(Last Updated On: )
آج کیمپ میں ہمارا آخری دن تھا۔ صبح پو پھوٹنے سے پہلے اس کہکشاں نے بکھر جانا تھا۔
یوں لگتا تھا جیسے سب نے دِل ہی دِل میں تہیہ کر لیا تھا کہ وہ آج کے دن کو یادگار بنا دیں گے۔
ستیہ جی کے حُکم کے مطابق تمام شرکاء نے سب سے پہلے گُردوارے جانا تھا۔ اس کے لئے اُنھوں نے علی الصبح ٹریکٹر ٹرالیاں منگوا لی تھیں۔
ٹریکٹر ٹرالیاں؟؟؟
ایک تو شرکاء کی اتنی بڑی تعداد کے لئے گاڑیوں کا انتظام کرنا مشکل تھا دوسرا راستہ کچا تھا اس لئے ٹریکٹر ٹرالی سے بہتر آپشن اور کیا ہو سکتا تھا۔
مردانہ اور زنانہ ٹرالیاں علیٰحدہ نہ تھیں۔ اس لئے اس سفر کی صعوبتیں برداشت کرنے کے لئے سب ہی بخوشی رضا مند ہو گئے۔ سب ہنسی خوشی سوار ہونے لگے۔ پرساد اپنی اسٹوڈنٹس کے ساتھ ٹرالی میں بیٹھا تھا۔ اُس نے مجھے دیکھا تو فوراً بُلا لیا۔ اُس نے ڈفلی ہاتھ میں تھامی ہوئی تھی۔
راستہ بھر گانے کا پروگرام بنا رکھا تھا۔
قافلہ اپنی منزل کی طرف روانہ ہوا تو ہر ٹرالی سے گانوں کی آوازیں آنے لگیں۔ گانے بجانے کا انتظام سب نے ہی کیا ہوا تھا۔ لڑکے لڑکیاں مِل کے گا رہے تھے۔ اُنھوں نے ٹولیاں بنا لی تھیں۔
راستہ بہت خراب تھا۔
اتنے دھکّے لگے کہ سب ’’فاصلے ختم ہو گئے‘‘۔
سامنے گُردوارہ دیکھ کر جان میں جان آئی۔ نیچے اُترے تو پتہ چلا صرف پسلیاں ہی نہیں دِل بھی اپنی جگہ سے ہِلے ہوئے ہیں۔
گردوارے سے باہر بہت سے بتوں نے ہمارا استقبال کیا۔
یہ پتھر کے بنے ہوئے مجسمے ہیں جو ہندوستانی حکومت کی ریشہ دوانیوں کا مُنہ بولتا ثبوت ہیں۔ ان مجسموں کے ذریعے سکھوں پر مسلمانوں کے مظالم کو Capture کیا گیا ہے۔
کہیں مسلمان بادشاہ کے حُکم پر ننھے سِکھ گرو کی مسلمان سپاہی کھوپڑی اُتار رہے ہیں۔
کہیں سِکھوں کے سر قلم کیے جا رہے ہیں۔
یہ سب مناظر بہت دِل دِہلانے والے تھے اور میں ان کو دیکھ کر اس سوچ میں گُم تھا کہ آخر ان سب کا مقصد کیا ہے۔ اور ہمیں یہاں کیوں لایا گیا ہے؟
کہیں اس کے پیچھے ہندو ذہنیت تو کار فرما نہیں؟
میرے خدشات بڑھتے جا رہے تھے۔
تقسیم کے وقت ہندوؤں نے جس چالاکی اور مکاری سے مسلمانوں اور سکھوں کو آپس میں لڑایا تھا یہ مجسمے بھی اُسی سوچ کی ایک کڑی تھے۔ ان کا مقصد اس کے علاوہ اور کیا تھا کہ مسلمان اور سکھ کبھی ایک دوسرے کے قریب نہ آئیں۔
مجھے حیرانی اس بات پر ہو رہی تھی کہ سکھوں نے گفتگو کے دوران بارہا اس دُکھ کا اظہار کیا تھا کہ تقسیم کے وقت ہندوؤں کی سازش کی وجہ سے ہم نے مسلمانوں کا قتلِ عام کیا جس پر ہمارے سر شرم سے جھکے ہوئے ہیں اگر وہ ہندو سازش کو سمجھ چُکے تھے تو اُنھوں نے ابھی تک یہ نفرت کی یادگاریں گِرائی کیوں نہی تھیں۔ اگر ہم بھی جواباً ننکانہ صاحب میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کے ظلم و بربریت کی یادگاریں تعمیر کر دیں تو اس کا کیا نتیجہ نکلے گا۔
مجھے یہاں آ کر بہت دُکھ ہوا تھا۔ مَیں ہی نہیں سب اس پر معترض تھے۔ ستیہ جی سمیت کسی کے پاس ہمارے سوالوں کا کوئی جواب نہیں تھا۔
گُردوارے میں داخل ہونے سے پہلے بہتے ہوئے پانی سے گذرنا تھا تاکہ پاؤں خود بخود دھل جائیں۔
مجھے تنہا پانی میں اُترنا اچھا نہیں لگتا چاہے وہ کتنا ہی کم کیوں نہ ہو۔ جب تک کوئی میرا ہاتھ نہ تھام لے میں پانی میں پاؤں نہیں رکھ سکتا۔ میں نے جوتے اُتار کر اِدھر اُدھر دیکھا تو دور سے پنکی سائیکہ آتی دکھائی دیں۔ وہ سفید ساڑھی میں ملبوس کسی پری کی طرح لگ رہی تھیں۔
سانولی پری!
وہ قریب آئی تو اُس نے اپنا ہاتھ خود بخود آگے بڑھا دیا شاید اُسے بھی پانی سے ڈر لگتا تھا۔ اُس نے میرا ہاتھ تھام لیا مگر اتنی آہستگی سے شاید جتنی آہستگی سے پانی بہہ رہا تھا۔
پانی میں پاؤں رکھا تو اتنا ٹھنڈا کہ پنکی کے ہاتھوں کی گرمی کا احساس ہونے لگا مجھے رسا صاحب کے شعر یاد آ رہے تھے۔
گرمی اُس کے ہاتھوں کی
چشمہ ٹھنڈے پانی کا
پہلی آندھی موسم کی
پہلا سال جوانی کا
ہماری جوانیوں کا پہلا سال نہ تھا اس لئے ہم نے پانی سے باہر پاؤں رکھتے ہی ہاتھ چھُڑا لیے اور گردوارے کے صحن میں چلنے لگے۔ میں نے ٹھنڈے فرش پر چلتے ہوئے گردوارے کی طرف دیکھا تو دیکھتا ہی چلا گیا۔ عمارت بہت منقش اور دیدہ زیب تھی جیسا کہ ہمارے ہاں صوفیاء کے مزار ہوتے ہیں۔ اُس میں بالکل ویسی اپنائیت تھی۔
جگہیں بھی انسانوں کی طرح ہوتی ہیں۔
کچھ جگہیں ایسی ہوتی ہیں جن کے پاس آ کر خوشی ہوتی ہے۔ اُنھیں دیکھ کر آنکھوں کو ٹھنڈک اور دِل کو قرار مِلتا ہے۔
جیسے برسوں پُرانا کوئی بچھڑا دوست مِل گیا ہو۔
کمرے، دیواریں، دروازے اور صحن اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں۔ خموشی کلام کرتی ہے۔ ہوائیں گیت گاتی ہیں۔ پیڑ جھومتے ہیں اور پتے تالیاں بجاتے ہیں۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے جب میں خواجہ غلام فرید کے مزار پر پہلی بار گیا تھا تو یوں لگا تھا جیسے میں کسی غمخوار اور ہمدرد دوست کی بانہوں میں آ گیا ہوں۔ وہاں سے واپس آنے کو جی نہیں چاہتا تھا۔ کُچھ دِل ہی جانتا ہے کہ میں کس دِل سے واپس آیا تھا۔
گُردوارے کے در و دیوار بھی مہربان دوست کی طرح لگ رہے تھے۔ میں دیوار سے لگ کر کافی دیر بیٹھا رہا۔
گُردوارے کے اندر بڑی بڑی پینٹنگز بنی ہوئی تھیں۔ جس میں سکھ قوم کی بہادری اور دلیری دکھائی گئی تھی۔
کُچھ سکھ گرنتھ پڑھتے ہوئے اپنے اردگرد سے بالکل بے خبر تھے۔ ٹرالی میں جتنے دھکے لگے تھے اُتنی شدّت کے ساتھ بھوک بھی لگ رہی تھی۔ یہاں لنگر کا انتظام ہر وقت ہوتا ہے۔
دھکم پیل اور افراتفری کے بغیر۔
بڑا سا ہال کمرہ اور اُس میں چونے کی لکیریں۔
برتن اُٹھائیں۔
ہاتھ دھوئیں۔
اور لکیر پر لائن میں بیٹھ جائیں۔
خدمتگار آئیں گے اور پرشاد ڈال دیں گے۔
سکون سے پیو، اطمینان سے کھاؤ۔
مگر جاتے جاتے برتن دھو کر رکھ جاؤ۔
آنے والوں کو پریشانی نہ ہو۔
یہاں وقت بتانے کے لئے کچھ خاص نہ تھا پھر بھی دن مزے سے گذر گیا۔
’’گرو جی کی کرامت تھی کیا؟‘‘
شام کے سائے ڈھلنے لگے تھے۔
پرندوں کی طرح ہم بھی واپسی کی اُڑان بھر رہے تھے۔
وہی گانے، وہی تالیاں وہی ہلہ گلہ وہی موج مستی۔
اس بار بھی ٹرالی میں دھکّوں سے فاصلے ختم ہوتے گئے۔
اندھیرا اور گہرا ہوتا گیا۔
اے رب میں تیری پناہ مانگتا ہوں اندھیرے سے جب وہ چھا جائے۔
واپسی کا راستہ اس قدر جلدی طے ہو گیا کہ پتہ ہی نہیں چلا۔ میں اس راز کو آج تک سمجھ نہیں پایا۔
میں جب بھی کسی اجنبی راستے پر جاتا ہوں چاہے راستہ مختصر اور سفر خوبصورت ہو جاتے ہوئے وقت کا احساس تو ہوتا ہے مگر آتے ہوئے نہیں۔
شاید واپسی کا راستہ جلد طے ہوتا ہے۔
بچپن سے جوانی تک آنے کا احساس ہوتا ہے۔ جوانی سے کب بڑھاپے میں انسان چلا جاتا ہے اس کا احساس نہیں ہوتا۔
ڈھوڈیکے میں آج آخری شام تھی۔
مگر اتنی جوان کہ جواں دِل اور جواں ہو گئے تھے۔
آج کی شام۔
کوئی طے شدہ پروگرام نہ تھا۔
میوزیکل نائٹ تھی۔ لائٹس جل بجھ رہی تھیں۔
صرف اور صرف بھنگڑا پروگرام تھا۔
آج سب کی باری تھی۔ لہٰذا سب لوگ، سب کچھ بھول کے اس لمحے میں جی رہے تھے جس میں صرف مستی تھی۔ دیوانگی تھی اور نشہ تھا۔
مہتہ اور میں اس بار بھی دور سے بیٹھ کر یہ تماشا دیکھ رہے تھے۔ شاید اُسے بھی میری طرح دیکھنا زیادہ اچھا لگتا تھا۔ مہتہ کا پہلا اور آخری شوق تصویریں کھینچنا تھا۔ وہ لگاتار تصویریں بنائے جا رہا تھا۔
اُدھر اسٹیج پر اب ایک نیا کھیل شروع ہو چُکا تھا۔
لڑکے لڑکیوں نے ایک دوسرے کے ہاتھ پکڑ لیے تھے۔
میوزک بھی فاسٹ ہو گیا تھا۔
لٹو کی طرح گھومتے ہوئے ایک دوسرے کو گرانا تھا۔
ہاتھ میں ہاتھ باہمی رضا مندی سے آئے تھے اور اس کے پیچھے گذشتہ سات دن کی رفاقت کار فرما تھی۔ ناکام عاشق ایک طرف منہ لٹکائے حسرت و یاس کی تصویر بنے دیکھ رہے تھے۔
مہتہ نے کیمرہ میری طرف فوکس کر کے ایک تصویر بنا لی شاید وہ مجھے بھی ناکام عاشق سمجھ رہا تھا اس لئے میرے چہرے کے تاثرات کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کر لئے تھے۔
گھمانے اور گرانے والا کھیل بہت دلچسپ تھا۔ سب کا ہی ہنس ہنس کے بُرا حال ہو رہا تھا۔ لڑکے لڑکیوں کی نسبت زیادہ گر رہے تھے۔ یا تو جان بوجھ کر وہ ایسا کر رہے تھے یا پھر اُن کو چڑھی ہوئی تھی۔ مہتہ نے میری ایک اور تصویر بناتے ہوئے کہا:
’’کلچر وطن اور مذہب سے بھی زیادہ مضبوط بندھن ہے‘‘۔ دبئی میں پاکستانیوں کی عربوں کی نسبت انڈین سے زیادہ دوستیاں ہیں۔ بلکہ دُنیا کے کسی ملک میں رہتے ہوئے ایک کلچر کے لوگ جلدی ایک دوسرے کے قریب آ جاتے ہیں۔‘‘
میں نے ایک بار پھر سب کو موج مستی میں دیکھا تو مہتہ کی بات میں صداقت نظر آئی۔
پھر اچانک پلّاوی آ گئی اور اُس نے آتے ہی مہتہ کا ہاتھ پکڑ کر کہا۔
’’آؤ نہ بھیّا بڑا مزہ آئے گا‘‘۔
پتہ نہیں مہتہ کے من میں کیا تھا اُس نے کہا:
’’حسن کو لے جاؤ‘‘۔
پلّاوی نے پہلی بار میری طرف ہاتھ بڑھایا اور اپنے مخصوص انداز میں مُسکراتے ہوئے کہا:
’’Come, Come‘‘
میں پلّاوی کو دور سے دیکھنا چاہتا تھا۔ اُس سے ڈھیروں باتیں کرنا چاہتا تھا مگر اُس کا ہاتھ پکڑنا اور پھر اسٹیج پر جانا مجھے منظور نہیں تھا۔ یوں لگ رہا تھا کوئی چھوٹی خوشی مجھے بہت بڑا دُکھ دینے والی ہے میں ڈر گیا۔ میرے ماتھے پر پسینہ آ گیا۔
میں نے بہت انکار کیا مگر
پلّاوی کا اصرار زیادہ خوبصورت تھا۔
مہتہ نے بھی اتنی بار کہا کہ میرا انکار خموشی میں بدل گیا۔
وہ میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ کھینچ لے گئی۔
مانگ لیتا ہے دِل و جان وہ ہنستے ہنستے
اور مرے پاس بہانہ بھی نہیں ہوتا ہے
میرے پاس کوئی عذر کوئی بہانہ نہ تھا۔
ہم بھی اب اوروں کی طرح ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر گھوم رہے تھے۔ میوزک اب پہلے سے بھی زیادہ فاسٹ ہو گیا تھا یا شاید مجھے ایسا لگ رہا تھا۔
ہاتھ چھڑانے کا واحد راستہ یہ تھا کہ میں پلّاوی کو گرا دوں۔ میں جلد از جلد اُس سے اپنا ہاتھ چھڑانا چاہتا تھا۔ مجھے بہت اذیت ہو رہی تھی۔ میں نے پلّاوی کو گرانے کی پوری کوشش کی مگر وہ جتنی نازک اندام نظر آتی تھی اُس سے کہیں زیادہ مضبوط نکلی۔
سب ہی لڑکیاں ایسی ہوتی ہیں۔ شکل سے جتنی معصوم اور بھولی بھالی لگتی ہیں اندر سے اُتنی چالاک اور تیز ہوتی ہیں۔ کیسے کیسے زندہ آدمیوں کو مار کے رکھ دیتی ہیں۔ وہ جتنی نازک اور کمزور نظر آتی ہیں اُس سے کہیں زیادہ مضبوط اور حوصلہ مند ہوتی ہیں۔
اچانک پلّاوی نے اپنا ہاتھ چھُڑا لیا اور میں اسٹیج پر گرتا چلا گیا۔
میری بد حواسی اور چہرے کے تاثرات دیکھ کر اُس کا ہنس ہنس کے بُرا حال ہو رہا تھا۔ مجھے بھی چکر آ رہے تھے زمین آسمان گھومتے دکھائی دے رہے تھے۔
سب آوازیں کہیں گُم ہو گئی تھیں۔ کائنات میں صرف اور صرف پلّاوی کے قہقہے گونج رہے تھے۔
اس میدان میں بن پئے گرنے والا شاید میں پہلا مردِ میدان تھا۔
خوبصورت لمحوں میں ایک خرابی ہے۔
پلک جھپکتے ہی گذر جاتے ہیں۔
پھر ہم عمر بھر اُن کے پیچھے بھاگتے رہتے ہیں وہ ہاتھ نہیں آتے۔
یہ رات بھی ایسے ہی گذر گئی۔
صبح ہوئی تو آنکھوں میں رات کا خمار ابھی باقی تھا۔
دِل میں خوبصورت یادوں کی جھالریں ابھی تک لہرا رہی تھیں۔
بچھڑنے کی گھڑی سر پر آن پہنچی ہے۔
یہ سوچتے ہی دِل بجھ سا گیا۔
آج یہاں کے ایک ایک منظر کو میں آنکھوں میں محفوظ کر لینا چاہتا تھا بالکل مہتہ کے کیمرے کی طرح۔
فوٹوگرافر تصویریں لے کر آ گیا۔ یہ گاؤں کا فوٹو گرافر تھا۔ دن بھر اور رات گئے تک تقریبات کی تصویریں بناتا اور اگلے دن لے آتا۔ دیکھنے والوں کا جمگھٹا لگ جاتا ہر کوئی اپنی تصویر رقم دے کر لے لیتا۔ اکثر تصویروں پر کشمکش بھی ہوتی، بات زیادہ بڑھتی تو وہ ایک اور پرنٹ کا وعدہ کر کے ایک فریق کو مطمئن کر دیتا۔
مگر آج آخری دن تھا اور اُس کے وعدوں سے کوئی مطمئن ہونے والا نہ تھا۔ اوروں کے ساتھ میں بھی تصویریں دیکھنے میں مشغول تھا۔ میں جانتا تھا میری تصویر ہونے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ پھر بھی میں ایک ایک تصویر کو دیکھ رہا تھا۔
پھر ایک تصویر نے مجھے چونکا دیا۔ فوٹو گرافر نے اُن لمحوں کو قید کر لیا جب میں گِرا ہوا تھا اور پلّاوی ہنس رہی تھی۔
میرے ہاتھ بڑھانے سے پہلے وہ تصویر کسی لڑکی نے اُچک لی۔ میرے مانگنے پر اُس نے صاف انکار کر دیا۔
میں نے اُسے سمجھانے کی بہت کوشش کی کہ یہ میرے لیے بہت اہم ہے۔
مگر اُس کی ضد تھی کہ یہ میری دوست پلّاوی کی تصویر ہے اور میں کسی صورت نہیں دوں گی میں نے خود کو بے بس محسوس کیا تو غصے میں اُس سے کہا:
’’تم اور بنوا لو اُس کے ساتھ‘‘۔
اُس نے بے نیازی سے کہا:
’’وہ تو جا چکی ہے‘‘۔
یہ سُن کر میں سب کُچھ بھول گیا یہ بھی کہ وہ تصویر میرے لئے کتنی اہم تھی۔ میں کچھ دیر تک بے سبب اسکول کے صحن، برآمدے میں پھرتا رہا۔ سب شرکاء سامان اُٹھا اُٹھا کر اپنی اپنی گاڑیوں میں رکھ رہے تھے۔ سب کُچھ خواب سا لگ رہا تھا۔
دنیا خالی خالی سی ہو گئی تھی۔
کچھ شرکاء گلے ملتے ہوئے پھوٹ پھوٹ کے رو رہے تھے۔
میری آنکھیں اشکوں سے خالی تھیں۔
میں تھکے تھکے قدموں سے کمرے کی طرف لوٹ آیا اور سامان پیک کرنے لگا۔ سامان کیا تھا۔ یادیں ہی یادیں تھیں۔
باہر آیا تو وہی دلخراش منظر تھا۔ بچھڑنے والے ایک دوسرے کے گلے لگ کر رو رہے تھے۔ پرساد آیا اور مجھ سے لپٹ گیا۔ ہم جانتے تھے کہ اب دوبارہ کبھی نہیں مِل سکیں گے۔ اس لئے وہ جدا ہوا تو میں نے اُسے دوبارہ گلے لگا لیا۔
مجھے بچھڑتے وقت دُعا کرنا زیادہ اچھا لگتا ہے۔
آنسو پیئے جانا اور دُعا کئے جانا۔
سب سے پہلے میں نے پلّاوی کے لئے دُعا کی یہ فطری بات ہے جو زیادہ قریب ہو پہلے دِل اُس کے لئے دُعا کرتا ہے۔ میں نے دُعا کی کہ پلّاوی کو اُس کی محبت مِل جائے۔ اور اُس کی معصوم اداؤں کو کسی کی نظر نہ لگے تاکہ کائنات کی خوبصورتی برقرار رہے۔ میں نے دُعا کی کہ مہتہ کا فوٹو گرافی کا شوق فزوں ہو اور اُس کا یہ فن بامِ عروج کو پہنچے۔ میں نے پرساد کے لئے دُعا کی کہ اُس کے اور اُس کی اسٹوڈنٹس کے ہاتھ پاؤں سلامت رہیں۔ وہ تا دیر رقص سے لوگوں کے دلوں کو منورنجن بخشتے رہیں۔ میں نے ایزون کے لئے دُعا کی کہ وہ سنبھل کر چلنا سیکھ لے وہ مجھ پر اتنی بار گری تھی کہ مجھے اُس کے متعلق ڈر لگنے لگا تھا۔ میں نے ایزون کی ہنسی کی سلامتی کی دُعا بھی کی۔ اُس کی ہنسی کے دم سے ہی فضا مترنم رہی۔ دُعا میں اگر پتہ ہو کہ کس کے لئے کیا دُعا کرنی ہے تو پھر دِل مطمئن رہتا ہے۔ دُعا کرنے کا لطف بھی آتا ہے۔ دُعا دِل سے نکلتی ہے اور اثر بھی رکھتی ہے۔
اب ایک شخص کو محبت کی ضرورت ہے اور آپ اُس کے لئے دولت کی دُعا مانگتے رہیں تو میرے خیال میں یہ بد دُعا سے کم نہیں۔
میں نے سب شرکاء، پاکستان اور ہندوستان کی سلامتی کے لئے دُعا مانگی تو مجھے اُس فقیر کی بات یاد آ گئی جو کہہ رہا تھا کُل عالم کی خیر کل عالم کا بھلا کیونکہ اس کُل عالم میں ہم سب بھی ہیں اور میرے ہونٹوں پر بھی بے ساختہ کُل عالم کی خیر کُل عالم کا بھلا کے الفاظ نکلنے لگے۔
اچانک میری نظر پنکی سائیکہ پر پڑی وہ بھاری بریف کیس جو اُس سے اُٹھائے نہ اُٹھتا تھا اُسے اُٹھانے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔ میں نے اُس کی مدد کر دی تو اُس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیسے شکریہ ادا کرے۔ میں نے پنکی سائیکہ کے لئے بھی دُعا کی کہ وہ یونہی کانوں میں رس گھولتی رہے یونہی کوئل کی طرح بولتی رہے۔ دور سے پرساد دوڑتا ہوا آ رہا تھا وہ بہت خوش لگ رہا تھا۔ اُس نے مجھے آ کر خوشخبری سُنائی کہ ستیہ جی نے کہا ہے کہ شرکاء میں سے جو امرتسر جانا چاہیں چلیں ہم نے ایک دن وہاں قیام کرنا ہے۔ لہٰذا ہم بھی آپ کے ساتھ چل رہے ہیں۔ مجھے یوں لگا جیسے میری دُعائیں قبول ہو گئی ہوں۔
جو گاڑیاں امرتسر کے لئے منگوائی گئی تھیں اُن میں کِسی بھی گاڑی میں بیٹھنے کی کوئی قید نہ تھی میں پرساد اور اُس کی اسٹوڈنٹس ایک Van میں تھے۔
Van میں بیٹھتے ہی میری ایک بنگالی لڑکی سے بڑے مزے کی تلخ کلامی بھی ہوئی در اصل میں ونڈو سیٹ پر بیٹھا تھا۔ اُس کا اصرار تھا کہ وہ مجھ سے پہلے یہاں بیٹھی ہوئی تھی۔ اپنی فرینڈ کو ملنے گئی تھی اس لئے اب اُسے وہاں بیٹھنا ہے۔ میں نے ایسا ظاہر کیا جیسے مجھے اُس کی کسی بات کی کچھ سمجھ ہی نہیں آ رہی لہٰذا بیچاری بے بس ہو کر پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئی۔ سارا رستہ اُس کا مُنہ بنا رہا مجھے اُس کا غصہ اچھا لگا تھا۔ میں نے اُسے غصّے میں ہی رہنے دیا بعض اوقات انسان کتنا خود غرض ہو جاتا ہے اپنی خوشی کے لئے دوسروں کو دُکھ دیتا ہے یا دوسروں کے دکھوں میں اپنی خوشی ڈھونڈ لیتا ہے۔
گاڑیاں اب ڈھوڈھیکے سے امرتسر کے لئے روانہ ہو رہی تھیں۔ سب گاؤں کے لوگ ہاتھ ہِلا ہِلا کر ہمیں الوداع کہہ رہے تھے۔ میں بھی ہاتھ ہلا ہلا کر دِل میں کہنے لگا۔
الوداع ڈھوڈھیکے، الوداع لالہ جی، الوداع حویلی، الوداع برگد کے پیڑ، الوداع پلآوی۔ مجھے یوں لگا جیسے پلاوی کھیتوں میں بنے کچے رستے پر بھاگتی ہوئی آ رہی ہے۔
امرتسر پہنچے تو امرتسر کے کینال ریسٹ ہاؤس میں ہمارا قیام تھا۔ شرکاء کی تعداد زیادہ تھی اس لئے ایک کمرے میں چھ چھ سات سات لوگ گھُس گئے۔ پرساد، منجو، کے وانی، وغیرہ ہم ایک کمرے میں تھے۔ میں خوش قسمت تھا کہ مجھے اچھی کمپنی میسر آ گئی تھی۔ اُنھوں نے مجھ سے جی بھر کے شاعری سُنی اور میں نے اُن سے فرمائش کر کر کے اپنے من پسند گانے سُنے اور پھر گانوں کے ساتھ رقص بھی دیکھا۔
زندگی کا سارا حُسن امرتسر کے کینال گیسٹ ہاؤس کے ایک کمرے میں بند ہو کر رہ گیا تھا۔ جیسے پرانی شراب کسی خوبصورت بوتل میں۔ اُس روز سیاسی اثر و رسوخ رکھنے والی ایک شخصیت تارا سنگھ سندھو نے ڈنر کے لئے Invite کیا تھا۔ سو شام کو ہم سب تیار ہو کر وہاں پہنچ گئے۔ گاڑیوں سے نیچے اُترتے ہی آتش بازی سے ہمارا سواگت کیا گیا۔ پھول برسائے گئے۔ ڈھول بجائے اور بھنگڑے ڈالے گئے۔ شادی کا سماں تھا۔
محبتیں اتنی کہ سمیٹنا مشکل تھا۔
میزبانوں کی حویلی بہت بڑی، خوبصورت اور کلچرڈ تھی۔
اُن کے دلوں کی طرح۔
جب سب مہمان کرسیوں پر بیٹھ گئے تو میزبان اور اُن کے بھائی تشریف لائے اور اُنھوں نے ایک ایک مہمان کے قدموں کو چھوا اور یہ جملہ ہر بار کہا۔
’’آپ آئے بہار آئی‘‘۔
میں نے کسی میزبان کو مہمانوں کی اتنی عزت افزائی کرتے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اُس کے بعد ڈنر میں کونسا کھانا تھا جو نہیں تھا کونسا مشروب تھا جو پیش نہیں کیا گیا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ نوکروں کو اجازت نہ تھی وہ خود اور اُن کے گھر والے خدمتگار تھے۔
سردار جی نے مہمانوں اور خاص کر مسلمانوں کو جی بھر کے گوشت کھانے کی درخواست کی اور ساتھ کھڑے ہوئے انڈین مسلم کے شانوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا کہ ہم نے خاص طور پر ان سے مُرغیاں اور بکرے ذبح کرائے ہیں تاکہ آپ حلال گوشت کے بارے میں شک و شبہ میں نہ رہیں۔
اُس کا یہ کہنا تھا کہ پاکستانی جو کئی دن سے سبزیاں اور دالیں کھا کھا کر کمزور ہو گئے تھے۔ گوشت کی ڈشوں پر ٹوٹ پڑے ان میں زیادہ تر گوجرانوالہ، لاہور اور فیصل آباد کے تھے اس لئے میزبان صاحب کی توقعات پر پورے اُترے۔
کھانے کے بعد دارو ہی دارو اُوپر نیچے دائیں بائیں ہر طرف دارو ہی دارو، سب کے ہاتھ میں دارو، سب کی آنکھوں میں دارو، سب کی باتوں میں دارو، پینے والے پی رہے تھے، اور دیکھنے والے بس دیکھ رہے تھے ان میں کُچھ سکھ بھی شامل تھے۔ دارو جن کی فطرت سے میل نہ کھاتا تھا۔ یہ بھی فطری معاملہ لگتا ہے۔ مجھے بھی کافی سِکھوں نے منت سماجت کی مگر میں مضبوط رہا پھر ایک لڑکی میرے لئے دارو لے کر آئی اور کافی اصرار کیا تو میں نے اُس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا مجھے تو چڑھ بھی گئی۔
میری اس بات سے وہ سمجھ گئی کہ میں تو ’’مومن بندہ‘‘ ہوں۔
شرمائی اور چلی گئی۔
رات بہت بیت گئی تو ایک حیران کُن منظر دیکھنے کو ملا۔ جب ہمارے میزبان سردار جی نے اعلان کیا۔
’’کہ آج تک ہماری بہو بیٹیوں نے اس طرح مہمانوں کے سامنے کبھی ڈانس نہیں کیا مگر آج ہم سب اتنے خوش ہیں کہ آپ سب کی آمد کی خوشی میں مِل کر بھنگڑے ڈالیں گے۔‘‘
پھر میوزک تھا۔
سکھنیاں تھیں۔
سکھ تھے۔
اور بھنگڑے تھے۔
بعد میں مہمان بھی اُن کے ساتھ شامل ہو گئے۔
کچھ صحافی بھی اس دعوت میں چپکے سے شریک ہو گئے۔
اور اگلے دن اس واقعے کو اخبارات میں خوب اُچھالا گیا۔
پتہ نہیں میزبان صاحب کا کیا بنا؟
٭٭٭