حیدر قریشی
میرا پہلا ادبی حوالہ
اپنے ابتدائی بچپن میں ادبی اثرات جذب کرنے کے حوالے سے میں نے مختلف اوقات میں جن قریبی عزیزشخصیات کا ذکر کیا ہے،ان میں ابا جی کا میرے اسکول جانے سے پہلے مجھے اردو پڑھنا لکھنا سکھانا ،امی جی کا اردو ناول شوق سے پڑھنا اور ایک طویل پنجابی نظم لکھنا،ماموں ناصر کی گفتگو میں ادب کا گہرا تاثر ملنا شامل ہیں۔تاہم ماموں صادق میرے ننہالی خاندان میں واحد شخصیت ہیں جن کو میں نے بچپن میں ہی شاعر کے طور پر دیکھا اور ان کی شاعری سمجھ میں آئی یا نہیں آئی لیکن ان سے متاثررہا۔اس حوالے سے میں جن مختلف اوقات میں ان کا ذکر کرچکا ہوں۔،پہلے ان میں سے دو اہم حوالے یہاں پیش کرتا ہوں۔
٭٭ بچپن میں سنا کرتے تھے کہ میر ے چھو ٹے ما موں حبیب اﷲ صا دق صا حب (حال مقیم امریکہ) شا عر ہیں ۔ان کی شا عر ی تو ہما ری جوانی سے پہلے ہی ختم ہو گئی لیکن مجھے اچھی طر ح یا د ہے کہ میں بچپن میں ما مو ں صا دق کو ہمیشہ حیر ت اور خو شی کے سا تھ دیکھا کر تا تھا اور اس با ت پر خو ش ہو تا تھا کہ میرے ایک ما موں شا عر ہیں ۔
(بحوالہ سخنور حصہ دوئم۔۱۳۳۔مطبوعہ مہر فاؤنڈیشن ۔امریکہ)
٭٭میرے بچپن ہی میں ماموں حبیب اﷲ صادق کا شاعر ہونا۔ میں سمجھتا ہوں میرے بچپن کے یہ سارے عوامل میری ادبی تربیت کا سبب بنتے رہے ہیں۔مجھے یاد ہے یہ ۱۹۶۴ء یا ۱۹۶۵ء کا زمانہ تھا ۔میں چھٹی ساتویں میں پڑھتا تھا۔ماموں صادق ڈیرہ اسماعیل خاں سے ہمارے ہاں خانپور آئے تھے۔تب شام کے وقت میں نے اور ابا جی نے ان سے ان کی ایک نظم سنی جو ویت نام کے موضوع پر تھی۔اس کا مرکزی مصرعہ میرے ذہن میں یوں رہ گیا ہے۔
زندہ باد اے ویت نام
ماموں صادق کا ترنم شاعرانہ انداز کا تھا۔مجھے اپنی وہ حیرت آج بھی یاد ہے جب میں ماموں صادق کی نظم سنتے ہوئے انہیں دیکھ رہا تھا اور اس دیکھنے میں ایک عجیب سی خوشی اور تفاخر کا احساس شامل تھاکہ میرے ایک ماموں شاعر ہیں!(کھٹی میٹھی یادیں۔مطبوعہ دو ماہی گلبن احمدآباد)
میرے اس لکھے کا اتنا فائدہ ہوا کہ صادق باجوہ کے نام سے لکھنے والے میرے ماموں صادق کو تھوڑی تحریک ہوئی۔میرے مسلسل اصرار کے بعد انہوں نے پاکستان سے اپنی بعض پرانی ڈائریاں تلاش کرائیں۔یوں مجھے ان کی شاعری تک رسائی کا موقعہ ملا ہے۔عام قارئین کے لئے اس شاعری میں کوئی غیر معمولی بات نہیں ہو گی۔لیکن میرے لئے یہ اس لئے غیر معمولی ہے کہ میرے بچپن میں زندگی کا پہلا شعوری اور باقاعدہ ادبی حوالہ ماموں صادق بنتے ہیں۔ نصابی کتب سے باہرکسی دوسرے شاعر کو پڑھنے سے پہلے سب سے پہلے مجھے ماموں صادق کو سننے کا موقعہ ملا اور میرے ذہن پر ایک نقش سا بن گیا۔ ان کی شاعری کو پیش کرتے ہوئے میں یہاں ان کی وہ نظم درج کر رہا ہوں جو میرے ذہن میں ’’زندہ باد اے ویت نام!‘‘کے طور پر محفوظ تھی۔
ویٹ کانگ حریت پسندوں سے
زندہ باد اے ویٹ کانگ! اے رہنمائے ویٹنام!
زندہ قوموں میں ہو شامل مل گیا اعلیٰ مقام
ہے عدو مجبور کرنے کو تمہار ا احترام
مٹ رہی ہیں سامراجی طاقتیں باطل نظامؓٓ
زندہ باد اے ویٹ کانگ! اے رہنمائے ویٹنام!
خون کی ندیاں تمہاری راہ میں حائل نہیں
ایٹمی ہتھیار سے ڈرنے کے تم قائل نہیں
ہاں! غلامی بھی تمہاری سمت اب مائل نہیں
ظلم و استبداد کی تلوار ہے گو بے نیام
زندہ باد اے ویٹ کانگ! اے رہنمائے ویٹنام!
چھین لو تم غاصبوں سے وقت ہے اپنی زمیں
نوچ ڈالو ان کے جسموں سے قبائے شرمگیں
سینکڑوں جانیں نثا رِ حریت ! صد آفریں
ساری دنیا کی نظر میں ہے تمہارا احترام!
زندہ باد اے ویٹ کانگ! اے رہنمائے ویٹنام!
میرے لئے خوشی کی بات ہے کہ ماموں صادق نے نہ صرف اپنی پرانی شاعری تلاش کر کے مجھے فراہم کر دی بلکہ اب وہ کچھ نئی نظمیں اور غزلیں بھی کہنے لگے ہیں۔میں اپنے ماموں صادق سے بچپن سے متاثرہونے کے اعتراف کے طور پر ان کی شاعری کا ایک حصہ (۲۰غزلیں)یہاں پیش کررہا ہوں۔
التجا
دل میں مرے چاہت کی نئی آگ لگا دے
دیکھوں تجھے صد شوق سے پردہ تو ہٹا دے
عاصی ہوں ، خطا کار ہوں تعزیر کے لائق
رحمت کا طلبگار، تلاطم سے بچا لے
ہر سمت اٹھی جاتی ہیں خاموش نگا ہیں
شاید ہو کہیں دیدۂِ ور کوئی شِفا دے
ہر درد و الم، فکر و بلا ، جور و جفا پر
ہوتا ہے گلہ موڑ کے منہ جو دو عطا سے
ہر شخص کا اندازِ تفکّر ہے نرا لا
ہوتا رہے جو ہونا ہے اب میری بلا سے
خوابیدہ ہوئے پھر سے مقدر کے ستارے
اے کاتبِ تقدیر مِرے بھاگ جگا دے
ہوتی ہے دعاؤں میں بھی تاثیر تو صاؔ دق
زندہ تو دعاؤں کو کرو اشک بہا کے
٭٭
کشتیٔ دل نذرِ طوفاں ہوگئی
جاگ اے قسمت! کہاں تو سو گئی
مدتوں سے نوحہ گر تھی بے بسی
کِشتِ دل میں تخمِ وحشت بو گئی
غم سے تھے لبریز اشکوں کے چراغ
روشنی ان کی بھی مدھم ہو گئی
یک بیک کیا یاد ان کی آگئی
دل کی دھڑ کن تیز تر پھر ہو گئی
کیا کروں تنہائیوں کا اب علاج
میری تنہائی بھی تنہا ہو گئی
ہر گھڑی صاؔدق ! جو تھی دل کے قریں
جانے کیوں وہ آرزو بھی کھو گئی
٭
ہر دریچے در و دیوار پہ تنویر ہوئی
بستیٔ دل میں تری جب سے ہے تعمیر ہوئی
بزمِ اغیار میں گویائی کا یارا تھا کسے
بے نوائی ہی مگر باعثِ تعزیر ہوئی
دستِ قدرت نے ہمیں دیکھئے کیا سونپا ہے
کتنے خوابوں کی حسیں ایک ہی تعبیر ہوئی
دست و بازو پہ بہت ناز مگر بھولے ہیں
پہلے تقدیر ہے پھر بعدہ تدبیر ہوئی
دور گزرے ہیں مگر حق کے لئے تو اب بھی
جاں کا نذرانہ دیا سنّتِ شبّیرؓ ہوئی
بھولنا جب بھی اسے چا ہا بھلا یا نہ گیا
بھول جانے کی ادا یاد کی زنجیر ہوئی
جس نے دیکھا ہے کبھی، یاد سدا رکھاہے
دل میں آنکھوں میں سجی روضے کی تصویر ہوئی
جرم سرزد نہ ہو ا اہلِ وفا سے صاؔدق!
خوئے تسلیم و رضا مُو جبِ تکفیر ہوئی
٭
بندگی مرضیٔ معبود ہواکرتی ہے
اک رضاجوئی ہی مقصود ہوا کرتی ہے
سجدہ گہہ کو تو نہیں وصلِ جبیں کی حاجت
اک لگن حاصلِ مسجود ہوا کرتی ہے
ڈھونڈتے جس کو خلاؤں میں رہے، وہ ہستی
پاس شہ رگ کے ہی موجود ہوا کرتی ہے
غم و آلام و مصائب سے تعلق پیہم
خوش نصیبی ہے جو محدود ہوا کرتی ہے
ہے یہ دستور یہاں بامِ ترقی کے لئے
راہ ہر گام پہ مسدود ہوا کرتی ہے
جب براہیمؑ نما کوئی وجود آتا ہے
شعلہ زن آتشِ نمرود ہوا کرتی ہے
چند لمحاتِ مسرت بھی غنیمت صاؔدق
ساعتِ سعدبھی محدود ہوا کرتی ہے
٭
کوئی دل میں کہیں بسا سا رہا
سارے آنگن میں رتجگا سا رہا
دل رہینِ غمِ وفا سا رہا
کس قدر اس کوحوصلہ سا رہا
وہ جو سب سے جدا جدا سا رہا
اک وہی اپنا آشنا سا رہا
اک قیامت کا شور تھا پہلے
پھر تو دل کچھ ڈرا ڈرا سا رہا
سب جہاں پالیا تو کچھ بھی نہیں
وہ اگر کچھ خفا خفا سا رہا
سن کے رُودادِ غم زمانے کی
جانے کیوں دل بجھابجھا سا رہا
عظمتیں رِفعتیں ملیں اس کو
جو ترے در پہ خاکِ پا سا رہا
جب سے صاؔدق غموں کو اپنایا
حشر سینے میں کچھ بپا سا رہا
٭
لذتِ درد و غم شنا سائی
ہیں علاماتِ بزم آرائی
جب بھی امید کوئی بر آئی
آرزؤں نے لی ہے انگڑائی
کتنی محدود ہو گئی دنیا
حسنِ ایجاد کی پذیرائی
گو بہاروں سے رونقِ گلشن
ہے خزاں کی جدا ہی رعنائی
نام لیوا وفا کے ہیں اب بھی
گرچہ عنقا ہے عہد ایفائی
داستاں ظلم و خونچکاں سن کر
جانے کیوں آنکھ اپنی بھر آئی
دَور بدلے مگر رہا صاؔدق
نام تہذیب، کام قبلائی
٭
زندگی نغمہ سرا ہو جائے
’درد کی کوئی دوا ہو جائے‘
ہر گھڑی وقتِ دعاہو جائے
یہی مقبول دعا ہو جائے
آہ مظلوم کی جب بھی نکلے
عرش تک حشر بپا ہو جائے
منتظر لوگ تو رہتے ہیں سدا
سر پہ کب ظِلِّ ہما ہو جائے
بحرِ افکار میں غلطاں ہے بشر
سوچ ہر حد سے سَوا ہو جائے
کوئی لمحہ جو خطا میں گزرے
کاش ! وہ لمحہ خطا ہو جائے
٭
پر د ۂ ظلما ت تا حدِّ نظر
شب کی تاریکی سے نکلے ہے سحر
کس قدر اس کی کرشمہ سازیاں
سیپیوں کی کوکھ سے پیدا گہر
وقتِ رخصت آشکارا ہو گیا
زیست کا ہر لمحہ کتنا مختصر
ہے کرم در کا سوالی ہو گیا
ہر متاعِ دو جہاں سے بہرہ ور
ہے تخیل کی رسائی کا کمال
لمحہ بھر میں طے ہو صدیوں کا سفر
امن کی خاطر روا ظلم و ستم
عصرِ حاضر کی سیا ست الحذ ر !
ظلم کا خوگر نئے بہروپ میں
د ندناتا پھر رہا ہے بے خطر
کیاکہیں صاؔدق کوئی کام آگیا
بزمِ ہستی پھر ہوئی ہے منتشر
٭
جو دل سے نکلے ہوں نغمات ان کی بات کہاں
سنانے بیٹھ بھی جائیں تو اتنی رات کہاں
عجیب دورِ اسیرِ غر ض سے ہے رشتہ
خلوص و مہر و محبت وہ التفات کہاں
نَفَس نَفَس سے صدائے غرو ر و کِبر اٹھی
فریب و مکر و ریا ہیں نواز شات کہاں
خود اپنی ذات کے گرداب میں پھنساہے بشر
نصیب فرصتِ پروازِ شش جہات کہاں
تما م عمر جسے پا کے پھر بھی پا نہ سکے
وہ ایک لمحہ گراں ما یۂ حیات کہاں
سکونِ قلبِ حزیں ہی میں عمر بیت گئی
حصولِ مقصدِ تخلیقِ کائینات کہاں
تلاش و فکر و امید و رجا رہی صاؔدق
بسر جو چین و سکوں سے ہو وہ حیات کہاں
٭
تلخ و شیریں یادوں کے سایوں سے دل بہلایا ہے
جانے دل کو کس کی لگی اس رِیت کو کیوں اپنایا ہے
دیس بدیس کے ساتھی سنگی اک اک کرکے دور ہوئے
لاج وفا کی رکھی کس نے، کس نے غم اپنایا ہے
قوم کے درد و غم تو باہم بانٹ لیا کرتے ہیں لوگ
ہم کو دشمن کے دکھ درد نے بھی اکثر تڑپایا ہے
مہر و ماہ کی تابانی کچھ دھندلی دھندلی ہے شاید
کیا کوئی آفت ٹوٹ پڑی جس نے ان کو گہنایا ہے
اپنی ہستی سے غافل تسخیرِ جہاں میں گم ہے بشر
سوچ کے دھاروں میں غلطاں یہ سوچ بھی اک سرمایہ ہے
دنیا میں رشتے بندھن احساس سے قائم ہیں صاؔدق
جب یہ مالا ٹوٹ گئی پھر ہر رشتہ کملایا ہے
٭
مرقدوں پر چر اغ جلتے رہے
مفلسوں کا دِیا بجھا ہی رہا
قدر سگ کی تو ہے مگر انساں
پسِ دیوار و در پسا ہی رہا
کس قدر قدرِ نا شنا سی ہے
نہ بچا کچھ تو پھر خدا ہی رہا
ہر گھڑی ساتھ ساتھ رہتا ہے
گھپ اندھیرے میں وہ جدا ہی رہا
کون جانے وہ کس گھڑی آئیں
منتظر ر ا ہ دیکھتا ہی رہا
روزِ محشر ہو فکر کیوں اس کو
جو ثنا خو انِ مصطفےٰ ﷺ ہی رہا
سر بلندی وہ سر فرازی کہاں
جس میں انساں کا سر جھکا ہی رہا
خوئے ایثار و بوئے صدق و رضا
گل وفا کا سدا کھلا ہی ر ہا
کتنے بت ہیں چھپے جنہیں انساں
بے خیالی میں پوجتا ہی رہا
اپنی پہچان بھول کر صادقؔ
در بدر خاک چھانتا ہی رہا
٭
پتھروں سے موج ٹکراتی تو ہے
لوٹ کر پھر اپنے گھر جاتی تو ہے
زندگی کے جب در یچے بند ہوں
کوئی در پھر موت کھٹکاتی تو ہے
بیتے لمحے ، دورِ غم، امیدِ نَو
جانے کیا شے دل کو بہلاتی توہے
ٹوٹتا ہے جب سکوتِ شب تو پھر
کو ئی ہنگا مہ سَحر لا تی تو ہے
رازِ ہستی سازِ غم سوزِ دروں
کچھ کسک سی دل کو تڑپاتی تو ہے
دل سے جب اٹھے صدائے اضطراب
پھر دعا تاثیر دکھلاتی تو ہے
سوچ میں صاؔدق ہوں جب ہوش و خرد
کام پھر دیوانگی آتی تو ہے
٭
کچھ آرزوئے عقیدت کے خواں سجائے ہوئے
ہم آ گئے ہیں سرِ دار سر اٹھائے ہوئے
خلوص و صدق و وفا سی نوادرات کے ساتھ
رہِ وفا کے مسافر ہیں آزمائے ہوئے
ضیا ئے مہرِ و فا ما ند ہو نہیں سکتی
دئیے ہیں خونِ جگر سے کئی جلائے ہوئے
انہیں کے واسطے دار و رسن وہی معتوب
زمانے بھر کے جو پہلے سے ہیں ستائے ہوئے
وفورِ شدتِ جذبات سے بھری آنکھیں
برس پڑیں نہ کہیں بارِ غم اٹھائے ہوئے
انہیں ڈرائیں گے کیا موت سے حوادثِ غم
صلیبیں کاندھوں پہ اپنی ہیں جو اٹھائے ہوئے
نویدِ صبحِ مسر ت کے منتظر صاؔدق
چراغِ آس سرِ شام ہیں جلائے ہوئے
٭
زمانے بھر میں مجھے اور کوئی غم تو نہیں
تمہار ا غم ہی کسی اور غم سے کم تو نہیں
تمہارے نام کی رکھیں گے لاج بھی لیکن
ستم رسیدہ نے کھائی کوئی قسم تو نہیں
خلوص و مہر و وفا کے تمام پیمانے
بنامِ قیس یا فر ہا د ہی رقم تو نہیں
کسی خیال سے آنکھیں پروئے ہیں موتی
تمہارا و ہم ہے آنکھیں یہ میری نم تو نہیں
ستم شعار ہو جس کا مآل کیا جانے
ہزار وں ظلم و ستم بھی لگیں ستم تو نہیں
فنا کے نام سے نا آشنا ہے جس کا نام
جو تھوڑی دور چلے ایسا وہ صنم تو نہیں
فریب و مکر و ریا ہوں ادا میں جس کی نہاں
کچھ اور سوچ لیں صاؔدق کہیں وہ ہم تو نہیں
٭
پھر سے تجدیدِ آرزو کرلیں
آئیے! کچھ تو گفتگو کرلیں
زندگی کے حسیں دو را ہے پر
کچھ تمنائے رنگ و بو کر لیں
دوستوں سے نباہ گر چاہیں
دشمنوں کو بھی ہم سبو کر لیں
جسم و جاں روح کوسنوار تو دیں
آنسوؤں سے اگر وضو کر لیں
لوگ فردِ وفا جفا دیکھیں
آئینہ دل کا رو برو کر لیں
عیب جو، نکتہ چیں،عدو ،حاسد
اپنا دامن تو خود ر فو کرلیں
خود نمائی فریب ہے صاؔدق
خود شنا سی کی جستجو کر لیں
٭
ہر خوشی رنج و غم پہ وار آئے
جتنے قرضے تھے سب اتار آئے
کھا کے ہر وار اپنے سینے پہ
را ہِ رسمِ و فا سنوار آئے
کون دیکھے بدلتے موسم کو
کب خزاں آئی کب بہار آئے
آنکھیں خوشیوں سے بھیگتی ہیں ضرور
جب بھی بھولے سے غمگسارآئے
زند گانی کا کچھ بھروسہ نہیں
کون جانے کہاں پکار آئے
یو نہی بیکار گزرا ماہِ صیام
نیکیوں میں نہ گر نکھار آئے
اس کی بخشش پہ زندہ ہیں ورنہ
کب گناہوں کا کچھ شمار آئے
ایسی کچھ راہ استوار کریں
عرض صاؔدق بھی کچھ گزار آئے
٭
پاس ہی سے کوئی بیتاب صدا آتی ہے
بھول جاتا ہوں انہیں یاد دلا جاتی ہے
جو کسی یاد سے وابستہ رہی تھی ہر آں
وہی خوشبو سی رگ و پے میں سماجاتی ہے
لوگ کہتے ہیں برا عشق کو لیکن پھر بھی
جس طرف دیکھ لو الفت کی صدا آتی ہے
ہر طرف دیکھ رہا ہوں میں اداسی کا سماں
دیکھئے! گردشِ دوراں ابھی کیا لاتی ہے
جانے دستور زمانے کا ہے کیسا صاؔدق !
بھول جاتی ہے وفایاد جفا آتی ہے
٭
بعد مدت کے کسی کی یاد پھر آئی تو ہے
تلخیاں یا حسرتیں ہمرا ہ کچھ لائی تو ہے
پھر بھڑک اٹھنے کو ہے شاید کسی کی جستجو
ظلمتیں شب کی ہیں میں ہوں اور تنہائی تو ہے
دشتِ وحشت میں پھرا ہے بارہا بے چین سا
دل کی حالت کیا کہیں کمبخت سودائی تو ہے
عشق کی نیرنگیاں اب اور دکھلائیں گی کیا
اک ’ا ناالحق‘ کی صدا ہی دار تک لائی تو ہے
شمع ہائے بربریت جل سکیں گی کب تلک
حریت کی تیز آندھی چرخ پہ چھائی تو ہے
پھر سلاسل کی صدا اٹھی جنوں کی خیر ہو
پھر نو یدِ فصلِ گل بادِ صبا لائی تو ہے
دیکھ کر کم مائیگی، افسرد گی، دیوانگی
سنتے ہیں صاؔدق ! کسی کی آنکھ بھر آئی توہے
٭
بربطِ دل کے تار نغمہ طراز
سوزِ درد و الم سے لَے پر ساز
منکشف ہو نہ پائی دل کی بات
شبنمی اشک کہہ گئے سب راز
کچھ تعلق نہ واسطہ حائل
مضطر ب دل رہینِ راز و نیاز
کچھ سوالی ، اسیرِدر تیرے
ہونگے جود و کرم سے سر افراز
بے پنہ لذت و سرور ملا
شوق سے جب ادا ہوئی ہے نماز
کہاں صاؔدق ملیں اگر ڈھونڈیں
قدر دانِ وفا خلوص و نیاز
٭
تصورات کی دنیا بسائے بیٹھا ہوں
خزینہ ہائے محبت لٹائے بیٹھا ہوں
تصورات کی دنیا میں محو ہوں اتنا
کہ اپنے آپ کو دل سے بھلائے بیٹھاہوں
کسی حسین کا چہرہ ہے سامنے میرے
اسی کو قبلہ و کعبہ بنائے بیٹھا ہوں
میں میکدے کی بہاروں کو دیکھ کر ساقی!
تمہارے جام پہ نظریں جمائے بیٹھا ہوں
سفینہ گرچہ تلاطم میں ہے مرا ، لیکن
میں نا خدا سے امیدیں لگائے بیٹھا ہوں
پہنچ ہی جاؤں گا منزل پہ ایک دن صاؔدق
اگرچہ راہ کے نقشے مٹائے بیٹھا ہوں
۱۹۶۲ء پہلی طبع شدہ غزل