برسات پہ پہرہ تھا
ہر سُو اُداسی تھی
ہر سمت ہی صحرا تھا
امبر سے سزا برسی
اک خستہ گھرپر
اِس طور گھٹا برسی
ماہی نے بلایا تھا
سوج گئیں اکھیاں
کیا خوب رُلایا تھا
مضبوط ارادوں کو
دُھن کی وہ پکی تھی
توڑا نہیں وعدوں کو
میں اُس کا کھلونا تھا
کھیل کے توڑ دیا
اِک دن تو یہ ہونا تھا
دن رات نہیں سوتا
چاہت کا رستہ
آسان نہیں ہوتا
ہم سے نہ نبھی قسمیں
چاہ دکھاوا ہے
جھوٹی ہیں سبھی قسمیں
اِک آگ میں جلتا ہے
دید کو تیری دل
دن رات مچلتا ہے
اِک راہ نہیں چھوٹی
ٹوٹ گیا دل تو
اُمید نہیں ٹوٹی
بے کار گئی پوجا
بیل لگے پھل کا
حق دار کوئی دوجا
ماضی کے جھروکے ہیں
خواب سہانے یا
ہر گام پہ دھوکے ہیں
پھیلی رہی تنہائی
ہم سے نہ ملنے کی
تم نے بھی قسم کھائی
آسیب ہی منڈلائے
بند رَکھو گے دَر
پھر کیسے کوئی آئے
آنگن میں لگی بیلیں
رات گئے اکثر
یادوں سے تِری کھیلیں
جب رشتے نہیں ٹوٹے
پھر یہ گلے کیسے؟
کیوں منتے نہیں روٹھے
آکاش پہ بادل تھا
شام اندھیری تھی
یا آنکھ میں کاجل تھا
کچھ پیڑ اناروں کے
رشتے کبھی ٹوٹے
کشتی سے کناروں کے
خوشبو مِرے گاؤں کی
کیسے بھلاؤں گا؟
جھانجھر تِرے پاؤں کی