سید احمد شمیم(جمشید پور)
’وہ ایک کھلے آسمان کی رات تھی ؍ میں لیٹا ہوا ؍ بیکراں پھیلی ہوئی نیلگوں وسعتوں کو دیکھ رہا تھا ؍ سر پر انگنت ستاروں کے جگنو چمک رہے تھے ؍ با لکل میری آنکھوں کے اوپر پورا چاند مسکرا رہا تھا ؍ میں نے پہلی بار محسوس کیا ؍ میں اس خوبصورت کائنات کا ایک حصہ ہوں ؍ یہ کائنات میری ہے ؍ شائد یہی وہ لمحہ تھا ؍ جو ایک شعر کی صورت میرے اندر اتر گیا ؍ شعر جو بے صوت و صدا تھا۔۔۔۔۔۔‘‘
مندرجہ بالا سطریں اسلم بدرؔ کے پہلے شعری مجموعہ ’’سفر اور سائے‘‘ سے لی گئی ہیں، کہنے کی ضرورت نہیں کہ عہدِ آغاز ہی سے اسلم بدرؔ کا یہ مسئلہ رہا ہے کہ میں کون ہوں؟ کس لئے ہوں؟ یہ کائنات کیا ہے؟ اسکی تخلیق کیوں ہوئی اور کس کے لئے ہوئی؟ اور اس کائنات کا جمال رنگ در رنگ ، جلوہ در جلوہ کس طرح اپنے محیط میں ہمیں لئے ہوئے ہے۔ یہی وہ با معنٰی لیکن خوبصورت احساس ہے جس نے اسلم بدر کے اندر سوئے ہوئے شعری جذبات کو پہلی بار متحرک کیا اور جس طرح وقت کے ساتھ ساتھ ان کا اپنا جسمانی اور ذہنی وجود بالیدہ ہوتا گیا ، فکر کے سمندر کی موجوں کی یورشیں بڑھتی گئیں۔ جس کا خوبصورت شعری اظہار با لآ خر ’’کن فیکون‘‘ کے سانچے میں ڈھل گیا، اور جو اس وقت میرے پیشِ نظر ہے۔
مجھے یاد آتا ہے کہ غالباً ستّر( ۷۰) کے آس پاس کسی طویل ملاقات کی شام میں، میں نے اُن سے کہا تھا۔۔۔، تم میں شعر کہنے کی بے پناہ صلاحیت ہے اور تم بہت زود گو بھی ہو، تمہیں مثنوی لکھنی چاہئے، جس میں بے پناہ امکانات ہیں اور جو اب ایک بھولی ہوئی صنف ہوتی چلی جا رہی ہے۔ میں نے اپنی اس خواہش کا اعادہ’ سفر اور سائے‘ کا پیش لفظ لکھتے ہوئے بھی کیا تھا۔۔۔۔ بات آئی گئی ہو گئی۔
ایک دن عزیزیہ نزہت سلمہا نے مجھے بتایا کہ وہ (اسلم بدرؔ) آجکل کچھ لکھنے پڑھنے میں زیادہ ہی مصروف رہنے لگے ہیں۔ شائد کوئی طویل نظم ہو رہی ہے ، دفتر سے گھر آکر بس اپنے کمرے میں بند ہو جاتے ہیں، اس وقت میرا داخلہ بھی ممنوع ہوتا ہے۔
ملاقات ہوئی تو اسلم بدر سے میں نے پوچھا۔۔۔۔۔، ’’بھائی بہت دنوں سے ملاقات نہیں ہوئی، سنا ہے کچھ لکھنے میں مشغول ہو۔؟ ‘‘ہنسے اور کہا۔۔۔’’ آپ ہی کا دیا ہوا ٹاسک پورا کر رہا ہوں‘‘۔ پوچھا، ــ’’مطلب؟‘‘۔ کہنے لگے، ’’کئی برسوں سے ایک مثنوی لکھنے میں مصروف ہوں، اب تقریباً مکمل ہو چکی ہے، تین ہزار اشعار سے زیادہ لکھے جا چکے ہیں‘‘۔ میں نے عرض کیا۔۔! ’’خدا کی پناہ، اتنا بڑا کام اور مجھے خبر تک نہیں؟‘‘۔ کہنے لگے۔۔! ’’آپ کو سرپرائیز دینا چاہتا تھا۔ بخدا اس کی خبر میں نے نزہتؔ کو بھی نہیں دی ہے۔‘‘
اب اس مثنوی کا مکمل مسودہ میرے پیشِ نظر ہے، جسکی پیشانی پر لکھا ہوا ہے ــ’’ کن فیکون‘‘۔ اسلم بدر نے ایک طویل عرصے تک اس پر کام کیا ہے اور بار بار نظر ثانی اورحذف و اضافہ کے عمل سے گذرنے کے بعد اس میں تقریباً دو ہزار اشعار رہ گئے ہیں۔ اس فنکارانہ تراشیدگی نے بلا شبہہ مثنوی کا پیکر سڈول اور متناسب بنا دیا ہے۔ اظہار کی جمالیت اور شعری حسّیت قدم قدم پر قاری کا دامن تھام لیتی ہے۔
ہمارے یہاں طویل نظمیں عموماً ایک ہی بحر میں لکھی جاتی ہیں۔ مثنوی میں خاص طور پر اس کا خیال رکھا جاتا ہے، مگر اسلم بدر نے مختلف بحروں کو استعمال کیا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اس کا سبب شاعر کا عجز بیان نہیں ہے، ایساقصداً کیا گیا ہے، تاکہ دمِ قرآت Monotonyکا احساس نہ ہو اور مطالعہ کا ذائقہ تازہ رہے۔ چنانچہ بحروں کی تبدیلی سے بیان میں تازگی اور اظہار میں ہم آہنگی پیدا ہو گئی ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ تخلیقِ کائنات کے راز ہائے سر بستہ کا بیان کرنے والی یہ پہلی مثنوی ہے۔ ’’کن فیکون‘‘ سے قبل بھی ہمارے شعراء نے اسرارِ حیات و کائنات کی عقدہ کشائی کی کوششیں کی ہیں۔ مثلاً پروفیسر عبد ا لمجید شمس عظیم آبادی نے اپنی طویل مثنوی ’’حیات و کائنات‘‘ میں تخلیقِ کائنات کے مرحلے اور مقصد کو بیان کیا ہے مگر اظہار کے تمام تر جلال و جمال کے باوجود طائرِ تخیل کے پر کہیں کہیں جل اُٹھے ہیں اور علم و دانش کی شعلگی سے شاعری کا بدن مجروح ہوا ہے۔
میرا مقصد یہ نہیں ہے کہ میں اسلم بدر کی ’’کن فیکون‘‘ اور شمس عظیم آبادی کی حیات و کائنات کا تقابل کرنا چاہتا ہوں، سچّائی یہ ہے کہ موضوع کی یکسانیت کے علاوہ ان میں مغائیرتیں کافی نمایاں ہیں۔
اور یوں بھی مماثلتیں تو دھوکا ہوتی ہیں۔ ہر چیز کی اپنی اصلیت ہوتی ہے۔ خود ہماری اپنی نگاہ دھوکا کھا جاتی ہے تو ہم کہتے کہ فلاں چیز فلاں کی مماثل ہے، جبکہ ہر شئے کی سالمیت ہی میں اس کی اصلیت ہوتی ہے۔
اسلم بدر نے کن فیکون میں اسرارِ حیات سے پردہ ہٹانے کی کوشش میں کن کن جہانوں کی سیر کی ہے،کیا کیا جوکھم اٹھایا ہے اور کیسے کیسے چیلنج کو قبول کیا ہے اس پر کچھ کہنا بھی ایک چیلنج کو قبول کرنا ہے اور میں اس کا اہل نہیں ہوں، اس لئے اپنی شکست طئے ہے۔ مگر کیا کیجئے گا کہ کبھی کبھی ہار بھی فتح مندیوں سے زیادہ پیاری لگتی ہے، شرط یہ ہے کہ معروض بھی پیارا ہو۔ مجموعی طور پر اسلم بدر نے کن فیکون کے راز کو مثلّثی دائروں کے حوالے سے دیکھنے کی کوشش کی ہے۔
(الف) ۔ ا ساطیر اور مذہب۔ (ب) ۔ فلسفہ
(ج) ۔ جدید و قدیم سائنسی تصورات و تلاش
اور ان دائروں کے تحت جو عنوانات آئے ہیں وہ کچھ یوں ہیں۔
ہندو مت ، وید ، بھگوت گیتا اور پُران ، منو سمرتی ، جین دھرم ، بودھ مت ،زرتشت ، عہد نامہ قدیم و جدید ، قرآن کریم۔۔۔۔۔
سانکھیہ درشن،سقراط، ارسطو ، فیثا غورث ، فلاطینوس ، ابیقوریت،رواقیت ، وجودیت ، یہودی فلسفہ ، فلسفۂ تشکیک ، تصورِ زمان و مکان (قدیم و جدید) ،فلسفہ ہائے مادّہ و ارتقائے مادّہ۔۔۔۔۔
آفرینشِ عالم کا سائینسی تصور ، وسعت و جسامات ،توجیحاتِ قیامت، ناکارگی ، عالمِ ضدّین ،دوسری دنیا ہماری ضرورت ،عالمِ ضدّین، وجودِ باریٔ تعالیٰ۔۔۔۔۔۔
واضح رہے کہ یہ ترتیب شاعر کی نہیں میری اپنی ہے جو میں نے اپنی سہولت کے لئے دی ہے۔
مندرجہ بالا سطروں کے حوالے سے یہ حقیقت آئینہ ہو جاتی ہے کہ کن فیکون کی قرآت میں صرف شاعرانہ ذوق کافی نہیں ہے، قاری کا اپنا ذہن بھی وسیع محیط پر سفر کرنے کا اگر حوصلہ نہیں رکھتا ہے تو یقیناً کن فیکون کا مطالعہ اس کے لئے بے لذّت اور تھکا دینے والا ہو جائے گا۔ لیکن اسرارِ حیات کو جاننے کی دیوانگی اگر ہے تو قدم قدم پر ایک جہانِ حیرت سے دوچار ہوگا اور انجانی لذّتوں سے شاد کام بھی۔
مثنوی کی ابتدا حمد ، مناجات اور نعت رسولؐ سے ہوئی ہے اور یہی اس کی روائت بھی رہی ہے۔ حمد و مناجات اور نعت کی پاکیزہ فضاؤں سے گذرنے کے بعد مختلف مسائل ، مباحث، افکار اور نظریات کا ایک رزمیہ ہے جو قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ بادی ا لنظر میں بعض تصورات اور افکار متخالف اور متضاد دکھائی دیتے ہیں لیکن باطنی طور پر اس کثرت کے درمیان وحدت کے اس نُور کی یافت بھی اُن آنکھوں کے لئے مشکل نہیں ہے جو ظاہر سے گذر کر باطن میں اترنا جانتی ہیں اور اسلم بدر صرف ایک شاعر نہیں ہیں وہ اہلِ دل بھی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اُنہیں حج و عمرہ سے مکرّر نوازا ہے اور اندر کی آنکھیں کھول دی ہیں۔
مثنوی کے کُھلتے ہی حمدِ باری تعالیٰ پر نظر پڑتی ہے جسے پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ جلالِ خدا وندی کے تصوّر سے اسلم بدر کی سانسیں بکھرنے لگی ہیں اور دم پھولنے لگا ہے اور کہنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
طویل اور اب داستاں کیا کریں
سمجھ لیجئے ہم بیاں کیا کریں
صدا بے صدا اور دہن لا دہن
ادا بے ادا اور بدن لا بدن
اب اسلمؔ زیادہ صفائی نہ دے
خدا ہے وہی جو دکھائی نہ دے
حمدِ باری تعالیٰ کے بعد باری تعالیٰ کے حضور میں جو مناجات کی گئی ہے، ایسی ہے کہ لفظ لفظ سے
نور کی کرنیں پھوٹتی ہیں اور اُن کی روشنی میں اپنی ذات کا آئینہ بھی چمک اُٹھا ہے، مَن عَرَفَہ نَفسہُ فَقَد عَرَفہ رَبَّہُ۔
اللہ۔۔! یہ کائنات میری
انفاسِ حیات و ذات میری
رقّاص سیّاروں کی یہ محفل
سورج کی ستاروں کی یہ محفل
یہ نقش و نگارِ بزمِ ہستی
یہ نظمِ عالم یہ رزمِ ہستی
اعراض و جوہر کا یہ تناسب
انفاس و پیکر کا یہ تناسب
یہ چہرے جو بن سنور رہے ہیں
سب مجھ سے سوال کر رہے ہیں
ہر بزمِ شہود ہے سوالی
خود میرا وجود ہے سوالی
میں کیا ہوں ، سبب کہ استعارہ
منظر ہوں ، نظر ہوں یا نظارہ
کر میری نگاہ بھی تو روشن
کھُل جائیں دیوارِ دل میں روزن
روزن سے ترے اشارے دیکھوں
ہر ذرّے میں سو نظارے دیکھوں
اور جب دیوارِ دل میں روزن کُھل جاتے ہیں اور آنکھیں بے حجابانہ جلوے دیکھنے کی اہل ہو جاتی ہیں تو دل خود بخود ثنائے خواجہ کے لئے جُھک جاتا ہے۔ اورعشقِ رسولؐ کا نشہ دو آتشہ ہو جاتا ہے۔
صدائے کُن سے فکاں تک
مکانِ لا سے مکاں تک
ظہورِ عام سبب تھا
وہی ارادہؐ رب تھا
لرز رہے تھے دھندھلکے
سیاہ شب میں ازل کے
عمیق تر تھی سیاہی
سیاہی پر تھی سیاہی
ابھی حجاب تھا منظر
مگر وہ نوُر کا پیکر
نہاں تھا دُور فضا میں
لباسِ صبر و رضا میں
پسِ وجودِ عدم تھا
وہ قبلِ لوح و قلم تھا
اور حضورِ مدینتہ ا لعلمﷺ میں ہدیۂ نعت پیش کرتے ہی تجسس کے خاموش سمندر میں طوفان آ جاتا ہے۔ تلاش اور آگہی اور پانے اور جاننے کی بے قرار موجیں شاعر کو مضطرب کر دیتی ہیں۔
زمیں آسماں کیوں ازل سے نہیں
چھُپی ہے کہاں علّتِ اوّلیں
ازل ماورائے زماں کیوں ہوا
ابد آفرینش مکاں کیوں ہوا
نہیں ہے تو کیوں ہمسرِ کائنات
کہاں ہے وہ صورت گرِ کائنات
کہاں سے کہاں تک ہے بزم وجود
خلائی ہے کیوں منظرِ ہست و بود
تلاش و بصیرت کی یہی شعلگی ہے جو علم کے چراغ روشن کرتی ہے اور اندر اور باہر کائنات روشن ہو جاتی ہے۔
علم ،کُل سے ہے جزو کی پہچان
علم ہی جزو سے ہے کُل کا گیان
وسعتوں کی مکانیت ہے علم
واقعوں کی اضافیت ہے علم
علم سے مادّے ہوئے سارے
جوہری واقعات کے دھارے
علم، اوقات کا پلٹ جانا
علم، ابعاد کا سِمٹ جانا
لیکن انسان علم اور ایقان کی اس منزل پر بہت بعد میں پہونچا ، اس سے پہلے تو لا انتہااندھیروں
اور اجالوں میں بے سمتیت کا سفر پیش آیا ہے۔ خوف ، قیاسات ، اجالا، اندھیرا، یقین ، بے یقینی ، ایک انجانی حقیقت کو جاننے کی تڑپ اور تڑپ کی چبھن، نا رسائی کا زخم اور رسائی کا مرہم یہ سب مرحلے ہیں جس سے انسان گذرتا ہے۔۔۔۔۔۔۔
خوف آتا تھا جب نظاروں سے
بات کرتا تھا چاند تاروں سے
محفلِ کائنات تھی درپیش
رہ گذارِ حیات تھی درپیش
ایسے اندھے سفر میں بے چارہ
مضمحل، جاں گسل، تھکا ہارہ
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
سوچ اُکتا گئی اُڑانوں سے
آئی آواز آسمانوں سے
دین، حالات کا عطائی نہیں
کبریائی ہے ، ارتقائی نہیں
یہاں یہ ذکر غالباً بے جا نہیں ہو گا کہ ذہنی اڑان کے سبب دین کا آئینۂ وحدت بکھر کرجلوۂ کثرت کا نظارہ بھی دکھاتا رہا ہے، اور اس سفر کی کہانی کی پہلی صدا ، صدائے اوم ہے۔
پئے خلق، پہلی صدا اوم ہے
برہما کے لب کی نوا اوم ہے
وجود اوم ہے، لا وجود اوم ہے
ازل اور ابد، ہست و بود اوم ہے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔
زمان و مکاں سے ہے آزاد اوم
مگر ہر دشا میں ہے آباد اوم
برہم چکر تھرکن ہے، دھڑکن ہے اوم
برہمانڈ کی ایک گونجن ہے اوم
اور یہ گونجن مسلسل جاری ہے۔۔۔’’ کہ آرہی دمادم صدائے کن فیکون‘‘ (اقبال)
ہندو مائیتھولوجی میں تخلیقِ کائنات کو کئی پہلوؤں سے دیکھا گیا ہے۔ مثلاً شری دیوی بھگوت پران میں خالقِ کائنات کو عورت کے روپ میں پیش کیا گیا ہے۔ کیونکہ ہندوؤں کا اس بات پر یقین رہا ہے کہ جننی حقیقت میں عورت ہے ، یہی وجہ ہے کہ تمام شکتیوں کی تمثیل ہندوؤں کے یہاں عورتوں کے حوالے سے کی گئی ہے اور اپنی نا آسودہ خواہشوں اور آرزوؤں کا مخزن انہیں کو بتایا گیا ہے۔ مثلاً گیان کے لئے سرسوتی، دولت کے لئے لکشمی، طاقت کے لئے دُرگا اور تباہی و موت کو کالی کا روپ دے دیا گیا ہے۔ شری دیوی بھگوت پُران میں تخلیقِ کائنات کے رازِ سر بستہ کو شری دیوی کی تمثیل کے حوالے سے بیان کیا گیا ہے۔یہ حکائت ،حکمت اور لذّت سے خالی نہیں ہے۔ وہ یوں ہے کہ شری دیوی کو جب اپنی تنہائی اور یکتائی نے بہت ستایا اور اندر کی خواہشوں کا یلغار حد سے سوا ہوا تو کسی کی رفاقت کی ضرورت بے چین کرنے لگی۔ جبکہ اسلام میں حضرتِ آدم کو تنہائی نے جب ستایا تو انہیں کے وجود سے حوّا کی تخلیق ہوئی ، مگر یہ دونوں ہی مخلوق ہیں ، خالق نہیں۔ جبکہ شری دیوی بھگوت پران میں خالقِ کُل شری دیوی ہے۔ جواپنی تنہائی اور شدید جنسی جذبوں سے مضطرب ہو کر اپنی ہتھیلی سے ہتھیلی رگڑنے لگتی ہے تو اسکے ہاتھ میں آبلے پڑ جاتے ہیں، واضح رہے کہ سائینسی حقیقت میں بھی Friction کی اہمیت مسلمہ ہے۔ پھر یوں ہوا کہ ہتھیلیوں کی یہ آبلے ٹوٹے تو پانی کا ایک سیلاب بہہ چلا ، اور اسی پانی سے برہما نے جنم لیا۔
یہاں یہ نکتہ دھیان میں رہنا چاہئے کہ تخلیقِ کائنات اور آ فرینشِ حیات کا تصوّر تمام دنیا کے اساطیر اور مذہب میں پانی کے وجود سے جڑا ہوا ہے۔ یہاں تک کہ سائنسی حقیقت بھی یہی کہتی ہے کہ پانی کے بغیر حیات کا وجود ممکن ہی نہیں۔ تو پھر یوں ہوا کہ شری دیوی نے برہما سے اپنا سنجوگ چاہا ، مگر برہما نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ تو، تو میری جننی ہے، میرا تیرا سنجوگ ممکن ہی نہیں ہے۔ تب شری دیوی کی آتشِ غضب میں برہما کا آکار جل اُٹھا۔ اور تب وشنو پیدا کئے گئے اور انکا بھی وہی انجام ہوا۔ وشنو کے بعد شنکر نے جنم لیا ۔ شنکرنے ، جو برہما اور وشنو سے زیادہ ہوشیار اور جذبۂ جنس سے سرشار تھے، شری دیوی کو اپنانے کی حامی بھری مگر اس شرط کے ساتھ کہ تم اپنا دوسرا روپ اختیار کرو اور یہ کہ برہما اور وشنو کو دوبارہ پیدا کرو اور انکے لئے دو عورتوں کو بھی خلق کرو۔ شری دیوی نے شنکر کی یہ بات مان لی اور پاربتی کا روپ اختیار کر لیا۔ اور اس طرح ان تین خاندانوں کے ذریعے حیات کا قافلہ چل پڑا۔ اسلم بدر نے اسے یوں پیش کیا ہے۔۔۔
شری دیوی کا ہے ازل سے وجود
یہی ذ ات ہے خالقِ ہست و بود
ہوئیں بوجھ جب اس پہ تنہائیاں
ہوئی فکر، ہوں بزم آرائیاں
تمنّاؤں نے جب کیا بے قرار
گھِسا ہاتھ، مسلا کفِ اختیار
ہتھیلی پہ اک آبلہ پڑ گیا
نشاں گویا تخلیق کا پڑ گیا
منو سمرتی کے بر خلاف اور منو سمرتی سے بہت پہلے وید میں تصورِ کائنات پیش کیا گیا ہے اور تخلیقِ کائنات کا یہ تصور، اسلامی تصور سے بہت حد تک ملتا جُلتا ہے، اور یہ اس لئے کہ دینِ حق واحد ہے اور اسے موج در موج کثرت، ہماری آوارہ خیالی نے دیا ہے۔مگر یہ آوارہ خیالی یوں مقدس ہے کہ اسی کے طفیل فکر و نظر کے ہزارہا روزن وا ہوئے ہیں۔چنانچہ اسلم بدر نے اسے بہت ہی خوبصورت اور شاعرانہ پیرایہ میں بیان کیا ہے۔ یہاں پہونچ کر تصوّف کے کئی نکات اپنی پنکھڑیاں کھولنے لگتے ہیں۔۔۔۔
نہ آزادیاں تھیں ، نہ رسمِ قیود
نہ کوئی عدم تھا ، نہ کوئی وجود
وجودِ فنا و بقا بھی نہ تھا
شب و روز کا سلسلہ بھی نہ تھا
نہ تھی بادِ صر صر نہ بادِ نسیم
مسافر تھا کوئی نہ کوئی مقیم
پناہِ ازل بے پناہی سی تھی
سیاہی میں غلطاں سیاہی سی تھی
تھا پیشِ نظر جو کھُلا آسماں
یہ بے سمت بھی تھا نہ جانے کہاں
وہ کیا شئے تھی کیا حلقۂ آب تھا
یا شائد بہت گہرا گرداب تھا
جہاں پانیوں کا تھا بے بحر و بر
وہ جو کچھ تھا لیکن کہاں تھا مگر
یہ سارے منظر بہ شکلِ عدم
انہیں پانیوں میں تھے شائد بہم
مگر ایک وہ بس وہی ایک بس
کہ تھا خود نفس، بے نفس، ہم نفس
وہ بے جسم و جاں ، بے زماں بے مکاں
وہ پنہاں کہیں تھا مگر تھا کہاں
خود اپنی توانائیوں کا وجود
خود اپنی نمو سے ہوا خود نمود
گویا ۔۔۔۔۔ لَم یلد وَلَم یولَد۔ معلوم حقائق کی روشنی میں اسے مان لینے میں شائد کوئی قباحت نہیں ہے کہ تمام مذاہب میں ویدک دھرم کو سب پر تقدّم حاصل ہے۔ سمرتیاں بہت بعد کی ہیں اور بہت خوب ہیں مگر اس سے بھی انکار نہیں ہے کہ وید کے خالص تصوّرِ وحدانیت کو اس سے نقصان پہونچا ہے۔ چنانچہ منو سمرتی میں تخلیقِ کائنات کا جو تصوّر ہے اُسے اسلم بدر نے تمام شاعرانہ لوازمات کے ساتھ یوں پیش کیا ہے۔۔۔۔
جگت پہلے فطرت میں پوشیدہ تھا
تھا اک خواب اور وہ بھی نادیدہ تھا
تھا چاروں طرف تیرگی کا قیام
کوئی نقش تھا اور نہ کوئی مقام
یکایک اندھیرے میں پھوٹی کرن
اُٹھی کسمساتی ہوئی انجمن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اُجالے کا وِستار ہونے لگا
برہما ، اَوِشکار ہونے لگا
اجالے سے نکلا ، اجالے لئے
کتابِ جہاں کے حوالے لئے
وید کے بعد ہندوستانی مذاہب میں گیتا کا تصوّرِ خدا وہ تصوّر ہے جس پر نگاہ تھم جاتی ہے۔ اور یہ مُسلم صوفیا میں بھی بہت مقبول رہا ہے۔ا لبتّہ گیتا کی موجودہ شکل ایسی ہے جس میں انسانی ذہن کی صنّاعی کا عکس صاف جھلکتا ہے اور وہ ہے وجودِ حق کو کشن کی تمثیل میں دکھانے کا عمل۔ مگر فکر کے اس منطقے میں داخل ہونے کا حوصلہ مجھے نہیں ہے۔ میں یہاں اسلم بدر کے مندرجہ ذیل اشعار کی قرات پسند کرتا ہوں ، یہ مانتے ہوئے کہ یہ صدائے حق کی ترجمانی کرتے ہیں۔ ۔۔۔۔
سنو میں ازل بھی ابد میں ہوں یگوں تک جو پھیلی ہے، حد بھی ہوں میں
(ازل اُس کے پیچھے ابد سامنے ۔۔۔ نہ حد اسکے پیچھے نہ حد سامنے) ۔ اقبالؔ
سنو میں ہی شیرینئی آب ہوں
سنو میں ہی انوارِ مہتاب ہوں
سنو میں ہوں لمحات کا کارواں
سنو میرے اندر ہیں دونوں جہاں
سنو میں ہی دھرتی کی خوشبو بھی ہوں
سنو میں ہی اگنی ہوں وائیو بھی ہوں
مجھی میں ہیں یہ آسمان و زمیں
کہ میرے سوا اور کچھ بھی نہیں
سنو اوم کا میں ہوں وصفِ کمال
سنو مجھ میں پوشیدہ ہے انت کال
ہمارے وجودی صوفیا کہتے ہیں۔۔۔۔ لا موجود ا لّا اللہ۔
مگر اسی ہندوستان میں فکرو نظر کا یہ سیلِ رواں ایک نیا موڑ لیتا ہے، اور یہ ہے برہمنی تصوّر پر غیر برہمنی طاقتوں کی یلغار کا۔ مہابیر اور جین دھرم کے بعد گوتم بُدھ آتے ہیں جو ہندوستان کی سیاست ، ہندوستان کے فلسفہ اور اسکے فکر و نظر کی پوری بساط پلٹ کر رکھ دیتے ہیں۔ سنسکرت جیسی مہذّب زبان پیچھے کر دی جاتی ہے اور پالی کا مقدّر جاگ اُٹھتا ہے ، یہاں تک کہ گوتم بُدھ وجودِ باری تعالیٰ کے بیان میں بھیخاموشی اختیار کرتے ہیں۔ اسی خاموشی سے خود بدھ ازم میں فکر کے دو دھارے پیدا ہوتے ہیں، ایک یہ کہ خدا ہے ہی نہیں اور دوسرا یہ کہ بُدھ خود خدا ہے۔ ۔۔۔
خدا کوئی معبود، خالق نہ رب
نہ تخلیق کا ہی کوئی ہے سبب
زمان و مکاں کا خمیرِ ازل
ہے در اصل خالق کا نعم البدل
یہ سارا جہاں اک حسیں خواب ہے
نظارہ یہ عکسِ سرِ آب ہے
مہہ و آفتاب، آسمان و زمیں
ہے جو کچھ نظر میں وہ کچھ بھی نہیں
اور جو کچھ ہے وہ صرف نروان ہے۔۔۔۔۔۔
ہے نروان ہی زیست بعد از ممات
اسی میں ہے مضمر خدائی صفات
تغیّر ہے اس میں نہ ردّ و بدل
خدا کا ہے نروان نعم ا لبدل
اس ضمن میں جب اسلم بدر ہندوستان سے نکلتے ہیں تو آتش کدۂ ایران میں داخل ہوتے ہیں اور زرتشت کی پناہ ڈھونڈھتے ہیں،وہاں ژنداوستھا اور گاتھا کے حوالے سے ایک انوکھی بات معلوم ہوتی ہے کہ نسلِ انسانی دراصل نباتاتی ہے اور پہلا انسانی جوڑہ ہے ’’میش اور مشیان‘‘ جو کسی پیڑ پر پھل گیا تھا۔۔۔۔اور پھر وہاں سے آگے بڑھتا ہوا اُن کی فکر کا قافلہ مشرقِ وسطیٰ پہو نچتا ہے ، تو وہ عہد نامۂ قدیم و جدید کے اوراق اُلٹتے ہیں، یہاں تک کہ قرآنِ مبین کے اُجالوں میں پہونچتے ہیں اور یقین کی متاعِ گراں حاصل کرتے ہیں۔ مگر اس ذکر کو فی الحال میں یہیں روکتا ہوں کیونکہ مثنوی میں دنیا کے دیگر مذاہب سے بھی رجوع کیا گیا ہے۔ اسلم بدر، ثنویت ، تثلیثیت، لذّت و شہوت ، عشق و مستی ، فنا میں بقا کی تلاش وغیرہ سے گذرتے ہوئے فلسفۂ قدیم و جدید تک پہونچ جاتے ہیں اور اس ضمن میں رواقیت، زینو کی تجسیمیت، ابیقوریت ، کے تصوّرات کی تھر تھراہٹوں تک پہونچتے ہیں۔ ابیقوریت جو ارواح کی بقا اور خلاّقئی خدا سے انکار کا نام ہے۔ جو نہ جنّت پر یقین رکھتی ہے اور نہ دوزخ سے خوف زدہ ہے وہ محض چراغِ آگہی کی جویا ہے، آگہی جو اندرون میں ہے، سرور جو اپنی ذات سے باہر نہیں ہے۔۔۔۔
روشن جو چراغِ آگہی ہے
غم میں سرورِ زندگی ہے
راضی بہ رضا کی خو ہے سب کچھ
اندر کا جہانِ ہُو ہے سب کچھ
اور یہیں سے فلسفۂ جدید و قدیم کی عقدہ کشائی کا عمل شروع ہوتا ہے۔ اسلم بدر اپنی اس مثنوی میں سقراط ، ارسطو، فیثا غورث ، فلاطینوس ، سانکھیہ درشن ، تشکیک سے گذرتے ہوئے ابنِ سینا اور فلسفئی اسلام امام غزالی اور پھر جدید فلسفوں میں ڈیکارٹ ، برگساں، آئنسٹا ئین وغیرہ کے خیالات کے حوالے سے مسئلۂ حیات و کائنات پر روشنی ڈالتے ہیں۔ فلسفیانہ مطالعہ سے ایک عجیب بات سامنے آتی ہے کہ تلاشِ حق کے جویا ہندوستان کے ہوں یا عرب کے یا یونان کے، سب ایک ہی انداز میں سوچتے نظر آتے ہیں۔ مثلاً یونانی فلسفی فلاطینوس کے یہاں وید کی جلوہ ریزیاں ملتی ہیں اور یونان سے یہی نورانیت مسلم فلسفیوں اور صوفیوں تک پہونچتی ہے۔ اسلم بدر کہتے ہیں۔۔۔۔
بُدھ کی تعلیمِ ذات سے مخمور
جامِ ویدانت کے خمار سے چُور
اُپنِشد کا سرورِ بادہ ’وہ ایک‘
یوگ کا عالمِ کشادہ ’وہ ایک‘
وحدتِ کُل وجود کی تعلیم
مصدرِ ہست و بُود کی تعلیم
اور پھراسی سلسلے میں آگے چل کر یوں کہتے ہیں کہ۔۔۔۔۔۔
عقل کی واں تلک رسائی نہیں
عقل کو قربتِ خدائی نہیں
عقل کب اُس دیار تک جائے
درمیانِ سفر ہی تھک جائے
۔۔۔۔۔۔
عقل کا اس جنوں سے کیا ناطہ
’’عشق بِن یہ ادب نہیں آتا‘‘
اور اسلم بدر اِس حقیقت تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں کہ احدیت کا خالص تصوّر ذاتِ بارئی تعالیٰ کو اسما و صفات سے ماورا ماننا ہے۔ اگر اہلِ نظر مجھ پر خود نمائی کا الزام نہ دھریں تو میں اپنی غزل کے چند اشعار نذر کرنا چاہتا ہوں
حصارِ جسم تو ٹوٹا ، یہ مرحلہ کیا ہے
صفات و ذات کا ہونٹوں پہ ذائقہ کیا ہے
تلاشِ ذات کی منزل ، نفئ ذات میں ہے
نفئ ذات میں ناموں کا تذکرہ کیا ہے
مرا وجود ہے مانا ، وجودِ لا موجود
مگر یہ فکرِ رسا ، ذہنِ نابغہ کیا ہے
شمیمؔ آؤ محیطِ خلا میں کھو جائیں
لباسِ جسم سے گذریں مضائقہ کیا ہے
اسلم بدر چونکہ سائینس کے طالب علم رہے ہیں اس لئے بھی انہوں نے جگہ جگہ پر ا س مثنوی میں اپنی سائینسی معلومات سے استفادہ کیا ہے، خصوصی طور پر وسعت اور جسامتِ کائنات کے اسرارِ سر بستہ کا بیان کرتے ہوئے ۔ جدید سائینسی تحقیقات کی روشنی میں مادّہ اور ارتقائے مادّہ کے حقائق کو بھی ایسے دلچسپ اور پُر اثر انداز میں بیان کیا ہے کہ سائینسی حقائق بیا نیہ سے آگے نکل کر ہجر و وصالِ محبوب کی داستانی شکل اختیار کرتی نظر آتی ہے۔ مثلاً، اس عظیم دھماکے کا ذکر کرتے ہیں جو جہانوں کے وجود کا سبب ہُوا ، کہتے ہیں۔۔۔۔
ازل سے ہیں موجود ذرّاتِ برق
کُل اشیائے عالم ہیں، سوغاتِ برق
یہ ذرّے تھے ، بے پیکر و لا بدن
سجی تھی توانائی کی انجمن
اچانک ، جمودِ توانائی میں
کہیں دُور مرکز کی گہرائی میں
کسی برق پارے میں ہلچل ہُوئی
طبیعت اسیری سے بیکل ہوئی
اسی موضوع پر قرآنِ کریم کے مطالعے کے حوالے سے کہتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔
عدم پر مسلّط زمانہ نہ تھا
نہ ہی وقت کا کوئی پیمانہ تھا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
سبک سار قدرت کی آغوش تھی
زمیں آسمانوں میں روپوش تھی
حجابوں کو اذنِ خدائی ملا
دمِ وصل حکمِ جُدائی ملا
اک آوازِ کُن بے صدا گونج اُٹھی
مکاں تھرتھرایا، فضا گونج اُٹھی
اور پھر قیامت کی سائینسی توجیح بھی ، کہ پھر ویسا ہی ایک دھماکہ ہو گا اور تمام ارض و سماوات فنا ہو جائیں گے۔۔۔۔۔
ہیں لاکھوں سدائم کے تاریک خول
کروڑوں کروڑ آفتابوں کے غول
ستاروں بھرے راستے کہکشاں
غبارِ توانائی کی وادیاں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ہزاروں ہیں ایسے بھی گرم آفتاب
کئی ان میں پوشیدہ، کچھ بے نقاب
نظر میں ہیں بس آگ کی بھٹّیاں
نظاروں سے آگے دھواں ہی دھواں
احا طے میں اِس آتش و دوُد کے
ہیں تپتے ہوئے ڈھیر بارُود کے
لپکتے ہوئے شعلے ہیں منتظر
نظاروں کو ہو جانا ہے منتشر
بھڑک کر سبھی خاک ہو جائینگے
نظارے خلاؤں میں کھو جائینگے
مگر حیات کا سلسلہ فنا نہیں ہو گا۔ وہ نئے منطقوں میں داخل ہو جائے گا اور یہیں سے حیات بعدِ ممات کا آغاز ہو گا۔ اور فنا کا وہ لمحہ بھی حیات بعدِ ممات کی آنکھوں میں ایک اُچٹی ہوئی نیند کی طرح ہو گا۔
موت اک ماندگی کا وقفہ ہے ۔۔۔ اور آگے چلیں گے دم لے کر (میر تقی میر)
اور یہیں آکر اسلم بدر’ عالمِ ضدّین ‘ ،’ حیات بعدِ ممات ‘ اور’ دوسری دنیا۔ ہماری ضرورت ‘کی لازمیت پر شعری منطق اورقرآن کے حوالے سے گفتگو کرتے ہیں۔۔۔۔۔
ہے دنیا کی ضد دوسری کائنات۔۔۔۔۔یہاں نفئی سب کچھ ، وہاں سب ثبات
محاسبۂ روزِ قیامت کے متعلق بیان کرتے ہوئے، انکا سائنسی شعور کہتا ہے کہ ابتدائے آفرینش سے اب تک تمام عکس و صدا، فضاؤں میں اب بھی موجود ہیں۔ انسانی شعور انہیں کشید کرنے کی کوششوں میں ، ریڈیائی (صوتی و عکسی) نشریات تک تو پہونچ ہی چکا ۔ وہ دن بھی شائد اب بہت زیادہ دُور نہیں کہ ہم اپنی مرضی کے مطابق گذرے ہوئے کسی بھی پل یا عہد کو اپنے گھر بیٹھے دیکھ سکیں گے۔
اگر انسان اس طرح کی کوششیں کر رہا ہے تو وہ خالقِ کائنات کے لئے کیا مشکل ہے کہ بروزِ حشر ہمارے اعمال نامے ہمارے سامنے کھول دے۔۔۔۔
علم کی قید میں زمان و مکاں
علم کی حد، حدودِ لا امکاں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علم سے مل گئی ہمیں یہ دلیل
ہے فضا عکس و صوت کی اک جھیل
وقت کے سیل کا یہ مخزن ہے
جس کی ہر لہر ایک درپن ہے
انہیں لہروں میں اپنا کل محفوظ
اپنے ماضی کا ہر عمل محفوظ
روزِ محشر محاسبہ ہونا
انہیں لہروں کا آئینہ ہونا
اس مثنوی میں کئی مقامات پر قرآن عظیم کی آیاتِ کریمہ سے اجالا حاصل کیا گیاہے۔
سَبِح اِ سمَ رَبِکَ ا لاعلٰی(۱)۔ اَلَّذِی خَلَقَ فَسَوَّ ی(۲)۔ وَالَذِیْ قَدَّرَ فَہَدَیٰ(۳) ۔ ۔۔۔۔۔ (سورہ الاعلیٰ، آیات ۱۔۳)
(اپنے رب کے نام کی تسبیح کرو ۔ جس نے پیدا کیا اور تناسب قائم کیا (ہر طرح سے سجایا)۔ جس نے تقدیر بنائی اور ہدائت فرمائی۔)
آ رائشِ جمال سے فارغ نہیں ہنوز
پیشِ نظر ہے آئینہ دائم نقاب میں (غالب)
اسلم بدر نے اُس خلاّقِ عظیم کے طریقۂ ہدایات اور مسئلۂ جبر و قدر پر اِن آیات کے پیشِ نظر اپنے مطالعے اور شاعرانہ منطق کے حوالے سے ’قرآنی تعلیمات اور تخلیقی عمل‘ کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ خدا ایساخالق نہیں ہے کہ تخلیق کر کے چھوڑ دیتا ہے بلکہ اپنی خلقت کو ہر طرح سے سجاتا سنوارتا بھی ہے،ان میں ایک تناسب بھی قائم کرتا ہے پھراُن کی تقدیر بھی مقرّر کرتا ہے اوراُنہیں ہدائت بھی دیتا ہے۔ خصوصی طور پر عملِ تسویہ کی خوبصورت وضاحت پیش کی ہے۔۔۔۔۔!
وہ خالق بھی ہے ، وہ مصوّر بھی ہے
وہ ہادی بھی ہے اور مقدِّر بھی ہے
انہیں چار الفاظ میں ہیں نہاں
مظاہر کی تکوین کی داستاں
۔ ۔۔ ۔۔۔۔۔
دیا کم ، نہ ہی کچھ زیادہ دیا
بدن کے مطابق لبادہ دیا
نہ ہوتا اگر یہ ’سوائی‘ عمل
ٹھہر جاتا ہر کیمیائی عمل
نہ جوہر کی قوّت کا ہوتا ظہور
جنوں خیز ہوتی نہ رفتارِ نُور
کسی کو کیا جبر سے ہمکنار
کسی کو دیا قدر پر اختیار
یہی قدر ہے وہ دُرِ بے بہا
جسے سب نے قانونِ فطرت کہا
بہر آن ، تخلیقِ کُل کے لئے
مناسب ، مقرّر حوالے دئیے
بہر گام ، مشکل کشائی بھی کی
ہدائت بھی دی، رہنمائی بھی کی
اور وہی ہے جو ایک دن اس کائنات کو فنا بھی کر دے گا کہ اسی خلاّقِ علیم کے ارادہ سے یہ کائنات وجود میں آئی ہے اور اسی کے حکم سے ہم آغوشِ فنا ہو جائے گی اور اسی کی طرف لوٹ جائے گی۔۔۔۔
ہر اک کارواں تھک کے سو جائے گا۔۔۔۔۔سفر ایک دن ختم ہو جائے گا
۔۔۔اَوَلَیسَ اَ لَّذِی خَلَقَ ا لسَّمٰوٰتِ وَ الاَرَضَ بقآدِرٍ عَلیٰٓ اَن یَّخلُقَ مِثلَہُم ط بَلیٰ ق وَہُوَ ا لخلّٰقُ ا لعَلِیم(۸۱)۔انَّمَااَمَرَرَہُٓ اِذَآاِرَادَ شَےَاً اَن یَّقُولَ لَہہُ کُن فَےَکُون (۸۲)۔ فَسُبحٰنَ الَّذِی بِےَدَہِ مَلَکُو تُ کُلِّ شئیٍ وَ اِ لَیہِ تَر جَعُوُن (۸۳)۔۔۔(سورہ ےٰسٓ ،آیات ۸۲۔۸۳):
[بھلا( وہ) جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا، کیاوہ اِس بات پر قادر نہیں کہ اُن کو (پھر) سے ویسے ہی پیدا کر دے۔؟ کیوں نہیں۔! ۔اور وہ تو بڑا پیدا کرنے والا اور علم والا ہے۔اس کی شان یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا اردہ کرتا ہے تو اُس سے فرما دیتا ہے کہ ہو جا، تو وہ (چیز )ہو جاتی ہے۔ وہ ذات پاک ہے جس کے ہاتھ میں ہر چیز کی بادشاہت ہے ، اور اُسی کی طرف تُم کو لوٹ کے جانا ہے۔]
مگر صدائے کُن گونجتی رہے گی اور اس کی گونجن کتنے عا لموں کو جنم دے گی، اُسی کا راز ہے اور وہی جانتا ہے۔ میں اسلم بدر کے ساتھ ساتھ یہاں تک آگیا ہوں اور چاہتا ہوں کہ اس خوبصورت مثنوی کی تخلیق پر اُنہیں ہدیۂ تبریک پیش کرتے ہوئے رخصت ہو جاؤں۔ ۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔وَما علینا الا لبلاغ۔