احمد ہمیش(کراچی)
ہماری دنیا کے ایک شہر میں ذاکر اور کسی دوسرے شہر میں مذکور رہا کرتا تھا۔ ذاکر کے شہر کی راہ سے مذکور کے شہر کی راہ اور فاصلہ نامعلوم تھا۔ پھر بھی واقعہ کچھ یوں ہوا کہ ذاکر اپنے کرایہ کی رہائش کے ایک کمرہ میں بستر پر تھا۔ اس طرح کہ نہ سورہا تھا نہ جاگ رہا تھا۔ البتہ نیند اور بیداری کے درمیان ہی فون پر اِن کمنگ کال کی گھنٹی اُس کی سماعت میں آن پڑی تھی اور آواز جو اس کے قدیم شناسا مذکور کی تھی، وہ اس کے شہر سے ہی آئی تھی۔ مذکور نے ذاکر کو اس کے علمی مرتبہ اور پیشہ کے اعتبار سے ہی مدعو کیا تھا۔ مگر یہ سمجھ میں نہیں آرہاتھا کہ سرہانے اسٹینڈ پر رکھا ہوا ایک پرانی بناوٹ والا سیا ہ مگر پائیدار ٹیلی فون سٹ بہ وجہ عدم ادائیگی عرصۂ دراز سے بند پڑا ہوا تھا۔ اس کے باوجود مذکور کی واضح آواز میں ذاکر کو مدعو کرتے ہوئے برائے ذکرِ یادِ رفتگاں باقاعدہ بہ غرض معاوضہ دوسرے شہر بلایا گیا تھا۔ اور اس میں بہ ظاہر ذرا بھی کوئی شائبہ نہیں تھا۔ اس لئے کہ ذاکر کے بستر کے سرھانے بک شیلف میں رکھی ہوئی شعر و ادب ، تاریخ وفلسفہ ، لسانیات اور فقہ و حدیث پر مشتمل وہ ساری کتابیں تھیں، جن کا عمیق مطالعہ علمی و فکری اور ذکرِ مصائب کی مجالس میں بڑے کام آتا تھا۔ بادی النظر میں اس کا بک شیلف ہی اس کی واحد ملکیت تھا۔ علاوہ اس کے نہ ہی اس کی کوئی جائیداد تھی اور نہ ہی بینک میں اس کے ذاتی اکاؤنٹ میں اتنی رقم پس اندازتھی کہ وہ کئی سال پہلے موصول ہوئے ٹیلی فون کے غلط بلکہ ناجائز بل کی اکھٹے ۴۰ہزار کی رقم ادا کرچکا ہوتا!
حالانکہ اس کے شہر کے کئی اور ذاکر کروڑوں کے سرمایہ اور جائیداد والے تھے۔ مگر اس کہانی کا غائب متکلم کردار جو خود ذاکر ہی تھا، اپنی دانست میں اتنا تو منتخب روزگار تھا کہ کسی غیر منتخب مجلس کا بھول کے بھی رُخ نہیں کرتا تھا۔ اس لئے اس کی عمر کے ۶۳سال گزر چکے تھے اور ان ۶۳برسوں میں سے ذکر و اذکار کی مصروفیت کے ۴۰سال منتخب کرکے بھی اب تک اس کا کچھ بھلا تو ہوا نہیں تھا۔ دنیا داری اور عقلِ معاش تو اس میں تھی ہی نہیں ، سو وہ اس کی ذیلی ضرورتوں سے ٹنگی ہوئی محض خلاء میں معلق تھی۔ یہاں تک کہ کسی بھی مدعو کرنے والے منتظم کی طرف سے طے شدہ رقم کی کبھی خاطر خواہ وصولی تو ہوئی ہی نہیں۔ اس کے باوجود مذکور کی طرف سے بلاوے اور اس کے شہر کا رخ کرنا ناگزیر تھا۔ مگر اس کے لئے بھی اس نے حسب روایت کوئی حکمت عملی طے نہیں کی تھی۔ اور کرتا بھی کیسے! بھلا مذکور کی اِن کمنگ کال عرصۂ دراز سے بند ٹیلی فون پر کیسے سُن لی اُس نے ! جب کہ وہ شب خوابی کا مریض بھی نہیں تھا۔ یا ممکن ہو ذاکر اپنے باطنی سکوت و شور کے کسی نامعلوم حصہ میں تھا، جہاں خیال آپ ہی آپ کوئی مِتھ بنارہے ہوتے ہیں۔ ایسے میں کسی آواز کا سننا کسی گزرے ہوئے فعال حصہ کی بازیافت بھی ہوسکتا ہے۔ ممکن ہو، اس دوران ٹیلی فون بند نہ پڑا ہو اور وقوعہ کسی ایسی تاریخِ گزشتہ کو رونما ہوا ہو، جس کے تحت ذاکر کے وکیل نے ٹیلی فون کا اسٹیٹس بحال رکھنے کا عدالت سے اسٹے آرڈر لے لیا ہو۔ ظاہر ہے، اس قبل از وقت یقین اور بعد از وقت گمان کے درمیان ذاکر کی دنیا تو اپنی جگہ قائم تھی۔
اس شش و پنج میں کہ مذکور کے شہر پہنچ کے ادائیگی منصب کا کچھ بنے گا بھی یا نہیں، ذاکر نے خود کوزندگی کی بساط کا ایک مہرہ مان کے گلی سے سڑک اور سڑک سے نامعلوم منتظمین کی طرف سے ۴۲گھنٹے کے کانٹریکٹ پر حاصل کی گئی کھٹارا وین میں اور اس کی سیٹ پر سفر کرنے اور مذکور کے شہر جاپہنچنے کا پروگرام تو وضع کرلیا۔ اور قبل از وقت توقع بھی کرلی کہ مذکور کے شہر پہنچ کے ہی اس سے ملاقات اس کا مقدر ہوسکتی تھی!مگر اول حیرت اس گھڑی ہی ہوئی جب کھٹارا وین روانہ ہوئی تو ایک سیٹ پر بیٹھا اکیلا مسافر کوئی اور نہیں ذاکر ہی تھا۔ یا وہ بدنصیب ڈرائیو رتھا، جسے ٹھیک ٹھیک سمت کا علم ہی نہیں تھا۔ بس اٹکل پیچھے ڈیڑھ سیر کے دیہاتی محاورہ کی مثل وہ گاڑی چلاتے ہوئے لگ بھگ آدھ گھنٹہ کی راہ پر واقع کیلی گرافی سینٹر کے پاس رُک گیا۔ تبھی معلوم ہوا کہ ابھی وین ذاکر کے شہر کی حدود میں ہی تھی۔ اور اس پر ستم یہ کہ ذاکر کے ہمراہ کئی اور جانے پہچانے لوگ بلکہ دو اُجاڑ صورت شاعر خواتین بھی وین میں سوار ہوگئیں۔ اب کوئی سیٹ خالی نہیں رہ گئی تھی۔ سو، مزید یہ معلوم ہوا کہ ذاکر کو برائے ذکر یا دِ رفتگاں مدعو کئے جانے کے علاوہ وین میں سوار لوگوں اور دونوں شاعرات کو سوز خوانی اور نوحہ گری کے لئے بلایا گیاتھا۔ یہ دیکھ کے ذاکر کو بڑا افسوس ہوا کہ مذکور نے اسے اور دوسروں کو مدعو کرتے ہوئے کوئی واضح رویہ اختیا ر نہیں کیا بلکہ سراسر ناروا سلوک کیا۔ مگر اب کیا ہوسکتا تھا! کیونکہ ذرا ہی دیر بعد تو وین چل پڑی ۔ اور اب یہ اندازہ ہونے لگا کہ وین کھٹارا کیوں تھی! سفر کے ابتدائی ڈیڑھ گھنٹے ہی گزرے ہوں گے کہ کھڑکھڑ کھڑ کی اعصاب شگافی آواز سے جی اُلٹنے سا لگا۔ کھڑکی کے باہر جھانکتے ہوئے سنگ میل تو ایک کے بعد ایک آتے جارہے تھے مگر میل ہا میل بالکل سوکھی سنٹی اوبڑ کھابڑ زمین نظر آئی۔ ایک ٹکڑے بھر بھی سبزہ کہیں دکھائی نہیں پڑا۔ شائد راجستھانی گرم ہوا کی تپش کھال کو جھلسائے دے رہی تھی۔ سوائے اس کے کہ آدم خور خونخوار کتے پالنے والے نامعلوم زمینداروں کی آدم خور ملکیت اپنی مستقل موجودگی باور کرارہی تھی۔ حالانکہ وہ خود اس فانی دنیا میں مستقل نہ رہ کے محض بے فیض گزر جائیں گے، اپنے ساتھ اپنی ہزاروں ایکڑ زمین کا ایک ذرہ بھی نہیں لے جاسکیں گے۔ مگر بھوک ، گرسنگی اور فلاکت سے دم توڑنے والوں میں سے کسی ایک کو بھی کچھ نہیں دیں گے۔ غرض کہ زبانِ حال سے اپنی نوعیت کا سوز و نوحہ سنتے ہوئے ذاکر اپنی جگہ مہر بہ لب تھا۔ کسی سے کچھ کہنا سننا تو کجا ، اب وہ آنکھیں موندے ایک غلط سفر کے تمام ہونے کا منتظر تھا۔
مزید دو گھنٹے اور گزرے ہوں گے کہ بڑی ندی کے اوپر انگریزوں کی عملداری کے وقت کے بنے ہوئے پُل سے گزر کے کھٹارا وین مذکور کے شہر میں کچھ اس طرح داخل ہوئی کہ ڈرائیور کا بایاں ہاتھ اسٹیرینگ پر تھا اور دائیں ہاتھ میں وہ کوئی کاغذ تھامے ہوئے کچھ پڑھتا اور ایک سڑک کا موڑ کاٹ کے اُس کی پشت کی سڑک پہ ہولیا۔ ظاہر ہورہاتھا کہ کاغذ پر شہر کی کسی خاص جگہ کا پتہ معلوم کرنے کی ہدایت درج تھی۔ اس تگ و دو میں مزید آدھ گھنٹہ ضائع ہوا ۔ آخر کسی جگہ جھٹکا دے کے وین رُک گئی ، اس سیٹ پر بیٹھے ہی بیٹھے ڈرائیور نے وین سواروں سے نیچے اترنے اور منزل تک پہنچنے کا پیشہ ورانہ اعلان کیا۔تب ذاکر سمیت تمام سوار وین سے نیچے اُترے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ وین سڑک کے کنارے لہوری اینٹوں والی دیوار پر اکہری سفیدی کرائی گئی عمارت کے عین اُس لمبے سفید بورڈ کے سامنے رکی تھی، جس پر انگریزی حروف میں درج نظر آیا صِرف PRESS CLUB! مگر اس کے ساتھ شہر اور ملک کا نام درج نہیں تھا۔ اس سے بھی زیادہ حیران کن منظر یہ تھا کہ سڑک پر آدم نہ آدم زاد……صرف کڑک باوردی خاکی نظر آرہے تھے۔ مگر ان کی وردی اور سر پر رکھی ہوئی کیپ سے کسی ملک کے نام اور نمبر کی نشانی ندارد تھی ۔ البتہ لانگ بوٹ سے وہ خاکی ہی معلوم ہوتے تھے۔
معلوم نہیں وہ کس ملک کے خاکی تھے۔ مشکل یہ تھی کہ وہ منہ سے کچھ بول بھی نہیں رہے تھے۔ اس لئے ان کی بولی یا زبان کا بالکل پتہ نہیں چل رہا تھا۔ صرف وہ کبھی انگوٹھے کے ساتھ کی انگلی یا کبھی دو، تین ، چار اور کبھی پانچوں سمیت ہتھیلی سے اشارہ کرتے اور ایسے میں مہینوں تربیت پائی ہوئی اکڑ اور سختی باور کراتے ہوئے بہ ظاہر بہت اسمارٹ نظر آرہے تھے۔ تبھی ان میں سے ایک نے اپنے انگوٹھے کے ساتھ کی انگلی سے ذاکر سمیت سبھی وین سواروں کو دوبارہ وین میں سوار ہونے کا اشارتی حکم صادر کیا۔ اس حکمیہ ٹرانس میں آکے سبھی وین میں سوار ہوگئے۔ جب کہ ذاکر کو دوبارہ اپنی ہی سیٹ پر بیٹھنے میں معلوم نہیں کیوں تامل ہورہا تھا! یا اسے ایک طرح سے دہرایا ہوا عمل منحوس لگ رہا تھا۔ اس لئے بھی کہ خلاف توقع ابھی اس کی ملاقات شہر مذکور میں مدعو کرنے والے مذکور سے ہی نہیں ہوئی تھی۔ اسے بڑی تشویش ہورہی تھی۔ مگر وہ کرتا بھی کیا! دیکھتے ہی دیکھتے خاکی کی ہتھیلی سے اشارتی ہدایت پاکے ڈرائیور وین کو ایک طرف لئے چلا۔ اب ایک سڑک کے بعد کئی سڑکوں کے موڑ سے مڑتے یعنی کئی موڑ اور کئی سڑکوں سے گزرتے ہوئے جگہ جگہ کہیں اِکّا دُکّا ، کہیں چار پانچ اور دس دس کی ٹولی میں خاکی ہی خاکی نظر آئے ۔ یہاں تک کہ کوئی ایک پرائیوٹ کار یا باربردار سِول ٹرک تو کُجا صرف اور صرف خاکی جیپ یا خاکی وین یا خاکی ٹرک ہی گزرتے نظر آئے۔ پھر ظاہر تھا کہ ان کے درمیان ذاکر کے شہر سے آئی ہوئی وین کی انتہائی اجنبیت کا بس تصور ہی کیا جاسکتا تھا۔ سو، ہوا بھی یہی کہ پوری طور پر ایک طرح سے سویلین کے شہر کی بجائے محض خاکی چھاؤنی میں ایک بہت بڑے آہنی راڈ والے گیٹ کے باہر ذاکر کے شہر کی اجنبی وین کووہاں کھڑے ہوئے خاکیوں کی ٹولی نے روک لیا۔ پھر انگوٹھوں ، انگلیوں اور ہتھیلیوں کے مختلف اور متعدد زاویوں سے بدنصیب ڈرائیور سے علیحدہ پوچھ تاچھ تو ہوئی ہی، لگے ہاتھوں کیا دیکھتے ہیں کہ ایک خاکی جس کی کڑک وردی پر ایک سیاہ پٹہ اور پٹہ پر سفید میں ثبت کی گئی خوفناک شناخت نمایاں تھی، بے دریغ وین میں گھُس آیا، ذاکر کو کئی سال پہلے بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی اسکرین پر دیکھی گئی بحری قزاقوں کی پیروکار نامی گرامی نیوی کی ایسی ہی علامتی شناخت یاد آئی۔ ایک لمحہ کی ڈراؤنی تنویم میں ایسا لگا جیسے ریچھ کی آنکھوں سے مشابہ خونخوار چمک والی آنکھوں سے وہ ذاکر سمیت سبھی وین سواروں ، خاص طور پر دونوں شاعرات کو اس زہریلے کڑے پن سے گھوررہا تھا، جیسے وہ کسی ملک وشہر کے معزز شہری نہ ہوں بلکہ کسی مفتوحہ علاقہ سے پکڑے گئے عام جنگی قیدی ہوں! اب اس سے پہلے کہ ذاکر اپنا کوئی فطری ردِ عمل ظاہر کرتا، ظالم خاکی وین سے نیچے اتر گیا۔ اس اثنا میں ڈرائیور سے پوچھ تاچھ والے اشارے موقوف ہوئے تو وین کو آہنی راڈ والے گیٹ سے اندر جانے کی اجازت دے دی گئی۔
اب اتفاق دیکھئے کہ گیٹ کے اندر بھی کئی چکر دار ذیلی سڑکوں سے گزر کے وین جس جگہ جا رُکی تھی ، وہ اپنی بناوٹ سے تو خاکی بیرک نظر آرہی تھی اور معلوم نہیں کیوں اس وقت ذاکر کو نازیوں کے مظالم اور ان کی عقوبت گاہوں پر مشتمل وہ دستاویزی فلم یاد آئی ، جسے اس نے کئی سال پہلے بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی اسکرین پر دیکھا تھا۔ جب کہ ذرا ہی دیر بعد ذاکر سمیت سبھی پر یہ انکشاف ہوا کہ وہ اپنی بناوٹ سے خاکیوں کی بیرک ہوتے ہوئے بھی ریسٹ ہاؤ س کی صورت استعمال میں آتی تھی اور اس میں صوفوں اور پلنگ کے علاوہ ایک واش روم بھی تھا۔ اس کے ساتھ ہی ایک خاکی ریسٹ ہاؤ س میں داخل ہوا اور اس نے اپنی دونوں ہتھیلیوں کو چہرہ پر پھیرتے ہوئے پھر ہتھیلیوں کو ہی پاؤں پر لے جاتے ہوئے ذاکر سمیت سبھی کو واش روم کا رخ کرنے کی ہدایت کی۔ بلکہ اس طرح اشاروں ہی میں اس نے وین کے تھکادینے والے سفر سے ہاتھ منہ پر طاری ہونے والی بے رونقی کو واش روم میں واش کرنا اور فریش ہونا باور کرایا۔ اس پر ذاکر سے بالکل برداشت نہیں ہوا۔ وہ خاکی سے الجھ پڑا ’’کون ہو تم لوگ! یہ کیا تماشا ہے! اشارے کیوں کرتے ہو! کیا آدمی نہیں ہو تم! کیا اللہ تعالیٰ نے تمھیں بولنے والی زبان نہیں دی ہے! ‘‘
اس پر خاکی نے بھیڑیے کی طرح دانت نکوسے اور لگا ذاکر کو گھورنے۔ پھر نہ جانے کیادیکھ کے اس نے اپنے ہاتھ کو ایک بار ناگوار ی سے جھٹکا اور ریسٹ ہاؤس سے باہر نکل گیا۔ عجب صورتِ حال تھی کہ کچھ سمجھ میں نہیں آرہاتھا، سوائے اس کے کہ ذاکر اپنی جگہ گُم سُم کھڑا رہا، باقی سب نے واش روم میں باری باری سے ہاتھ منہ اور پاؤں کی بے رونقی دھوئی یا واش کی ۔ تبھی باہر سے وین کے ڈرائیور کی آواز سنائی دی وہ سب کو دوبارہ واپس PRESS CLUBلے جانے کیلئے بلا رہا تھا۔ شائد اسے کسی خاکی نے مزید کوئی اشارتی حکم دیا ہوگا۔ ظاہر ہے ، اب کیا ہوسکتا تھا! چارو ناچار ذاکر سمیت سبھی ریسٹ ہاؤس سے باہر نکلے اور وین میں سوار ہوگئے۔ اُن میں سے کسی نے ڈرائیور کے کہنے پر وین کا دروازہ بند کیا، اس کے ساتھ ہی اس نے ڈرائیونگ کا پیشہ ورانہ جھٹکا دیا اور اس بار جلدہی اس نے دو تین سڑکوں کے موڑ کاٹے اور شائد کسی چوتھی سڑک پہ آکے وین PRESS CLUBوالی عمارت کے دروازہ پر روک دی۔ سبھی پہلے ہی کی طرح نیچے اُتر گئے۔ جب کہ ذاکر اب بھی اپنی جگہ کھڑا دم بہ خود تھا۔ تبھی کسی خاکی نے اس کے قریب آکے اسے ایک کتاب تھمائی۔ ذاکر چونکا پھر بھی بے خیالی میں اس نے کتاب کو اُلٹ پلٹ کے دیکھا۔ معلوم ہوا کہ خاکی وردی والا اپنی نوعیت کا شاعر تھا یا شعر گڑھ لیتا تھا۔ مگر اس نے کتاب کے شروع والے سادہ صفحہ پر ذاکر کا نام درج کئے بغیر صرف اس پر تبصرہ کروانے کی اشارتی پابندی نافذ کی تھی۔ ایسا معلوم ہوا کہ تبصرہ نہ کرنے کی صورت میں اسے کسی عقوبت خانہ میں ڈال دیا جاتا۔ پھر بھی اس نے اپنے اندر بچی کچھی ہمت جمع کرتے ہوئے خلا میں سر اٹھایا اور منہ کھول کے کسی غیر موجود کو مخاطب کیا ’’ہم کہاں ہیں……یہ کیا جگہ ہے؟ ہمیں کہاں بلایا گیا ہے! یہ کون سا ملک ہے!…… یہ کس ملک کا شہر ہے ! ملک ہے بھی یا نہیں! ……شہر ہے بھی یا نہیں!……‘‘ مگر افسوس کہ اس کا استفہامیہ تخاطب محض صدائے بازگشت بن کے رہ گیا ۔ بلکہ اسے بدستور کسی خاکی کے اشارتی حکم کی لاچار پیروی میں PRESS CLUBکے داخلہ دروازہ سے اندر کے نامعلوم منظر کا رخ کرنا پڑا۔
اب کیا دیکھتے ہیں کہ ان گنت خوابوں میں دیکھا ہوا ایک عجیب منظر نظر میں تھا۔ اب نہ مذکور……نہ مذکور کا شہر نہ اشارتی ہدایت دیتے یا حکم نافذ کرتے خاکی تھے نہ ان کی چھاؤنی تھی۔ نہ ہی بھوکے پیٹ کے لئے روٹی کا ایک ٹکڑا ۔ نہ ہی پیا سی زبان کے لئے پانی کا ایک قطرہ ۔ نہ ہی بیٹھنے کے لئے کوئی ٹوٹی پھوٹی کرسی یا اسٹول اور نہ ہی تھکے ماندے جسم کو نیند کی تسلی دینے والی نام نہاد زندگی نام کا بستر۔ سوائے اس کے کہ بدنصیب ذاکر کے گرد وپیش دور دور تک نظر آتے منظر میں قبریں ہی قبریں تھیں اور قبروں پر طاری تھی کبھی نہ ختم ہونے والی تاریک رات!********
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’مجموعی طور پر حیدرآباد سندھ کے بیشتر سندھی اور ہندوستان سے آکے پناہ لینے والے بیشتر پناہ گزین ایک ہی جیسے بدکار اور ملعون تھے۔اُن کے درمیان زیادہ رہنے سے میں بھی کسی نہ کسی غلط میں ملوث و مبتلا ہو سکتا تھا،مگر میری گرتی ہوئی صحت نے مجھے کسی غلط کا رُخ کرنے کا موقعہ ہی نہیں دیا۔آخر میں نے حیدرآباد سندھ چھوڑنے کا تہیہ کر لیا۔مشکل یہ تھی کہ حیدرآباد سے کراچی جانے کے لئے میرے پاس ریل کاکرایہ نہیں تھا۔میں نے ارشاد لنگڑے سے کچھ روپے مانگے،اُس نے دینے سے انکار کر دیا۔تب مجھے یاد آیا کہ ارشاد لنگڑے کا ایک شناسا کبھی کبھی دوچار روپے سے میری مدد کر دیتا تھااور وہ حیدرآباد کے کسی اور محلہ میں رہتا تھا۔مجھے وہاں کا پتہ معلوم تھا،میں وہاں پہنچا اور شناسا مذکور سے ملاقات ہوئی تو میں نے ہاتھ جوڑ کے اُس سے کراچی جانے کے لئے ریل کے کرایہ کے لئے درخواست کی۔اُس کا دل پسیج گیا۔اُس نے مجھے بارہ روپے دئے۔پھر میں نے اُسی دن شام کی ٹرین پکڑی اور لگ بھگ تین گھنٹے بعد کراچی پہنچا۔‘‘’’مکر چاندنی‘‘ سوانح احمد ہمیش۔قسط :۱۲،مطبوعہ سہ ماہی تشکیل کراچی شمارہ :۴۶، ص:۱۱۲)