محمود ہاشمی(انگلینڈ)
۱۹۵۰ء کے ابتدائی سالوں میں بحری جہاز ’’ بٹوری ‘‘ کے ذریعے میرپور کے لوگ قطار اندر قطار انگلستان پہنچ رہے تھے اور یہاں کی فیکٹریاں جیسے بے تابی سے ان کی منتظر تھیں ۔ اکا دکا یونیورسٹیوں کے پڑھے لکھے لوگ بھی آزاد کشمیر اور پاکستان کے شہروں سے قسمت آزمائی کرنے یہاں وارد ہو رہے تھے ۔ لیکن ان کی اتنی مانگ نہ تھی ۔ چنانچہ کچھ عرصہ بیکار ادھر ادھر گھومنے کے بعد بھی تعلیمی ڈگریوں کو اپنے سوٹ کیس میں بند کرکے کسی فیکٹری ہی کا رخ کرتے ۔ پھر آہستہ آہستہ ان پڑھے لکھوں کو بسوں میں کنڈکٹر کی ملازمت ملنے لگی اور اکثر بی ۔ اے اور ایم ۔اے پاس کنڈکٹر بننے لگے ۔ انہیں بس کنڈکٹر کی اسمارٹ یونیفارم میں دیکھ کر ان پڑھ یا نیم تعلیم یافتہ ہم وطن بہت مرعوب ہوتے اور بس کنڈکٹر بھی ان کے درمیان اس طرح گھومتے جیسے انہیں کوئی بہت بڑی ’’ افسری ‘‘ مل گئی ہو ۔ انہیں دنوں مجھے برمنگھم کے ایک سیکنڈری ماڈرن اسکول میں ملازمت مل گئی ۔ نیا نیا ٹیچر بنا تو ایک دن فیکٹری میں کام کرنے والے میرے ایک میرپوری بھائی نے مجھ سے پوچھا ’’ کیا یہاں ٹیچروں کی بھی وردی ہوتی ہے ؟ ‘‘ جب میں نے بتایا ۔ کہ ٹیچر وردی کے بغیر ہی کام کرتے ہیں تو اس نے مجھے کچھ اس طرح دیکھا جیسے کہہ رہا ہو ۔
’’ پھر یہ نوکری کس کام کی ؟ ‘‘
میں اس کی سادہ لوحی پر مسکرایا اور اس کے بعد یہ بات ایک لطیفہ کے طور پر مجھے اکثر یاد آتی رہی ۔ لیکن جلد ہی یہ لطیفہ لطیفہ نہ رہا اور میں سوچنے لگا ۔ کہ وردی تو اسکولوں میں بھی ہوتی ہے ۔ یہاں کے قریب قریب ہر اسکول میں بچوں کے لئے ایک یونیفارم مخصوص ہے ۔ ہمارے ہاں کے پگڑی بدل بھائیوں کی طرح برطانیہ میں اسکول ٹائی کے بھائی چارے بہت مشہور ہیں ۔ بڑے بڑے اسکولوں میں ٹیچر لوگ کلاس روم میں اپنا یونیورسٹی گون Gownپہن کر جاتے ہیں ۔ جو ایک طرح سے وردی ہی ہے ۔ جن اسکولوں کے اساتذہ اپنے فرائض منصبی عام لباس میں ادا کرتے ہیں ان سے توقع کی جاتی ہے ۔ کہ ان کا لباس ایک ایسے باوقار رجحان کی آئینہ داری کرے گا جس کی پیروی ان کے شاگرد اپنی آئندہ زندگی میں کریں گے ۔ اس ملک میں ملکہ اور اس کے لارڈز کا بھی کوئی نہ کوئی مخصوص لباس یا وردی ہوتی ہے ۔ جسے وہ سرکاری تقریبات میں پہنتے ہیں ۔ سرکاری تقریبات میں ملکہ بھی ہیروں اور جواہرات سے اٹاہوا اپنا بھاری بھر کم تاج سر پر سجاتی ہے ۔ لیکن عام زندگی میں وہ اور دوسرے شاہی افراد عام لباس پہنتے ہیں ۔ یہ دوسری بات ہے ۔ کہ ان کا یہ عام لباس کچھ اس وضع سے تیار کیا جاتا ہے کہ وہ عوام الناس کے لئے ایک مثال بنے ۔ ملبوسات کے نت نئے فیشن اور جدت طرازی کا منبع ملکہ اور اس کے کنبہ کے افراد کا لباس ہی ہوتا ہے ۔ فرد کی آزادی جیسے تصورات اور وقت کے بدلتے ہوئے تقاضوں نے ہاؤس آف لارڈز سے لارڈز کی وردی چھین لی ہے ۔ تاہم خاص خاص موقعوں پر اب بھی وہ مخصوص لباس پہن کر اپنی خاندانی روایات کی یاد تازہ کرتے ہیں ۔
میں وردی کی اہمیت اور مخصوص لباس کی عظمت سے سب سے زیادہ متاثر اس وقت ہوا جب برطانیہ کی صدیوں پرانی روایات پر نئے جمہوری تقاضوں نے دھاوا بولا ، برطانیہ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ بریڈفورڈ کے شہر میں ایک ایشیائی لارڈ میئر چنے گئے اور میں نے اپنے عجیب صاحب کو لارڈ میئر کے روایتی لباس میں دیکھا ۔ معلوم ہوا کہ لارڈ میئر کا لباس ان کا خادم خاص ہر صبح انہیں بڑے اہتمام سے پہناتا ہے ۔
برطانیہ کے ہر قصبے کا میئر اور سٹی کا درجہ رکھنے والے شہر کا لارڈ میئر اس قصبے یا شہر میں برطانیہ کا ذاتی نمائندہ ہوتا ہے اور اپنے شہر کے قدوقامت اور اس کے سالانہ بجٹ کے تناظر میں اسے اس طرح کی مراعات اور احترام حاصل ہوتا ہے ۔ جو ملکہ کے شایان شاں ہے ۔ یہی وجہ تھی ۔ کہ جب ۱۹۸۵ء میں ہمارے عجیب صاحب کو یہ اعزاز ملا ۔ تو برطانیہ کی تاریخ کا یہ اتنا بڑا واقعہ تھا ۔ کہ ساری دنیا کے اخبارات ، ٹیلی ویژن اور ریڈیو پر اس کا چرچا ہوا ۔ برطانیہ کے قریب قریب ہر اخبار نے اس پر ایڈیٹوریل لکھا ۔
میں نے عجیب صاحب کو لارڈ میئر کے ملبوس میں دیکھا تو محسوس کیا کہ وردی کے اندر چھپی ہوئی شخصیت اپنے ہم وطنوں کو جو بس کنڈکٹری ہی میں مگن تھے شاعر اقبال کے الفاظ میں یہ پیغام دے رہی ہے :
تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا ورنہ گلشن میں علاج تنگی داماں بھی ہے
وطن عزیز سے بی ۔ اے ۔ کرنے کے بعد عجیب صاحب جب ۱۹۵۷ء میں برطانیہ پہنچے تھے تو انہوں نے بھی نئی زندگی کا آغاز بس کنڈکٹری سے ہی کیا تھا ۔ لیکن انہوں نے اس پر قناعت نہ کی ۔ اور ’’ تنگی داماں ‘‘ کا علاج زیادہ سے زیادہ پونڈ کمانے میں ہی تلاش نہ کیا ۔ ورنہ وہ زمانہ ایسا تھا جب زیادہ سے زیادہ پونڈ جمع کرنا ہی ہماری نظر میں زندگی کی سب سے بڑی حقیقت تھی ۔
اسی ۱۹۵۷ء کی بات ہے ۔ مجھے ایک ایسے گھر میں جانے کا اتفاق ہوا جہاں صاحب خانہ کرنسی کا کاروبار کرتے تھے ۔ اور اپنے ہم وطن مزدوروں کی کمائی کے پونڈ وطن عزیز میں ان کے لواحقین کو روپوں کی شکل میں پہنچاتے تھے ۔ ہمارے ہاں جس طرح رشوت دینے والا صرف رشوت لینے والے ہی کو برا سمجھتا ہے ۔ اسی طرح اس زمانے میں رقم بھیجنے والا خود تو بڑے اطمینان سے اپنے پونڈ بلیک کرنسی والے کے حوالے کرکے سرکاری شرح سی
زیادہ پر اپنی رقم گھر بھیج دیتا تھا ۔ لیکن جس کے ذریعے یہ زر مبادلہ طے پاتا تھا اسے بلیکیا ، سمگلر اور ملک اور قوم کا دشمن بھی سمجھتا تھا ۔ لیکن جب اس کے گھر میں ہر ہفتہ اور اتوار کو پونڈوں سے بھرے ہوئے سوٹ کیس اور گھر کے سامنے اس زمانے کی سب سے مہنگی کار ’’ ذی فر ‘‘ دیکھتا تو دل ہی دل میں اس کی قسمت پر رشک بھی کرتا تھا ۔
ان دنوں بیوی بچوں کو یہاں منگوانے کا سلسلہ شروع نہیں ہوا تھا ۔ صرف گنے چنے کنبے آرہے تھے ۔ مجھے صاحب خانہ نے بتایا کہ ان کے بچے پاکستان سے یہاں آگئے ہیں ۔ انہوں نے اپنے ایک سات آٹھ سال کے بچے سے میرا تعارف کرایا ۔ اور بتایا کہ بچہ بہت ذہین ہے ۔ اس کے بعد انہوں نے مسکراتے ہوئے مجھ سے کہا کہ میں ان کے اس نونہال سے پوچھوں ۔ کہ وہ بڑا ہوکر کیا کرے گا ۔ میں نے پوچھا ۔ تو اس نے تن کر بڑے اعتماد سے کہا ’’ میں بلیک کرساں ‘‘ یعنی ’’ میں بلیک کروں گا ‘‘ ۔ اس پر حاضرین محفل کی باچھیں کھل گئیں ۔
ہم ’’ بلیک کرنے ‘‘ ہی کو زندگی کی معراج سمجھنے کے مرحلہ سے ہوتے ہوئے اور برطانیہ کی بس کنڈکٹری میں اپنے خوابوں کی تعبیر ڈھونڈنے کی منزلوں سے گزر کر اب بہت آگے آچکے ہیں ۔ مختلف شہروں کی کونسلوں میں ہمارے کونسلروں کی تعداد دن بدن بڑھ رہی ہے ۔ بعض قصبوں میں ایشیائی میئر بھی اپنے گلے میں میئر کا روایتی طلائی ہار پہنے نظر آتے ہیں ۔ سٹی کا درجہ حاصل کرنے والے شہروں میں بریڈفورڈ کے بعد اب شیفیلڈ میں راجہ قربان حسین صاحب اور ناٹنگھم میں محمد ابراہیم صاحب بھی لارڈ میئر بن چکے ہیں ۔ ہاؤس آف لارڈز میں ہمارے نذیر احمد صاحب بھی پہنچ گئے ہیں ۔۱۹۸۵ء میں لارڈ میئر بن کر عجیب صاحب نے جس منزل کا ہمیں نشان بتایا تھا ہم میں سے اکثر اولوالعزم اب اسی راہ پر گامزن ہیں ۔لیکن یہ کہنا غلط ہوگا ۔ کہ عجیب صاحب نے لارڈ میئر بن کر ہمیں صرف لارڈ میئر بننے کی ترغیب دی تھی ۔ حقیقت یہ ہے ۔ کہ ان کی مثال سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے ۔ کہ اگر جذبہ دل صادق اور ارادے میں پختگی ہو تو آخری منزل صرف لارڈ میئر کا چیمبر ہی نہیں ۔ بلکہ ’’ ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں ‘‘ ………… عجیب صاحب کے اعزاز نے ہمیں بھی معزز بنا دیا ۔ ہم میں خود اعتمادی پیدا کی ۔ اور ہمیں یہ شعور دیا ۔ کہ اپنی دلچسپی اور شوق کے مطابق ہم اپنی منزل کا تعین کرکے اسے حاصل بھی کر سکتے ہیں ۔
شکریہ عجیب صاحب ۔ بہت بہت شکریہ ۔ کہ آپ نے ہمیں راہ دکھائی !
جن دنوں عجیب صاحب نئے نئے لارڈ میئر بنے تھے اپنے ایک کونسلر نے مجھ سے کہا تھا ۔ کہ ’’ اس ملک میں جمہوریت ہے ۔ دیکھ لیجئے گا ۔ ایک دن ہم ان کی جمہوریت کے بل بوتے پر اس ملک کی سیاست پر چھا جائیں گے ۔ جس طرح امریکہ میں یہودیوں کو خوش رکھے بغیر کوئی شخص امریکہ کا صدر نہیں بن سکتا ۔ اسی طرح ایک دن آئے گا ۔ جب یہاں کے وزیر اعظم کی کامیابی کا انحصار ہم پر ہوگا ۔ اور کون جانے ایک دن ہم میں سے ہی کوئی یہاں کا وزیر اعظم ہو ۔ ‘‘
کون جانے ؟
خدا کرے ۔ ایسا ہی ہو !