ڈاکٹر بلند اقبال (کینیڈا)
’ا للہ مارے تمھارے ابا پرائی عورتوں کے بہت شوقین تھے ،جہاں کو ئی لال پیلی چھپن چُھری دیکھی ، چل پڑے پیچھے پیچھے، پھر نہ گھر کا پتہ نہ باہر کا، میں کہے دے رہی ہوں ذ را نظر دبا کر رکھیو ، یہ مرد ذا ت بڑی بے وفا ہوئے ہے ، شادی کے کچھ سال تو ہر کو ئی دُم دبا کہ چلے ہے پر جہاں دو چار لو نڈے لونڈیاں ہوئے وہی آس پاس کی عورتوں کو دیکھ کہ دُم کھڑی کرلی‘۔۔۔
ادھر اماں جی توجومنہ میں آئے بکے جارہی تھیں پر عفت بی بی گھٹنوں گھٹنوں شرم سے پانی ہوئے جارہی تھی ،وہ کبھی دوپٹہ سر پہ پھیلاتی تو کبھی سینے پہ کھینچ لیتی ،جب اور برداشت نہ ہو ا توگھا گرا سنبھالا ، کھڑاؤں میں پاؤں گُھسایااور گھسر گھسر کرتی ہوئی رسوئی میں جا کرلکڑی کے تختے پہ گھٹنوں کے بیچ سردے کر بیٹھ گئی ، پر اماں جی بھی کب چُپ ہو کر بیٹھنے والی تھیں
’ اری نوج ماری شرما کیا رہی ہے ، یہ بات دھیان میں رکھ لے و رنہ پھر بعد میں پچھتاوے گی‘۔۔۔
’ اونہہ اماں جی بھی تو بس، اب جب بیاہ میں صرف چار دن ہی رہ گئے ہیں تو ایسے وقت یہ بک بک جھک جھک، جب دیکھو بس یہی راگ الاپے جارہی ہیں ، نہ جانے ابا نے اماں جی کو کیسے کیسے دھوکے دیے کہ اُنہیں ساری دنیا کے مرد بس ایک جیسے ہی لگے ہیں‘۔
عفت نے بیزا رگی سے سوچا۔اونہہ ۔ اچانک ہی اُسے اپنے ہونے والے میاں کا خیال آ گیا ۔۔’ میرے منان ایسے تھوڑی ہونگے جیسے ابا تھے ۔ وہ اور مردوں کی طرح ہر طرف آنکھیں مٹکانے وا لے نہیں ہونگے۔وہ تو صرف میرے ہونگے ۔صرف میرے، مجھ سے تھوڑی بے وفائی کریں گے، وہ تو مجھ سے سچا پیار کر یں گے ‘۔۔یہ خیال آتے ہی عفت کو لگا جیسے اُس کے سارے بدن میں بجلیاں سی رینگنے لگی ہوں ۔اُس نے جلدی سے دوپٹے کے پلو سے پیشانی اور گردن کا پسینہ صاف کیااور سامنے چولہے پہ چڑھی دیگچی کے ڈھکن کو سرکا کر بھا پ کو نکلتے دیکھنے لگی۔
اور پھر یہی ہوا ، شادی کی رات منان نے جو اُسے دیکھا تو عفت کو ایسا لگا کہ جیسے اُس کے دہکتے حُسن کو دیکھ اُن کی سٹی ہی گم ہوگئی ہو، ایسے کانپتے ہاتھوں سے اُسے ہاتھ لگایا جیسے وہ موم کی گڑیا ہو،ہاتھ لگے اور پگھل جائے۔ اماں جی کے پیدا کردہ سارے اندیشے بس ہوائی ثابت ہوئے ۔ منان تو سر سے پاؤں تک سچے من سے اُسے چاہتے تھے۔ کتنا بڑا تو کاروبار تھا ، دن رات کا دفتری عورتوں میں اُٹھنا بیٹھنا ، مگر مجال ہے جو خاندانی رکھ رکھاؤ میں کو ئی فرق آنے دیں ، پوری متانت سے لوگوں سے ملتے ، کبھی ضرورت سے زیادہ میل جول نہ بڑھاتے ، ہر چیز کا وقت پہ دھیان رکھتے ، خود عفت کا تو چھوٹی چھوٹی باتوں کا خیال کرتے، کپڑے لتے زیور بس زبان ہلنے کی دیرہوتی اورا نبار لگ جاتا۔ جو دھن برس رہا تھا وہ اُس پر روپ بن کر چمکتا ، بس دلہن ہی بنی رہتی، شادی کو دو سال ہوگئے مگر اولاد اب تک نہ ہوئی تھی پر مجال ہے جو منان شکا یت کا کوئی لفظ بھی زبان پہ لائے ہوں، پورے خاندانی وقار سے رہتے تھے ، نہ تو کبھی پریشانی کا اظہار کرتے ا ور نہ ہی کبھی اپنے روزمرہ کے معمولات میں فرق آنے دیتے، وہ تو اُس کو اب بھی ایسے ہی چھوتے تھے کہ جیسے وہ پہلے ہی دن کی دلہن ہو، ہاتھ لگے اور میلی ہوجائے ۔ اُن کے دن رات ویسے ہی تو تھے جو شادی سے پہلے تھے ، صبح ہوتی اور دفتر چلے جاتے ، شام پانچ بجتے ہی گھڑی کی چڑیا جو پانچ بار کو کو کرتی ٹھیک اُسی وقت منان کی موٹر کی ہارن کی آوازپی پی کرتی گھر میں گُھستی، شام کی چائے وہ بلا ناغہ عفت کے ساتھ پیتے پھر اُن کے بچپن کے دوست شرافت بھا ئی آ جاتے اور دونوں میں کیرم کی بازی لگ جاتی۔کبھی ان کے گھر اور کبھی منان بھائی کے گھر۔
شرافت بھائی ہی تو منان کے اکلوتے دوست تھے ، بچپن کا یارانہ تھا، دونوں میں گاڑھی چھنتی تھی ۔ پڑوس میں ہی رہتے تھے، ماں باپ مرچکے تھے ، منان ایک بار کہہ رہے تھے کبھی نوجوانی میں جو کسی نے دل توڑ دیاتو پھر شادی ہی نہیں کی ۔ اُن کے گھر دن رات کا آنا جانا تھا، خود عفت کی زبان شرافت بھائی شرافت بھائی کہتے نہ تھکتی تھی۔ شرافت بھائی بھی نام کی طرح بے انتہا شریف ، منان کے بچپن کے دوست ہونے کے باوجود مجال ہے جو کبھی عفت سے نظر ملا کر بھی بات کی ہو۔ شکل پہ بھول پن برستا تھا ، بس لے دے کر ایک اُن کی گھنی مونچھیں تھیں جو اُن کے چہرے پہ کچھ اجنبی اجنبی سی لگتی تھیں ، جب بھی ہنستے تو کچھ عجیب طرح سے منہ کو سُکیڑتے کہ لگتا جیسے ہونٹ خود مونچھ بن گئے ہو۔ عفت کو اُن کو ہنستا دیکھ کر بڑی ہی اُلجھن ہوتی تھی۔
اُس رات بجلی کڑاکے سے گرج رہی تھی ، منان دفتر سے آئے ، عفت کے ساتھ چائے پی اور پھر شرافت بھائی کے گھر کیرم کی بازی جمانے چلے گئے۔عفت کو نہ جانے کیوں صبح ہی سے عجیب عجیب سے ہول سے اُٹھ رہے تھے، کئی بار سوچا آج منان کو گھر پہ ہی روک لیں ، بچپن ہی سے اُس کا بجلی کے کڑاکوں سے دل دہلنے لگتا تھا۔ دو سے جب تین گھنٹے ہوگئے تو چھاتا لیا اور شرافت بھائی کے گھر کے لیے نکل کھڑی ہوئی ، گیٹ بجانے سے پہلے ہی کیا دیکھتی ہے کہ محلے کے چندبچے ایک دوسرے کے کندھوں پہ چڑھے ،شرافت بھائی کے کمرے کی کھڑکی سے کمرے کے اندر جمی کیرم کی بازی دیکھنے میں مگن تھے، اُس کو اچانک دیکھا تو ایک دوسرے کے پیچھے کودتے پھلانگتے ہوئے بھاگ گئے ۔اُس نے جو پیروں کے بل کھڑے ہوکر کمرے میں جھانکا تو آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ۔
شرافت بھائی اور منان کچھ اس طرح سے ایک دوسرے میں مشغول تھے کہ کیا کوئی نو بہاتا شادی شدہ جوڑا آپس میں مصروف ہو ۔۔۔ اُسے ایسا لگا کہ جیسے آسمان کی ساری ہی گرجتی ہوئی بجلیاں اُس پہ ایک ساتھ گر رہی ہوں اور ہر کڑکڑاہٹ میں اماں جی کی آواز گونج رہی ہو ۔۔ ’یہ مرد ذا ت بڑی بے وفا ہوئے ہے ‘۔۔
ہائے اماں جی۔۔ مگر یہ کیا ۔۔اچانک عفت کے منہ سے نکلا۔۔ یہ کیسی بے وفائی ہے ؟
*****
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے سوتیلے عزیزوں نے نفرت کی آگ لگادی ہے۔ اس آگ کے شعلے آسمان سے باتیں کررہے ہیں۔ میرے چاروں طرف آگ پھیلی ہوئی ہے۔۔۔ سوتیلے جذبوں کی آگ․․․․․مگر میں دیکھتاہوں کہ:
میرے بن باس کے دن ختم ہوچکے ہیں۔ میرا حق میرا تخت مجھے مل گیا ہے اور میری بیوی کی پاک دامنی کی شہادت خود تاریخ دے رہی ہے۔۔۔۔۔۔میں دیکھتا ہوں کہ:
میری قید کی مدت ختم ہوگئی ہے۔ اور میں ایک اعلیٰ منصب پر سرفراز کیا گیا ہوں۔ اور چاند سورج اور ستارے میرے حضور سجدہ ریز ہیں۔۔۔۔۔۔۔اور میں دیکھتا ہوں کہ:
تپتے ہوئے صحرا میں میرے ایڑیاں رگڑنے سے ایک چشمہ پھوٹ بہاہے ۔مری ماں کے چہرے پر خوشیوں اور مسرتوں کانور پھیلا ہوا ہے۔ وہ جو کسی قافلے کی امداد کی منتظر تھی اب ہزاروں قافلے اس کی مدد کے محتاج ہیں۔ اور اس بادشاہ زادی کو ایک نئی بادشاہت مل گئی ہے۔ اور ہزاروں برس سے میرا انتظار کرنے والی کنواریاں ،میرے گلے میں ڈالنے کے لئے اپنے ہاتھوں میں پھولوں کے ہار سجائے میری آمدکے گیت گارہی ہیں۔
اور میں یہ بھی دیکھتاہوں کہ بحر ہندکاٹھاٹھیں مارتاہواپانی، آسمان سے اندھے کنوئیں میں اترکراور پھر باہر چھلک جانے والا پانی اور میری ایڑیوں کی رگڑ سے پھوٹ بہنے والے چشمے کاپانی، سب میری آنکھوں میں اتر آئے ہیں۔
سوتیلے جذبوں سے بھڑکائی ہوئی نفرتوں کی آگ بجھتی جارہی ہے اور اس آگ کے دوسری طرف میرے تمام سوتیلے عزیز حیرت اور خوف سے اس منظر کو دیکھ رہے ہیں۔
میں آگ کے مکمل طورپر بجھنے کا انتظارکرتاہوں۔میں انتظار کرتاہوں جب تھوڑی دیر بعد میرے سارے سوتیلے عزیز مجرموں کی طرح میرے سامنے پیش ہوں گے۔
اور میں اس وقت کے آنے سے پہلے ہی اپنا فیصلہ لکھنے بیٹھ جاتاہوں۔
’’ لا تثریب علیکم الیوم․․․․․‘‘
(حیدر قریشی کے افسانہ میں انتظار کرتا ہوں سے اقتباس)