ڈاکٹر شفیق احمد(بھاولپور)
انسا ن اپنی زندگی میں سینکڑوں ،ہزاروں لوگوں سے ملتا ہے لیکن ان میں سے مو ثر اور لوگوں پر اپنا نقش ثبت کرنے والی شخصیتیں بہت کم ہوتی ہیں۔ میں اپنی پچاس باون سالہ زندگی میں بے شمار لوگوں سے ملا ہوں اور ان میں سے بہت سے ایسے بھی تھے جو اپنے اپنے میدان میں ناقابل یقین مہارت بھی رکھتے تھے لیکن جو شخصیات میری آئیڈیل بن گئیں، ان میں اول میرا ان پڑھ لیکن انتہائی سمجھ دار ، زیرک ، معاملہ فہم ،احسان شناس ، صاف گو اور دوسروں کے لیے مہربان اور رحیم باپ ہے ۔ دوسری بڑی شخصیت جس نے میری ذات کو یکجا کرنے اور ایک نئی شکل دینے کی سعئی مشکور فرمائی وہ مرے رہنما اور استاد پروفیسر ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا ہیں جبکہ تیسری شخصیت جن کے ساتھ میرا تعلق انتہائی کم وقت کے لیے رہا، پروفیسر عبدالقیوم قریشی ہیں جو اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور کے وائس چانسلر بھی رہے اور جن کی حال ہی میں ’’رختِ سفر‘‘ کے نام سے خود نوشت سوانح عمری بھی آئی ہے جسے اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور نے شائع کیا ہے ۔
سوال یہ ہے کہ آخر یہ تینوں شخصیات مجھے کیوں پسند ہیں؟ غالباً یہ معاملہ سلبی، نسلی اور منفعت وغیرہ سے تو منسلک نہیں ہو سکتا کہ خواجہ زکریا اور قیوم قریشی سے میرا نسلی و سلبی رشتہ نہیں ہے۔ اسی طرح قیوم قریشی صاحب کی وائس چانسلری کے زمانے میں شاید ہی میں کبھی ان کے دولت کدے پر جا سکا ہوں اور دفتر میں بلاوجہ آنے جانے والوں کو قیوم قریشی صاحب کا پہلا سوال ہی ناک آؤٹ کر دیا کرتا تھا اور کم لوگ تھے جو ان کی مجلس میں بیٹھ کر کسی بھی طرح اطمینان کا سانس لے سکتے ہوں۔ تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا قیوم قریشی صاحب مردم بیزار انسان ہیں؟ ممکن ہے ایسا بھی کہا جا سکتا ہو لیکن میں نے اپنے ابو، خواجہ زکریا اور قیوم قریشی صاحب کو کبھی بے کار بیٹھے نہیں دیکھا ۔ میرے والد پچاسی سال کی عمر میں بھی اپنے کھیت کھلیان کے معاملات خود دیکھتے ہیں۔ خواجہ زکریا صاحب کا چند دن پہلے ہی نوازش نامہ آیا ہے کہ بھائی ! ریٹائرمنٹ کے بعد میں لکھنے پڑھنے کے معاملات میں زیاد ہ مصروف ہو گیا ہوں، لہٰذا مہربانی کر کے مجھے ایم ۔ اے اور ایم۔فل وغیرہ کے پرچے نہ بھجوایا کریں جبکہ قیوم قریشی صاحب جب کبھی لاہور جاتے توفائلوں کا پلندہ ان کے ساتھ چلتا۔ واپسی کے سفر میں بھی فائلیں ساتھ ہوتیں۔ ریلوے ا سٹیشن (یاد رہے کہ اس زمانے میں بہاول پور سے جہاز نہیں جایا کرتے تھے)پر گاڑی رکتی، قیوم صاحب گاڑی سے اترتے، ڈرائیور محمد نواز اور رجسٹرار محمد افضل خان قریشی صاحب کی طرف لپکتے، نواز بریف کیس پکڑتا اور محمد افضل خان فائلوں کا بنڈل ، کار تک ہدایات جاری رہتیں، دونوں اپنی اپنی گاڑی میں بیٹھتے اور اگلی کئی راتیں رجسٹرار صاحب سو نہ سکتے ۔ اس لیے کہ قیوم قریشی صاحب کے دیے ہوئے کام کونبٹانا آسان نہیں ہوتا تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا قیوم قریشی صاحب خود رات کو لمبی تان کر سو جانے کے عادی تھے؟ جی نہیں محمد نواز ، محمد الطاف اور بہت سے دوسرے لوگ اس بات کے گواہ ہیں کہ بعض اوقات شدید سردی کی رات میں دو تین بجے قیوم قریشی صاحب کی آنکھ کھل گئی تو انہوں نے لائٹ آن کر کے کسی چٹ پر خواب میں آنے والا خیال نوٹ کر لیا تا کہ صبح اس پر عمل کیا جا سکے۔ لیکن اگر خیال بہت اہم اور ضروری ہے تو پھر رات دو تین بجے رجسٹرار، اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور کے گھر کے ٹیلی فون کی گھنٹی بج اٹھتی۔ وہ بے چارے بستر سے نکلتے ، اتنی دیر میں یونیورسٹی ڈرائیور انہیں لینے کے لیے پہنچ جاتا ، گھنٹے دو گھنٹے بعد بات کسی کنارے پرلگتی اور رجسٹرار اپنے گھر جانے کے لائق ہوتے ۔
میرے والد صاحب نے ضلع انبالہ سے ہجرت کی۔ سپیشل ٹرین نے انہیں کو ٹ ادو ضلع مظفر گڑھ اتارا۔ جیب میں پھوٹی کوڑی بھی نہیں تھی اور کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانا بھی ممکن نہیں تھاکہ بیوہ ماں نے اس طرح کی تربیت ہی نہیں کی تھی ۔ دن رات محنت کر کے کوڑی کوڑی جمع کی ، کسی کا حق نہیں کھایا اور کسی کو اپنا حق کھانے بھی نہیں دیا۔ آج تک مجھے ایسا کوئی شخص نہیں ملا جس نے میرے والد صاحب سے ایک بھی پیسا لینا ہو۔ خواجہ زکریا صاحب کے والدین نے امرت سر سے ہجرت کی، جھنگ میں آبسے، ابتدائی تعلیم جھنگ ہی میں حاصل کی، گریجوایشن گورنمنٹ کالج لاہور سے کی، اورینٹل کالج پنجا ب یونیورسٹی کی اس کہکشاں میں شامل رہے جس میں پروفیسر ڈاکٹر اسلم انصاری، پروفیسرڈاکٹر خورشید رضوی، پروفیسر ڈاکٹر آفتاب اصغر، پروفیسر انور مسعود اور پروفیسر ڈاکٹر عابد صدیق شامل تھے۔ بھائیو! میں اعلان کرتا ہوں کہ خواجہ صاحب نے کسی کا حق کھایا ہو ، کسی کو ناروا طور پر برا بھلا کہاہو ، کسی کے ساتھ کسی بھی طرح کی کمی بیشی کی ہو تو میں آنحضرتؐ کی سنتِ مبارکہ پر عمل کرتے ہوئے اپنی کمر سے کپڑا ہٹاتا ہوں، جس کا جی چاہے مجھ سے بدلہ لے لے ۔ میں یونہی یہ اعلان نہیں کر رہا ہوں اس کے پیچھے میرا تیس سال کا تجربہ بول رہا ہے۔ خواجہ صاحب نے نہ کبھی جھوٹ کہا اور نہ کسی کو بولنے دیا۔ نہ کسی کے ساتھ زیادتی کی اور نہ اپنے ساتھ خرابی ہونے دی۔ میں جانتا ہوں کہ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے زمانے میں خواجہ صاحب کا گھر اسلامی جمعیت طلبہ کے مظلوم طلباء کا مامن تھا اوراس کے بعد پی۔ ایس ۔ ایف کے طلباء کی پناہ گاہ۔ کون ہے جو اپنے کیرئیر کا اعلیٰ ترین منصب یعنی اکیسواں اور بائیسواں سکیل صرف ایک جملے پر قربان کر دے اور جو اپنے عمر بھر کے دشمنوں کو بھی اس بات پر مجبور کر دے کہ وہ مصروفِ دعا ہو جائیں۔ میرا واضح اشارہ استادِمحترم ڈاکٹر سجاد باقر رضوی مرحوم کے کیس کی طرف ہے جو اب بھی پنجاب یونیورسٹی کے ریکارڈ پر موجود ہو گا۔
پروفیسر عبدالقیوم قریشی نے کہیں سے ہجرت نہیں کی۔ البتہ انھیں۱۹۴۷ء میں ہجرت کر کے آنے والے ہزاروں مہاجرین کی خدمت کا موقع ملا اور وہ اپنی موٹر سائیکل کو مہمیز لگائے یہاں سے وہاں تک بھاگتے دوڑتے رہے اور اس کے لیے کسی ’’تمغہء حسن کار کردگی‘‘ کے خواہش مند بھی نہیں ۔ اصل میں لینے والے اور دینے والے ہاتھ میں یکسانیت نہیں ہوتی۔ بظاہر تو دونوں ہاتھ ہی ہوتے ہیں لیکن درحقیقت ان میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے ۔ بھلا آج کے پاکستانی نوجوان جو منفعت اندوزی کے سائے میں پل رہے ہیں،عبدالقیوم قریشی کے اس جذبے کو کیسے سمجھ سکتے ہیں جو ۵۶۹۱ء کی جنگ میں اپنا رزق حلال سے کمایا ہواجمع جتھابھی’’وارفنڈ‘‘ میں دے دیتے ہیں اوراپنے گھر کا قابلِ استعمال باقی اثاثہ بھی۔ یہی وجہ ہے کہ جب میں ان کی وی۔ سی شپ کے زمانے میں استاد محترم ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی کے ساتھ ان کے گھر واقع لاہور گیا تو میں نے دیکھا کہ بدر نگ صوفہ اور کمرے کا جگہ جگہ سے ٹوٹا ہوافرش ان کی درویشی کا حال کہہ رہا تھا۔
ابو کسی سکول، کالج یا یونیورسٹی میں نہیں گئے تھے۔ وہ پڑھنا چاہتے تھے لیکن ان کے سکول اورگاؤں کے درمیان ایک برساتی نالہ ہر سال کم از کم چھ ماہ کے لیے سکول اور بچوں کے درمیان حائل ہو جایا کرتا تھاجس کی وجہ سے بچوں کے لیے سکول جانا ممکن نہیں رہتا تھا۔ البتہ ابو نے اپنے امام مسجد سے سبقاً سبقاً قرآن شریف پڑھنے کی سعی کی لیکن حافظ صاحب اس قدر سخت تھے کہ اگر کوئی بچہ کسی ایک دن ناغہ کرتا تو وہ اگلے دن سبق نہیں دیتے تھے جبکہ میرے والد صاحب پر بچپنے ہی میں گھر کے کام کاج کا بہت بوجھ تھا۔نتیجے کے طور پر ان سے ایک دن ناغہ ہوا اور مولوی صاحب نے ہمیشہ کے لیے مسجد میں پڑھنے کی خاطر آنے پر پابندی لگا دی۔ میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ کسی ادارے سے انتظام وانصرام کی ڈگریاں نہ لینے کے باوجود وہ بہت اعلیٰ درجے کے منتظم رہے ہیں۔ میں ان کے بچپن کا ایک قصہ بیان کر سکتا ہوں کہ ہندوستان میں ان کے گاؤں میں ایک پنچائت ہو رہی ہے۔ مسئلہ زیر بحث یہ ہے کہ کسی نا معلوم شخص نے چھڑی لے کر ایک زمین دار کے چاول کے کھیت میں سے چاول کی ساری فصل جھاڑ دی ہے ۔کسی کو سمجھ نہیں آ رہا کہ یہ حرکت کون کرسکتا ہے ؟ آٹھ سال کی عمر میں والد صاحب پنچائت میں بار بار نمبردار کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے کی کوشش کرتے ہیں اور مسلسل ایک ہی بات کہے جا رہے ہیں کہ اس زمین دار نے جس شخص کا نقصان کیا ہوگا اس شخص نے بدلے کے طور پر اس کا نقصان کر دیا ۔ آخر بچے کی طرف توجہ مبذول ہوئی۔ نمبردار نے پوچھا بھئی! تم کیا کہنا چاہتے ہو؟ تو والد صاحب نے بے خوف ہو کر کہا کہ کل یہ شخص ہمارے تیار کھیت میں سے نہ صرف گزرا بلکہ اس کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی اور یہ جیری کی بالیوں پر چھڑی مار مار کر ہمارے کھیت برباد کرتا رہا۔ میں نے اس شخص کو سمجھانے کی کوشش کی تو اس نے مجھے جھڑک دیا۔ میں اس وقت تو مجبور ہو کر خاموش ہو گیالیکن رات کو اس کے کھیت میں ڈنڈا لے کر گیا اور رات بھر میں اس کے کھیت کا صفایا کر دیا۔ والد صاحب بتاتے ہیں کہ یہ بات سن کر کئی لوگ میری جانب لپکے لیکن نمبردار نے سب کو خاموش کر کے اپنا فیصلہ سنادیاکہ تم اگر ایک یتیم بچے کے کھیت کا نقصان کر سکتے ہو تو اسے یہ پورا حق حاصل ہے کہ وہ بھی تمہیں سیدھا کر دے اور آج کے بعد اگر کسی شخص نے اس کا نقصان کیا تو مجھ سے برا کوئی نہ ہو گا۔ سمجھنا چاہیے کہ اس زمانے کے گاؤں کا چھوٹا سا نمبرداربھی اخلاقی حوالوں سے موجود ہ زمانے کے نمبرداروں سے بہت بہتر اور برتر تھا۔
میں نے تیس بر س کی نیازمندی میں ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا صاحب کو بیشتر اور مختلف کیفیتوں میں دیکھا ہے۔ میں نے کوشش کی کہ ان کی شخصیت میں کوئی چھوٹا موٹا جھول تلاش کر لوں تاکہ کل کلاں میں اس کی بنیاد پر خود فائدہ اٹھا سکوں یعنی اس طرح کی غلطی کا اعادہ کر سکوں لیکن خدا کا شکر ہے کہ میرا آئیڈیل ٹوٹ نہیں سکا۔آج تیس برس کی رفاقت میں بھی ان میں وہی خصوصیات نظر آتی ہیں جنہوں نے پہلے دن مجھے ان کا گرویدہ کر لیا تھا۔ میں نے بار ہا دیکھا کہ وہ سخت غصے میں ہیں لیکن پھر بھی ان کی زبان سے کوئی ایسا لفظ نہیں نکل سکا جو ان کے اعلیٰ ترین معیار سے کمتر ہو ۔ وہ اورینٹل کالج میں ایک طالب علم کی حیثیت سے داخل ہوئے تھے اور پھر ان کی ساری عمر اورینٹل کالج ہی میں گزر گئی۔ لیکچرر سے لے کر پروفیسر تک اور ہاسٹل وارڈن سے لے کر پرنسپل تک کے اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے، چین اور جاپان میں بھی ان کا طویل قیام رہا لیکن مجال ہے کہ کہیں سے بھی کوئی ایسی بات سنی گئی ہوجسے اچھا نہ سمجھا جا سکے۔ وہ ہر شخص سے اس کی صلاحیت کے مطابق کام لینا جانتے ہیں اور ایسا اس لیے ہے کہ وہ ضروت پڑنے پر وہی کا م خود بھی سر انجا م دے سکتے ہیں۔ یہ خصوصیت صرف خواجہ صاحب ہی میں نہیں بلکہ ان کے پورے خاندان میں سرا یت کر گئی ہے ۔ خواجہ صاحب اعلیٰ انتظامی صلاحیتیں رکھنے کے ساتھ ساتھ میرٹ کی بات کبھی نہیں بھولتے ۔ مجھے یادہے کہ ایک دفعہ اورینٹل کالج کے پرنسپل، ڈین اور ڈاکٹر صاحب کے استاد نے جان بوجھ کر شعبہء اردو اورینٹل کالج میں پروفیسر کی پوسٹ مشتہر کرائی اور پوری کوشش کی کہ خواجہ صاحب اس کے لیے درخواست دیں لیکن خواجہ صاحب نے ہمیشہ ایک ہی جواب دیا کہ جی نہیں جب تک میرے استاد پروفیسر ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار پروفیسر نہیں ہو جاتے میں محض سیاست بازی کے لیے درخواست نہیں دوں گااور تاریخ شاہد ہے کہ پوری اہلیت رکھنے کے باوجود خواجہ صاحب نے درخواست نہیں دی۔ یہ رویہ ان کی شخصیت کا وہی رویہ ہے جس کی بنا پر انہوں نے سینئر ترین استاد ہونے کے باوجود اکیسویں اور بائیسویں سکیل سے ہاتھ کھینچ لیا۔ میرٹ کی بات ہو رہی ہے تو میں اپنا ایک تجربہ بیان کرتا چلوں کہ اپریل ۸۷۹۱ء میں، میں اور ڈاکٹراسلم ادیب شعبہء اردو میں لیکچرر منتخب ہوئے۔ یاد رہے کہ اس وقت سلیکشن بورڈ میں ماہر مضمون کے طور پر ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا صاحب تشریف فرما تھاا ور میری سلیکشن نمبر ۲کے طور پر ہوئی تھی۔ صرف یہی نہیں بلکہ کسی وائس چانسلر نے کسی وجہ سے دوسرے لوگوں کو ہاتھ میں لے کر اپنی مرضی کی سلیکشن کروائی ہو تو اور بات ہے، بصورت دیگر خواجہ صاحب کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے بیٹے کی سلیکشن میں بھی غلط راستہ نہیں چنیں گے۔ میرے پاس اس کے لیے بہت بڑی اور واضح دلیل موجود ہے اور وہ یہ کہ ڈاکٹر صاحب کی بیگم ،میڈم شگفتہ زکریا نے اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی میں پی۔ ایچ ۔ڈی کے لیے رجسٹریشن کروائی ۔ خواجہ صاحب کے لیے یہ ممکن تھا کہ وہ اپنی بیوی کے لیے مقالہ برائے پی۔ ایچ ۔ ڈی خود لکھ دیتے یا اپنے کسی شاگرد سے لکھوا لیتے (یاد رکھیے کہ آج کل ادب میں سرقے اور جعل سازی کی روایت روز افزوں ہے) لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا بلکہ مدت پوری ہونے پر رجسٹریشن منسوخ ہو گئی ۔ در اصل میڈم صاحبہ کا مسئلہ بھی معاشرے کی دوسری خواتین جیسا ہی تھا یعنی ملازمت ،گھر داری، بچے اور عزیز وا قارب وغیرہ کئی سال کے بعد از سر نو پی۔ ایچ۔ڈی کی رجسٹریشن ہوئی اور میڈم صاحبہ کو پی۔ ایچ۔ ڈی کی ڈگری مل سکی۔
پروفیسر قیوم قریشی کی تنظیمی صلاحیتیں جب ان کی غور و فکر کی صلاحیت نیز ان کی شبانہ روز محنت سے ملتی ہے تو خود بخود معجزے وقوع پذیر ہونے لگتے ہیں ورنہ اسلامیہ یونیورسٹی کا بغدادالجدید کیمپس اور اس کا تعمیری منصوبہ پایہء تکمیل تک نہ پہنچ سکتا ۔ آپ اس ایریاکو دیکھتے تو پتا چلتا کہ لق و دق صحرا کو کیونکر گل وگلزارمیں تبدیل کیا گیا؟ انتظامی صلاحیت کے علاوہ قیوم قریشی صاحب میں اقبال کی خودی بھی اس طرح موجزن تھی کہ ان کا سر باطل قوتوں کے سامنے جھکنے نہیں دیتی تھی۔ میں نے سنا ہے کہ ایک دفعہ بہاول پور کے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر نے قیوم قریشی کو کسی میٹنگ کے سلسلے میں اپنے دفتر میں بلانے کی کوشش کی ۔ قیوم قریشی صاحب نے کہا کہ اگر آپ کو کوئی مشورہ کرنا ہے تو میرے دفتر میں تشریف لے آئیے۔پھر نہ مارشل لاء ایڈمنسٹریٹرنے بلایا اور نہ قریشی صاحب کو جانا پڑا۔ اسی طرح کی ایک اور صورت حال پر پروفیسر میاں منظور احمد مرحوم نے وہ تاریخی جملہ ارشاد فرمایا تھا جو دیر تک بہاول پور کی فضاؤں میں گونجتا رہا۔ دراصل انسانی شخصیت میں نہ کوئی خوبی تنہا آتی ہے اور نہ خامی بلکہ ہر چیز نظام شمسی کی طرح اپنا وجود رکھتی ہے ۔ مثلاً زمین مریخ، مشتری کا سورج کے بغیر اور سورج کا ان سیاروں کے بغیر کوئی تصور نہیں کیا جا سکتا ۔ پروفیسر قیوم قریشی کی یہی خوبی تھی جو دراصل بینڈ ماسٹرز ہاؤس کے حوالے سے ان کی سبک دوشی کا سبب بن گئی۔ قیوم قریشی کی عظمت کا دراصل یہی راز ہے کہ انہوں نے بائیس سکیل کی ملازمت سے علیحدگی قبول کر لی لیکن اپنے ہوتے ہوئے کسی کو یونیورسٹی املاک پر قبضہ نہیں کرنے دیا۔
میرے والد صاحب ان پڑھ ہونے کے باوجود ہمیشہ نئے اور مثبت کام انجام دیتے رہے ۔ مجھے یاد ہے کہ انہوں نے آج سے پینتیس چالیس سال پہلے ایک دریائی کھالے پرایسا بند تعمیر کروایا تھا جوان کی زمینوں کے ساتھ ساتھ دوسرے زمیں داروں کے رقبوں کو بھی سیراب کرتا تھا۔ نئے پن او راچھوتے راستے پر چلنے کی یہی خوبی خواجہ صاحب میں بھی بدرجہ ء اتم موجود ہے۔ خواجہ صاحب کے لیے لاہور میں رہتے ہوئے یہ بات بہت آسان تھی کہ وہ کسی بھی ادبی گروہ میں شامل ہو کر دوسروں کی ڈفلیاں بجانا شروع کر دیتے لیکن خواجہ صاحب کے کردار کی یہی تو خوبی ہے کہ وہ ایسے راستوں پر نہیں چلتے جو خراب بھی ہوں اور پامال بھی۔ وہ جانتے ہیں کہ اقبال کے بعد اردو شاعری کا سب سے بڑا نام جھنگ اور ساہیوال میں رہنے والا ایک غیر معروف شخص مجید امجد ہے ۔ آج بہت سے لوگ یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ مجید امجد پر پہلا مضمون فلاں نے لکھا اور فلاں نے نہیں لکھا لیکن کیا کوئی اس دعوے سے انکار کر سکتا ہے کہ یہ ڈاکٹر خواجہ زکریا صاحب ہی ہیں جنہوں نے میرٹ کی بنیاد پر اس عہد کے سب سے بڑے شاعر کو کھوجا یہاں تک کہ وہ آج اپنا اصل مقام حاصل کرنے میں کامیا ب ہو چکا ہے۔ یہاں یہ اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ خواجہ صاحب نے مجید امجد کو اس لیے اٹھایا کہ اتفاق سے خواجہ صاحب اورمجید امجد ، دونوں کا تعلق جھنگ سے تھالیکن پھر’’روشنی کی جستجو‘‘ کے شاعر علاء الدین کلیم مرحوم کا کیا کیجیے گا کہ جن سے خواجہ صاحب کا اول تو کوئی تعلق تھا ہی نہیں اور تھا بھی تو اسے منفی ہی کہا جا سکتا ہے ۔ لیکن علاء الدین کلیم میں چونکہ ایک اچھے شاعر کی بیشتر خصوصیات موجود تھیں لہٰذا وہ جاپان سے آئے،’’روشنی کی جستجو‘‘ کو مرتب کیا، تقریب رونمائی ہوئی اور خواجہ زکریا صاحب پھر جاپان لوٹ گئے۔ بھلا مجید امجد اور علاء الدین کلیم خواجہ صاحب کو کیا دے سکتے ہیں؟
پروفیسر قیوم قریشی بہت سے مناصب پر فائز رہے اور انہوں نے ان مناصب پر رہتے ہوئے بہت سے اچھے کام بھی کیے ہوں گے لیکن ان کا اصل کارنامہ ڈاکٹرمحمد حمید اللہ مرحوم کے لیکچرز کا اہتمام او ران کی اشاعت سے متعلق تھا۔ اس حوالے سے بھی قیوم قریشی صاحب کی بے غرضی ملا حظہ فرمائیے کہ ڈاکٹرمحمد حمیداللہ کی شخصیت کی دریافت کا کریڈٹ لینے کی بجائے وہ ’’رختِ سفر‘‘ میں صاف کہتے ہیں کہ مجھے ڈاکٹرمحمد حمیداللہ کے بارے میں جسٹس محمد افضل چیمہ سابق چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل نے بتایا۔
ان دنوں کی کیا بات کی جائے۔ یہ دن واقعتاً اسلامیہ یونیورسٹی ہی نہیں بلکہ بہاول پور کی تاریخ میں ایک انوکھے واقعہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ایک حیثیت ان لیکچرز کے دوران میں نظم و ضبط ، سلیقہ مندی اورسامعین کی توجہ کے حوالے سے تھی جبکہ دوسری حیثیت ایک انتہائی معمولی واقعے سے شروع ہو کر ایک بڑے واقعے پر منتج ہوئی۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ بہاول پور کی فضا ان بارہ لیکچرز کے دنوں میں ایک روشن اور پر نور فضا کی حیثیت رکھتی تھی اور لوگ باوضو ہو کر ان لیکچرز میں شرکت کیاکرتے تھے۔ گھوٹوی ہال میں جگہ نہ ملنے کے سبب ہال کی دائیں بائیں گیلریوں کے علاوہ سامنے میدان میں بھی کرسیاں بچھی رہتی تھیں۔ اتنے رش کے باوجود خاموشی اس قدر ہوتی تھی کہ سوئی گرنے تک کی آواز سنائی دیتی تھی۔ تلاوت کے بعد ڈاکٹر صاحب موصوف کا لیکچر شروع ہوتا تھا جو مغرب تک جاری رہتا تھا۔ نماز مغرب کے بعد سامعین کے سوالات جمع کیے جاتے تھے۔اسی اثناء میں جلسے کے صدر اپنے صدارتی خطبے سے نوازتے اور پھر آخر میں ڈاکٹرمحمد حمیداللہ لوگوں کے سوالات کے جواب دیتے ۔ مجھے یہ شرف حاصل ہے کہ پانچ خطبات کے دوران میں سٹیج سیکرٹری کے فرائض میں نے انجام دیے تھے، چھ خطبات کے سیکرٹری نذیر سعیدموجودہ سیکرٹری ہائیر ایجوکیشن پنجاب تھے جب کہ آخری لیکچر میں نظامت کا کام پروفیسر میاں منظور احمد مرحوم نے انجام دیاتھا۔ غالباً آخری لیکچر تھااوراس کے بعد ریلوے روڈ کیمپس میں کھانے کا بندوبست بھی تھا۔ اتفاق سے حاضرین کی تعداد کا درست اندازہ نہ کیا جا سکا اور خدشہ پیدا ہوا کہ کھانا کم پڑ جائے گا۔ لہٰذا قیوم قریشی صاحب نے اساتذہ اور ملازمین سے درخواست کی کہ وہ کھانے کے لیے تھوڑا انتظار کر لیں۔لہذا اساتذہ اور ملازمین دوسرے لان میں بیٹھ گئے جب کہ کچھ لوگ بازار سے کھانا لینے چلے گئے۔ مہمانوں سے فراغت کے بعد قیوم قریشی اساتذہ کے پاس آ گئے اور تب وہ واقعہ پیش آیا جو اس بہترین کام کا برا انجام ثابت ہوا۔ قیوم قریشی صاحب نے پوچھا کہ بھائی! اساتذہ میں کوئی شاعر ہیں یا نہیں؟ لوگوں نے جھٹ دو نام لے دیے۔ میں نے وی۔ سی صاحب کے حکم اور لوگوں کے اصرار پر دو چار شعر سنائے لیکن دوسرے صاحب نے ’’مرے خیالوں کی……‘‘والی نظم شروع کر دی۔ کیا موقع؟ کیا کیفیت؟ کیا حالات کا تقاضا؟ اور کیا یہ شرم ناک نظم۔ مجھے ٹھیک طرح سے یاد نہیں کہ اگلے دن پروفیسر مذکور کی برو بیشن میں اضافہ ہوا یا وہ ملازمت سے فارغ کر دیے گئے؟ دراصل قیوم قریشی صاحب اساتذہ کو پڑھانے کی مشین نہیں بلکہ تربیت کا ایک ادارہ تصورکرتے تھے جبکہ پروفیسر صاحب کی اس طرح کی کئی نظمیں شہرت پا گئی تھیں۔ نیز ساہیوال سے متعلق کچھ شکایات بھی تسلسل کے ساتھ قیوم قریشی صاحب تک پہنچ رہی تھیں اور ایک طویل دورانیے کا ٹرپ اور اس کے واقعات بھی قیوم قریشی صاحب کے سامنے تھے۔ نتیجتاً قیوم قریشی صاحب نے ایک دفعہ سنبھلنے کا موقع دیا اور پھر یونیورسٹی ملازمت سے فارغ کر دیا۔
وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی درست تاریخ مرتب کریں ۔ جہاں اپنے بزرگوں کے کارناموں کو پیش کریں وہیں اپنے اسلاف کی غلطیوں کا ذکر بھی کریں تاکہ آئندہ ان کا اعادہ نہ ہو ۔ مثلاً مسلم لیگ نے پاکستان بنایا لیکن یہی قیادت مشرقی پنجاب ، بہار اور دوسرے ایسے علاقوں کے بارے میں سوچ بھی نہ سکی جہاں مسلمان اقلیت میں تھے۔ کمال تو یہ ہے کہ اس قیادت کو آخری وقت تک یہ اندازہ نہ ہو سکا کہ اقلیتی مسلمان صوبوں میں مسلمانوں پر کیا قیامت ٹوٹنے والی ہے ؟اس کا ایک ادنیٰ سا نتیجہ فسادات اور ہجرت کے حوالے سے سامنے آیا اور جب فسادات شروع ہوئے تو مسلمانوں کے پاس اپنے دفاع کے لیے کوئی منصوبہ یا ہتھیار بھی نہ تھا۔ ہمارے خاندان میں چار افراد شہید ہوئے اور پھر ہمارے اہل خانہ مختلف مہاجر کیمپوں میں پہنچ گئے۔ والد صاحب ان پڑھ ضرور تھے لیکن حالات کا بڑی باریک بینی سے مشاہدہ کر رہے تھے۔ فساد زدہ علاقوں میں مال ومنال ، لوٹ مار اور اس سے بھی زیادہ خواتین کا اغوا بہت تکلیف دہ عمل تھا۔ یہ وہی واقعات ہیں جن کا ذکر نسیم حجازی نے اپنے ناول ’’خاک اور خون‘‘اور الطاف فاطمہ نے ’’چلتا مسافر‘‘ میں بھی کیا ہے۔ والد صاحب نے کچھ پڑھے لکھے نوجوانوں سے رابطہ کیا، پولیس کی وردیاں حاصل کیں اور ایک گروپ تشکیل دے کر مغوی خواتین کی تلاش اور انہیں ان کے ورثا تک پہنچانے کا فریضہ انجام دینا شروع کیا۔ یہ کام جاری تھا کہ لٹے پٹے افراد کے ذہن میں روپے پیسے کی ہوس نے سر اٹھایا اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ فلاں ہندو سیٹھ کے گھر پولیس افسر بن کر لوٹ مار کی جائے۔ والد صاحب فرماتے ہیں کہ میں رات کو لیٹا تو سوچنے لگا کہ نور احمد! آج تک یہ کام بھلائی کے لیے کر رہے تھے لیکن اب کل سے مقصد غلط ہو جائے گا۔چند دن پہلے اپنے اپنے گھروں میں شان دار زمین دار بنے بیٹھے تھے اور آج یہاں کیمپ میں اس حالت میں ہیں کہ کھانے کے لیے روٹی اور سونے کے لیے بستر نہیں ہے۔ والد صاحب کہتے ہیں کہ میں اٹھا ، ان لوگوں کو جمع کیا اور کہا بھائیو! اگر تم لوگ فیصلہ کر چکے ہو تو میں صبح تمھارے ساتھ نہیں جاؤں گا۔ وہ لوگ باز نہ آئے اور پروگرام پر عمل کرتے ہوئے اس ہندو سیٹھ کے گھر پہنچے، جس نے کسی طریقے سے تھانے میں اطلاع کر دی اور یہ جعلی پولیس اہل کار موقع پر گرفتار ہو گئے۔ان میں سے ایک شخص کوٹ ادو میں مقیم ہے جو مجرموں کے تبادلے میں پاکستان آیا ۔فسادات کا مرکز مشرقی پنجاب میں امرت سر تھا اور ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا اپنے والدین کے ساتھ اسی شہر میں رہتے تھے جب کہ ان کے والد لاہور میں کاروبار بھی کرتے تھے۔ ہجرت کا موقع آیا تو خواجہ صاحب کا خاندان جھنگ میں آبسا۔ جہاں خواجہ صاحب نے ایف ۔ اے تک کی تعلیم حاصل کی اور یہیں پر ان کی ملاقاتیں مجید امجد اور پروفیسر مرزا محمد منور مرحوم سے ہوئیں۔البتہ قیوم قریشی لاہور کے قدیمی باشندے ہیں لیکن جیسے ہی فساد زدہ علاقوں کے مسلمان لاہور پہنچے تو قیوم قریشی صاحب اپنی تمام مصروفیات ترک کر کے مہاجرین کی خدمت میں مصروف ہو گئے۔ یہ تفصیل ’’رختِ سفر‘‘ میں موجود ہے ۔
یہ میرے بچپنے کا واقعہ ہے ۔غالباً مئی کے دن تھے۔ دریائے سندھ کے بیٹ میں ہمارے زرعی رقبے پر گندم کی کٹائی اور گہائی ہو چکی تھی۔ والد صاحب اور اس رقبے کا ایک اور شراکت دار بٹائی کے لیے گئے ، میں ساتھ تھا۔ میں نے دیکھا کہ بٹائی کرنے والے احمد بخش نے کمہار ، موچی، نائی ، بڑھئی اور اس طرح کے پیشہ ور لوگوں کے حصے بوریوں میں بند کر کے الگ الگ رکھ دیے۔ اپنے حصے کی گندم الگ کر لی اور والد صاحب کے حصے کی گندم الگ بوریوں میں بھر دی گئی۔ بوڑھے مزارع کے پاس حقیقتاً کچھ بھی نہ بچا لیکن میں آج تک حیران ہوں کہ اپنی سال بھر کی پونجی لٹانے کے بعد بھی وہ آرام سے بیٹھا انتہائی صبر کا مظاہرہ کر رہا تھا۔ والد صاحب نے پوچھا کہ اس مزارع نے کبھی موچی سے جوتا بنوایا بھی ہے یا نہیں ، کمہار سے کبھی برتن خریدے بھی ہیں یا نہیں، بڑھئی سے کوئی کام لیا بھی ہے یا نہیں ، لیکن تم نے ان کے حصے الگ کر دیے، اپنا حصہ الگ کر لیا ، میرا حصہ الگ کر دیالیکن جس نے سارا سال محنت کی اور جھلاروں سے اپنی فصلوں کو سردیوں کی راتوں میں سینچا، اسے کیا ملا؟ بھائی! میرے لیے یہ گندم حرام ہے۔ تم لے سکتے ہو تو لے لو اور میرا حصہ اس مزارع کو دے دو۔ مجھے آج تک یا دہے کہ مولوی احمد بخش نے لاکھ جتن کیے لیکن ابونے ایک نہ مانی اور ساری تقسیم از سر نو کرائی۔ اس بوڑھے مزارع کی آل اولاد آج تک اس بات کا ذکر کرتی ہے اور والدصاحب کے حسن سلوک کی گرویدہ ہے۔
مجھے یاد ہے کہ علامہ اقبال ٹاؤن میں پلاٹوں کے لیے درخواستیں دی جارہی تھیں۔ خواجہ زکریا صاحب کے ایک بہت پرانے شاگرد ان کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ میں درخواست نہیں دے سکتا اور آپ کو پلاٹ کی ضرورت ہے۔ لہٰذا یوں کرتے ہیں کہ آپ اپنے نام سے دو کنال کے پلاٹ کی درخواست دے دیں۔ میں بھاگ دوڑ کروں گا جس کے نتیجے میں پلاٹ نکل آئے گا اور ہم دونوں اسے تقسیم کر لیں گے۔ ایک کنال آپ رکھ لیجیے گا او ر ایک میں لے لوں گا۔ درخواست دے دی گئی۔ جس دن قرعہ اندازی ہونا تھی مذکورہ صاحب خواجہ صاحب کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ میں ایل۔ ڈی۔ اے کے دفتر جا رہا ہوں جن لوگوں سے میں نے بات کی تھی وہ اس بات پر آمادہ ہیں کہ قرعہ اندازی میں پلاٹ آپ کے نام نکلوا دیں گے لیکن مہربانی کر کے آپ پلاٹ تقسیم کرنے کے زبانی معاہدے پر قائم رہیے۔ خواجہ صاحب نے پوچھا کہ ایل ۔ ڈی ۔ اے کے دفتر میں آپ کی کسی سے بات ہوئی یا نہیں۔وہ فرمانے لگے کہ نہیں، میں دفتر جاؤں گا تو کوئی نہ کوئی شناسا مل ہی جائے گا۔ خواجہ صاحب نے فرمایا کہ بھائی! آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ ابھی ابھی محمد طفیل کا فون آیا تھا وہ مبارک باد دے رہے تھے اور مبارک باد دینے کا سبب یہ ہے کہ قرعہ اندازی میں میرے نام کا پلاٹ نکل آیا ہے۔یہ بات سن کر پروفیسر صاحب کی ہوائیاں اڑنے لگیں لیکن خواجہ صاحب نے فرمایا کہ بھائی پریشان نہ ہوں میں اپنے وعدے پر قائم ہوں اور ایک کنال کی رجسٹری آپ کے نام کرا دی جائے گی۔ لیکن بعد میں معلوم ہواکہ قواعد کے مطابق اس طرح کے پلاٹوں کی تقسیم ممکن نہیں ہوتی۔ لیکن کیاکوئی شخص یہ بات مان سکتا ہے کہ خواجہ صاحب نے پروفیسر حفیظ کو بیٹھے بٹھائے حق خدمت کے طور پر ہزاروں روپے اس لیے ادا کر دیے کہ ایک بات زبانی طور پر طے ہو گئی تھی۔
میں نے اپنی زندگی میں دو ہی شخصیات دیکھی ہیں جو کسی ادارے کے گیسٹ ہاؤس میں مقیم ہوئیں تو صورت حال کے مطابق خدمت گاروں کو کچھ پیسے عنایت فرما گئیں۔ ان میں پروفیسر قیوم قریشی اور مرزا محمد منور خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ میں نے ہمیشہ دیکھا کہ یہ بہاول پور تشریف لائے، یونیورسٹی گیسٹ ہاؤس میں قیام پذیر ہوئے، جانے لگے تو خدمت گاروں کو سو پچاس روپے دے دیے، بلکہ ۱۰۰۲ء میں تو یہ بھی کمال دیکھا کہ قیوم قریشی صاحب جانے لگے تو اتفاق سے خدمت گارموجود نہیں تھا۔انہوں نے جیب میں سے کچھ پیسے نکال کر مجھے دیے اور فرمایا کہ یہ خدمت گار کو دے دیجیے گا۔ میں نے لاکھ انکار کیا لیکن اس حوالے سے قیوم قریشی صاحب کی رائے کو تبدیل نہ کر سکا۔ صرف یہی نہیں، انہوں ے یونیورسٹی ڈرائیور کے بچے کو اپنایا اور اس کی زندگی بنادی۔ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا اور قیوم قریشی صاحب میں ایک قدر مشترک یہ بھی ہے کہ دونوں بڑے بڑے مناصب پر فائز رہے لیکن ان پر کبھی کوئی دشمن بھی کسی قسم کا ہلکا سا الزام بھی نہ لگا سکا۔
شاعری سے رغبت کا معاملہ بھی بہت عجیب و غریب قصہ ہے ۔ میرے والد صاحب ان پڑھ ہیں لیکن شعراء کے سخت خلاف ۔ ان کی رائے شعراء کے بارے میں وہی ہے جو قرآن شریف میں ہے ۔ لیکن میں نے اکثر دیکھا ہے کہ وہ بعض اوقات قافیے سے قافیہ ملاتے اور ناموزوں ہی سہی لیکن شعر کہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ خواجہ صاحب اردو اور فارسی کے نہ صرف شاعر رہے ہیں بلکہ یہ معاملہ بھی بہت دلچسپ ہے کہ وہ فرمایا کرتے ہیں کہ آپ اردو یا فارسی کا کوئی لفظ بولیں تو میں آپ کو ایسا شعر سنادوں گاجس میں وہ لفظ موجود ہو گا۔ انہیں اردو اور فارسی کے ہزاروں شعر یاد ہیں۔ قیوم قریشی صاحب کو جو لوگ جانتے ہیں انہیں معلوم ہے کہ قریشی صاحب شعر کہتے ہوں یا نہیں لیکن انہیں علامہ اقبال کے سینکڑوں شعر یاد ہیں حالانکہ ان کا اپنا مضمون فزکس ہے۔ مضامین پر کیا منحصر، اصل میں مکمل آدمی ذرا ہوتا ہی مختلف ہے ۔اول تواس میں کوئی کمی ہوتی ہی نہیں ہے اور اگر ہو بھی تو وہ معاشرے کو دیکھ او رسمجھ کر اپنی اصلاح کر لیتا ہے ۔ میرے یہ تینوں آئیڈیلز بھی انہیں خصوصیات کا شاہکار ہیں۔