اقدس رضوی (کراچی)
کلیاتِ شکیب جلالیؔ کے پیش لفظ کو اظہار تشّکر کے طور پر دیکھا جانا چاہیے ۔ اس کے علاوہ اس کے ذریعے کچھ باتوں کی وضاحت بھی پیش نظر تھی۔ مثلاً یہ بتانا کہ شکیب جلالیؔ کے انتقال کے ۳۸سال بعد یہ کلیات کیوں شائع ہوئی۔ پھر اب اس کی اشاعت کی تحریک کیسے شروع ہوئی اور کلیات موجودہ شکل میں کن کن مراحل سے گزر کر آپ کے ہاتھوں میں پہنچی۔
۱۹۶۶ء میں شکیب جلالی کے انتقال کے بعد ان کا تمام معلوم مطبوعہ اور غیر مطبوعہ کلام بکھری ہوئی صورت میں میری والدہ صاحبہ نے انتہائی مخلص اور محترم جناب احمد ندیم قاسمی کے حوالے کر دیا تھا۔ جس میں سے ۷۰غزلیں ‘ ۲۱نظمیں اور کچھ اشعار چُن کر انہوں نے مکتبۂ فنون کے تحت ۱۹۷۲ء میں ’’روشنی اے روشنی‘‘ کی شکل میں شائع کیے‘ جس کے بعد کئی ایڈیشن ’’ماورا‘‘ پبلی کیشن لاہور نے شائع کیے۔ غالباً۸۰۔۱۹۷۹ء میں والد صاحب کے کلام کا باقی ماندہ پلندہ قاسمی صاحب کے پاس سے واپس والدہ کے پاس آگیا۔پھر میں اپنی ملازمت کے سلسلے میں ۹۰۔۱۹۸۹ء کے دوران سرگودھا ‘ فیصل آباد اور ملتان میں تعینات رہا۔ اس دوران یہ تمام کلام اُسی حالت میں میں نے ’’ماورا‘‘ کے جناب خالد شریف صاحب کے حکم پر ان کے پاس پہنچا دیا لیکن نامعلوم وجوہات کی بنا ء پر یہ وہاں سے کلیات کی شکل میں نہ چھپ سکا اور بالآخر کئی سال بعد واپس میرے پاس آگیا۔ اس دوران فکرِ معاش اور گردشِ ایّام نے اتنی مہلت نہ دی کہ میں اپنی ا ور بہت سے عاشقانِ شکیب جلالی ؔکی اس شدید خواہش کو عملی جامہ پہنا سکوں۔
دوران ملازمت میں جب کبھی کسی ادب دوست سے ملتا تو ہمیشہ کچھ یکساں باتیں وہ ضرور پوچھتے ‘جیسے شکیب جلالی کی زندگی صرف ۲۳برس پر مُحیط تھی اور وہ معاشی مسائل کا شکار بھی رہے لیکن روشنی اے روشنی کے علاوہ بھی ان کا بہت سا کلام ایسا ضرور ہوگاجو کلیات کی شکل میں شائع ہو سکتا تھا وہ کہاں ہے اور اب تک چھپا کیوں نہیں۔ قاسمی صاحب اور ماورا والوں نے کیوں نہیں چھاپا‘ اب تک آپ نے اس سلسلے میں کیا کیا۔ جلدی کیجئے ‘اُن سے بہت کم زور اور اُن کے ڈکشن سے متاثر شعراء کے دیوان کے دیوان چھپ چکے ہیں۔
میں ان تمام باتوں کے جواب میں عرض کرتا رہا کہ انشاء اللہ جلد ہی آپ کلیات کی شکل میں باقی کلام پڑھ سکیں گے۔ آخر کار آج وہ وقت آہی گیا جب میں شکیب ؔجلالی کے تمام معلوم دستیاب کلام کو مجتمع کر کے شائع کررہا ہوں ۔اس سلسلے میں میں نے اپنے محترم جناب غلام محی الدین صاحب سے مشورہ کیا تو ان کی وساطت سے میری ملاقات معروف ادیب وصحافی جناب احفاظ الرحمن صاحب سے ہوئی اور میں ان کا بے حد ممنون ہوں ‘اگر وہ میرا ساتھ نہ دیتے او ر میری حوصلہ افزائی نہ فرماتے تو شاید اس کام میں ابھی اور تاخیر ہو جاتی۔ اس کے علاوہ انہوں نے ابّو کے کلام کی اصل سے کتابت شدہ شکل کا موازنہ بھی بہت دیدہ ریزی سے کیا جس کی وجہ سے میں اس قابل ہو سکا کہ کتابت کی اغلاط کو درست کروا سکوں ۔اب بھی اگر کوئی غلطی رہ گئی ہو تو اس کی تمام تر ذمے داری میری ہے ۔اس سلسلے میں جب میں نے یہ مسوّدہ محترم ‘ مربی اور ہمیشہ سے ااپنے خاندان کے مخلص جناب احمد ندیم قاسمی کو بھیجا تو انہوں نے اس سے کچھ اختلاف کیا اور بتدائی کلام میں سے جو ۱۹۴۷ء سے ۱۹۵۱ء (جب شکیبؔ جلالی کی عمر صرف ۱۳ سے ۱۷ سال کے درمیان تھی)کے دوران کہا گیا تھا ‘کچھ کلام کے علاوہ باقی کلام قلم زد کر دیا اور لکھا کہ ’’میں نے اس کا مطالعہ بہت کڑے انداز میں کیا ہے تاکہ شکیبؔ کی شہرت کو داغ نہ لگے۔‘‘ میں ہمیشہ کی طرح ان کا بے حدممنون ہوں۔ اس دوران میں نے محترم جناب شمس الرحمن فاروقی ‘ محترم اسلوب احمد انصاری اور محترم ڈاکٹر وزیر آغاصاحب سے رابطہ کیا تو ان حضرات کی بھی یہی خواہش تھی کہ اب جلدازجلد کلیات چھپ جانی چاہئیں جو ارتقائی منازل کو ملحوظ رکھتے ہوئے ترتیب دی جائیں اور اس میں تمام کلام شامل کیا جائے۔ میں نے محترم جناب ڈاکٹر فرمان فتح پوری ‘ محتر م جناب ڈاکٹر محمد علی صدیقی ‘ محترم احمد ہمدانی کی خدمت میں کلیات کوموجودہ شکل میں پیش کیا اور ان سے مشورہ طلب کیا تو انہوں نے موجودہ ترتیب کی تا ئیدکی کہ یہ کلام سن وار شائع ہونا چاہئے اور تما کلام شامل ہوناچاہیے تاکہ شکیبؔ کی شاعی کے ارتقاء کی منازل واضح ہوجائیں اور ان کا کلام دیر سے سہی لیکن محفوظ ہوجائے۔ چناں چہ میں نے ممکنہ حد تک کوشش کری ہے کہ ہر غزل اور نظم کے نیچے سنِ تخلیق یا کم از کم سنِ اشاعت شائع کردوں۔ اس طرح یہ کلیات اب آپ کے ہاتھوں میں ہے ۔
یہاں اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ شکیبؔ جلالی کی متعدد تخلیقات ایسی بھی ہیں جن کی سنِ تخلیق یا سنِ اشاعت میسّر نہ ہو سکیں ۔ ان تمام تخلیقات کو ہر صنف سخن کے آخر میں بلا کسی ترتیب کے شائع کیا جا رہا ہے۔
اس کے علاوہ جلد ہی ایک ویب سائٹ آپ کے سامنے www.shakebjalali.comکے عنوان سے ہوگی جس میں شکیبؔ کی سوانح حیات ‘ ان کے فن پر مختلف اکابرین کی آراء اور ان کے کیے ہوئے افسانوں کے تراجم اور مضامین شامل ہوں گے۔ آخر میں تمام دوستوں اور معاونین کا ایک بار پھر شکریہ ادا کرتا ہوں ا ور قارئین سے التماس کرتا ہوں کہ اگر کلیات کے مطالعے کے بعد انہیں محسوس ہو کہ شکیبؔ جلالی کی کوئی غزل یا نظم اس میں شامل ہونے سے رہ گئی ہے تو اس کی نقل بھجوا کر ممنون فرمائیں تاکہ آئندہ اشاعت میں اسے شامل کر لیا جائے۔(مئی ۲۰۰۴ء اقدس رضوی ۔مکتبہ شکیبؔ جلالی)