ثروت خان(اودے پور)
جس طرح ناول اردو نثری ادب کی ایک دلچسپ اور منفرد صنف ہے، اسی طرح اس کے قاری بھی بڑے دلچسپ اور منفرد ہوتے ہیں۔ ان کی دو قسمیں ہیں-اوّل وہ جو ناول نگار سے یہ مطالبہ چاہتے ہیں کہ زندگی کے سیدھے سادے واقعات کو وہ کرداروں کے ذریعے کڑی در کڑی اس طرح پیش کرتا چلا جائے کہ جسے پڑھ کر وہ محظوظ ہوں، ان کا وقت بآسانی گزر جائے اور اپنے آپ کو انہیں کرداروں کے درمیان کا ایک فرد سمجھنے لگیں اور بس—لیکن دوسری قسم کے قارئین کا یہ مطالبہ رہتا ہے کہ ناول کا قصّہ انسانی زندگی کے ایسے اہم موڑ سے اٹھایا جائے، جس میں ایک پورے سماج، پورے کلچر، اس کے افراد، افراد کے اردگرد الجھتی سلجھتی زندگی، نفسیاتی کشمکش، جمالیاتی حِس اور داخلیت و خارجیت کا فنکارانہ بیان، اس طرح ہو کہ جسے پڑھ کر ان کے ذہن کے تمام دریچے وا ہو جائیں۔ بیانیہ کا یہ انداز سنجیدہ اور با شعور قاری کی دلچسپی کو متاثر کرتا ہے۔ اس ضمن میں سید محمد عقیل نے کیا خوب فیصلہ کن بات کہی کہ:’’تخلیق کے لئے فیصلے قاری ہی کے آخری فیصلے ہوتے ہیں۔‘‘
جوگندر پال نے اپنے ناول ’’پارپرے‘‘ میں جنسیات، نفسیات اور سماجی، سیاسی و تاریخی صورتوں کو قصّے کی بُنت میں اس طرح ظاہرکیا ہے کہ پلاٹ کے ساتھ کردار نگاری کے وصف سے قاری محظوظ بھی ہوتا ہے اور اُسے زندگی کا شعور، حقیقتوں کا ادراک اور انھیں برتنے کا سلیقہ ان کے کرداروں کے عمل اور ردِعمل سے ملنے لگتا ہے۔ ادب کی فکری اورفنی جہتوں اور اُن کے سلیقے سے سمجھنے اور پیش کرنے کا فن جوگندر پال خوب جانتے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ وہ بڑی آسانی سے اپنے دلکش اندازِ بیان کی مدد سے کالے پانی کے سزایافتہ مجرموں کی زندگی،زندگی کے نشیب و فراز، حقیقتوں کے ادراک میں تجسّس ، گہرائی، گیرائی پیدا کرکے قاری کو مجبور کر دیتے ہیں کہ وہ ناول کے انجام تک پہنچنے میں، ایک نشست سے کام لے، ورنہ اس کا انہماک زائل ہو جائے گا۔ اور باخبر قاری، ایسے فنی جواہر پاروں سے محروم ہونا بھی نہیں چاہتا۔ جوگندر پال قاری کی دلچسپی کو اپنے ساتھ بہالے جاتے ہیں۔
ناول میں بیان کئے گئے تاریخی و سماجی موڑ، اس میں بیان کی گئی زندگی کے پیچ و خم، وقت، ماحول کا بیان، قاری کو اس کے روایتی ذوق و شوق کے سحر سے نکال کر، ایک نئی دلچسپ دنیا کی سیر پر لے جاتے ہیں کہ جس کے متعلق ہمیشہ تجسّس برقرار رہتا ہے کہ آخر پورا شہر جب ملزموں سے بھرا پڑا ہے تو شرافت، محبت، خلوص، ایثار جیسے جذبو ں کی فرادانی کیونکر ہو رہی ہے۔ کیوں وہاں امن و امان رائج ہے؟ کیوں پورا شہر ایک خاموش جھیل کی مانند ہے؟ کیوں عمر کے دوسرے دور سے کرداروں کی زندگی کا آغاز ہوتا ہے؟ کیوں انھیں دوبارہ زندگی کو نئے سرے سے شروع کرنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے؟ کیوں انھیں ایک پُرسکون ماحول اور فضا کو تعمیر کرنے کی ضرورت آن پڑتی ہے؟ کیسے وہ اپنی زمین، اپنے وطن، عزیزواقارب اور گزری ہوئی زندگی کے خوشگوار لمحات کو بآسانی بھُلا دیتے ہیں؟ اور پھر اپنے دکھ درد ایک دوسرے سے بانٹ کر اس کٹھن سفر کو بھلا کر نئے سرے سے چنوتی بھرے حالات کا سامنا کرکے، زندگی کی زمینی حقیقتوں کے انکشافات سے دوچار ہو کر، چھوٹی چھوٹی خوشیوں میں بڑی بڑی خوشیوں کی لذت کو محسوس کر لیتے ہیں، تلاش کر لیتے ہیں—ایک نئے سماج، نئے کلچر اور نئے معاشرہ کی تعمیر کرتے ہیں کہ جس سے دورِ حاضرہ میں سبق لینے کی ضرورت ہے۔ پکی عمروں کا یہ کارواں، کیسی سمجھداری اور ہوشیاری سے غوروفکر کرتا ہوا، ناسازگار حالات کے تضادات میں راہ نکالتے ہوئے ،نئے چیلنج کا سامنا کرنے کا حوصلہ رکھتے ہوئے آگے بڑھتا ہے اور زندگی کی رفتار اور اُس کے تمام رموز واسرار سے معطّر شب و روز کو اپنے اندرون میں پیوست کرتا ہوا—رواں دواں نظر آتا ہے۔
’پارپرے‘ جیسا کہ نام سے مترشح ہے، کوئی دور دراز کا علاقہ—یعنی اُس پار—یعنی سمندر کے پار- — یعنی عنوان بھی دیسی اور تخاطب بھی د یسی۔ دور سمندر میں ایک جزیرہ–پورٹ بلیئر—جس میں زیادہ تر ہندوستا ن کی آزادی کے دیوانوں کو ناگہاں مجرم قرار دے کر عمر قید کی سزا سنا کر بھیج دیا جاتا تھا۔ جسے آج تک ’’کالے پانی کی سزا‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، اور جس کے تصور سے آج بھی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں—انھیں سزا یافتہ مجرموں(؟)کی زندگیوں کے پیچ و خم کو مناسب ترتیب دے کر جوگندرپال نے اس طرح پیش کیا ہے کہ مصنف کے اظہار کی باخبر اور فہم انگیز شان کا توازن، ناول کے شانداروژن کو ابھارتا بھی ہے اور اردو ناول نگاری میں’’پارپرے‘‘ ایک انوکھا، منفرد اور تجربہ کے طور پر اپنا مقام بھی بناتا ہے۔
’پارپرے‘ میں ہر مجرم کی ایک علیحدہ کہانی ہے۔ وہ کہانی شروع توہوتی ہے، لیکن اس کا خاتمہ کبھی نہیں ہوتا۔ موت کے بعد بھی نہیں،—ذکر ہمیشہ رہتا ہے—ہرکردار عمر قید کی سزا کاٹتا ہوا، وہیں ’سیلولرجیل‘ کی سلاخوں میں، بچے کچے زندگی کے تانے بانے کو نئے سرے سے پروتا ہے—عمر کا طویل عرصہ گزر جانے کے بعد نہ تو کسی مجرم میں اتنی سکت باقی رہتی ہے کہ وہ دوبارہ ہندوستان کی دھرتی کو آکر چومے اور نہ ہی ان کے پاس کرائے کے اتنے پیسے ہوتے ہیں—چنانچہ وہیں جیل میں، دل دہلا دینے والی سزاؤں کے درمیان—شدید اذیت پہنچانے والے مظالم کے درمیان رہتے ہوئے بھی فطری طور پر ان کے رشتے پنپنے لگتے ہیں۔ اس جیل اور اس عمر قید میں اگر انگریزکوئی رعائت کرتا تھا تو وہ یہ تھی کہ امن پسند قیدیوں کو جیل کی سلاخوں سے آزاد کرکے شہر میں رہنے کی اجازت دے دی جاتی تھی۔ شہر بھی کیا تھا—کھُلی جیل ہی تھی—نہ کوئی اپنا، نہ بیگانہ—بس تھے تو وہی سزایافتہ قیدی—یا پھر جنگلی، وحشی قسم کی آدی واسی قومیں۔ کہ جن کا اپنا کلچر، اپنا معاشرہ کسی طور پر بھی ان قیدیوں کی زندگی سے مشابہہ نہ تھا—یا پھر ٹھاٹھیں مارتا، ہڑپ لینے کو بیتاب سمندر—انسانی جسموں کی بھوکی پیاسی خونی مچھلیوں کے لشکر—بس — یہیں انھیں زندگی کے باقی دن گزارنا تھے–اور انھوں نے گزارے بھی—بہت ہی منّظم اور مہذّب طریقے سے۔
اس ماحول میں ایک ایسی نئی نسل پروان چڑھی کہ جن کے والدین سزایافتہ تھے،مجرم تھے، لیکن ان اولادوں کو ان سے کوئی گلہ شکوہ نہیں تھا—وجہ؟—وہ جانتے تھے کہ ہماے والدین، انگریزوں کے بے جا ظلم و ستم، بے جا عتاب، اور ناانصافیوں کا شکار ہوئے ہیں—بلکہ ان کو تو فخر ہوتاتھا کہ اپنے ملک پر جان قربان کرنے والے ماں باپ کی وہ اولادیں ہیں۔
لالو باباؔبھی اسی طرح کا کردار ہے۔ ایک ایسا امن پسند سزا یافتہ مجرم کہ جسے اپنے اچھے اعمال اور شرافت کی بناء پر بیرکوں سے آزادی مل گئی تھی—والدین کا کچھ اتا پتہ نہ تھا—نہ جانے کس کے کرتوتوں کی پیداوار تھا—بالکل لاوارث۔ اُسے ایک اسکول ماسٹر اللہ دتاؔ اپنا بیٹا بنا کر رکھ لیتا ہے—آسرا، روٹی، کپڑا اور مکان کے ساتھ اسکول کی پڑھائی کا خرچہ بھی برداشت کرتا ہے—لیکن بدلے میں زبردست جنسی استحصال سے بھی نہیں چوکتا—یہ بھی سمجھتا سب تھا۔ لیکن مرتا کیا نہ کرتا—پناہ لے رکھی تھی—پھر اللہ دتاؔ ایک دن چل بسا—لالوؔ پھر اکیلا رہ گیا- – – نو یں کلاس کے اس لڑکپن پرجوان ستیہ وتیؔ فدا ہوگئی—یہ ایک بوڑھے تاجرکی زوجہ تھی۔ اسے اپنے گھر میں رکھ لیا اور اس نے بھی اپنی جنسی آسودگی کے لئے اس کا استحصال شروع کر دیا۔ لالوؔ کی زندگی یونہی بے سمت گزری چلی جا رہی تھی کہ اچانک زبردست موڑ آیا—ہوا یہ کہ زوجین میں جھگڑا ہوااور ستیہ وتیؔ نے اپنے شوہر کا خون کردیا—یہ بھی ناگہاں وہاں دیکھنے پہنچا، توالزام اسی پر آگیا—اور پھر—کالے پانی کی سزا ہوگئی۔ اب مجبوری، لاچاری، لاوارثی اور استحصال کی انتہا دیکھئے کہ لالوؔ کے منہ سے ہنستے ہنستے یہ جملے اداہو رہے ہیں کہ:
’’ستیہ وتی کے شوہر کے خون کے الزام میں دھر لیا گیا۔‘‘
’’پر خون تو ستیہ وتی نے کیا تھا بابا؟‘‘
’’پر ستیہ وتی کے وکیل کی بحثیں سن کر مجھے یقین آگیا تھا کہ خونی میں ہی ہوں‘‘۔
’’بابا ، کیا تم نے جرم کا اقبال کر لیا‘‘۔
’’میرے وکیل نے مجھے رائے دی تھی کہ پھانسی سے بچنے کا یہی ایک طریقہ ہے۔‘‘
’’مگر․․․․․․․‘‘
’’اگر مگر کیا، بھائی! جیسے بھی جینا مل جائے—مرنا کیوں؟‘‘
اور—انسانی فطرت کا تقاضہ ہے کہ زندگی چاہے کسی شرط پر ملے، اسے قبول کر لو۔ کیوں کہ یہ ہے ہی اتنی پیاری شے—پھر لالوؔ تو پہلے ہی سے مَرمَر کر تو جی رہا تھا—اس نے بھی اس سزا کو قبول کر لیا۔ اور آپہنچا سیلولر جیل۔ جہاں اس کی ملاقات ہو گئی ہے کنجری گوراںؔ چاچی سے۔ عشق کی پینگیں بڑھتی ہیں۔ لالو کی طرف سے شادی کا پرپوزل (Pr.)دیا جاتا ہے۔ کنجری چاچی ان الفاظ کے ساتھ خوشی خوشی قبول کر لیتی ہیں کہ:
’’تم پہلے مرد ہو لالو، جس نے مجھ سے شادی کی بات کی ہے۔‘‘
دونوں کو اچھے اعمال کی بنیاد پر بیرکوں سے جب آزاد کر دیاجاتا ہے تو، لالو کے سامنے سب سے اہم مسئلہ یہ لاحق ہوتا ہے کہ ’اب رہیں گے کہاں؟‘ سرکار کی طرف سے الاٹ زمین پر وہ کشادہ گھربنا سکتے تھے لیکن پھرپیسو ں کا مسئلہ تھا۔ آخر لکڑی کے دھرم سالہ کے مہنت جالمؔسنگھ جو لالو کے دوست تھے، نے اس کی مدد کی اور چٹکیوں میں انھوں نے ایک کمرہ کا گھر بنا کر زندگی کی شروعات کردی۔ دوستی، خلوص اور ایک دوسرے کی مدد کے لئے اگر ایسی جگہ پر اپنے نہ ہوں تو ہر پرایا اپنا ہو جاتا ہے۔ ورنہ زندگی دوبھرہوجائے—چاہنے والے کی بھی اور چاہے گئے کی بھی—دیکھئے دوستی کی مثال قائم کرتا جوگندرپال کا یہ جملہ کہ جس میں لالو کا دوست بنا جالم سنگھ کتنے خلوص و محبت کے جوش سے لبریز جذبات کا اظہار کرتا ہے:
’’ہم تینوں مل کر، چار دن میں تمہارا پکّا گھر کھڑا کر دیں گے۔ اس وَکھَت تک میری بہن اور تم میرے واہگورو کے ساتھ رہتے رہو—اوئے تم لوگوں نے چائے وائے تو پی ہی نہیں۔‘‘
وہ گوراںؔ چاچی کو بہن مان لیتاہے ۔اور بڑی بے تکلفی اور اپنے پن سے کہتا ہے:
’’اُٹھ میری بی بی بہنا، سبھنا، لئی گرم گرم چائے بنادے۔‘‘
پھر شروع ہوتی ہے دونوں کی خانگی زندگی۔ ان کے دو بیٹے ہوتے ہیں۔ جالم سنگھ اپنا حق جماتے ہوئے ایک کا نام بے کل سنگھ رکھ دیتا ہے۔ دونوں میاں بیوی ان کے ان جذبات کی قدر کرتے ہیں۔ دوسرے بیٹے کا نام مسجد کے مولوی منظور احمد(یہ بھی لالو کے دوست بن جاتے ہیں) بھی اپنی دوستی کا دم بھرتے ہوئے پورے حق سے ’’محمد علی‘‘ تجویز کرتے ہیں۔ اب یہاں نہ تو کوئی مذہبی دیوار ہے نہ فرقہ پرستی کی بُو—ہیں تو صرف پاکیزہ جذبات رکھنے والے صاف ستھرے انسان، ان کی انسانیت ، ان کی محبت—یعنی ایک سیکولر معاشرہ کا شاندار آغاز۔
لالو، گوراںؔ کا بڑا بیٹا بیکل سنگھ میٹرک پاس کرکے ایک دکان لگا لیتا ہے ’’بابا اینڈ سنز پروویژن سٹور‘‘—وہ خوب چلتی ہے۔ پھر اس کی شادی گونگی بڑھیا کی بیٹی بلّو سے کردی جاتی ہے۔ بلّو بھی لاوارث ہوتی ہے، جسے گونگی بڑھیا پال پوس کر بڑا کرتی ہے۔ بڑھیا چرچ کے گراؤنڈمیں جھاڑو لگایا کرتی تھی اور فادرڈینیل بخش اسے تنخواہ اور کھانا مہیاکرواتے تھے۔ اس طرح دونوں ماں بیٹی کی گزر بسر آسانی سے ہو جاتی تھی۔ بلّو بڑی ہوئی تو سودا لینے دکان پر آئی۔ اور دونوں کی آنکھیں چار ہوگئیں۔بڑوں نے مل کر شادی کردی۔ شادی بھی جالم سنگھ کے اصرار پر سکھ مذہب کے رسم ورواج کے مطابق ہوتی ہے۔ بلّو کی مرضی تھی کہ اس کی بڑھیا ماں اور واہوؔکو بھی اس کے ساتھ سسرال میں رکھا جائے۔ گوراں چاچی اس تجویز کو قبول کر لیتی ہیں اوردونوں کو اپنے گھر میں خوشی خوشی رکھ لیتی ہیں۔ ملے گی آج کے دور میں ایسی مثال۔ ہم تہذیب کے ٹھیکے داروں کے یہاں—نہیں، کہیں نہیں۔کیسے یہ لوگ ایک دوسرے کا دکھ بانٹ لیا کرتے تھے—اور ایک ہم ہیں کہ بانٹنے کے بجائے بڑھانے میں لگے رہتے ہیں—اور پھر طرّہ یہ کہ بڑی بے شرمی سے اس کا لطف بھی لیتے ہیں—کہاں ہیں وہ رشتے۔ کیا ہوئے، کہاں گئے—ان کی شیرینی—ہمدردی، قربانی کے جذبے، کہیں نہیں—بس ڈھونڈتے رہئے—کچھ تو اقدار کا تنزّل اور کچھ یہ عذر بھی کہ آپ کے اردگرد جب تک عزیز رشتے دار، دوست احباب ہوتے ہیں—آپ کو ان کی محبت کا اندازہ بھی نہیں ہوتا—سب کچھ معمول کے مطابق لگتا ہے—لیکن جیسے ہی آپ اس طرح کے کسی جزیرے یا پردیس میں پہنچ جائیں، کہ جہاں غیر ہی غیر ہوں ، تو تمام جذبے اُبھر آتے ہیں—پھر ایسے میں کہیں کوئی اپنا یا اپنے وطن کا پرندہ بھی نظر آجائے تو آپ خوشی سے پھولے نہیں سماتے۔ انسانی نفسیات کے یہ ایسے غار ہیں کہ جن کی تھاہ لگانا، اتنا آسان نہیں، جتنا نظر آتا ہے۔ایک کامیاب ناول نگار اپنے کرداروں کو خود جیتا ہے۔ محسوس کرتا ہے—اور پھر اسلوب و بیان سے وہ سحر پیدا کر دیتا ہے کہ قاری کو ایسا لگتا ہے کہ جو اس نے کہا ’’گویا میرے دل میں ہے‘‘۔ وہ اس کردار میں خود کے درشن کر لیتا ہے۔ بس تخلیق کار یہیں کامیاب ہو جاتا ہے۔ بلا شبہ جوگندرپال کیلئے یہ کوئی مشکل مرحلہ نہیں ہے جسے پار کرنے میں انھیں کوئی دقّت پیش آتی۔
لالو بابا کا چھوٹا بیٹا محمد علی بی۔اے پاس کرکے اسکول ماسٹر ہو جاتا ہے۔ لیکن ملازمت کے ساتھ ساتھ وہ ایل۔ایل۔بی کی پڑھائی بھی کرتا ہے۔ جوگندرپال نے اس ذہین کردار سے ہمعصر ہندوستانی قانونی عمل کے بے ڈھنگے پن پر بڑی سنجیدگی سے گفتگو کی ہے اور اس پر چوٹ کرتے ہوئی کئی سوال اُٹھائے ہیں۔ مثلاًیہ کہ
’’ہمارا انصاف کا عملی معیار گھٹ گھٹ کر اس سطح پر کیوں آگیا ہے کہ مجرموں کی جرم کی ترغیب کا اسباب ہوتا رہے اور غیر مجرم جرم کے ارتکاب کے بغیر اپنا دفاع نہ کر پائیں۔‘‘
جب اسکول کے انگریز پر نسپل پٹ سنؔ اس سے یہ پوچھتے ہیں کہ
’’تم یہ کیسے کہہ سکتے ہو کہ غیر مجرم، جرم کے ارتکاب کے بغیر اپنا دفاع نہیں کرپاتے؟‘‘
تو وہ بڑی بلیغ باتیں کرتا ہے اور دلیل سے اس طرح ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے:
’’ایسے، سر وہ ہو بہو سچ بول رہے ہوتے ہیں توموجودہ سسٹم میں ہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے جرم کا اقبال کر رہے ہیں۔ ہمارے قانون میں گیم پلان کی بہت گنجائش روا رکھی گئی ہیں سر، جوپکڑا نہ جائے، وہی بے گناہ، چنانچہ جیسے بھی بنے، پکڑے نہ جاؤ‘‘۔پٹ سن اور علی کی اس طرح گفتگو خوب ہوا کرتی تھی ۔ پٹ سن کی بیوی ششی بھی علی کو بہت پسند کرتی تھی۔ وہ اکثر ان کے گھر گھنٹوں گفتگومیں محو رہتا۔
’پارپرے‘ صرف اسی خاندان کی کہانی نہیں بلکہ کئی اورکردار ہیں ، جن کے تذکروں سے پلاٹ کی ترتیب ہوتی ہے اور پورٹ بلئیر میں زندگی کے بھرپور نقش و نگار ابھرتے چلے جاتے ہیں۔زندگی کی رنگارنگی افراد کی چہل پہل ، ان کے اعمال—ان کے قصّے، سب ایک کے بعد ایک کڑی در کڑی اس طرح جڑتے چلے جاتے ہیں کہ ان مجرموں کے شہر میں بھی زندگی رقص کرتی نظر آتی ہے۔ ایسا ہی ایک کردار ہے، کالے خان—
’’کالے پانی کی سزا سے پہلے کالے خاں افغانستان کی سرحد سے جڑے ہوئے برٹش انڈیا کے ایک گاؤں میں رہائش پذیر تھا۔ اور اس کا افغانستانی علاقے میں ہر روز اس طرح آنا جانا تھا، گویا دونوں ملکو ں کے درمیان کوئی سرحد واقع نہ ہو۔ ان دنوں انگریز فوجیوں کے سر پر افغانوں کی سرکوبی کا بھوت سوار تھا۔ کالے خان کو سرکار نے کسی ہنگامی مارپیٹ میں ملّوث پاکر سال بھر کے لئے پشاور کی جیل میں بھیج دیا اور وہیں اپنی قید کے دوران انگریز جیلر کو ایک بے قصور قیدی کو ٹھوکر مارتے ہوئے دیکھ کر جب کالے خاں سیر ہا نہ گیا، اور اُس نے جیلر پر قاتلانہ حملہ کر دیا تو اس پر ایک خطرناک جرائم پیشہ انقلابی ہونے کا الزام تھوپ دیا گیا، اور اسے کالے پانی کی سزا ہوئی۔‘‘
کالے خان کا بیٹا عمران ہے۔ اس کی نظرمیں باپ نے جیلر کو بلا وجہ ٹھوکر مارمار کر جھگڑامول لیا، اُسے گولی ماردی اور حماقت کی۔ لیکن لالو اُسے سمجھاتاہے:
’’تمہارا باپ دراصل بڑا صلح کوش انسان تھا۔ مگر نہایت غیور تھا۔ کلرک جب گالی گلوچ پر اُتر آیا تو، وہ برداشت نہ کر سکا—اس سے بے انصافیاں نہیں دیکھی جاتی تھیں۔ تم تو اس وقت اتنے سے تھے—تمھیں کیا معلوم، اس کے جنازے میں ماتمیوں کا کتنا بڑاا نبوہ شامل تھا۔ اتنی بھیڑ تو ولیوں کے جنازے میں بھی نہیں ہوتی۔‘‘
عمران پورٹ بلئیر کے واحد سائنس کالج میں فزکس کا پروفیسر تھا۔ امریکہ اور یورپ تک سائنس پر لکچر دے آیا تھا۔ وہاں سے بھی کئی پروفیسر اس کی دعوت پر کالج میں آتے تھے۔ عمران کی ماں خدیجہ کی عمر اسی سال کے اوپر تھی مگر پوری طرح صحت مند۔یہ بھی خون کرنے کے جرم میں کالے پانی بھیجی گئی تھی۔عمران ماں کا بڑا فرمانبردار تھا۔
اسی طرح لالوبابا کے مکان کے بائیں جانب باؤلیؔدادی کا مکان تھا۔ لالہ چھبیل داس نے اس باؤلی دادی کو سرکاری حراست کے بعد اپنی نگرانی میں لے لیا تھا۔ چھبیل داس نے اپنی بیوی شانتی دیوی کو بھی ہندوستان سے وہیں بلالیاتھا۔ تینوں ساتھ ساتھ خوشی خوشی رہتے تھے۔ اسی دوران دوسری جنگِ عظیم کے خاتمے سے پہلے جب جاپانیوں نے پورٹ بلئیر پر قبضہ کر لیا تو ہندوستانیوں کی ایک کثیر تعداد اپنے تعلق سے ان کے شک و شبہہ کی بناء پر ان سے نالاں ہونے لگی تھی، اپنے مخبروں سے جھوٹی سچی رپورٹیں ملنے پر جاپانی، ہندوستانی لیڈروں کو چُن چُن کر ختم کر رہے تھے۔ لالہ چھبیل داس بھی مقامی ہندوستانیوں میں نہایت مقبول تھا۔ چنانچہ انھیں ہنگاموں میں انھوں نے لالہ کو بھی انگریزوں کی مخبری کرنے کے الزام میں سینکڑوں دوسرے لوگوں کے ساتھ سمندر میں بھوکی مچھلیوں کی خوراک بننے کے لئے پھکوادیا تھا۔ اس کی موت کے بعد شانتی دیوی بھی اچانک کسی انجان بیماری کی زد میں آکرچند روز میں ہی اپنے شوہر سے جا ملی۔ لالہ بڑا ہی سخی آدمی تھا۔ اُس نے ایک نوجوان رام کشور کو بھی اپنے یہاں پناہ دے رکھی تھی۔ ملک کی آزادی کے بعد بے روزگاری کا سامنا کرتے کرتے وہ خود ہی کالے پانی آ گیا تھا۔دوچار سال لالہ کے کاموں میں ہاتھ بٹاتا رہا اوراس کی موت کے بعد سرکاری نوکری مل جانے پر اس نے اپنی بیوی رکھ منی اور ننّھے ٹیٹو کو بھی مین لینڈ سے یہیں بلا لیا تھا۔لالہ کی سخاوت کا یہ عالم تھا کہ حاجتمندوں کا تانتا لگا رہتا تھا، اسکے گھر پر—وہ تو یہاں تک کہتا تھا کہ:
’’ہم اکیلوں کو اتنی جگہ گھیرے رہنے کا کیا حق حاصل ہے—؟ لوگ اتنے بڑے بڑے گھر کیوں بناتے ہیں؟ اگر بناتے ہیں تو وہ بھی کسی بے گھر کو اپنے یہا ں رکھ لیا کریں۔‘‘۔۔۔۔
اسی جذبے کے تحت لالہ چھبیل داس نے کشور کو اپنے یہاں پناہ دی تھی۔ لالہ کا یہ سوال بڑا ہی بنیادی اور اہم ہے۔ لیکن جب سرکار ہی اتنی بڑی بڑی عمارتوں کو گھیرے رہتی ہے تو عام آدمی کو کون روک سکتا ہے۔ امیری اور غریبی کے درمیان بلندی و پستی کی مثال پیش کرتا لالہ کا یہ سوال دورِ حاضرہ اور ہمیشہ باضمیر لوگوں کو بے چین کرتا رہے گا۔
لالو بابا کے دائیں طرف بلیا ڈاکو کا گھر تھا۔ اس کی بیوی پانی پت سے سزا پر یہاں آئی تھی۔ ان دونوں کے بھی ایک بیٹا تھا کرشن چندر۔ پورٹ بلئیر کا مشہور ڈاکٹر ۔ بعض نئے لوگ سمجھتے تھے کہ وہ کسی نہایت اعلیٰ فیملی کا فرد ہے اور کہیں باہر سے رضاکارانہ نقل کرکے یہاں آباد ہو گیا ہے۔ مگر وہ!۔۔۔’’بے جھجک بتا دیتا ہے، میرا باپ ایک ڈاکو تھا اور ماں خونی۔ پتہ نہیں بے چارے کیا کیا کرکے میری سبھی ضرورتیں پوری کرتے رہے‘‘۔
ڈاکٹر کرشن چندر ٹی بی اسپیشلسٹ تھا۔ جبکہ اس کی ماں اس کے ڈاکٹر بننے سے قبل ہی اسی مرض سے وفات پاگئی تھی۔ جس کااُسے بڑاملال تھا کہ افسوس ’’اس کی ماں کے مرض کی تشخیص نہ ہو پائی۔‘‘
انھیں گھروں کے پاس ایک گھر درباری لعل کا بھی ہے ۔جس کے مرنے کے بعد اس کا بیٹا اور بیٹی دلّی منتقل ہو گئے۔ لیکن بیٹا کشوری لعل ہر سال یہاں آتا ہے اور اپنے بزرگوں سے ملتا ہے۔ یہ پوری گلی قصّہ والی گلی کے نام سے جانی جاتی ہے۔ اسی گلی کے آخری چھور پر ایک ٹوٹا پھوٹا مکان شہاب الدین کا بھی ہے جسے سب شبّو چور کہتے ہیں۔ وہ بھی اپنا اصلی نام بھول چکا ہے۔ اس کا بیٹا جب ہر مہینے منی آرڈر میں مناسب رقم بھیجتا ہے تو وہ اس کا ایک حصّہ مولوی منظور احمد کو دینا نہیں بھولتا—تاکہ وہ یتیموں میں تقسیم کر دیا جائے۔ شہاب الدین کی یہ سخاوت اسے کہیں سے بھی چور ثابت نہیں کرتی اور نہ پاگل قرار دیتی ہے۔
یہ قصّے والی گلی کے موجودہ مکین ہیں۔ جو عام طور پر جرائم کی دنیا سے آئے لیکن انسانیت کی مثال بنے۔ اور اپنی نئی نسل کو کامیاب بنایا، قابل بنایا۔ اس پرانی نسل میں ’’بیشتر یکے بعد دیگرے اُٹھ گئے اورجو باقی بچے ہیں ان کا بھی بابا لالو کی طرح چل چلاؤ ہے‘‘۔ یہاں اب دوسری اور تیسری نسل کی دنیا آباد ہوگئی ہے۔زندگی پُرامن طریقے سے گزر رہی ہے کہ اسی درمیان پورٹ بلئیر کی حکومت کی باگ ڈور انگریزو ں کے ہاتھوں سے نکل کر جاپانیوں کے ہاتھ میں چلی جاتی ہے۔ پھر ان کے بھی مظالم کی نئی نئی داستانیں شروع ہو جاتی ہیں۔ اور یہ دورِ حکومت کے قلیل عرصہ میں ہی انگریزوں سے بھی چار قدم آگے بڑھ جاتے ہیں—کئی ہندوستایوں کو محض انگریزوں کی مخبری کے شک میں پکڑکر بیچ سمندر میں مچھلیوں کی خوراک بننے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ گھروں میں گھس گھس کر بیٹھے بٹھائے لوگوں پر ناگہاں تاڑ تاڑ گولیاں چلوادی جاتی ہیں۔ اسی اثناء میں گاندھی جینتی کے موقع پر ’’انڈین انڈی پنڈنس لیگ‘‘ سُبھاش چندر بوس کے سہ روزہ قیام کے دوران ایک عالیشان تقریب کا انعقاد کرتی ہے۔ جس میں جاپانی فوجی بھی حصہّ لیتے ہیں۔ اس موقع پر جوگندرپال بڑی فنکاری سے یہ بتاتے چلتے ہیں کہ آخر سبھاش چندر بوس کو مقامی صورتِ حال مثلاً جاپانیوں کے مظالم اور دیگر سانحات کا علم کیوں کر نہیں ہوا ہوگا۔ کیوں کہ لیگ کے کئی ذمّہ داران جیسے سری رام وغیرہ نے انھیں ضرور آگاہ کر دیا ہوگا، لیکن بوس کا یہ سوچنا :
’’کہیں جاپانیوں سے وسیع تر طے شدہ غیر مقامی معاملات میں کوئی بگاڑ پیدا نہ ہوجائے۔‘‘
بہرحال بوس آتے ہیں،آزادی کا جھنڈا ۳۰دسمبر ۱۹۴۳کو جے ہند کے فلک شگاف نعروں کے ساتھ لہراتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔ پھر کچھ نہیں—اور اسی درمیان پورٹ بلئیر کی حکومت کی باگ ڈور انگریز پھر جاپانیوں سے چھین لیتا ہے۔ اس وقت ہندوستان یعنی مین لینڈ میں آزادی کی جنگ اپنے عروج پر ہوتی ہے۔ گاندھی جی کا اہنسا والا نظریہ کار گر ثابت ہوتا نظر آنے لگا تھا اور اسی نظریے کو جو گندرپال نے اپنے ایک کردار بلدیوسنگھ کے ذریعہ اس طرح دہرایا ہے:
’’انگریز کا ضمیر عنقریب ہڑبڑا اُٹھے گا اور وہ ہمیں ہمارا دیش لوٹا کر اپنی راہ لے گا۔‘‘
جوگندرپال کے کرداروں کا جھکاؤ شعوری وغیرشعوری طورپر مہاتما گاندھی کی فکر اور ان کے اہنسا واد میں زیادہ نظر آتا ہے۔ اسی لئے تو بھائی سری رام کے الفاظ میں یہ جملے اس فکر کی بہترین عکاسی کرتے ہیں:
’’بھائیو اور بہنو اور عزیزو! سب سے پہلے تو میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ سورگیہ سبھاش چندر بوس اور مہاتما گاندھی ایک دوسرے سے یکسر الگ نظر یوں کے باوجود، میرے نزدیک ہمارے سب سے بڑے ہیرو ہیں۔ مگر سوال اگر نظریوں کی قبولیت کا ہو تو گاندھی کے نظریے پر ہی پورا بھروسہ کیا جا سکتا ہے۔‘‘
لیکن ایسا نہیں تھا کہ پورٹ بلئیر میں سب کچھ ہی بڑا منظّم ، امن و امان اور قاعدے کی زندگی سے پُر تھا—نہیں—کیونکہ اس کائنات میں خدا نے ہر شے کی ضد بنائی ہے۔ نیکی و بدی، غم و خوشی، نوروظلمت اور خیروشر—اس میں یہ تضاد نہ ہو تو جذبوں کی موت ہوجائے—زندگی کا ارتقاء تھم جائے—اس لئے اُس خالق نے اپنی شاہکار تخلیق کی سرشت میں خیروشر کے عناصر کا بھی التزام کیا ہے۔ تاکہ بنی نوع تا قیامت کوئی نہ کوئی فتنہ کھڑا کرتی رہے اور زندگی میں ولولے اٹھتے رہیں۔’پار پرے‘میں ایک طرف ایسے کردار ہیں مثلاَ پنڈت تلسی دھر،ایشر سنگھ اور ان کے بہت سے ساتھی—جنھیں شرپسندی کی لت ہے—اور وہ اس پُرامن، خاموش جزیرے کی ہوا میں تشدد اور فرقہ واریت کے بیج بونے سے نہیں چوکتے۔ اور انھیں feedbackملتا ہے مین لینڈ کے کچھ تاجروں سے۔تلسی دھر اُتّرپردیش سے کسی ہندولیڈر کو بلواتا ہے۔ جو صرف یہ بتانے آتا ہے کہ:
’’مسلمان پچھلی صدیوں میں ہندؤں پر کیا ظلم ڈھاتے رہے ہیں اور یہ کہ اب وقت آگیا ہے، ہندو کمر کس لیں‘‘۔
یعنی اس پرسکون اور سیکولر معاشرہ کی چندیہیں بکھیرنے کے لئے شرپسند لوگوں کے انتظامات، بڑے ہی گپ چُپ طریق سے ہوتے رہے۔ لیکن پھر ایسے کردار سامنے آئے اور جن کی تعداد بلا شبہ ہندوستان ہی کیا تمام دنیا میں زیادہ ہے۔ یعنی وہ لوگ جو امن، عافیت،انسانیت اور محبت کے جذبوں سے شرابور تھے۔ اور یہی وہ جذبے ہیں جو انسان کو اپنے خالق سے قریب کرنے میں معاون ہوتے ہیں۔ انسان کے باطن کی پاکیزگی، روح کی شگفتگی، ایمان و عقیدے کی پختگی جب ہو تو پھر پابند صوم و صلوٰۃ ہو یا مذہبی جکڑ بندیوں کی گرفت–انسان سب سے آزاد ہوکر نیکی کا وہ راستہ اپناتا ہے جو اُسے اس کائنات سے محبت کرنا سکھاتی ہے اور حق کا راستہ بتاتی ہے۔
جوگندر پال کے اس ناول میں متعدد کردار مثلاً لالو بابا ، گوراں چاچی، جالم سنگھ انگریز پرنسپل پٹ سن ،کالے خان، لالہ چھبیل داس، باؤلی دادی، رکمنی، مولوی منظور احمد، شِو شنکر، حکیم کرشن دیو، بلیا ڈاکو، شبّو چور، بھائی بلدیو سنگھ، بھائی سرے رام، چمنی پہلوان، سورج بھان—-سب ہی کردار خالق کے سیدھے سادے بندے ہیں اور انسانیت کے جذبے سے پُر۔
اور یہ تمام کردار اس وقت بیحد فکرمند ہوا ٹھتے ہیں جب انہیں معلوم ہوتا ہے کہ پورٹ بلئیر کی اس پر سکون فضا کو آلودہ کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ اس تقریب کو روکنے کے لئے لالو بابا، جالم سنگھ مولوی منظور احمد ، بھائی سری رام وغیرہ مل کر آنے والے خطرات اور صورتِ حال پر غوروغوض کرتے ہیں۔ گفتگو کے دوران – – – ویرساورکر کی شخصیت کے پہلوبھی دورانِ گفتگو آتے ہیں۔
’’ویر ساورکر کی شخصیت کے دو پہلو، مجھے بہت کھٹکتے تھے۔ نمبر ایک، کہ ہم مسلمانوں کو بے جا خوش رکھنے کی کوشش کیوں کرتے ہیں؟ اور ساورکر ہنسا کے بغیر انگریزوں سے لڑنے کی سوچ نہ سکتا تھا۔‘‘
پھر انھیں اس بات کا بھی یقین ہے کہ پورٹ بلئیر میں:
’’ہمارے سارے لوگ آج ایک ہیں۔ اپنے الگ الگ مذہبوں کے باوجود ایک․․․․․مجھے یقین ہے کہ لالو بابا، ان لوگوں کی بگڑی ہوئی بین ہمارے پورٹ بلئیر میں کسی کو راس نہیں آئے گی۔‘‘
یا پھر اسی طرح کا دوسرا اقتباس:
’’اصل خطرہ پیشہ ور کا رکنان سے درپیش نہیں ہوتا، جو وقتی فائدے اورسہولت کی خاطر بھٹک جاتے ہیں۔ اصل خطرے میں دراصل کسی ایسے واحد فرد کا حصّہ بھی کافی ہوتا ہے جو بڑی ایمانداری سے گمراہ ہوکر اپنی جان کی بازی بھی کھیل جائے۔ ایسے شخص کو روکنے کی تدابیر اکثر کارگر نہیں ہوتیں۔ اور خطرہ ہوتے ہوتے اجتماعی صورت اختیار کر جاتا ہے۔ خوش قسمتی سے حالیہ صورتِ حال میں پورٹ بلئیر کو کوئی ایسا بنیادی خطرہ لاحق نہیں۔‘‘
اُدھرنوجوانوں کی تنظیم، جس میں لڑکیاں بھی ہیں’’لوکل بارنزایسوسی ایشن‘‘ کی انتظامیہ میٹنگ بھی اسی مسئلہ پر ہوتی ہے۔ لالو کا چھوٹا بیٹا محمد علی اپنی محبوبہ اور دوست سُو، جو ’’جارو‘‘ نسل کی ہوتی ہے اور یہ انڈمان کے مقامی باشندگان کی نسل سے تعلق رکھتی ہے، اس میٹنگ کے ایجنڈے کے بارے میں پوچھتی ہے تو وہ بتاتا ہے:
’’بڑا اہم ایجنڈا ہے․․․․․سیٹھ گردھر اور تلسی دھر بھی ایسے ہی فرقہ وارانہ فساد جگانا چاہتے ہیں۔ جو ان کے قبیلے نے مین لینڈ میں بپا کر رکھے ہیں۔ اگلے ہفتہ ان کی دعوت پر کوئی چکرورتی یہاں آرہا ہے۔ وہ ہمیں سمجھائے گا کہ ہندو اب متحد ہوکر اٹھ کھڑے ہوں اور دشمنو ں کو ایک ایک کرکے ٹھکانے لگائیں‘‘۔
سُو اچانک بیچ میں ہی سوال کر اٹھتی ہے۔’’وہ دشمن․․․․․․․؟‘‘
تو علی طنزیہ یہ بتاتا ہے کہ:
’’ہمارے بھائی، بہنیں، ماں باپ․․․․․․․․․ان کے نزدیک میرا بھائی بیکل میرا دشمن ہے۔ میری ماں، تم،سب دشمن ہو۔․․․․․․․․میں ایک آپ اپنا دوست ہوں۔‘‘
یہاں جملے کا آخری حصّہ ’’میں ایک آپ اپنا دوست ہوں‘‘۔ قابلِ توجہ ہے۔ دراصل یہ جملہ اشرف المخلوقات کے زخمی کرب کو چھپائے ہوئے ہے۔ اور اسیلئے جوگندرپال نے بڑی خوبی سے بیان بھی کیا ہے۔ چاہے پرانا دور ہویانیا۔ اس جملے میں عصری حسیت اور پُر آشوبی کی ایسی رمق پوشیدہ ہے کہ جہاں انسان اخلاقی قدریں، اخوت و محبت کے گہوارے کو توڑ کر بارود کے اُس ڈھیر پر بیٹھ گیا ہے جہاں روح فرسا واقعات، انسانیت سوز نظاروں اور تلخ حقائق کے ساتھ ٹوٹتا سماج، ٹوٹتے رشتے اور تنہا کھڑا، ہاتھ ملتا فرد۔فرد کی شناخت کا مسئلہ لئے، خود انسان حیران و پریشان ہے کہ یہ میں نے کیا کیا؟․․․․زندگی کے تمام نشیب و فراز اور کڑوے میٹھے تجربات کا کرب، اُس کی اپنی تنہائیاں جھیل رہی ہیں․․․․․․․․․جوگندر پال نے ایسے کئی خوبصورت جملوں سے ’پارپرے‘ کو سجایا ہے۔ اور فنکاری کا بہترین نمونہ پیش کیا ہے۔ چند بامعنیٰ جملے اس طرح ہیں:
’’کسی نے اُسے ٹوکا․․․․․․․جب اتنا نیک تھا تو دکھی تو ہوگا ہی۔‘‘
’’کھُلے پیر چل کر چوپائے بھی اپنے آپ کو اشرف المخلوقات سمجھنے لگتے ہیں۔‘‘
’’بدنیت لوگوں کو خدا کے نیک بندوں سے بڑا خوف ہوتا ہے بی بی․․․․․․․․․․․․․․․․شک اور خون کی پرچھائیں میں انھیں ہر سیدھ ٹیڑھی نظر آتی ہے‘‘۔
’’ذرا سوچو بھائیو، ہمارے شہر میں اناج کے گودام تو بھرے رہتے ہیں۔ پھر بھی غریب بھوکوں مرتے ہیں، کیوں؟‘‘۔
جوگندرپال نے اس طرح کے بامعنیٰ جملوں کو قصّے کے درمیان میں موقع و محل کی مناسبت سے اس فنکاری سے پرویا ہے کہ ان جملوں کی دھار جگر تک اترتی ہے، لگتی ہے اور قاری کو مضطرب کر دیتی ہے۔ ناول نگار کی یہ تکنیک فن کے لحاظ سے بہت کامیاب ہے۔ ناول میں لسانی اظہار کی سطح اور تہہ نشیں مفاہیم کو کس طرح سطحِ آب پرلاتی ہے۔ جوگندرپال خوب جانتے ہیں۔ طرزِ نگارش کی گھلاوٹ، محسوسات کے آداب، جذبات کے قواعد اور خیالات کے تنوع سے معنی خیز نتائج برآمد کرنا،ایک کامیاب، سنجیدہ، قا لب، فکروفن کی گتھیوں، باریکیوں کا نبّاض اور دیدہ ور قلم کار کا ہی کام ہے۔ یہ ناول بلا شبہ پال کی تخلیقی طہارت، تمازت، بصیرت، ذہنی وفکری روِش کا امین ہے۔
یہ ان مجرموں کی داستان ہے جنھیں اُس وق%