جان عالم(مانسہرہ)
چار دواری
آٹھ پہر اُس گھر کا پہرہ دیتی تھی
اور دروازہ․․․․․․
کھلتے ہی آواز دیا کرتا تھا
آنگن میں تو روز ہی جیسے میلہ لگتا ہو
دادا کے دادا نے جس کو بویا تھا
ہم اُس پیڑ کا سایا کاٹا کرتے تھے
․․․․․․․․․
ماں جی کی آوازیں گھر میں گھونجتی رہتیں
بچو بچو! کیا کرتے ہو
آہستہ تم شور کرو
اور کاکا جی نے جب منہ زور بڑھاپے سے
اُس کھاٹ کی پچھلی ٹانگ کو توڑا
دادی نے کاکے کو اُس دن کتنا کوسا
․․․․․
دادی کو تو چڑیوں سے بھی کتنی چڑ تھی
آنگن کے اُس کونے میں مٹکوں کے اندر دریا بہتے
سارا دن دریا پر چڑیاں پانی پینے آتی تھیں
دادی کہتی سارا پانی پی جاتی ہیں پیڑ کو کاٹو
لیکن جانے پھر کیوں دادی
ڈال پہ بیٹھی ان چڑیوں کو
دانہ ڈال کے اندر جاتی
۔․․․․․․․
چڑیوں کی کئی نسلوں کو پھر اُڑتے دیکھا
خود بھی پھر اُڑنے کی ٹھانی
․․․․․․․․․․
سات سمندر پار سے جب میں
سات برس کے بعد آیا تو
گھر کا نقشہ بدل چکا تھا
میں تو سوچ نہیں سکتا تھا
چار دواری
چار گھروں میں بٹ جائے گی
اور دروازے سے دروازے اور بنیں گے
دریا سارے سوکھ گئے اور
چڑیوں نے بھی ہجرت کر لی
پیڑ نے جانے کتنے چولہے گرمائے تھے
دادی ،دادا ،ماں اور کاکا
چار جنازے ڈھونے والی کھاٹ کو جانے کس نے مارا
آنگن کا جب خون ہوا ،اُس وقت تو ماں بھی زندہ تھی
ماں نے سب کو کیوں نہ روکا؟
’’بچو بچو کیا کرتے ہو
آہستہ تم شور کرو․․․
میں تو جھاڑو دے دے کر تھک جاتی ہوں ․․․
اس پیڑ کو کاٹو․․․․․‘‘
قاتل ہیں سب
سب نے مل کر آنگن کا یہ خون کیا ہے!