جھمکوں میں نگ ہیں جڑے
رو رو کر میری
آنکھوں میں حلقے پڑے
ماہی کے تصور میں
وقت کٹے کیسے
یادوں کے محشر میں
مسکان اُدھارکی ہے
ماہی کی دیدبنا
میری جان اُدھارکی ہے
ان جگر کے چھالوں سے
دُکھ برہاکا کوئی
پوچھے دل والوں سے
دو دن کی جوانی کے
کتنے ہیں دُکھڑے
اس غم کی کہانی کے
جاکر سمجھائے کوئی
آنکھوں میں آگیا دم
ماہی کو بلائے کوئی
مجھے تجھ سے حیات ملی
غم تیرا اپنا کر
مجھے غم سے نجات ملی
اُس دن سے نہ چین ملے
دل جب سے دھڑکا
اور نینوں سے نین ملے
تقدیر کی باتیں ہیں
ازلوں سے لکھی
تحریر کی باتیں ہیں
غم دل میں سمیٹ لئے
اشکوں کے سب دھبے
دامن میں لپیٹ لئے
بس اور عذاب نہیں
اب زخمی دل کو
اک دُکھ کی بھی تاب نہیں
چھیڑیں ظالم سکھیاں
لب تو نہ کچھ بھی کہیں
تجھے ڈھونڈا کریں اکھیاں
دشمن سی یہ یاری ہے
جب سے بنی دنیا
تب کی بیماری ہے
ہائے روگ لگابیٹھا
درد پرایاتھا
گھر دل میں بنابیٹھا
گھر سے نہ جُداکرنا
صحن کی بیری تلے
میری قبر بنادینا
اب یہ ہی تیرا سنسار
جاؤں کہاں مجھ کو
پنجرے سے ہوا ہے پیار
مجھے جینا عذاب ہوا
تم پردیس گئے
میرا موڈ خراب ہوا
توجائے کہیں نہ بدل
سفر مہینوں کا
اور گذرے نہیں اک پل