساری کہانیاں مجھے دے دینی چاہئیں، لیکن میں اسے کیا دوں گا۔ بھوک۔۔۔یا روٹی۔۔۔؟
اگر یہ ضرورت مند ہوا تو میرے پاس اسے دینے کے لیے کیا ہے؟
کہانیاں۔۔۔؟
کہانیوں سے پیٹ تو نہیں بھرتا، چولہا تو نہیں جلتا۔۔۔ افلاس کا تن تو نہیں ڈھانپا جا سکتا۔۔۔!
میں بے روح اوراق پلٹتا رہا۔۔۔۔
میرے سامنے بیٹھے شخص کی خواہش تھی کہ میں اس سے باتیں کروں۔
لیکن کون سی۔۔۔؟
حالات حاضرہ، موسم، مہنگائی، بیروزگاری، علاقائی سیاست، جنگ، امن، ایٹم۔۔۔کون سی بات۔۔۔۔۔۔؟وہ آہستہ سے کھنکارا، گلہ صاف کیا، پگڑی سنبھالی، بوریوں کو تھپتھپایا حالانکہ وہ خالی تھیں۔ان میں اناج بھرنے کاوقت ابھی نہیں آیا تھا۔
آپ کیسے ہو۔۔۔۔؟ وہ گویا ہوا۔اس کا لہجہ کھردرا تھا
ٹھیک ہوں۔۔۔ الحمداللّہ۔
قاتل کا کوئی پتہ چلا۔۔۔۔ ؟وہ اس قتل کی بابت مجھ سے پوچھ رہا تھا جسے لوگ اپنی مصروفیات میں اور خاندان کے افراد فکرِ معاش میں بھول گیے تھے۔میں نے اس کا چہرہ غور سے دیکھا اور کہا،نہیں۔۔۔!
ہائے ہائے کیسے سفاک لوگ تھے، موٹر سائیکل چھین لے جاتے،نوجوان کو گولی تو نہ مارتے۔موٹرسائیکل بھی گئی، جان بھی گئی۔۔۔خان صاحب۔ایک بات پوچھوں۔۔
جی ۔۔۔
آپ مقتول کو کب سے جانتے ہیں ۔۔؟
اجی۔۔۔ہم ان کے ٹریکٹر پر مزدوری کرتا تھا، مٹی ڈھونے کا کام کرتا تھا،وہ بہت اچھا انسان تھا، موٹر سائیکل چھیننے والوں کو کیڑے پڑیں، ان کی لاشیں گل سڑ جائیں۔۔۔۔
خان جی،اب بھی مزدوری کا سلسلہ ہے یا نہیں ۔۔۔
میرے سامنے کسی نے تازہ اخبار لا رکھا۔انتھراکس کی جگہ جراثیمی ہتھیاروں کی خبر گرم تھی۔اخبار کے صفحات دھڑ دھڑ جل رہے تھے۔خبروں نے اخبار کے ساتھ ساتھ لوگوں کے دل بھی ادھیڑ دیے تھے۔میں شاید اخبار کی سرخی کے بعد اس کی بغلی خبروں میں جھانکتا لیکن مجھے خیال آیا میں کسی سے محوِ گفتگو ہوں ۔۔۔
خان جی میں نے مزدوری کا پوچھا تھا
نہیں جی۔۔۔بے روزگاری کا عذاب ہے ۔ادھر ٹھیکیدار حرام زادے نے دو مہینے کی مزدوری روک رکھا
ہے۔کہتا ہے ابھی پیمنٹ نہیں ہوا ہے۔۔جانے اللہ میاں نے ہمیں غریب کیوں بنایا۔اتنا بہت سارا مخلوق کو امیر بنا رہا تھا ہم کو بھی بنا دیتا تو اس کی خدائی میں کون سا کمی آجانا تھا۔
خان صاحب ۔۔۔اللہ کا شکر ادا کریں اس نے آپ کو امیر نہیں بنایا،امیری بھی عذاب اور امتحان ہے۔لیکن جس کے گھر میں بھوک پک رہی ہو اس کے لیے فلسفیانہ باتیں کارِ زیاں ہوتی ہیں اس نے صرف سر ہلانے پر اکتفا کیا۔۔۔میں نے اس سے پوچھا آج کیسے آئے ہو۔۔۔؟
تعویذلینے آیا ہوں جی۔۔۔ بیوی کا دودھ سوکھ گیا ہے اور بچہ بیمار ہے، ہاتھ بہت تنگ ہے، اب تو کہیں مزدوری بھی
نہیں مل رہا ہے۔
میں اس کے کھردرے اور سخت ہاتھوں کو دیکھ رہا تھا۔بیلچے نے اتنی روٹی نہیں کمائی تھی، جتنی ہاتھوں نے گانٹھیں کما لی تھیں۔کھردرے ہاتھوں پر محنت کی روٹی رقم تھی، لکیروں کی لکڑیاں ہاتھ کے تندور میں سلگ رہی تھیں، لیکن بوریاں خالی تھیں، وہ پرامید تھا کہ بوریاں بھر جایئں گی۔”تعویذ” سے دودھ اتر آئے گا اور اس کا بچہ کلکاریاں مارنے لگے گا۔اس کے چہرے پر بچھی جھریوں میں کرختگی عجیب سی تھی ۔شاید اس کے گھر کے مسائل بھی کشمیر اور فلسطین کی طرح تھے۔اس کے پاس روز جینے اور مرنے کے سوا اور کوئی حل نہیں تھا۔بات سے بات نکلتی رہی۔۔۔باتوں کے دوران اچانک اس کی آنکھوں میں چمک سی پیدا ہوئی وہ مسکرایا اور کہا!ایک بات کہوں جی۔اگر آپ کو برا نہ لگے تو ؟
کہو، کہو خان صاحب۔۔۔ !
وہ جی۔۔۔ وہ۔۔۔ وہ ۔۔۔میری۔۔۔ان کی طرف ایک دیہاڑی نکلتی تھی جی۔ساٹھ روپیہ۔ آپ اگر سفارش کریں نا ‘۔۔۔تعویذ کے ساتھ اگر ساٹھ روپیہ بھی مل جائے تو۔۔۔۔؟ اس وقت تو قتل کا دکھ بہت گہرا تھا‘ نا۔۔۔مجھے اچھا نہیں لگتا تھا کہ میں ساٹھ روپیہ مانگوں ۔
غربت انسان کوکتنا مجبور کرتی ہے۔ہم بیٹھے باتیں کر رہے تھے میں اسے جھوٹی تسلیاں دے رہا تھا اور جھوٹی تسلیوں سے ہی اس کے چہرے پر اطمینان اتر رہا تھا جیسے لاکھوں کے جلسے میں ایک شخص کے جھوٹے وعدوں سے لاکھوں لوگ اپنے پلو کے ساتھ امید کی گرہ باندھ لیتے ہیں ۔اور جلسہ ختم ہوتے ہی وعدے بھی ٹوٹ جاتے ہیں ۔۔۔میں سوچ رہا تھا کہ قاتل کے باپ کو ساٹھ روپے کا کہوں یا نہ کہوں ۔ابھی اسی ادھیڑ بن میں تھاکہ ایک گاڑی کی آواز سن کر رک گیا۔پولیس وین آکر رکی تھانیدار اترا ۔۔۔ اور اس نے مقتول کے باپ کا پوچھا
پولیس نے بتایا۔۔۔سالانہ بھل صفائی کے لیے بڑی نہر کی بندی کے دوران جب پانی اترا تو اطلاع ملی کہ ریلوے کراسنگ پر نہر میں موٹر سائیکل پڑا ہے۔وہ ہم نے قبضے میں لے لیا ہے ۔اب سوال یہ ہے کہ اگر وہ موٹر سائیکل چھیننے والا گروہ تھا تو پھر وہ موٹر سائیکل نہر میں کیوں پھینک گئے؟
مقتول کے باپ کو بیٹے کی یاد نے پھر رلا دیا۔درختوں کے نیچے کہرام مچ گیا۔گاؤں کے لوگ اکٹھے ہو گیے ۔سب اپنی اپنی ہانک رہے تھے مقتول کا باپ سکتے کی کیفیت میں تھا ۔عورتوں کے بین کی آواز بلند ہونے لگی تھی ۔خبر آگ کی طرح پھیل گئی کہ موٹر سائیکل مل گیا ہے۔لوگ چاروں اور چلے آرہے تھے۔پھر وہی چہ مگوئیاں ‘وہی قصے ‘مسجد کے مقتول زندہ ہو گئے ۔انتھراکس کے لفافے کھلنے لگے۔لوگ اتنی زیادہ تعداد میں جمع ہو گے کہ آوازوں کی جگہ اب صرف مکھیوں کی بھنبھناہٹ تھی۔خان صاحب کی دہاڑی بھی اسی شور میں دب گئی۔۔۔کون کیا کہ رہا تھا۔۔؟ایک شخص قدرے بلند آواز میں بول رہا تھا
پولیس آج تک ‘لیاقت علی خان ‘ضیاء ا لحق‘ حکیم محمد سعید ‘ صلاح ا لدین ‘مولانا یوسف لدھیانوی ‘مولانا شامزئی ‘مولانامفتی جمیل کے قاتلوں کی طرح ہماری بستی کے قاتل کو تلاش نہیں کر سکی ‘ملک بھر میں ہونے والے دھماکوں کے مجرم آج تک نہیں پکڑے گیے یہ پولیس ہمارے ایک قتل کا کیا سراغ لگائے گی۔
نہیں نہیں موٹر سائیکل مل گیا ہے تو قاتل بھی پکڑے جائیں گے۔
وہ تو ضیاء ا لحق کے جہاز کے ٹکڑے بھی مل گیے تھے۔
اتنے بڑے مجمعے کو چپ کرانا پولیس کے بس کا روگ نہیں تھا۔
اچانک کسی نے چیخ کر کہا ۔۔۔چپ۔۔۔!اعلان ہو رہا ہے ۔۔۔مجمع یوں چپ ہوا جیسے انہیں سانپ سونگھ گیا ہو۔
معلوم نہیں یہ نئے زمانے کی بات ہے یاپرانے زمانے کی ۔یہ بھی خبرنہیں یہ قصہ کہانی ہے کب کی۔۔۔؟اعلان ہو رہا تھا۔اور یہ بھی معلوم نہیں کہ اعلان ڈھنڈورچی ڈھول کی تھاپ پر شہر کی گلیوں میں الاپ رہا تھا۔کسی مسجد کے سپیکر سے یہ اعلان کیا جا رہا تھا‘ یا ریڈیو اور ٹی وی پر نشر کیا جا رہا تھا۔اعلان کو خود بھی معلوم نہیں تھا کہ اسے بار بار کیوں دہرایا جا رہا ہے۔
اعلان سننے کے بعد میں نے سوچا مجھے ضرور بولنا چاہیے۔میں نے ہاتھ بلند کیا۔لیکن میری زبان لڑکھڑا گئی۔میری زبان کو تالا کس نے لگا دیا۔۔۔؟ یہ جو دہاڑی مانگنے آیا تھا۔ جس کے بیلچے نے اتنی روٹی نہیں کمائی تھی، جتنی ہاتھوں نے گانٹھیں کما لی تھیں۔کھردرے ہاتھوں پر محنت کی روٹی رقم تھی، لکیروں کی لکڑیاں ہاتھ کے تندور میں سلگ رہی تھیں ۔یہ بھی چپ ہے۔میں بھی چپ ہوں ۔صرف پولیس وین کے انجن کی آواز ہے اور بس۔۔۔۔!
سنا ہے پورے کرۂِ ارض کی بستیاں صدیوں سے چپ ہیں اور اعلان ہو رہا ہے۔۔۔۔!اعلان کو خود بھی معلوم نہیں تھا کہ اسے بار بار کیوں دہرایا جا رہا ہے۔اور مغربی سمت سے آنے والے طاعونی پرندے پوری زمین پر یاج ماجوج کی طرح پھیل گیے ہیں ۔ان کی چونچ میں جو ایٹمی ‘کیمیائی ‘جراثیمی کنکریاں ہیں وہ اندھی ہیں ۔۔۔اور پر امن شہری بھی ان کی زد میں ہیں ۔۔۔! ٭٭٭
ضیاء الحق کی تو تاریخ ہی مختلف ہے۔اردن میں قیام کے دوران اُس نے جس طرح فلسطینی عروج کو زوال سے ہمکنار کیا ،اب وہ بھولی بسری داستان ہے۔فلسطینی اس وقت اتنی طاقت حاصل کر چکے تھے کہ چند دنوں میں اردن میں ایک جمہوریہ قائم ہونے والی تھی اور اس کے بعد پورے عرب میں سلاطین کے تختے الٹ جاتے،اسرائیل اپنی اوقات میں آجاتا،لیکن ایک رات کے آپریشن نے فلسطینی طاقت کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا۔۔۔۔کیمونزم اور اسلام کا تضاد انگریزوں نے بنایا تھا ورنہ بنیادی طور پر ان دونوں میں جتنا اشتراک ہو سکتا تھا وہ شاید کسی اور نظام میں ممکن نہ ہوتا۔یہ دونوں سرمایہ داری اور مغربی استعمار کے خلاف ہیں لیکن انگریز نے ایک طے شدہ سازش اور پالیسی سے مسلمانوں کو کمیونزم کے خلاف لا کھڑا کیا۔روس کے زوال سے سب سے زیادہ نقصان کس کا ہوا ہے؟۔۔۔۔آج پاکستان جن مسائل سے دوچار ہے وہ سب ضیاء الحق کے پیدا کردہ ہیں۔ضیاء دور سے پہلے شیعہ سنی فسادات کا کوئی تصور تک نہیں تھا۔۔۔ضیاء کی مجلس شوریٰ نے جسے اُس زمانے میں ابلیس کی مجلس شوریٰ کہا جاتا تھا،پارلیمانی سطح پر منظم کرپشن کی بنیاد رکھی۔‘‘
(ڈاکٹر رشید امجد کی خود نوشت تمنا بے تاب کے صفحہ ۳۱۰،۳۱۱سے چند اقتباس )