نگار عظیم(دہلی)
سرو جیسا بلند قد، گیہوں کی بالی جیسی سنہری رنگت، کتابی چہرے پر لمبی ناک، روشن پیشانی، فکرو تجربات میں ڈوبی گہری شربتی آنکھیں، تشنہ لب، درازیٔ عمر کی پہچان لئے لمبے بڑے بڑے کان، سفید برّاق سے بے ترتیب گھنے بال۔ یہ ہے چہرہ مہرہ جوگندر پال کا جو اکثر و بیشتر پٹھانی سوٹ اور واسکٹ پہنے ہوئے ہوتے ہیں تو کبھی کبھی پینٹ اور قمیص بھی۔ سرد موسم میں سر پر منکی کیپ اور کاندھوں پر دوشالے کا اضافہ ہوجاتا ہے۔ طبیعت میں خاموشی، متانت اور سنجیدگی بلکہ سپاٹ پن۔ حد درجہ خوددار، چال میں اعتماد لیکن عجلت ،پال صاحب کے اس ظاہری خاکے سے بھلا کسی کو کیا دلچسپی ہوسکتی ہے؟
قریب سے جاننا چاہیں گے تو ان کے مزاج اور شخصیت میں رچی بسی بے خودی آپ کو ضرور اپنی طرف متوجہ کرلے گی۔ نوجوان ان کی شفقت اور محبت سے شرابور رہتے ہیں تو ہمعصران کی دوستی اور یارانے پر دل و جاں ہار جاتے ہیں۔ ان کی قربت سے ہمیشہ ایک دھیمی دھیمی آنچ اور گرماہٹ کا احساس ہوتا ہے جوبڑی سکون بخش ہوتی ہے۔ نہ تکلف نہ تصنع، نہ دکھاوٹ نہ بناوٹ لفظ لفظ صداقت، لوگ اپنی خوبیوں احسانوں اور اچھائیوں کو فخر یہ بیان کرتے ہیں تو پال صاحب اپنی خامیوں برائیوں اور احسان فراموشیوں کو! ان کے پاس یادوں کا ایک نایاب ذخیرہ ہے اور تجربات کا انسائکلوپیڈیا۔ اس تاریخی اور تہذیبی عمارت کو مضبوط پُرکشش اور پُر اعتماد بنانے میں یقینا شریک حیات کا بہت بڑا ہاتھ رہا ہوگا۔ اگر پال صاحب کو محترمہ کرشنا پال سے الگ کرکے دیکھتے ہیں تو ہ آدھے ادھورے خالی اور بے جان سے لگتے ہیں۔
میں پال صاحب کو اس وقت سے جانتی ہوں جب سے انہیں پڑھنا شروع کیا تھا اور تب سے پہچانتی ہوں جب سے انہیں دیکھا ہے۔ یعنی 1978 ء کے بعد سے۔ سچ پوچھئے تو لا تعداد ملاقاتوں کے بعد بھی میری جوگندر پال سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی سوائے ایک ملاقات کے ۔ سچ مانئے! عجب شخص ہے وہ! اپنے خول میں ہوتے ہوئے بھی نہیں ہوتا۔ میں نے جب جب ملنا چاہا انہیں اپنے کرداروں میں جیتا پایا۔ کبھی کھوئے کھوئے، کبھی خوش اور مگن، کبھی بچوں کی طرح چہکتے اور خوش ہوتے ہوئے کہ ان کے کردار ناول سے نکل بھاگے اور شادی رچالی۔ اپنے بچوں اور خاندان کے ساتھ آباد اور خوش و خرم ہیں۔ پال صاحب کی آنکھوں میں ہمیشہ تلاش کی کیفیت نظر آتی ہے ہمہ وقت نہ جانے کیا ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ کبھی کبھی تو وہ خود کو بھی ڈھونڈتے نظر آتے ہیں۔ شاید وہ خود ہی بھول گئے ہیں کہ جوگندر پال کو انہوں نے کہاں رکھ دیا ہے۔ میں نے بارہا بازو پکڑ پکڑ کر جھنجھوڑ کر انہیں اپنے اندر لانے کی کوشش کی لیکن ناکامی ہوئی۔ کتنا مشکل ہے یہ کام؟ اپنی زندگی کو دوسروں میں جینا زندگی بے کیف اور بے رنگ بھی ہوسکتی ہے لیکن جینے کا وسیلہ بھی۔ اور شاید پال صاحب کے ساتھ ایسا ہی ہوا۔ کہتے ہیں قلمکار کی تحریر اس کی شخصیت کا آئینہ ہوتی ہے۔ لیکن شخص کو شخصیت بننے کے لئے جو طویل سفر طے کرناہوتا ہے اس میں بہت سی موتیں واقع ہوتی ہیں۔ پال صاحب خود اپنے چار جنموں کی بات کرتے ہیں۔
’’یقین کیجئے مجھے اپنے پچھلے چاروں جنم ہوبہو یاد ہیں۔ پہلے میں سیالکوٹ میں پیدا ہوا اور بائیس برس کی عمر تک جیا۔ پھر انبالہ میں میری پیدائش ہوئی اور ابھی میں کوئی ڈیڑھ برس کا ہی تھا کہ میرا انتقال ہوگیا اور میں نے نیروبی میں آنکھ کھولی۔ اورنگ آباد میں میرے چوتھے جنم کے دوران میرے ایک دوست پروفیسر صفی الدین صدیقی نے مجھے بتایا کہ تمہارے پُرکھے ضرور کبھی نہ کبھی یہیں آبسے ہوں گے اور یہیں ڈھیر ہوئے ہوں گے ورنہ تم سمندر پار سے ایک یہیں کیوں آتے۔‘‘
پال صاحب کو یہ چار جنم لینے سے پہلے یقینا موت کو گلے لگانا پڑا ہوگا لیکن میرے حساب سے پال صاحب کا حساب بہت کمزور ہے یہ چار جنموں کا حساب ان کا بالکل غلط ہے۔ان کا جنم تب تب واقع ہوتا ہے جب جب وہ تخلیق کے کرب سے گذر رہے ہوتے ہیں جب وہ کسی کردار کو جی رہے ہوتے ہیں اور جیسے ہی وہ کردارکہانی میں منتقل ہوجاتا ہے، پال صاحب کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ پھر اگلے نئے جنم اور نئی تخلیق کے لئے کسی نہ کسی کردار کی تلاش میں وہ اپنے مردہ شریر کو ڈھوتے نظر آتے ہیں اِدھر سے اُدھر۔ ایسی صورت میں ان کے چہرے پر ہوائیاں اُڑی ہوتی ہیں۔ چال میں عجلت کیا بلکہ بدحواسی ہوتی ہے۔ بس ایسا لگتا ہے خود اپنا ہی بوجھ اٹھائے یہ شخص مجنوں کے ٹیلے پر چڑھتا چلا جارہا ہے بغیر سانس لئے جیسے چلتے ہی جانا ہے بس چلتے ہی جانا۔ دراصل یہ مرنے اور جینے کا وِرد پال صاحب کے یہاں بچپن سے ہی شروع ہوگیا تھا ان کی تحریروں میں جا بجا اس کے نقوش ملتے ہیں۔
’’بھائیاجی کو پاخانے کے بجائے بار بار صرف خون آنے لگا تھا اپنے سیدھے سادے غریب اور شریف باپ کے شفاف خون کو اس افراط سے کوڑے کرکٹ میں گھور گھور کر میں اپنے اولین عہد طفلی میں ہی بوڑھا ہوگیا۔‘‘
پال صاحب کا یہ عہد طفلی میں بوڑھا ہونا ان کے بچپن کی موت ثابت ہوا اور پھر یہ سلسلہ چلتا ہی رہا۔ بس ان اموات کی نوعیت بدل جاتی تھی۔ کچھ اس طرح:
’’میری شادی اور بھائیا جی کی وفات۔ مجھے ابھی تک ایک مجرمانہ سا احساس ہے کہ میں اپنے باپ کی بیماری میں ان کی پوری خدمت انجام نہ دے سکا چھوٹی بہن سدرشنا کی شادی۔۔۔۔۔یہ بوجھ بھی سدا سے میرے سر پر ہے کہ اپنی بہنا کی شادی کے چند روز بعد ہی ان کی خوشیوں کے تعلق سے اطمینان کئے بغیر میں اور بھابوجی افریقہ کے ہولئے۔ ‘‘
اچانک 1950ء میں جب بہن کی موت کی اطلاع پر پال صاحب ہندوستان گئے تو ان کے اندر ایک موت اور واقع ہوچکی تھی۔ لکھتے ہیں:
’’ہندوستان سے واپسی پر یہ پہلا ہوائی سفر کرتے ہوئے مجھے معلوم ہوا کہ میں درشناں کے پیچھے پیچھے موت کے خلاؤں میں اڑا جارہا ہوں۔‘‘
پال صاحب کو کھانے میں کیا پسند ہے کسی کو نہیں معلوم۔ شیر خورمہ ،کباب، مچھلی، مرغ مسلم؟ کچھ بھی نہیں۔ ان کی فرمائش تو بس ایک سبزی کی ہوگی۔ شاید اس کے پیچھے بھی کوئی موت واقع ہوئی ہے بتاتے ہیں:
’’میں اکثر اپنے آپ سے یہ جاننے کا متمنی رہا ہوں کہ میں نے اپنی زندگی اتنے مجرمانہ احساس کے ساتھ کیوں بسر کی۔ کیا اس لئے کہ میں نے ان قدروں کی جارحانہ پیروی نہ کی جو میں نے وارداتی طور پر زندگی سے اخذ کیں؟۔۔۔۔۔۔اس لئے کہ زندگی مجھے پیٹ پیٹ کر سمجھاتی رہتی کہ آگے بڑھنے کی خواہش ہو تو بڑی شرافت سے چپ چاپ پیچھے ہٹ جاؤ۔۔بھوک سے دم بھی نکل رہا ہو تو رجھے ہوئے نظر آؤ (اسی لئے ابھی تک مرغوب کھانوں کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے مجھے پکڑے جانے کا خوف لاحق رہتا ہے۔)۔۔کسی کو پیٹنا ہی ہو تو صرف اپنی خواہشوں کو پیٹو، ہمیشہ اپنے گناہوں کی معافی مانگتے رہو (مجھے گناہوں کا کوئی موقع ہی کب نصیب ہوا ؟ ) شریف آدمی سدا ہاتھ باندھے رکھتا ہے (میرے ہاتھوں کی رسیاں ٹوٹ گئیں مگر ہاتھ بندھے رہے۔) درس!۔۔۔۔۔۔درس ہی درس! وارداتیں کچھ او ردرس کچھ اور۔۔۔۔۔سو جو ہوا، اس کے سوائے اور کیا ہوتا؟ زندگی کا پورا پاس رکھنے کے باوجود میں زندگی سے بھاگتا پھرا۔ چوری چوری جیتا رہا۔ اسی کا نام موت ہے۔‘‘
پال صاحب کی سب سے بڑی موت اس وقت ہوئی جب وہ محض بائیس برس کے تھے۔ اس موت نے انہیں جڑ سے اکھاڑ پھینکا زندگی تنکا تنکا ہوکر بکھر گئی موت پر پھر موت، لکھتے ہیں:
’’اور پھر یہ ہوا کہ ملک تقسیم ہوا اور ہمارے پیروں تلے سے وہ زمین ہی کھسک گئی جس پر ہم آباد تھے اور اس بھگدڑ میں۔۔۔۔۔مجھے بخوبی یاد ہے۔۔۔۔مجھے قتل کردیا گیا اور میں نہ معلوم کس کا وجود اوڑھ کر پرانے ہندوستان سے نئے ہندوستان کے کنارے آ لگا۔‘‘
اس موت کے بعد تمام زندگی پال صاحب خود اپنی لاش کو کندھوں پر اٹھائے ڈھوتے آرہے ہیں۔ اس بات کا یقین اس طرح بھی کیا جاسکتا ہے کہ زندگی کے اس آخری پڑاؤ میں بھی وہ ’ڈیرا بابا نانک‘ جیسی درد انگیز روح کو تڑپادینے والی کہانی تخلیق کرتے ہیں اور اپنے کاندھوں سے اس بوجھ کو اتاردینا چاہتے ہیں۔
پال صاحب حقیقتاً ایک سچے اور نیک دل انسان ہیں درد مندی ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہے اپنی فریب کاریوں اور ذلالتوں کی پردہ پوشی انہوں نے کبھی نہیں کی۔ لکھتے ہیں:
انبالہ شہر میں سپریٹا دودھ بیچتے ہوئے مجھے لگنے لگا تھا کہ مجھے اب آئندہ دو تین جنم بھی یہی کام انجام دیئے جانا ہے چنانچہ انگریزی راج سے آزاد ہوکر مجھے انگریزوں کی متوقع غلامی بڑی خوش آئند معلوم ہونے لگی۔ میں اسے اپنی کمینگی۔۔۔۔نیک نیت کمینگی پر محمول کرتا ہوں کہ کینیا میں، میں نے اپنے خوبصورت فلیٹ کے سامنے نئی بے بی فیاٹ میں بیٹھ کر اس لئے اپنا فوٹو اتروایا کہ اسے ہندوستان میں اپنے پرانے دوستوں کو بھیجوں گا اور۔۔۔۔ارے۔۔۔۔۔وہ چونک کر اپنی آزادی کی زنجیروں کو کاٹ نہ پانے پر بلبلا ا ٹھیں گے۔‘‘
ماں کی موت پر اپنے جذبوں کی صداقت بیان کرنے میں پال صاحب نے جس سچائی سے کام لیا ہے شاید اسی سچائی نے ان کے لئے نجات کی راہیں بھی کھولی ہیں:
’’نیم شب کی طلسمی خاموشی میں کھنڈر کے کواڑ اچانک کھٹ کھٹ ہلنے لگتے اور کسی روح کے چیخنے چلانے کی آوازیں سنائی دینے لگتیں۔ پہلے کہیں دور سے، پھر آس پاس سے، اور پھر یہیں سے!۔۔۔۔یہ کون ہے۔۔۔۔ک۔۔۔کون؟۔۔۔ماں! چپ ہوجاؤ ماں۔۔۔۔۔ ماں! چپ ہوجاؤ ماں۔۔۔۔۔ماں!۔۔۔۔چپ ہوجاؤ۔۔۔۔چپ!۔۔۔۔۔سوجاؤ اور ہمیں بھی سونے دو!۔۔۔۔سو جاؤ۔۔۔۔۔اور آخر ماں نے چپ چاپ آنکھیں موند لیں۔۔۔۔۔ہاں، واقعی!۔۔۔۔۔اور ہم۔۔۔۔۔میں اور میری بیوی شکر ادا کرنے لگے کہ ماں کو چین نصیب ہوگیا۔۔۔۔۔کہ۔۔۔۔کہ ہمیں چین نصیب ہوگیاہے اور ہم دونوں بڑے سکھ کے احساس سے رونے لگنے اور ہمارے بچے بھی اور پڑوسی بھی۔۔۔۔‘‘
پال صاحب جہاں بھی رہے وہاں کے باسیوں کے دکھ درد کا حصہ بن کر رہے۔ نئی نئی آبادیاں، نئی طرح کی غلامیاں، نئے نئے جزیرے اور نئی نئی بستیاں، بس یہی سب تو ان کا خزانہ ہے۔ کچھوا، بازیافت، بازیچہ، ہرامبے، اطفال اسی کا سرمایہ ہیں۔ زندگی کے اسرار و رموز کی افہام وتفہیم سچائی اور کھلا پن سچ اور جھوٹ اپنی تمام تلخ اور کڑوی حقیقتوں کے ساتھ ان کی کہانیوں اور ناولوں میں زندہ ہے۔ وہ خود لکھتے ہیں:
’’یہیں اورنگ آباد میں میں نے اپنے دونوں ناولٹ ’بیانات‘ اور ’آمدورفت‘ اور اپنی کئی درجن پسندیدہ کہانیاں لکھیں۔ اورنگ آباد کے خیال سے میرے دل و دماغ میں یادوں کی بھرپور برات اتر آتی ہے۔‘‘
اورنگ آباد سے پال صاحب کو خاص لگاؤ ہے وہاں کے لوگوں کی باتیں وہ بہت محبت سے کرتے ہیں۔ ان کا والہانہ پن تحریروں میں جا بجا ملتا ہے۔
’’یہ مقام مجھے کچھ اس مانند مانوس اجنبیت کا حامل معلوم ہوا جیسے اسے میں نے اپنے ہی دل سے کھود کر جیتے جاگتے برآمد کرلیا ہو۔ لوگ کہتے ہیں پتہ نہیں مرکھپ کر ہم کہاں چلے جاتے ہیں۔ اور کہاں۔۔۔۔۔؟ ان ہی مقامات پر لوٹ آتے ہیں جہاں زندگی سے ہمارے محبوب واسطوں کا اسباب ہوا۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میں جہاں بھی ہوں یہیں اورنگ آباد کی مٹی میں دبا پڑا ہوں۔ اس شہر میں اتنی قبریں ہیں کہ مجھے یقین ہے قیامت کے دن دو عالم میں سب سے زیادہ رونق یہیں ہوگی۔‘‘
سچ تو یہ ہے کہ اورنگ آباد کے لوگ بھی پال صاحب کے کچھ کم گرویدہ نہیں اس تاریخی شہر اورنگ آباد میں وہاں کے لوگوں کے دلوں میں پال صاحب کی چاہت بھی اجنتا کی مورتیوں سے کچھ کم نہیں۔ پال صاحب کی محبت کے چراغ آج بھی ان کے دلوں میں روشن ہیں۔ پال صاحب کا پانچواں جنم دل والوں کی دلی میں ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے دل کی دھڑکن بم گئے۔ اور دلوں میں بس گئے۔ میں نے پال صاحب کو جب بھی تلاش کرنے کی کوشش کی الجھ گئی ۔ان کے چہرے میں مجھے کئی چہرے ہونے کا گمان ہونے لگتا ہے۔ ہر چہرہ اپنے ظاہری اور باطنی حسن سے آراستہ اور مکمل۔ملکوں ملکوں اور شہروں شہروں سفر کے علاوہ بھی وہ سفر میں رہتے ہیں۔ ذہنی سفر پر۔ لیکن فکرو خیال کے دریچے ہمیشہ کھلے رکھتے ہیں۔ آپ کسی بھی در سے داخل ہوجائیں ان پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ بغیر آپ کی مرضی جانے وہ آپ کو بھی شریک سفر کرلیں گے۔ حیرت کی بات یہ ہوگی کہ سفر سے ڈراپ کرنے کے بعد بھی خود آپ بہت دیر تک ان کے شریکِ سفر رہیں گے۔
پال صاحب کی شخصیت کے بال و پر دھیرے دھیرے کھلتے ہیں باتیں کرنے کے آپ بہت شوقین ہیں فکر اور فلسفے سے بھری مختلف منفرد اور گہری باتیں۔ ان کے انداز گفتگو میں بلا کا جادو ہے پھول جھڑتے ہیں ان کے لبوں سے ،آنکھیں مسکراتی ہیں اور دلوں کو موہ لیتی ہیں۔ ان سے باتیں کرتے وقت ایسا احساس ہوتا ہے جیسے چہرہ اور روپ بول بول کر ان کے اندر نہ جانے کون کون آتا اور جاتا رہتا ہے۔شاید ’کھودو بابا‘ یا پھر ’جامبو رفیقی‘ یا پھر۔۔۔۔۔لیکن جب خاموش ہوتے ہیں تو صرف خاموش ہی نہیں ہوتے آنکھیں مندی ہوتی ہیں اور مجھے محسوس ہونے لگتا ہے وہ گویا ’نادید‘ کا کردار جی رہے ہیں۔ زندگی کے سفر میں موت کی تلاش اور موت کے بعد زندگی کا آغاز ۔’خود و فاتیہ‘ لکھ کر تو انہوں نے زندگی میں موت اور مو ت میں زندگی تلاش کرلینے کے ہنر سے ہم سب کو بھی آگاہ کردیا۔ لکھتے ہیں:
’’سارا قصہ یہ ہے کہ میری موت نامعلوم کب واقع ہوئی! اس کے باوجود میں سانس لئے جارہا ہوں۔ شاید اپنے بجائے میں اپنا وہ کردار ہوں جو نام اور شکل بدل بدل کر ہمہ وقت زندہ رہااور ہنس ہنس کے لوگوں کو سمجھاتا رہا، سیدھی سی بات ہے، میرے مانند بس یہ کرو کہ موت کی سمجھ میں نہ آؤ۔‘‘
فکشن قلمکاروں میں آج پال صاحب جیسا کوئی مقرر نہیں۔ بولتے ہیں تو پورا مجمع ہمہ تن گوش ہوجاتا ہے۔ لوگ سحر زدہ سے ہوجاتے ہیں۔ آہستہ آہستہ ان کا جوش بڑھتا جاتا ہے۔ بھائیں بھائیں کرتے سارے کردار ان کے جسم میں داخل ہوتے نظر آنے لگتے ہیں۔ایسا لگتا ہے روزِ حشر ہے جب روحیں جسموں میں واپس ڈال جائیں گی۔ لیکن پال صاحب کا جسم تنہا ہے اور روحیں لاتعداد۔ اور پھر پال صاحب ذرہ ذرہ ہوکر ان روحوں میں سماجاتے ہیں اور مجمع تالیاں بجانے لگتا ہے۔ پال صاحب کی شخصیت کے بعض پہلو بڑے مختلف اور منفرد ہیں۔ نئے قلمکاروں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں ان کی تخلیقات کو پڑھتے ہیں مشورے دیتے ہیں۔ پڑھتے اور لکھتے رہنے کی تاکید کرتے ہیں۔ مجھے سے وعدہ لے رکھا ہے کہ اس برس کم از کم تین سو کہانیاں پڑھنا ہیں اور ان کی فہرست بھی بنانا ہے۔ یہ بڑی بات ہے۔ مجھے جب بھی کوئی کتاب دیتے ہیں پہلے عظیمؔ کا نام لکھتے ہیں پھر نگارؔ کا۔ یہ بھی غور طلب بات ہے۔ کسی کی برائی کبھی نہیں کرتے اگر دوسرا کرتا ہے تو اس کو بڑے مثبت انداز میں جواب دے کر مطمئن کردیتے ہیں ،یہ بہت بڑی نیکی ہے۔ خود سے فون کرنے اور خیریت طلب کرنے میں کبھی دیری نہیں کرتے ۔اپنی تخلیقات پر، کتابوں پر کبھی بھی کچھ بھی لکھنے کے لئے نہیں کہتے۔ یہ بہت بڑی بات اور انکساری ہے۔ پال صاحب کی شخصیت ذہنی اور فکری نشونما میں بڑی مددگار ثابت ہوتی ہے۔ میری خوش قسمتی ہے کہ میں نے پال صاحب سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ بزم ہم قلم کے ان گنت پروگرام اور محفلوں کو پال صاحب رونق بخش چکے ہیں۔ مخلصانہ طرز زندگی اور انکساری کے سبب اکثر پال صاحب تکلیفوں اور مشکلوں کو جھیلتے ہیں۔ لیکن شکایت نہیں کرتے۔ کسی کی تعریف شہرت اور کامیابی سے ہمیشہ خوش ہوتے ہیں۔
پال صاحب کے اندر کا کہانی کار اکثر فلسفی ہوجاتا ہے اور کبھی کبھی تو کہانی کے کرداروں پر حاوی ہوجاتا ہے۔ بڑھتی عمر کا ان کے قلم پر کوئی اثر نہیں۔ ہمہ وقت بے چینی، گھبراہٹ اور عجلت، انڈے دینے والی مرغی کی طرح ہر وقت کڑکڑکرتے رہنا۔ اس واردات سے پری میچور بچے (افسانچے) جنم لینے لگے ہیں۔
پال صاحب خدا کو ایک بہت بڑی زندہ حقیقت کے روپ میں تسلیم کرتے ہیں۔ ان کا سب سے بڑا مذہب انسانیت اور محبت ہے۔ اور ادب ان کے لئے عبادت۔ ایک مرتبہ میں نے فون پر دریافت کیا، کیا کررہے ہیں؟ بولے جنازے کی تیاری کررہا ہوں۔ اللہ خیر! کیا ہوا؟ بے ساختہ میرے منہ سے نکلا۔ بولے کتاب پریس کے سپرد کرنا ہے۔ میرا ناول ’’پار پرے‘‘ اختتام پذیر ہوگیا ہے بس اسی کا جنازہ نکالنا ہے۔ ہم جو کچھ لکھتے ہیں جب تک لکھتے ہیں ہمارا ہے پھر دوسروں کے سپرد کردینا اس کو دفنادینا ہے۔ یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ میں سرپکڑ کر بیٹھ گئی ۔اچانک چونکی جب اُدھر سے ہلو ہلو کی آواز آئی! سن رہی ہو؟؟ جی سن رہی ہوں خدا آپ کو ایسے بہت سے جنازے نکالنا نصیب کرے، بس اگلے جنازے کی تیاری میں جٹ جائیے۔ ایک مدت سے میں پال صاحب کی دعاؤں کے زیر سایہ آگے بڑھنے کی کوشش کررہی ہوں۔ بیس برس پہلے میری کہانی ’عکس‘ سے خوش ہوکر عجیب دعا دی: ’’خدا تمہیں اور دکھ دے اتنے زیادہ کہ وہ تمہیں اپنے اندر بسے ہوئے لگیں ۔ دکھوں کے بسے رہنے ہی میں زندگی ہے۔‘‘ اور شاید ان کی یہ دعا بے اثر ثابت نہیں ہوئی۔
کہانی کار جوگندر پال کو آپ ان کی کہانیوں کے سمندر میں اتر کر تلاش کرلیں گے لیکن جوگندر پال کو تلاش کرنے کے لئے آپ کو دل کے اتھاہ سمندر میں اترنا پڑے گا لیکن اس معاملہ میں وہ بہت ہی چالاک ہیں سمندر تو دور دل کے کنارے بھی چھونے نہیں دیتے۔ آہٹ پاتے ہی چوکنا ہوجاتے ہیں۔ لگتا ہے عشق و شق پیار و یار سب ان کے کرداروں نے ہی جی لیا ہے اور وہ بس کاغذ پر نقشے ہی بناتے رہے۔ بات جب دل کی گہرائی کی ہو تو اس ایک ملاقات کا ذکر ضرور کردوں جو میری جوگندر پال سے ہوئی۔ اس ایک ملاقات میں جوگندر پال کے جس اصلی روپ کو میں نے دیکھا اس کا نقش میرے دل و دماغ پر انمٹ اور گہرا ہے ، ناقابل فراموش! تب مجھے اندازہ ہوا تھا دل کی گہرائیوں کے ذکر پر وہ ہتھے سے کیوں اکھڑ جاتے ہیں۔ اس زمانہ میں پال صاحب سخت بیمار تھے میں اور عظیم ان کی عیادت کے لئے حاضر ہوئے تھے۔ نحیف اور کمزور۔۔۔! بے چین بدحواس۔۔۔نا امید۔ ۔ عظیم صاحب سے بڑی عاجزی اور انکساری سے یوں گویا ہوئے بیٹے میرا ایک کام کرا دو میرا میرٹھ والا مکان کسی طرح بکو ادو۔ اونے پونے جو بھی مل جائیں۔ مجھے فکر یہ ہے کہ بیٹے کو فلیٹ لے کر دیا تھا۔ اس کی چند قسطیں رہ گئی ہیں کیسے ادا ہوں گی؟ اگر وہ پیسہ ادا ہوجائے تو سکون ہو جائے۔ میری گذر بسر تو پینشن سے ہوجائے گی۔ بس قسطیں ادا ہوجائیں کسی طرح۔ وہ سمجھتا ہے میں روپیہ لئے بیٹھا ہوں اسے نہیں دے رہا ہوں۔ سچ قسم اس خدا کی میرے پاس جو تھا سب دے دیا۔ مجھے روپیہ پیسے کا کیا کرنا ہے میرا کوئی خرچ ہے ہی نہیں۔ ان کی اس لاچاری بے بسی اور بکھراؤ نے میری آنکھیں نم کردیں۔ یہ تھا اصل جوگندر پال۔ بعد میں ان کا مکان بھی فروخت ہوگیا اور پریشانی بھی دور ہوگئی اور وہ صحت مند بھی ہوگئے لیکن شاید بیٹوں کی ناراضگی دور نہیں ہوئی کیونکہ ان کے ناول ’’پار پرے‘‘ کا انتساب پڑھ کر ایک مرتبہ پھر میرا دل ڈوبا ۔لکھتے ہیں:
’’اپنے دونوں ناراض بیٹوں کے نام خدا انہیں سلامت رکھے۔‘‘
پال صاحب اکثر ایک کہانی سناتے ہیں کہ میلے میں سے ایک کھوئی ہوئی روتی بلکتی بچی کو میں اپنے گھر لے آیا۔ منی سی اس جان کو معلوم نہ تھا اس کا باپ کون ہے ماں کون ہے اس کا گھر کہاں ہے؟ مجھے بے ساختہ اس پر پیار آگیا میں نے اسے بازوؤں میں بھر لیا وہ بھی میرا پیار پاکر خوش ہوگئی اور کھیلتی کودتی میرے آنگن میں پھرتی اور پلتی رہی۔ اور میں اسے دیکھ کر، خوش ہو ہوکر اس پر ریجھتا رہا ہوں اور موت کے کنارے آلگا ہوں لیکن وہ ننھی کی ننھی ہی رہی اور میں بوڑھا ہوگیا اب مجھے اس کی فکر لاحق ہوگئی میرے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ مرنے سے پہلے میں بھی اسے واپس میلے میں چھوڑ آؤں۔‘‘
پال صاحب کی کہانی کا یہ سفر ان کی زندگی کا سبب بنتا رہا۔ پال صاحب کے خون کے قطرے قطرے میں کہانی کے رنگ ہیں ان کے چہرے کی جھریوں میں لاتعداد کردار بسے ہوئے لگتے ہیں انہوں نے جس طرح ان کی پرورش اور آبیاری کی ہے ،بے مثل ہے۔ ان کا یہ سفر جاری ہے۔ محبت کی شعائیں ابھی پھوٹ رہی ہیں اور چراغ روشن ہیں۔ کون جانے اس بے چین آتما کا اگلا جنم کب کہاں اور کیسے ہوگا۔ لیکن اتنا ضرور ہے جب اور جہاں ہوگا ایک نئی شروعات ہوگی۔ جس طرح ہر کہانی ختم ہونے کے بعد شروع ہوتی ہے کہانی کا ر کا اصل سفر بھی اس کے بعد شروع ہوتا ہے کبھی نہ ختم ہونے والا سفر۔ جن سے مزید اور نئے راستے، نئی راہیں، نئے جزیرے، روشن ہوں گے۔