آگرہ پہنچ کر میری حالت اُس غریب عاشق جیسی تھی جسے کسی شہزادی سے عشق ہو گیا ہو اور آج ان کی پہلی ملاقات ہو۔ میں جتنا خوش تھا اُتنا گھبرایا ہوا بھی تھا۔ محبت کرنے والے میرے دل کی کیفیت کا اندازہ کر سکتے ہیں۔ صرف وہ شخص میری آنکھوں کی بے قراری کو سمجھ سکتا ہے جس نے برسوں کسی کی راہ دیکھی ہو۔
صدیوں کسی کا انتظار کیا ہو مجھے بھی یوں لگ رہا تھا جیسے میں صدیوں کا سفر کر کے یہاں پہنچا ہوں۔ ہم آگرہ شہر سے گذر کر تاج محل کے دروازے تک پہنچے تھے۔ مگر میں آگرہ کیا دیکھتا آنکھیں تاج محل کی طرح سفید ہو گئی تھیں۔ کچھ اور دیکھنے سے صاف انکار کر دیا تھا۔ ٹریفک سے بھری بھری سڑکیں گزری ہوں گی۔ بازراوں میں چہل پہل بھی ہو گی۔ دوکانوں میں رونق بھی ہو گی۔ پارکوں میں فطرت کا حسن بھی ہو گا۔ سب جگہ لوگ بھی ہوں گے۔ مگر میری آنکھوں میں تو صرف ایک منظر سما گیا تھا۔ وہ منظر تاج محل کا۔
بیرونی دروازے سے اندر داخل ہوئے تو باغ ہی باغ محل کہیں نظر نہ آتا تھا۔ ہر طرف درخت تھے، سبزہ تھا، پھول تھے، سیاحوں کا ہجوم تھا۔ محبت کی اس یاد گار کو دیکھنے دنیا کے کونے کونے سے لوگ یہاں آئے ہوئے تھے۔
سب دلوں میں ایک خواہش تھی سب آنکھوں میں ایک سپنا تھا تاج محل کو ایک بار دیکھنے کی خواہش تاج محل کو ایک بار چھونے کا سپنا اندرونی دروازے تک پہنچنے کا راستہ یا تو واقعی طویل تھا یا شوق نظارہ نے اسے طویل کر دیا تھا۔
نہ تو باغیچے ختم ہوتے تھے اور نہ ہی بے قراری۔ اندرونی دروازہ دور سے نظر آیا تو سب چہروں پر خوشی پھیل گئی۔ ویسی خوشی جو انسان کو خوبصورت بناتی ہے۔ دروازے کے قریب پہنچنے کی دیر تھی کہ فوٹوگرافروں کے ہجوم نے گھیر لیا چونکہ ان کا تعلق کسی اخبار سے نہ تھا اس لئے ہم نے اُنھیں اپنی تصویر بنانے کی اجازت نہ دی بلکہ اپنا کیمرہ گلے میں ڈال لیا تا کہ حجت تمام ہو جائے۔
اپنا کیمرہ لئے بغیر تاج محل دیکھنے آنا ایسے ہی ہے جیسے نظر کی عینک گھر بھول کر کسی لائبریری میں مطالعہ کے لئے جانا۔
حقیقت تو یہ ہے کہ سب لوگ یہاں تاج محل کے ساتھ تصویر بنوانے ہی آتے ہیں تاکہ واپس جا کر اپنے رشتہ داروں، احباب اور دوستوں کو فخریہ انداز میں دکھا سکیں کہ دیکھو ہم تاج محل دیکھ کر آئے ہیں۔
حکمران یہاں آئیں یا عوام…….
سب کے دلوں میں ایک اُمنگ ضرور ہوتی ہے، تاج محل کے پہلو میں ایک یاد گار تصویر۔ دروازے کی ساخت اور بناوٹ ایسی ہے کہ پہلے ڈیوڑھی نما دروازے سے گذر کر چند قدم چلنا پڑتا ہے۔ تاج محل آہستہ آہستہ آنکھوں کے سامنے آشکار ہوتا ہے پہلے دائیں طرف کے مینار پھر عمارت اور گنبد ان کے بعد بائیں طرف کے مینار جیسے چلمن کی اوٹ سے کوئی ماہ جبیں شرماتی ہوئی سامنے آ جائے۔
اس میں شاید یہ مصلحت ہو کہ دیکھنے والا اچانک اس قدر خوبصورت منظر دیکھ کر پاگل نہ ہو جائے یا اہل محبت میں سے کوئی مر نہ جائے بقول: ادریس بابر
میں کسی وقت بھی مر سکتا ہوں
دوست اندر سے محبت ہے مجھے
میں نے پہلی نظر تاج محل پر ڈالی تو یوں لگا جیسے مجھے ابھی ابھی آنکھیں ملی ہیں اور میں زندگی کا حُسن پہلی بار دیکھ رہا ہوں۔ میں نے تو سوچا تھا جیسے ہی تاج محل پر میں پہلی نظر ڈالوں گا میرے دل کی دھڑکن رک جائے گی اور مجھے بھی شاہجہاں اور ممتاز محل کے ساتھ اس میں ابدی آرام کے لئے جگہ مل جائے گی مگر مجھے تو یوں لگا۔ جیسے دل آج پہلی بار دھڑکا ہو۔
ترے نزدیک آ کر سوچتا ہوں
میں زندہ تھا کہ اب زندہ ہوا ہوں
سچ مچ یوں لگ رہا تھا جیسے میں ابھی زندہ ہوا ہوں۔ تاج محل کو دیکھ کر آنکھیں بھیگ گئی تھیں۔
فضائے صبحِ تبسم بہار تھی لیکن
پہنچ کے منزلِ جاناں پہ آنکھ بھر آئی
تاج محل کی خوبصورتی کو لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ اس کا حُسن تو دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
جو دیکھے گا وہی اس کی سندرتا کو جان سکتا ہے جس طرح محبت کے بارے میں بتانا مشکل ہے کہ محبت کیا ہے؟
جانتا ہوں سو بتا سکتا نہیں
ہے محبت کیا؟ یہ پوچھا مت کرو
جیسے محبت اپنا اپنا تجربہ ہے۔
محبت کی اس یادگار کو دیکھنے کا بھی ہر شخص کا زاویۂ نگاہ الگ ہے۔
تیراکی پر کوئی اچھی سی کتاب پڑھ لینے یا لیکچر سن لینے سے تیراکی نہیں آتی اس کے لئے تو پانی میں اُترنا پڑتا ہے تب جا کر پتہ چلتا ہے۔ یہی معاملہ محبت اور محبت کی اس یادگار کا ہے۔
تاج محل کو جب تک جاگتی آنکھوں سے نہ دیکھا جائے اندازہ لگانا مشکل ہے کہ وہ کیسا ہو گا۔
تصویر میں تو اس کے حُسن کا تصوّر بھی نہیں کیا جا سکتا۔ محبت کی طرح محبت کی یاد گار بھی ہوش اُڑانے والی، اردگرد سے بیگانہ کر دینے والی اور اپنے حُسن کا اسیر بنانے والی ہے۔ نظریں ہٹانا تو دور کی بات پلکیں جھپکنے کو جی نہیں چاہتا۔ تصویریں دیکھ کر میں نے اپنے ذہن میں تاج محل کا جو خاکہ بنایا ہوا تھا یہ تو اس سے بالکل مختلف اور جدا تھا۔
تاج محل کے مینار آسمان سے باتیں کر رہے تھے یا آسمان تاج کا بوسہ لینے کے لئے جھکا ہوا تھا۔
یہ ایک معمّا تھا۔
تاج محل کی سنگ مرمر کی عمارت کے سامنے سب کچھ میلا میلا سا لگ رہا تھا۔
کیا زمین۔
کیا آسمان۔
کیا سورج۔
میرے خیال میں تاج محل دنیا کا آٹھواں نہیں بلکہ پہلا اور آخری عجوبہ ہے۔
تاج محل کے پہلے نظارہ نے ہی مجھے اپنا اسیر بنا لیا۔ محاورةً بھی اور حقیقت میں بھی ’’انڈین انٹیلی جینس نے ہمیں اپنی تحویل میں لے لیا تھا‘‘ اگر آپ بھی پہلی بار تاج محل دیکھنے جا رہے ہیں اور تھانے میں اپنی آمد کی رپورٹ بھی درج نہیں کرائی۔ فارنرز والی طویل لائن میں بھی نہیں لگنا چاہتے۔ 750 روپے کی بجائے 20 روپے والا ٹکٹ جو کہ انڈین کے لئے ہے، لے کر داخل ہونا چاہتے ہیں تو میں آپ سے بنتی (درخواست) کرتا ہوں کہ اپنے ساتھ پاکستانی سگریٹ خاص کر گولڈ لیف کی ڈبی ضرور لے کر جائیں اور اپنا ثقافتی لباس شلوار قمیض پہن کر جائیں تا کہ آپ بھی تاج محل کی محبت میں آسانی سے گرفتار ہو سکیں۔ ہمارے ساتھیوں نے بھی یہی کیا تھا تلاشی کے دوران ایک کی جیب سے گولڈ لیف کی ڈبی نکلی۔ انٹیلی جینس والوں نے ریکی کی۔ شلوار قمیض میں ملبوس عنایت اللہ عاجز پکڑا گیا۔
تاج محل کو دیکھ کر جو خوشی ہوئی تھی وہ ایک لمحے میں ہوا ہو گئی مگر دوسرے ہی لمحے کچھ حوصلہ ہوا انٹیلی جینس آفیسر نے کہا ’’آپ سب آرام سے جب تک چاہیں تاج محل دیکھیں مگر واپس جانے کا خیال دل سے نکال دیں‘‘۔
ہم سب کے چہروں پر ہوائیاں اُڑ رہی تھیں۔ میں نے پاس کھڑے ہوئے عابد گوندل سے اس جرم کی سزا پوچھی تو اس نے دانت پیستے ہوئے کہا:
’’چھ ماہ قید با مشقت‘‘۔
تاج محل کو دیکھنے کی یہ قیمت تو کچھ بھی نہ تھی۔ ہم نے یہاں کچھ تصویریں بنائیں اور پھر تاج محل کی طرف چل پڑے۔
البتہ اس واقعہ کی وجہ سے نہ تو دل کی دھڑکن متوازن تھی اور نہ ہی چال۔ ایک بار دل تاج محل کے جمال سے دھڑکتا تھا اور دوسری بار جیل کے خیال سے بجھ جاتا تھا۔
کیا اسیری تھی کیا رہائی تھی!
سیڑھیاں چڑھ کر میں تاج محل کے احاطہ میں پہنچا تو جیسے ایک جنت سے دوسری میں آ گیا یقین نہیں آ رہا تھا۔
کچھ خواب بھی حقیقت جیسے لگتے ہیں اور کچھ حقیقتیں بھی خواب جیسی ہوتی ہیں۔
یہ حقیقت بھی خواب جیسی تھی۔ ہر قدم پر آنکھ کھل جانے کا دھڑکا لاحق تھا۔ سنگ مرمر سے بنا بے داغ بے جوڑ تاج محل میرے سامنے تھا اور میں سوچ رہا تھا کہ اللہ کی تخلیقات میں انسان سب سے اعلیٰ تخلیق ہے تو انسان کی تخلیقات میں تاج محل سے اچھی اور کوئی تخلیق نہیں ہو سکتی۔
مجھے لڑکپن کے دن یاد آ رہے تھے۔ اپنا شہر، نہر، اسٹیشن اور تاج محل کی طرف جانے والا راستہ یاد آ رہا تھا۔ اس راستے کے رنگ برنگے سانپوں جیسے پتھر یاد آ رہے تھے۔ اپنا جنون، ولولہ اور شوق یاد آ رہا تھا۔ اپنے ماموں کی باتیں یاد آ رہی تھیں جو وہ تاج محل کے بارے میں سنایا کرتے تھے اور میرے شوق کو مہمیز ملتی تھی۔ میں اِنھی یادوں میں گم نجانے کتنی دیر سے تاج محل کے سامنے کھڑا تھا کہ اچانک میرے کانوں میں کسی نے سرگوشی کی۔
’’اسٹیشن ماسٹر کی بیٹی تاج محل سے بھی زیادہ خوبصورت تھی‘‘۔
مجھے اسٹیشن ماسٹر کا کوارٹر اور پلیٹ فارم پر پڑا وہ خستہ حال بنچ یاد آ گیا جس پر میں بیٹھ کر کوارٹر کے دروازے کی طرف گھنٹوں دیکھتا رہتا مگر وہ تاج محل سے بھی خوبصورت لڑکی کبھی نظر نہ آئی۔
اگر حُسن توازن کا نام ہے تو تاج محل روئے زمین پر اس کی سب سے بڑی مثال کے طور پر ایستادہ ہے۔ محل کے دونوں طرف سرخ پتھر سے بنی عمارتیں اس کے حُسن اور دلکشی میں اضافہ کرتی ہیں۔ جمنا ندی مجھے شاہ جہاں کے دور کی کوئی کنیز لگ رہی تھی جس نے تاج کو ایک نظر دیکھا اور اس پر دل وجان سے فدا ہو گئی۔ اس کے رستے میں بچھ بچھ گئی۔ شرم وحیا کے پردے چاک کر کے اس کے پہلو میں بڑے مزے سے لیٹ گئی ساڑھے چار سو سال ہونے کو آئے ابھی تک لیٹی ہوئی ہے۔ اس عرصہ میں نہ تو اس نے پہلو بدلا اور نہ ہی اپنی نظریں تاج پر سے ہٹائیں اب تو وہ اس کے جسم کا حصہ بن چکی ہے۔
چاندنی راتوں میں جب تاج محل کا عکس اس کے پانیوں میں پڑتا ہے تو اس کے من کی سب مرادیں پوری ہو جاتی ہیں۔
میں جمنا ندی کی قسمت پر رشک کر رہا تھا اور میرے سامنے تاج محل پورے غرور کے ساتھ جلوہ فگن تھا۔ غرور بھی دل موہ لینے والا
غرور جچتا نہیں کسی کو
مگر تمھارا غلط نہیں ہے
تاج محل کا غرور درست ہے۔ اس غرور اور تمکنت سے ہی اس کا حُسن مکمل ہوتا ہے۔ ہر لمحہ اس کی رنگت بدل جاتی۔ نئی خوبصورتی اور حُسن آشکار ہو جاتا ہے آج مجھے پہلی بار یقین آیا تھا کہ سفید رنگ میں سات رنگ ہوتے ہیں۔ میں نے اس کی سفیدی میں کئی قوس وقزح دیکھے۔ تاج محل کو جس طرف سے بھی دیکھیں ایک جیسا نظر آئے گا ایسے لگتا ہے جیسے زمین پر ابھی ابھی کھلا ہو۔ تر و تازہ سفید گلاب کی طرح یا پھر آسمان سے فرشتے اسے بھی ابھی زمین پر لے کر آئے ہوں۔
انسانی ہاتھوں کا بنایا ہوا تو بالکل نہیں لگتا۔
اچانک میرے کانوں میں پھر کسی نے آہستگی سے کہا:
’’وہ تاج محل سے بھی زیادہ خوبصورت اور دلکش تھی‘‘۔
تاج محل کے پہلو سے ایک چہرہ نمودار ہوا اور غائب ہو گیا۔
بس ایک نگاہ میں لٹتا ہے قافلہ دل کا
یہ میرا وہم تھا یا حقیقت؟
کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ میں اس کونے کی جانب تیزی سے بڑھنے لگا وہاں پہنچا تو صرف خوشبو تھی بالکل ویسی خوشبو جیسی بارش کے بعد کچی مٹی کے بدن سے فضا میں بکھر جاتی ہے۔ میری نظریں بے ساختہ اسے ادھر اُدھر ڈھونڈ رہی تھیں کہ گھنی سیاہ زلفیں شانوں پر بکھرائے وہ محل کے دوسرے سرے سے نمودار ہوئی وارث شاہ نے جو ہیر کا سراپا اپنے اشعار میں بیان کیا ہے اس کی عملی تصویر۔
وہ جتنی تیزی سے نمودار ہوتی اتنی ہی تیزی سے غائب بھی ہو جاتی۔ اب مجھے یقین ہو گیا سچ مچ وہاں کوئی ہے۔ میں دوڑ کر اس سرے پر پہنچا تو وہاں کوئی بھی نہ تھا۔ سیاحوں کا ہجوم تھا۔ اس کو اس ہجوم میں پہچاننا بہت آسان تھا مگر وہ کہیں دکھائی نہ دی میں کافی دیر تک تاج محل کے چاروں طرف گھومتا رہا میں اب محل کو بھول کر اس ممتاز محل کو ڈھونڈنے میں مگن تھا جو مجھے اس کی اوٹ میں نظر آئی تھی کافی دیر بعد بھی جب وہ کہیں نظر نہ آئی تو میں تھک کر تاج محل کے پہلو میں بیٹھ گیا۔
باہر انڈین انٹیلی جینس کے جوان ہمیں گرفتار کرنے کے منتظر تھے۔ اِدھر تاج محل کی دلکشی نے ہمیں جکڑ رکھا تھا اور اب وہ اجنبی گھنی سیاہ زلفیں بھی ہمیں اپنا اسیر کر چکی تھیں۔ پھر بھی دل کو عجیب سا سکون اور اطمینان تھا شاعر نے شاید ایسی ہی صورتحال میں کہا ہو گا۔
گوشے میں قفس کے مجھے آرام بہت ہے۔
تاج محل کے پہلو میں واقعی بہت آرام تھا۔ بہت سکون تھا وہی سکون و آرام جو عبادت گاہوں میں ہوتا ہے۔ میری آنکھ لگنے ہی والی تھی کہ مدھر ہنسی فضا میں بکھرتی گئی میں نے آنکھیں کھولیں تو وہ تاج محل کے پہلو میں کھڑی ہنس رہی تھی سفید آنچل کی اوٹ سے اس کا چہرہ صاف دکھائی دیتا تھا۔
یوں لگتا تھا جیسے تاج محل کے پہلو سے ایک اور تاج محل نکل آیا ہو۔ ساڑھے چار سو سال پرانا نہیں بالکل تر و تازہ جیسے ابھی مکمل ہوا ہو۔ سراپا کیا تھا بقول میر:
سراپا پہ جس جا نظر کیجئے
وہیں عمر ساری بسر کیجئے
وہ سچ مچ تاج محل سے کہیں زیادہ سندر تھی۔
اس کے اندر روح تھی
اور تاج محل بے روح
اس کو دیکھ کر میری آنکھوں میں تاج محل کا طلسم ٹوٹ رہا تھا۔
میری خواہش تھی کہ میں تاج محل کے سائے میں بیٹھ کر اُن سب لوگوں کو یاد کروں جو مجھ سے محبت کرتے ہیں۔ ان سب کو دیر تک سوچوں جن سے میں محبت کرتا ہوں۔
تاج محل جیسی ایک خوبصورت نظم لکھوں مگر اس سے کہیں زیادہ پیاری نظم تو میرے آس پاس تھی ہنستی، مسکراتی، شرماتی، جادو جگاتی۔
اچانک مجھے خیال آیا کہ جس کے لئے تاج محل بنایا گیا ہے وہ خود کتنی سندر ہو گی۔
میرا دل زور سے دھڑکنے لگا۔
کہیں یہ ارجمند بانو کی روح تو نہیں سیر کر رہی، کہیں یہ ممتاز محل تو نہیں جو شاہ جہاں کے دل پر حکومت کرتی رہی ہے۔
کہیں یہ وہ لڑکی تو نہیں جس نے ساری دنیا کو محبت کی نشانی دی ہے۔
اس نے پہلی بار ایک نظر میری طرف دیکھا اور مسکرا دی مجھے اپنے سوالوں کا جواب مل چکا تھا میرا شک یقین میں بدل گیا تھا۔
وہ ممتاز محل کی مسکراہٹ تھی۔
ایک طرف ہیں دونوں جہان
ایک طرف تیری مسکان
گوری تیرے جوبن پر
لاکھوں تاج محل قربان
ان آنکھوں کی خاموشی
جیسے بارش کا امکان
ان ہونٹوں کی لرزش سے
اُٹھتے ہیں کیا کیا طوفان
ان پلکوں کی جنبش سے
مردہ دلوں میں آئے جان
جب میں یہ ٹوٹے پھوٹے شعر ارجمند بانو کے قدموں میں رکھنے کے لئے لکھ رہا تھا قریب بیٹھی ایک خاتون ٹیچر اپنے طلبا کو تاج محل کی کہانی سنا رہی تھی۔
’’ہندوستان کے ایک عظیم بادشاہ شاہ جہاں اور ارجمند بانو کی شادی 1612ء میں ہوئی۔ ممتاز محل اس وقت خوبصورتی اور حُسن میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتی تھیں۔ شاہ جہاں بھی اپنی ملکہ پر لاکھ دل و جان سے فدا تھا وہ ہر وقت ارجمند بانو کو اپنے ساتھ رکھتا۔
اسے ممتاز محل کے کھو جانے کا ایک دھڑکا سا لگا رہتا جیسے وہ کوئی چھوٹی سی معصوم بچی ہو وہ تو واقعی معصوم تھی جوانی کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھتے ہی وہ شاہ جہاں کی مضبوط بانہوں میں آ گئی تھی اور اٹھارہ سال تک بادشاہ نے اسے اپنی بانہوں سے باہر نہیں آنے دیا یہاں تک کہ وہ فوجی مہمات کے دوران بھی اُسے اپنے ساتھ رکھتا تھا۔
1630ء میں ملکہ جب آخری بچے کو جنم دیتے ہوئے بہت بیمار ہو گئی تو انتقال سے قبل اس نے شاہجہاں کی بانہوں میں اس سے دو وعدے لیے ایک یہ کہ اس کی وفات کے بعد اس کا ایک شاندار مقبرہ تعمیر کیا جائے جو اپنی مثال آپ ہو دوسرا کسی اور سے شادی نہ کرنے کا۔ شاہ جہاں نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے اور اپنے آنسوؤں کو گواہ بناتے ہوئے دونوں وعدے کر لیے ممتاز محل کو شاہ جہاں کے وعدوں پر اعتبار تھا اس نے بڑے اطمینان اور سکون کے ساتھ اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کر دی شاہ جہاں نے اپنے دونوں وعدے پورے کئے۔
ایک تو اس نے عمر بھر پھر شادی نہیں کی دوسرا ممتاز محل کی وفات کے فوراً بعد ہی اس کی خواہش کے احترام میں مقبرہ کی تعمیر شروع کرا دی اور ممتاز محل سے اپنی محبت کو تاج محل کی صورت میں امر کر دیا۔ فنِ تعمیر کا یہ نادر نمونہ دروازہ، باغیچہ، مسجد، آرام گاہ اور روضہ پر مشتمل ہے اس کی تعمیر میں ایران اور یورپ کے ماہر تعمیرات نے اپنے فن کا جادو جگایا۔ سترہ مختلف مقامات جن میں بغداد اور یمن کے علاقے شامل تھے اس کے لئے سنگِ مرمر منگوایا گیا۔
سترہ سال کی مدت میں تاج محل تعمیر ہوا جس پر 6 کروڑ 52 لاکھ 321 روپے دس آنے لاگت آئی۔ یہ ایک بہت بڑے مستطیل باغ میں بنایا گیا۔ اس کے چاروں طرف سرخ ریت کی دیوار ہے باغ کے دوسرے سرے پر ایک دروازہ ہے جس میں قیمتی پتھر جڑے ہیں اور سنگ مرمر میں قرآنی آیات کی دلکش خطاطی کی گئی ہے۔ اس باغ کو جیومیٹریکل ڈیزائن میں ایران کے باغات کے طرز پر اس طرح بنایا گیا ہے کہ یہ باغ پورا کا پورا مقبرہ کا ایک حصہ نظر آتا ہے۔ سنگ مرمر کی دو نہریں جو اس مربع نما باغ کے درمیان میں آپس میں ملتی ہیں اس باغ کو چار برابر حصوں میں تقسیم کرتی ہیں۔ گنبد اور مرکزی راستے کے درمیان سنگ مرمر کا بنا مچھلیوں کا تالاب ہے جس میں ہر وقت مقبرہ کا عکس منعکس ہوتا رہتا ہے۔ بنیادی طور پر تاج محل ایک مربع نما عمارت ہے۔ اس کے چار کونوں پر شاندار خوبصورت مینار ہیں۔ اس عمارت میں سب سے دلکش اس کا گنبد ہے جو اس عمارت کے درمیان سے اُبھرا ہوا نظر آتا ہے۔ گنبد کا قطر 70 فٹ اور پوری عمارت 120 فٹ بلند ہے۔ اس کے چار کونوں پر چار چھوٹے گنبد ہیں۔ عمارت کی ہر سمت پر مخروطی محرابیں مقبرہ کے لئے ایک شاندار دروازہ بناتی ہیں۔
مرکزی دروازہ کی محرابوں کے ساتھ چھوٹی محرابیں ہیں جو ایک دوسرے کے اوپر بنی ہوئی ہیں اس کا فرش شطرنج کی بساط کی مانند سفید اور سیاہ ماربل سے بنایا گیا ہے جو بہت متاثر کن ہے۔
قرآن کی آیات اس مقبرہ پر لکھ دی گئی ہیں جو کہ اس کی خوبصورتی میں بے پناہ اضافہ کرتی ہیں خطاطی کا یہ اہم ترین کام شیراز (ایران) کے ماہر خطاط امانت خان نے کیا تھا۔ امانت خان شیرازی کا نام ہی وہ واحد نام ہے جو تاج محل کے گنبد کے اندرونی طرف لکھا ہوا ہے۔ جو اس نے اپنے ہاتھ سے لکھا ہے۔ تاج محل کی تعمیر کو اگر دیکھا جائے تو اس میں بڑی خوبصورتی سے مغلیہ طرز تعمیر میں ایرانی، وسطی ایشیائی اور اسلامی رنگ شامل کیا گیا ہے۔ محرابوں پر قرآنی آیات کندہ ہیں۔
تاج محل کے مرکزی کمرے میں ممتاز محل اور شاہجہاں کے پتھر کے تابوت رکھے ہیں جن پر بڑے نفیس اور باریک نقش وں گار بنے ہیں۔ ان کے جسم بہت نیچے قبروں میں دفن ہیں۔ شاہ جہاں اور ممتاز محل کے ان نمائشی تابوتوں پر پچی کاری کا دلکش کام کیا گیا ہے۔ جن میں بہت سے قیمتی پتھر جڑے ہیں اور دلکش خطّاطی میں اللہ تعالیٰ، ملکہ اور بادشاہ کی تعریف کی گئی ہے۔ تاج محل کی دوسرے جانب سرخ ریت کے پتھر سے بنی تین گنبدوں والی ایک مسجد بھی ہے۔
طلباء کی آنکھوں میں شوق اور دلچسپی کے ستارے دیکھ کر خاتون ٹیچر نے اپنی کہانی کو مزید دلچسپ بنا لیا کچھ یوں۔
’’ارجمند بانو، ملکہ نور جہاں کے بھائی آصف خان کی صاحبزادی تھی۔ ملکہ نور جہاں نہیں چاہتی تھی کہ ارجمند بانو کی شادی شاہ جہاں سے ہو جو اس وقت مغل بادشاہ جہانگیر کا ولی عہد تھا۔ ملکہ نور جہاں کی خواہش تھی کہ شاہ جہاں کی بجائے اس کے داماد شہر یار کو ولی عہد بنایا جائے اپنی اس خواہش کو پورا کرنے کے لئے اس نے شاہ جہاں کے خلاف سازش کی اور شہنشاہ جہانگیر کو کہہ کر اسے حیدر آباد دکن فتح کرنے بھیج دیا جہاں سے شاہ جہاں کی واپسی کے امکانات بہت کم تھے لیکن ہوا یوں کہ شاہ جہاں نے دکن فتح کر لیا جب یہ اطلاع دارالحکومت پہنچی تو ملکہ نور جہاں نے اپنے بھائی آصف خان کو بلا کر تنبیہہ کی کہ وہ شاہ جہاں کے ساتھ ارجمند بانو کی شادی نہ کرے۔ آصف خان نے لیت ولعل سے کام لیا تو نور جہاں نے اسے خبردار کیا کہ وہ شاہ جہاں کو واپس آنے ہی نہیں دے گی۔ جس کے بعد نور جہاں نے شہنشاہ جہانگیر کو کہہ کر شاہ جہاں کو نائب السلطنت کا خطاب دلوا دیا کہ یہ اسے حیدر آباد دکن فتح کرنے کی خوشی میں دیا جا رہا ہے اور اب اسے واپس آنے کی ضرورت نہیں وہ راستے سے ہی واپس لوٹ کر حیدر آباد دکن کا انتظام سنبھال لے۔ شاہ جہاں نے شاہی حکم کی پرواہ نہ کرتے ہوئے سفر جاری رکھا شاہی محل میں جب وہ ارجمند بانو سے گفتگو کر رہا تھا ’’کہ میں اپنی ایک شرط پوری ہونے تک حیدر آباد دکن واپس نہیں جاؤں گا‘‘۔
شہنشاہ جہانگیر موجود تھا۔ اس نے شرط پوچھی تو شاہ جہاں نے کہا۔
’’ارجمند بانو سے شادی‘‘۔
چنانچہ جہانگیر نے دونوں کی شادی کرا دی یوں ملکہ نور جہاں کی کوششیں رائیگاں گئیں۔
اُس آنکھ کا نشہ کافی ہے
ممتاز محل کو اپنا کلام سُنانے کا حوصلہ کہاں سے لاتا۔
تاج محل کے سنگِ مرمر جیسا تو ایک مصرعہ بھی نہ ہوا۔
اُس نے نظر نظر میں ہی ایسے بھلے سُخن کہے
میں نے تو اُس کے پاؤں میں سارا کلام رکھ دیا
حالانکہ وہ کلام تو اس قابل بھی نہ تھا۔
کچھ دیر بعد ارجمند بانو اپنے ناز و انداز دکھاتی، اپنے حُسن سے تاج محل کو شرماتی دوبارہ جا کر اپنی ابدی آرام گاہ میں سو گئی۔
شاہ جہاں کی زندگی کے آخری دن مجھے یاد آنے لگے۔
چاروں طرف اُداسی پھیلتی گئی۔
شاہ نے گوشہ تنہائی میں جو شب و روز گزارے وہ بہت اذیت ناک تھے۔
اُس کے دل پر کیا گذری ہو گی۔
شاہ نے ممتاز محل کی یاد میں کتنے آنسو بہائے ہوں گے۔
جب وہ آگرہ قلعہ کے قید خانے سے اپنے تعمیر کردہ اس عظیم شاہکار کو حسرت و یاس سے دیکھتا ہو گا تو اُسے کتنا دکھ ہوتا ہو گا ممتاز محل کے ساتھ محبت بھرے گذرے لمحوں کو یاد کرتا ہو گا تو دل لہو سے بھر جاتا ہو گا۔
بادشاہوں کے جیون بھی عجیب ہوتے ہیں۔
جتنی بڑی خوشیاں اتنے بڑے دکھ۔
انڈین پولیس کا خیال آتے ہی ایسا لگا جیسے میں بھی آگرہ فورٹ کے قید خانے سے تاج محل کا نظارہ کر رہا ہوں۔
تاج محل کو جتنے سیاح دیکھنے آئے ہوئے تھے۔ ان کے چہرے دیکھنے لائق تھے۔ ہر چہرے پر حیرانی، تجسس اور چمک منفرد تھی۔ انداز جدا تھا۔
اُن میں ایک دراز قد اور دراز زلف گوری تاج کے ساتھ لگ کر اس طرح کھڑی تھی۔
جیسے تصویر لگا دے کوئی دیوار کے ساتھ
تین باتیں ہو سکتی تھیں۔
یا تو وہ اس ملال میں تھی کہ یہ تاج محل اُس کے لئے کیوں نہیں بنایا گیا یا وہ سوچ رہی تھی کہ اسے بھی کوہِ نور ہیرے کی طرح چرایا کیوں نہیں گیا۔
ہر خوبصورت اور قیمتی چیز پر ہمارا حق ہے
تو یہ ہندوستان کے حصہ میں کیوں؟
یا پھر وہ اپنے بوائے فرینڈ یا لوّر کو یاد کر رہی تھی۔
اُداس اُداس سی تھی۔
خوبصورت آنکھوں میں اُتر کر اُداسی بھی خوبصورت ہو جاتی ہے۔
حسین چہروں پر غم بھی رنگ کی طرح چڑھتا ہے اُن کو پہلے سے بھی زیادہ حسین بنا دیتا ہے۔
اُس نے ٹائٹ بلیک جینز اور پنک ٹی شرٹ پہنی ہوئی تھی۔
محبت کے رنگ میں رنگی ہوئی۔
تاج محل کے پہلو میں مشرق و مغرب کا حُسن آپس میں گھل مل گیا تھا۔
میں اُسے دور سے دیکھتا رہا، قریب نہیں گیا۔
وہ اپنے دھیان میں بیٹھی مجھے اچھی لگی تھی۔
شاخ بدن سے لگتا ہے
مٹی راجستھانی ہے
یہ محبت کی یادگار دلوں کو ملانے والی ہے۔
جدا کرنے والی نہیں۔
ہم سب دوستوں نے ایک دوسرے کو چند لمحوں میں تلاش کر لیا
جیل یاترا سے بچنے کے لئے کچھ کرنا ضروری تھا۔
ستیہ جی کے علاوہ وہاں ہمارا کون تھا۔
فیصلہ یہی ہوا کہ اُن کو فون کیا جائے۔
پر کیسے کیا جائے؟
پولیس والوں کی درخواست، منت، سماجت اور کیا؟
چلنے کیلئے اٹھے تو دل بیٹھ گیا۔
تاج محل سے جانے کا تصور بہت بھیانک تھا۔
مگر جانا تو تھا۔
سو ہم تاج محل کو چھوڑ کر جا رہے تھے۔
مجھے جمنا ندی کی قسمت پر ایک بار پھر رشک آ رہا تھا جو بڑے مزے سے تاج محل کے پہلو میں لیٹی ہوئی تھی۔
اُدھر سورج ڈوب رہا تھا اور اِدھر دِل۔
خلیل جبران نے سچ کہا ہے:
’’میرے محبوب کا گھر پہاڑ کی چوٹی پر ہے۔ جب میں اُس سے ملنے جاتا ہوں تو پہاڑ پر چڑھتے ہوئے پتہ بھی نہیں چلتا یوں لگتا ہے جیسے اُتر رہا ہوں اور جب مل کر واپس آتا ہوں تو قدم اُٹھانا مشکل ہو جاتا ہے ایسا لگتا ہے جیسے پہاڑ پر چڑھ رہا ہوں، میرے قدم بھی نہیں اٹھتے تھے‘‘۔
جیسے ایڑیوں میں پارہ بھر گیا ہو۔
پھر بھی وہ سب زنجیریں جنھوں نے جکڑ رکھا تھا ایک ایک کر کے ٹوٹ رہی تھیں اور تاج محل مجھ سے دور ہوتا جا رہا تھا۔
اُس وقت کے ہوم منسٹر ایل-کے ایڈوانی کے ایک فون نے ہمیں چھ ماہ کی قید با مشقت سے تو بچا لیا مگر تاج محل کے پہلو سے اُٹھ کر آنے والی سزا سے کوئی نہ بچا سکا۔
جس طرف جاؤں وہی عالم تنہائی ہے
جتنا چاہا تھا تمہیں اتنی سزا پائی ہے
بھری دنیا میں جی نہیں لگ رہا تھا۔
دوست پی رہے تھے۔
بھنگڑے ڈال رہے تھے۔
رہائی کو Celebrate کر رہے تھے۔
میرے سامنے بوتل پڑی تھی۔
میں بھی جدائی کو Celebrate کر رہا تھا۔
مگر اُن آنکھوں کو یاد کر کے۔
تم اپنا جشن منا لینا میں اُس کی یاد مناؤں گا
اُس آنکھ کا نشہ کافی ہے یہ بوتل موتل رہنے دو
پجارو دہلی جانے والی سڑک پر یوں جھوم جھوم کے جا رہی تھی جیسے اُس نے بھی پی رکھی ہو حالانکہ پی تو سردار جی نے رکھی تھی مگر جھوم پجارو رہی تھی خالد احمد کے کالم کی طرح مجھے اس بات کی سمجھ بھی آج تک نہیں آئی۔
میں نے کہیں پڑھا تھا غم کے موقع پر اگر رونا نہ آئے تو کوئی بات نہیں، ہنسنا نہیں چاہئے۔
سب ہی گاڑی میں مستی کر رہے تھے، گا رہے تھے، لطیفے سُنا رہے تھے میں شیشے سے باہر آگرہ کی طرف تیزی سے بھاگتے منظروں کو دیکھ رہا تھا۔ پھر یہ منظر میری آنکھوں میں تیرنے لگے اور پھر ایک ایک کر کے ڈوب گئے۔
شام گہری سے گہری ہوتی گئی اور اُس نے شب کا پیرہن پہن لیا۔
سردار جی نے پجارو اچانک ایک ہوٹل پر روک دی۔ وہ ہوٹل بھی سرداروں کا تھا۔ لاہور میں جس طرح پٹھان رکشہ ڈرائیور اکثر پٹھانوں کے ہوٹل سے چائے پیتے اور کھانا کھاتے ہیں یہ اُس طرح کی سوچ تھی۔
ساگ، پراٹھے اور مکھن ٹیبل پر دیکھ کر منہ میں پانی بھر آیا۔ پہلی بار سردار جی کی عظمت کا قائل ہونا پڑا۔
ساگ تو پنجاب کا تھا مگر پراٹھا اُڑیسہ کا لگ رہا تھا، چھوٹا دبلا پتلا کمزور۔
ملک میں یا ملک سے باہر ہم پاکستانی جہاں بھی جائیں پکڑے جاتے ہیں تاج محل سے رہائی ملی تو ساگ اور پراٹھوں نے پکڑوا دیا۔ جب ہم آٹھ لوگوں نے چالیس پراٹھے کھانے کے بعد مزید پراٹھوں کے لئے ویٹر کو آواز دی تو ہوٹل کے مالک بذاتِ خود ہماری زیارت کے لئے تشریف لائے صرف یہ دیکھنے کے لئے کہ یہ کس ملک کے باشندے اُن کے ہوٹل کے پراٹھوں کو شرف بخش رہے ہیں۔ اُنھیں دیدار کرتے ہی پتہ چل گیا کہ پاکستانی ’’فوجاں نیں‘‘۔
وہ اُس وقت تو پسپائی اختیار کر گئے مگر بل بناتے ہوئے بھرپور حملہ کیا اور ہماری جیبیں ہلکی کر دیں۔ ساگ پراٹھے 1200 روپے انڈین کرنسی میں تھے۔
میں نے عابد گوندل سے کہا:
یہ بل پاکستان دشمنی کا دستاویزی ثبوت ہے۔
اس نے ہمیشہ کی طرح نفی میں سر ہلایا اور جواب دیا:
’’یہ آپ کے تاج محل کی طرف جانے والے راستے کی برکات ہیں‘‘۔ ’’آپ کے تاج محل‘‘ کے الفاظ سُن کر ہم خود کو مابدولت سمجھنے لگے اور کمال فیاضی سے اپنے حصہ کی رقم عابد گوندل کی ہتھیلی پہ رکھ دی۔
ہم رات گئے آگرہ سے دِلّی لوٹے تو یہ خیال آتے ہی دل بہت خوش ہوا کہ کل ہماری پاکستان روانگی ہے۔ انڈیا میں گزرے تیرہ دن ہمیں تیرہ صدیوں کے برابر لگ رہے تھے وطن کی یاد نے آنکھیں بھگو دیں نجانے کب نیند آ گئی۔
یہ تو مفت کی رسوائی تھی
صبح اُٹھ کر ہم نے لاجپت بھون کے گراؤنڈ میں بچوں کے ساتھ کرکٹ کھیلی۔ اس دن کے بعد ہم نے سوچا آئندہ کبھی بچوں کے ساتھ کرکٹ نہیں کھیلیں گے ہمارے ساتھ کچھ اچھا نہیں ہوا تھا بہت چوکے چھکے پڑے تھے یہ تو مفت کی رسوائی تھی اس سے بہترہے بندہ کسی لڑکی کے چکر میں رسوا ہو۔
کمرے میں آ کر ہم نے اپنے بیگ سے وہ لمبی لمبی فرمائشی فہرستیں نکالیں جو دوستوں، رشتہ داروں، بیگم، بچوں اور ہمسایوں نے آتے وقت ہمارے ہاتھ میں تھما دی تھیں اور آنہ ٹکہ دئے بغیر بار بار تاکید بھی کر دی کہ خالی ہاتھ مت آنا۔ ہم نے ان تمام لِسٹوں میں سے بیگم اور بچوں کے فرمائشی پروگرام پر نشان لگایا کیونکہ پاکستان پہنچ کر ہم نے سیدھا گھر جانا تھا۔ اس لئے ان کی چیزیں بہرحال ہمیں خریدنی تھیں۔
ساڑھیوں اور مصنوعی جیولری کے علاوہ انڈیا میں پاکستان سے کچھ الگ نہیں جو خریدا جا سکے سو ہم نے بھی اسی پر اکتفا کیا۔ نیز اب ہندو بنیئے سیانے ہو گئے ہیں پاکستانی چہرہ تو ویسے بھی دور سے پہچانا جاتا ہے سو قیمت تین گنا زیادہ مانگتے ہیں۔ یہاں کے دوکاندار بھی اب ہمارے ہاں کے پٹھانوں کی طرح ’’اُسترے‘‘ بن گئے ہیں۔
واپس پاکستان ہمیں ریل گاڑی سے جانا تھا اس لئے ہم بہت جذباتی ہو رہے تھے جلدی میں بہت سی یادیں لاجپت بھون کے کمرے میں رکھی رہ گئیں کچھ چہرے دیواروں سے اُتارنا بھول گئے صرف وہی یادیں ساتھ رہیں جو سانسوں میں خوشبو کی طرح بس گئی تھیں صرف وہی چہرے ساتھ آئے جو آنکھوں میں خوابوں کی طرح ٹھہر گئے تھے۔
دلّی اسٹیشن دور سے لاہور اسٹیشن جیسا لگ رہا تھا۔ اندر داخل ہوئے تو ’’بلّے بھئی بلّے‘‘۔ اتنی رونق، اتنی گہما گہمی، اتنے پلیٹ فارم، کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کدھر جائیں؟
مختلف پلیٹ فارموں پر مدھر آوازوں میں بغیر کسی توقف کے اناؤنسمنٹ جاری تھی۔ اگرچہ اس خوشی کی کوئی انتہا نہیں تھی کہ ہم اپنے گھر اپنے دیس پاکستان جا رہے تھے پھر بھی جب اُس بھیگی ہوئی سرد رات میں ٹرین نے دِلّی کا ریلوے اسٹیشن چھوڑا تو دِل کو بہت دُکھ ہوا۔
ہماری بھیگی آنکھوں میں انڈیا میں گزرے شب و روز کی فلم چلنے لگی پیچھے بھاگتے منظروں میں ہم نے ایک ایک چہرے کو الوداع کہا ایزون کی ہنسی کو الوداع کہا۔ پلّاوی کی اداؤں کو الوداع کہا۔ پرساد کی باتوں کو الوداع کہا ستیہ جی کی شخصیت کو الوداع کہا اور خیالوں ہی خیالوں میں نجانے کس وقت ہماری آنکھ لگ گئی۔
صبح ابھی سورج طلوع نہیں ہوا تھا کہ ہم اٹاری ریلوے اسٹیشن پر پہنچ گئے۔ سورج نکلا تو اس کی کرنوں کے ساتھ ڈاکٹر ایس-اے محال اور اُن کی بیگم امرتسر سے ہمارے لئے ناشتہ لے کر آئے ہوئے تھے وہ بھی پنجاب کا روایتی ناشتہ، ساگ، مکھن، پراٹھے، لسی سب سے بڑھ کر یہ کہ اس بات کی خبر رکھنا کہ ہم فلاں ٹرین سے صبح اٹاری پہنچ رہے ہیں میزبانی کی عمدہ مثال تھی۔
اُنھوں نے اپنی باتوں، اخلاق، محبت اور دریا دلی سے سچ مچ ہمارے دِل جیت لیے تھے جب ٹرین اٹاری سے واہگہ میں داخل ہوئی تو دیکھتے ہی دیکھتے اُس پار کے سب منظر گم ہو گئے کچھ چیزیں اپنی نہیں ہوتیں لیکن اُن کے کھو جانے کا دُکھ بہت ہوتا ہے۔
٭٭٭
ماخذ:
https://salamurdu.com/category/urdu-writings/urdu-safar-namay/page/2
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...