ڈاکٹر فر ما ن فتح پو ری (کراچی)
غزل اُر د و کی مقبول تر ین اور قد یم تر ین صنف سخن ہے ،بعض قد یم اصناف مثل قصید ۂ ‘و اسو خت اور داستانوی مثنو ی وغیر ہ نے دم تو ڑ دیا ہے اب ان کا چلن نہیں رہا لیکن غزل ،نئے مو ضو عا ت اور نئے اسالیب کے ساتھ ہنو ز تا بند ہ و پا ئند ہ ہے ہر چند کہ اُر دو شاعر ی کی تا ریخ میں دو پٹھا ن شا عروں ، عظمت اللہ خاں اور شبیر حسن خاں ’’جوش ملیح آبا دی ‘‘ نے مو لا نا حالی کے اشارے پر غز ل کو گر دن ز دنی قر ا ر دیا تھا لیکن غزل اُن کی ضر ب سے محفو ظ رہی ،۱۹۳۰ء اور ۱۹۵۰ء کے در میان تر قی پسند مصنفین سے منسلک بعض شعراء نے بہترین نظمیں کہیں ،یہ نظمیں مقبول ہو ئیں اور ان کی گھن گر ج اور مقبو لیت نے ایسا سماں با ند ھا کہ بعض نے غزل کی طر ف سے ما یو سی اور بے اطمینانی کا اظہار کر نا شر وع کر دیا مگر جگرؔمر اد آبا دی ،فر ا قؔ گور کھپو ری، حسر تؔ مو ہا نی ،مجر و حؔ سلطا ن پو ر ی اور شکیبؔ جلالی نے اردو کو ایسا سہار ا دیا کہ جد ید نظم کا سیلا ب بھی غز ل کی مقبو لیت کو مجر وح نہ کر سکا ،خصو صاً شکیبؔ جلالی نے اُر دو غز ل کو ایسانیا رنگ و آہنگ فر اہم کر دیا کہ وہ عا م و خاص سب کی تو جہ کا مر کز بن گئی اور آج تک یہ سلسلہ قا ئم ہے ۔
غز ل کے بار ے میں کہا جا تا ہے کہ وہ بہت کٹر صنف سخن ہے آسانی سے قا بو میں نہیں آتی ،بڑی چنچل و نا زک مز اج ہے ،حد در جہ سا دہ وپُر کار ہے ، بظا ہر بیخو د لیکن بہ با طن ہو شیا ر ہے ،بڑی حیا کوش و نفا ست پسند اور پُراسرار ہے ،بے محا بہ نہیں رفتہ رفتہ کھلتی ہے ۔گفتا ر نر م ،رفتار سبک ،مز اج متلو ن ، درون خا نہ کے ہنگا موں کا شکا ر ،خا رجی حقا ئق کی راز دار ،لیکن طرز اظہار میں حد درجہ آز اد محتا ط،خیا لا ت و افکا ر کتنے ہی جد ید و دقیق یا لطیف و نا ز ک کیو ں نہ ہوں ،وہ اپنی
مخصو ص علا متی ا ور اجمالی اند از کے سو ا کسی اور اند از سے سامنے آنا پسند نہیں کر تی ۔زبان و بیان کے روایتی رشتوں کو ہا تھ سے نہیں چھوڑتی ۔بات فکر کی ہو یا جذبے کی ،جد ت کی ہو یا بغا وت کی ،غمِ عشق کی ہو یا غمِ روزگار کی ،آرائش خم کا کل کی ہو یا اندیشہ ہا ئے دوردراز کی ،غزل اپنے قدم روایتی اور علا متی رشتوں کے سہارے ہی آگے بڑھا تی ہے۔
جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا ہے غزل ہماری شا عری کا نہا یت قیمتی سر ما یہ ہے ۔اس کی بد ولت ار دو شا عر ی میں ابد ی عظمت و وقعت کے آثار پید ا ہوئے ہیں اور اسی کی بد ولت وہ اس کے اہل ہوئی کہ دوسری زبانوں کے شعر ادب سے آنکھ ملا سکے۔ جو چیز غز ل میں اسا سی حیثیت رکھتی ہے اور جس کے بغیر غزل ‘ غزل نہیں رہ سکتی وہ اس کا رومانی رکھ رکھاؤ اور اس کے لب و لہجہ کی ایمائیت و رمزیت ہے۔ اس ایمائیت و رمزیت کو جس سلیقے سے شکیب جلالی نے برتا ہے وہ حیرت انگیز ہے اور یہ سلیقہ ان کے ہم عصروں کو کم ہی میسر آیا ہے ۔تفصیلی بحث کی اس جگہ گنجائش نہیں صرف چند منتخب اشعار
دیکھئے :
یہ اور بات کہ وہ لب تھے پھول سے نازک
کوئی نہ سہہ سکے، لہجہ کرخت ایسا تھا
مجھے گرنا ہے تو میں اپنے ہی قدموں میں گروں
جس طرح سایہء دیوار پہ دیوار گرے
جو دل کا زہر تھا کاغذ پہ سب بکھیر دیا
پھر اپنے آپ طبیعت مری سنبھلنے لگی
جہاں شجر پہ لگا تھا تبر کا زخم شکیبؔ
وہیں پہ دیکھ لے، کونپل نئی نکلنے لگی
نہ اتنی تیز چلے، سر پھری ہوا سے کہو
شجر پہ ایک ہی پتا دکھائی دیتا ہے
یہ ایک ابر کا ٹکڑا کہاں کہاں برسے
تمام دشت ہی پیاسا دکھائی دیتا ہے
کھلی ہے دل میں کسی کے بدن کی دھوپ شکیب
ہر ایک پھول سنہرا دکھائی دیتا ہے
پہلے تو میری یاد سے آئی حیا اُنھیں
پھر آئینے میں چوم لیا اپنے آپ کو
خموشی بول اٹھے، ہرنظر پیغام ہو جائے
یہ سناٹا اگر حد سے بڑھے کہرام ہو جائے
شکیب اپنے تعارف کے لیے یہ بات کافی ہے
ہم اُس سے بچ کے چلتے ہیں جو رستہ عام ہو جائے
اِک یاد ہے کہ دامن دل چھوڑتی نہیں
اک بیل ہے کہ لپٹی ہوئی ہے شجر کے ساتھ
کیا جانیے کہ اتنی اُداسی تھی رات کیوں
مہتاب اپنی قبر کا پتھر لگا مجھے
میں نے اسے شریک سفر کر لیا شکیبؔ
اپنی طرح سے چاند جو بے گھر لگا مجھے
تو نے کہا نہ تھا کہ میں کشتی پہ بوجھ ہوں
آنکھوں کو اب نہ ڈھانپ مجھے ڈوبتے بھی دیکھ
چوما ہے میرا نام لب سرخ نے شکیبؔ
یا پھول رکھ دیا ہے کسی نے کتاب میں
خوددار ہوں کیوں آؤں درِ اہل کرم پر
کھیتی کبھی خود چل کے گھٹا تک نہیں آتی
موج صبا رواں ہوئی، رقص جنوں بھی چاہیے
خیمہء گل کے پاس ہی دجلہء خوں بھی چاہیے
کشمکش حیات ہے، سادہ دلوں کی بات ہے
خواہش مرگ بھی نہیں، زہر سکوں بھی چاہیے
ضرب خیال سے کہاں ٹوٹ سکیں گی بیڑیاں
فکر چمن کے ہم رکاب جوش جنوں بھی چاہیے
پردۂ شب کی اوٹ میں زہر جمال کھو گئے
دل کا کنول بجھا تو شہر، تیرہ و تار ہو گئے
دل سا انمول رتن کون خریدے گا شکیبؔ
جب بکے گا تو یہ بے دام ہی بک جائے گا
اُ ن اشعار سے اندازہ ہوا ہو گا کہ شکیب جلالی کی غز ل ، کن رموز و خصوصیات کی حامل ہے اور وہ باذوق قارئین کے ذہنوں میں اُترکر کس طرح ان کے دلوں میں اپنی جگہ بنا لیتی ہے ان اشعار کی معنوی تہ داری اور گہرائی اس امر کا ثبوت فراہم کرتی ہے کہ شاعری قافیہ پیمائی نہیں معنی آفرینی ہے۔ کوزہ گری نہیں ، کوزے میں سمندر کو بند کرنا ہے۔ غالب کے لفظوں میں حمزہ کا قصہ نہیں ، قطرۂ دجلہ نما ہے ۔ دشنہ و خنجر اور بادہ و ساغر کی شعبدہ گری نہیں ، مشاہدۂ حق کی گفتگو ہے۔ لڑکوں کا کھیل نہیں ہے ، جزو میں کل کی نمائش ہے ۔ حسن و عشق کا افسانہ نہیں ،حقائق کا انکشاف ہے۔ ایسا انکشاف جو خود کو موثر و دلکش اور فکر انگیز اور حیرت انگیز بنانے کے لیے بعض روایتی رشتوں اور بعض مخصوص رموز و علائم کا سہارا لیتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ وہ شکیبؔ جلالی جیسا خلاق اور ہنر مند شاعر ہو۔
شکیب ؔجلالی نے بہت کم عمر پائی عین شباب میں انتقال کیا لیکن اردو کو‘ غزل کو انھوں نے جو کچھ دے دیا وہ اردو ادب خصوصاً غزل کی تاریخ میں ان کانام زندہ رکھنے کے لیے بہت کافی ہے ، یقینا انھوں نے بہت اچھی نظمیں بھی کہی ہیں لیکن ان کی نظموں کا اندرونی آہنگ بھی بالکل غزل جیسا ہے اس لئے وہ بنیادی طور پر غزل کے شاعر کہے جائیں گے اور ان کا تغزل ہی کے وصف سے متصف کہلائے گا۔
اوپر شکیب جلالی کی جو غزلوں کے حوالے دیے گئے ہیں اور جن کی روشنی میں ان کی متغزلانہ حیثیت متعین کی گئی ہے وہ سب کے سب اُن کے اوّلین مجموعہ کلام ’’روشنی اے روشنی ‘‘میں شامل ہیں ، یہ مجموعہ مکتبہ فنون لاہور سے جناب احمد ندیم قاسمی صاحب کے مختصر تعارف کے ساتھ ۱۹۷۲ء میں شائع ہوا تھا ۔ زیر نظر مجموعے میں شکیب کا سارا تخلیقی سرمایہ بشمول نظم و غزل شامل ہے اور قاری کولطف اندوزی کے ساتھ از سرِ نو دعوت فکر و نظر دیتاہے ۔