ابراہیم اشکؔ(ممبئی)
مثالِ موج اسے سب مچل کے دیکھتے ہیں حسین سارے مگر اس کو جَل کے دیکھتے ہیں
گذر جو شہر کی گلیوں سے اس کا ہوتا ہے تمام لوگ گھروں سے نکل کے دیکھتے ہیں
پڑے جہاں بھی قدم اس کے دشت و صحر ا میں زمیں سے آپ ہی چشمے اُبل کے دیکھتے ہیں
غضب کی تاب وہ رکھتا ہے اپنے جلووں میں کہ مہر و ماہ بھی اس کو سنبھل کے دیکھتے ہیں
ذرا سا لمس جو مل جائے اس کے ہاتھوں کا درخت سوکھے ہوئے،پھول پھل کے دیکھتے ہیں
سنا ہے بزم میں اس کی خدا کے جلوے ہیں سماں وہاں کا چلو ہم بھی چل کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اپنی روش وہ نہیں بدلتا ہے تو اس کے واسطے خود کو بدل کے دیکھتے ہیں
سنا ہے عشق میں جلنا بھی اک عبادت ہے مثالِ مہر چلو ہم بھی جل کے دیکھتے ہیں
سنا ہے شیش محل میں وہ جب سنورتا ہے سب آئینے اسے شکلیں بدل کے دیکھتے ہیں
وفا میں اس کی غضب کی ہے گرمیٔ احساس اُسے تو راہ کے پتھر پگھل کے دیکھتے ہیں
کبھی تو آئے گا، دیکھے گا وہ دریچے سے گلی میں اس کی ذرا ہم ٹہل کے دیکھتے ہیں
کھلے گا راز وہ معصوم ہے کہ ہے ہشیار رہِ وفا میں ذرا اُس کو چھَل کے دیکھتے ہیں
یہ کم نہیں ہے ،ہمیں چاہتا ہے وہ ورنہ بڑے بڑے بھی اسے ہاتھ مل کے دیکھتے ہیں
ابھی تو ایک نظر ہی ملی ہے بس اس سے ابھی سے خواب ہزاروں محل کے دیکھتے ہیں
سحر سے شام تلک اس کو دیکھنے وا لے طلوع ہوکے،کبھی اس کو ڈھل کے دیکھتے ہیں
سراپا ناز ہے وہ، اس کو دیکھنے والے ہر اک ادا میں اشارے غزل کے دیکھتے ہیں
بہت دنوں سے کوئی رس نہیں ہے جینے میں تو آؤ ہم بھی زمانہ بدل کے دیکھتے ہیں
ہنسے وہ جب تو گلستاں کے پھول شرما کر لبوں پہ اس کے نظارے کنول کے دیکھتے ہیں
تمام لفظ و معانی کی ہے یہی خواہش کرے وہ بات تو باتوں میں ڈھل کے دیکھتے ہیں
تلاشِ یار میں نکلے تو ہر قدم پر ہم خزانے سارے ہی علم و عمل کے دیکھتے ہیں
اُسی کی یاد میں کیوں دل تڑپتا رہتا ہے ہو ممکنات تو یہ دل بدل کے دیکھتے ہیں
ہزاروں بار یہ سوچا ، نہ کامیاب ہوئے اگر وہ سامنے آئے تو ٹل کے دیکھتے ہیں
سنائی دیتی ہے آہٹ ہمیں زمانے کی کہ ہم تو آج سے حالات کل کے دیکھتے ہیں
غزل تو کہنا ہے اے اشکؔ ہم کو نذرِ فرازؔ ذرا سا قافیہ لیکن بدل کے دیکھتے ہیں
انٹرنیٹ پر صرف اردو کے واحد سائبر ادبی حلقہ پر ہونے والی مراسلت