نصرت ظہیر(دہلی)
اگر کوئی اردو والا آپ سے یہ کہے کہ آج کل میں بہت خوش ہوں اور مجھ سے میری خوشی چھپائے نہیں چھپ رہی، نیز یہ کہ میں اپنی خوشی کا اظہار کرنے کے لیے جلد سے جلد ایک تہنیتی جلسہ منعقد کردینا چاہتا ہوں تو سمجھ لیجیے اس حقیقی فیل گڈ فیکٹر کے پیچھے جناب اٹل بہاری باجپائی صاحب کی نہیں، بلکہ ہمارے پروفیسر گوپی چند نارنگ کی شخصیت چھپی ہوئی ہو گی۔ ظاہر ہے کسی اردو والے کی خوشی اور غم کا سبب کوئی اردو والا ہی فراہم کرسکتا ہے۔
اور پھر اٹل جی کی وزیراعظمی تو ابھی پانچ سال پہلے ہی شروع ہوئی ہے، جبکہ نارنگ صاحب کو اردو والوں کی اکثریت 14 برس پہلے اردو دنیا کا وزیراعظم ڈکلیر کرچکی ہے۔ یہ تب کی بات ہے جب نارنگ صاحب کو پدم شری کا اعزاز ملا تھا اور صاف نظر آنے لگا تھا کہ یہ ان کا آخری بڑا اعزاز نہیں بلکہ بڑے اعزازوں کے آغاز کا آغاز ہے۔ اس کے علاوہ اٹل بہاری صاحب اپنے دیش تک محدود ہیں جبکہ گوپی چند نارنگ کی وزارت عظمیٰ کی حدود پوری دنیا میں جہاں جہاں اردو بولی اور سمجھی جاتی ہے وہاں وہاں تک پھیلی ہوئی ہے اور یہ اردو دنیا بہرحال اٹل جی کی دنیا سے بہت بڑی ہے۔
آج کل جو نارنگ صاحب کی وجہ سے اردو دنیا میں خوشی کی لہر دوڑی ہوئی ہے تو اس کی وجہ بھی صاف ہے۔ پچھلے چھے مہینوں کے قلیل عرصے میں انھوں نے ایک نہیں بلکہ دو اتنے بڑے اعزاز حاصل کیے ہیں جو اردو زبان کی ساڑھے سات سو سال کی ادبی تاریخ میں آج تک کسی ایک شخصیت کو چھے ماہ میں حاصل نہیں ہوسکے ہیں۔ میرا یہ جملہ ہوسکتا ہے آپ کو مدح سرائی، مبالغہ آرائی اور خوشامد نگاری کی آخری حد معلوم ہو کیونکہ اردو دنیا کا یہ بھی رواج ہے کہ اگر کوئی چھوٹا کسی بڑے کی تعریف کرے تو سمجھ لیجیے اس کے پیچھے اول الذکر کی یقینی طور پر اور دوئم الذکر کی ثانوی طور پر کوئی نہ کوئی غرض ضرور وابستہ ہے۔ چنانچہ اس مدحیہ جملے کی وضاحت ضروری ہے۔ جی ہاں! میں جانتا ہوں کہ حضرت امیر خسرو، ولی دکنی میر و غالب اور اقبال و فیض سے سجی سنوری اردو زبان میں نارنگ صاحب سے بھی اعلا درجے کی شاندار اور تاریخی شخصیتیں پہلے سے موجود ہیں۔ یہ سبھی اپنے دقتوں کی پدم شری، پدم بھوشن اور
پدم وبھوشن ہستیاں تھیں، بلکہ آپ چاہیں تو ان میں سے اپنی کسی پسندیدہ شخصیت کو بھارت رتن کا اعزاز بھی عطا فرما سکتے ہیں۔ اس میں میری یا آپ کی جیب سے کچھ نہیں جائے گا لیکن ان میں اور نارنگ صاحب میں جو بنیادی فرق بظاہر دکھائی دیتا ہے وہ یہ ہے کہ یہ تمام شخصیتیں تخلیق کاروں کے زمرے میں آتی ہیں، جبکہ پروفیسر نارنگ کو پدم بھوشن کا رتبہ اور اعزاز تخلیق کار نہ ہوتے ہوئے بھی مل گیا ہے۔بلکہ بعض لوگوں کا تو خیال ہے کہ انھیں تخلیق کار نہ ہونے کی وجہ سے اس اعزاز کا مستحق سمجھا گیا ہے کیونکہ جس طرح کی تخلیقات آج سامنے آرہی ہیں ان میں سے اکثر کو دیکھ کر ان کے خالقوں کو کوئی اعزاز دینے کے بجائے جی چاہتا ہے کہ پہلے ان کی اچھی طرح جامہ تلاشی لی جائے اور اگر ان کی جیبوں سے کوئی چھوٹا موٹا اعزاز برآمد ہوجائے جسے وہ کسی ترکیب سے حاصل کرچکے ہوں تو اس اعزاز کو اردو کی بقا کی خاطر فوراً واپس لے لیا جائے، بلکہ ممکن ہو تو اتنے عرصے تک اعزاز اپنے پاس رکھنے کا کرایہ بھی ان سے وصول کیا جائے۔تاہم خود مجھے اس خیال سے بہرحال اتفاق نہیں ہے کہ نارنگ صاحب صرف تنقید نگار ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ انھوں نے اللہ کے فضل و کرم سے شاعری نہیں کی، افسانے نہیں لکھے، ڈرامے تحریر نہیں کیے اور ناول نگاری کا بھی شکر ہے کہ ان پر کوئی الزام نہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ تخلیقی جوہر سے یکسر محروم ہیں۔
اگر ان کی تمام تحریر کردہ تنقیدوں کو آپ سامنے رکھیں تو پائیں گے کہ نہ جانے کتنے ایسے ادیب ہیں جو تخلیق کے میدان میں دو فٹے بن کر سامنے آئے تھے اور آج نارنگ صاحب کی تنقیدوں کی بدولت ساڑھے سات فٹے بنے گھوم رہے ہیں۔ نارنگ صاحب کے توصیفی جملے بیچ میں نہ آجاتے تو ان میں سے کئی دو فٹے ادیب کبھی کے دُر مِٹے ادیبوں میں تبدیل ہوچکے ہوتے۔ یعنی دوسرے ناقدوں کی تنقیدیں تو صرف تخلیق پیدا کراتی ہیں، جبکہ نارنگ صاحب کی تنقید تخلیق کار پیدا کردیتی ہے۔ اس پہلو سے دیکھیں تو نارنگ صاحب کا تخلیق کردہ تنقیدی ادب میرے خیال سے آج کے دور کا واحد تنقیدی ادب ہے جسے آپ بہ آسانی تخلیقی ادب کے زمرے میں رکھ سکتے ہیں۔
اس کے بعد بھی انھیں ایک تخلیق کار نہ ماننا میرے خیال سے ان کے ساتھ اور ان کی تخلیقی تنقیدوں کے ساتھ ایک بڑی زیادتی ہوگی۔ چنانچہ ادبی ایوارڈ دینے والے تمام ادیبوں سے میری پُرزور درخواست ہے کہ تخلیقی ادب کے ایوارڈ طے کرتے وقت وہ پروفیسر نارنگ کی بھیجی ہوئی سفارشوں کو نہیں بلکہ خود ان کا نام ذہن میں رکھا کریں کہ وہ بھی اردو کے بہت بڑے تخلیق کار ہیں۔
البتہ ایک نقصان اردو ادب کو پروفیسر نارنگ کے تخلیقی اسلوب سے ضرور پہنچا ہے اور وہ نقصان یہ ہے کہ ان کی دیکھا دیکھی اردو کے بعض نئے پروفیسروں نے بھی اپنی تنقید سے تخلیق کا کام لینا شروع کردیا ہے۔ نارنگ
صاحب نے پھر بھی دو فٹوں کو ساڑھے سات فُٹا بننے میں مدد دی تھی مگر یہ لوگ تو ان حضرات کو بھی ادب کی لاٹ بنا دینا چاہتے ہیں جن کے یہاں انچ بھر ادب دستیاب نہیں ہے۔ جن کی نظم و نثر میں دوربین تو کیا خوردبین سے دیکھنے پر بھی آپ کو تخلیق کا ڈی․این․اے․نظر نہیں آئے گا۔
رہ گیا تنقید کا میدان تو اس کی بات ہی مت پوچھیے۔ تنقید کے میدان میں یہ پروفیسر صاحبان ایسے ڈاکٹروں کو پروان چڑھانے پر تُلے ہوئے ہیں جو ڈاکٹر تو چھوڑیئے کمپاؤنڈر بننے کے بھی لائق نہیں ہیں۔ کسی ایک کا نام لینے کی ضرورت نہیں۔ خود ہی ذہن دوڑا کر اپنی ناپسند کے دو چار ادبی ڈاکٹروں کے نام یاد کرلیجیے۔ ان میں سے بیشتر ڈاکٹروں کے مقابلے میں آپ کو آر․ایم․پی․ڈاکٹر زیادہ قابل قدر معلوم ہوں گے کہ ان کے ہاتھوں کسی کسی خوش نصیب کو شفا بھی مل جاتی ہے۔ اس کے باوجود عالم یہ ہے کہ آج اردو ادب کا چھوٹے سے چھوٹا کمپاؤنڈر بھی جلد سے جلد ڈاکٹر کی ڈگری لینے اور اپنا کلینک الگ کھولنے کے لیے بے تاب نظر آتا ہے۔
دراصل نارنگ صاحب اپنی ذات باصفات میں اردو تنقید کے اتنے بڑے آئکن (Icon) اور عالمی ادب میں اردو ادب کے اتنے بڑے برانڈ ایمبیسڈر بن گئے ہیں کہ آج زیادہ تر لوگ اردو تنقید اور اردو ادب کو ان کے نام سے پہچاننے لگے ہیں۔ چنانچہ نارنگ صاحب نے ایسا چاہا ہو یا نہ چاہا ہو لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ تنقید آج اردو ادب کا سب سے منافع بخش کاروبار بن گئی ہے اور نارنگ صاحب کی چمکدار شخصیت سے پیدا ہونے والی چکا چوند کا بھی اس میں خاصا بڑا ہاتھ ہے۔ یہ ایک تلخ سچائی ہے کہ آج کے تعلیمی کمرشیلزم نے تنقید کو تخلیق سے زیادہ اہم بنا دیا ہے۔ ڈاکٹر اور پروفیسر کو تخلیق کار سے بڑا رتبہ مل گیا ہے۔ عمدہ غزل کہنے والے کو وقتی واہ واہ اور مکرر ارشاد میں ٹرخا دیا جاتا ہے۔ اچھا افسانہ لکھنے والے کو اپنے پیدا ہونے کی اطلاع دینے میں برسوں لگ جاتے ہیں، جبکہ اس عمدہ غزل اور اچھے افسانے میں جوئیں اور لیکیں ڈھونڈنے والے نقاد کو فوراً ادب کا ڈاکٹر مان لیا جاتا ہے۔ اکاڈمیاں اسے ایوارڈ دیتی ہیں۔ ادبی جریدے اس پر خاص نمبر نکالتے ہیں اور دوردرشن خصوصی پروگرام نشر کردیتا ہے۔
اور اس چکاچوند سے دور اندھیرے میں بیٹھا ہوا فنکار اور تخلیق کار جب دوردرشن کے مولوی انجم عثمانی سے جاکر کہتا ہے کہ بندہ پرور! اپنی ’بزم‘ میں تھوڑی سی جگہ مجھے بھی دے دیجیے کہ فلاں نقاد میری تخلیق کی چیر پھاڑ کے بعد ڈاکٹر بنا ہے تو وہ کان کے قریب منھ لاکر اپنے مخصوص پُراسرار انداز میں پوچھتے ہیں ’’فلاں ڈاکٹر سے فٹ نس سرٹیفکیٹ لائے ہیں آپ؟‘‘
اس تجارتی ماحول میں تخلیق کار کے برعکس ناقد کے ہاتھ زیادہ نقدی آنے کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ آج اعلا درجے کا ادب بہت کم لکھا جارہا ہے۔ تخلیق کے میدان میں قدم رکھنے والے بہت جلد تنقید کی طرف دوڑ جاتے ہیں اور
تخلیق کا حمل گر جاتا ہے۔ ایک اوسط درجے کے بے روزگار تخلیق کار سے میں نے ایک دن پوچھا ’’کیوں میاں! آج کل کیا کررہے ہو؟‘‘ جواب ملا ’’اپنے ادب پر تحقیق کرنے کی سوچ رہا ہوں‘‘۔
میں نے کہا ’’یار! تم تو اچھے بھلے شاعر تھے۔ یہ تحقیق کی بیماری تمھیں کہاں سے لگ گئی؟‘‘
کہنے لگا ’’ادب کی تحقیق کرنے والے کو ڈاکٹر کی ڈگری مل جاتی ہے‘‘۔
میں نے کہا ’’وہ تو ٹھیک ہے مگر تم اس ڈگری کا کیا کروگے؟‘‘
سادہ لوح ادیب نے چند لمحے سوچا اور سوچ کر کہا ’’کرنا کیا ہے، والد صاحب سے کچھ رقم لے کر چھوٹا سا کلینک کھول لوں گا اور خدا نے چاہا تو نرسنگ ہوم بھی۔ آپ نے دیکھا نہیں ڈاکٹر خلیق انجم اور ڈاکٹر خلیل اللہ کی پریکٹس آج کل کتنی اچھی چل رہی ہے‘‘۔
اس طرح اس نے ادب اور طب کی ڈاکٹری کو باہم خلط ملط کردیا اور میں یہ سوچ سوچ کر لرزتا رہ گیا کہ اگر ایطائے جلی و خفی کا مطلب کسی ادیب نے ڈاکٹر خلیل اللہ سے اور بائی پاس سرجری کا محفوظ ترین راستہ کسی مریض نے ڈاکٹر خلیل انجم سے دریافت کرلیا تو بچارے ادیب کا کیا مقام رہ جائے گا اور مریض کس انجام کو پہنچے گا۔
صورت حال یہ ہے کہ ماضی میں جہاں ادب کے نقاد کو سال بھر میں آٹھ دس اچھی تخلیقات پڑھنے کو مل جاتی تھیں وہاں آج کل ایک دو بھی مشکل سے میسر آتی ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ نقادوں کی شرح خواندگی تیزی سے گھٹتی جارہی ہے اور مجھے ڈر ہے کہ وہ دن اب دور نہیں جب چاروں طرف نقاد ہی نقاد ہوں گے، تخلیق کار ڈھونڈے نہیں ملیں گے اور ہمارے ادب کے ڈاکٹروں کی شرح خواندگی نقطۂ صفر پر ٹھہر کر رہ جائے گی۔ لہٰذا یہ خود نقادوں کے حق میں بہتر ہوگا کہ وہ تخلیق کاروں کو اسقاطِ حمل کی روش سے دور رکھنے کی تدابیر اختیار فرمائیں تاکہ مستقبل میں ان کی معیاری تخلیقیں پڑھ کر معیاری تنقیدیں لکھ سکیں اور کاروبار ادب دونوں فریقوں کے لیے منافع بخش ہوجائے کیونکہ اگر ایسا نہ ہوا تو انھیں آنے والے دنوں میں خود اپنی لکھی ہوئی تنقیدوں پر ہی تنقیدیں لکھ کر گزارا کرنا پڑے گا۔
خیر بات چل رہی تھی نارنگ صاحب کو پدم بھوشن کا خطاب ملنے کی، جس سے آج اردو دنیا میں اچھا خاصا فیل گڈ فیکٹر پایا جاتا ہے۔ یوں تو نارنگ صاحب نے گزشتہ سال بھی اردو والوں کو ایک زبردست فیل گڈ دیا تھا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب ہندستان کی دو درجن سے زائد اہم زبانوں کے ادیبوں کی دوتہائی اکثریت نے انھیں ملک کے سب سے بڑے ادبی ادارے ساہتیہ اکادمی کا چیئرمین منتخب کیا تھا۔ اس پر اردو حلقوں میں کسی قدر اظہار مسرت بھی کیا گیا۔ مگر اتنا نہیں جتنا آج ان کے پدم بھوشن بننے پر کیا جارہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ بہت بڑا اعزاز ہے۔ اردو والوں کو تو کوئی پدم شری کے لیے نہیں پوچھتا۔ پدم بھوشن پھر ایک بڑی بات ہے۔ علاوہ اس
کے میرے خیال سے نارنگ صاحب کی اپنی کمائی زیادہ ہے اور کسی کی ذاتی کمائی میں اپنا حق ڈھونڈنا کوئی زیادہ اچھی بات نہیں ہے۔ اور پھر یہ بھی ہے کہ وہ اردو کے پہلے پدم بھوشن نہیں۔ یہ خطاب دو تین اردو والوں کو پہلے بھی ملا ہے اور ایک دو کو نارنگ صاحب کے بعد بھی مل سکتا ہے۔
لہٰذا باوصف اس کے کہ نارنگ صاحب پدم بھوشن کا خطاب پانے والے ملک کے پہلے اردو نقاد نہیں ہیں ساہتیہ اکادمی کے چیئرمین والے اعزاز کو میں زیادہ اہم اور زیادہ بڑا سمجھتا ہوں کیونکہ یہ وہ اعزاز ہے جو نارنگ صاحب کو خود نہیں ملا بلکہ اپنی محنت اور اپنی کاوشوں سے انھوں نے خود یہ اعزاز اردو زبان کو پیش کیا ہے اور چونکہ میں بھی اردو کی روٹی کھاتا ہوں اس لیے مجھے محسوس ہوتا ہے کہ یہ اعزاز مجھے بھی ملا ہے۔ یہ ایک ایسا اعزاز تھا اور ہے جس پر ہر اردو والا جب چاہے، جتنا چاہے اور جہاں چاہے فخر کرسکتا ہے۔ ایک ایسا فخر جس پر کوئی خرچ نہیں آتا۔ نہ استقبالیہ جلسے منعقد کیجیے، نہ دعوت نامے تقسیم کرائیے، نہ اشتہار چھاپیے۔ بس جہاں بیٹھے ہیں، جس حال میں ہیں باہر کی آنکھیں بند کر اندر کی آنکھوں سے دیکھنے کی کوشش فرمائیے۔ اگر باطن کے سبھی آئینے صاف ہیں اور دل کے شیشوں پر کوئی گرد نہیں جمی تو آپ کو صاف نظر آئے گا کہ اس ملک کی تمام بڑی زبانوں کی مجلس اقوام میں مسندِ صدارت پر گوپی چند نارنگ نہیں بیٹھے ہیں بلکہ ہماری ، ہم سب کی اور نارنگ صاحب کی اردو زبان پورے وقار اور شان و تمکنت کے ساتھ جلوہ افروز ہے۔ یہ ایک ایسا اعزاز ہے جو آج تک کسی اردو والے نے اس زبان کو دیا ہے اور نہ آگے کسی کے طفیل اردو کو ملنے کی امید دکھائی دیتی ہے۔ بہرحال، اس عظیم اعزاز کے چند ماہ بعد ہی پدم بھوشن کا خطاب ملنے پر بھی نارنگ صاحب کو تہہ دل سے مبارک باد۔ جی تو چاہتا تھا، آخر میں چلتے چلتے انھیں نوبیل انعام ملنے کی دعا دے ڈالوں، مگر جب سے انعام کے متوقعین میں جارج بُش اور ٹونی بلیئر جیسی ہستیوں کے نام شامل ہونے کی افواہ سنی ہے، میں نے فی الحال یہ دعا ملتوی کردی ہے۔ لہٰذا آخر میں صرف یہ دعا ہے کہ نارنگ صاحب کو مستقبل میں بھی صرف وہ اعزاز حاصل ہوتے رہیں جن کی کچھ وقعت ہے، کچھ عزت ہے۔
گوپی چندنارنگ نے ساختیات کا مستند تعارف منضبط انداز میں کروایا۔ساختیات کے مطالعے سے ان پر منکشف ہوا کہ ’’ساختیاتی فکر نے صدیوں ۔۔۔ کی روایت کو چیلنج کرتے ہوئے زبان،زندگی اور ادب کے بارے میں سوچنے کی نہج بدل دی ہے‘‘اسی کشف نے نئی تنقیدی تھیوری کے ضمن میں ان کی گہری باطنی شرکت کو ممکن بنایا اورزندگی،موضوع انسانی اور ادب کے بارے میں خود نارنگ صاحب کے سابقہ نظریات کو بھی بدل کر رکھ دیا۔
(’’اردو میں ساختیات کے مباحث‘‘ از ناصر عباس نیر۔بحوالہ حریمِ ادب بوریوالہ کتاب نمبر ۱،ص ۱۱۰)