اصغرؔ عابد(اسلام آباد)
سوال:ادب میں فکری تحریکوں کے حوا لے سے پوچھنا ہے کہ برِصغیر میں اِن تحریکوں کے ہمارے ادبی موسموں پر کیا اثرات بنے؟کچّے پکے رنگ ہمارے ذھنوں میں کیا نقش گری کرسکے؟
جواب:بڑاادب ہمیشہ کسی نہ کسی فکری تحریک سے وابستہ ہوتا ہے مثلاًآپ جانتے ہیں کہ غالبؔ تک تمام ادب سیکولر تحریک کے زیرِ اثر رہا۔اِس وقت تک کاادب خواہ وہ خسرو ؔہوں۔میرؔ صاحب ہوں۔غالبؔ ہو یامیرامنؔ کی کہانیاں ہوں۔وہ سب ادب شعوری یا غیر شعوری طور پر سیکولرازم سے وابستہ تھا۔خسروؔکے محبوب نے سب چھاپ تلک چھین کر اُنہیں محض انسان کی شکل میں پسند کیا۔میرؔصاحب قشقہ کھینچ کر دیر میں جابیٹھے(قشقہ کھینچا دیر میں بیٹھے کب کا ترکِ اسلام کیا)اسلام ترک کرنے سے مراد علامتی انداز میں مذہبی فرقہ واریت کو ترک کرنا ہے۔غالبؔ نے ــــ’’ملّتیں جب مٹ گئیں اجزائے ایماں ہوگئیں‘‘کا نعرہ لگایا۔جوش ایمان بالا نسان کی ترکیب پیش کرتے ہیں۔یہ تحریک دراصل انسان دوستی کی تحریک تھی جو برِصغیر میں صوفیا ء کا ہمیشہ سے مسلک رہاہے اور اس انسان دوستی کے ذریعے لاکھوں لوگوں نے ان کے حلقہء ارادت کوقبول کر لیا تھا۔یہی انسان دوستی مذھبوں ،ملّتوں سے بالا تر رہ کر برِصغیر میں ہمیشہ اردو ادب کو قوت اور کشش عطا کرتی رہی۔ادب حقیقت میں انسان کی آواز ہے اور انسان سب سے پہلے انسان ہے اورپھر اِس کے بعد وہ جو بھی ہے۔لیکن اگر وہ انسان نہیں اور آدمی سے انسان کے مرتبے تک نہیں پہنچاتب وہ کچھ بھی نہیں۔
ترقی پسندتحریک نے ’’انسان دوستی‘‘ کے اِس نظرئیے کوترقی پسند تحریک کے نام سے اختیار کیا۔اوریہی تحریک دراصل اردو ادب کی بڑی تحریک ہے جس نے اردو ادب کے حال کو اُس کے ماضی سے منسلک اور وابستہ رکھا، انسان دوستی کے برعکس جو بھی تحریک پیش کی گئی وہ ناکام ہوئی۔آپ جانتے ہیں حسنؔ عسکری صاحب کی اسلامی
ادب کی تحریک کیوں ناکام ہوگئی؟اس لیے کہ وہ انسان کو لخت لخت کرنے کی تھی اور چونکہ تخلیقِ ادب کا کام ہمیشہ سے بہت پڑھے لکھے اور ذہین لوگوں کے پاس رہا ہے اس لیے انہوں نے اس تحریک کے ذریعے لخت لخت ہونے سے انکار کردیا۔میں سمجھتا ہوں ادب میں بھی (Survival of the fittest)کا اُصول کار فرما ہے جوتحریک اپنے عہد سے زیادہ مربوط،موزوں اور طاقتور ثابت ہوئی ہے وہی زندہ رہی ہے اور اُس نے زندگی کا سفر طے کیا ہے۔پھر جدیدیت کی تحریک نے انسانی بطون کی طرف متوجہ کیا۔بیسویں صدی گذشتہ کئی صدیوں کی نسبت زیادہ فروغِ علم کی صدی ہے اس لیے جدیدیت بھی ایک بڑے حلقے میں مقبول ہوئی۔ترقی پسند تحریک نے انسان کے خارج پر زور دیااور جدیدیت نے داخل پر مگر دونوں نے اپنااپنا کردار ادا کیا۔پھر ایک درمیانی راستہ نئی جدیدیت کی تحریک کے ذریعے بنایا گیاجس میں پہلی دونوں تحریکو ں کے اہم عناصر شامل کر لیے گئے۔میں سمجھتا ہوں اِس وقت شعوری یا غیر شعوری طور پر نئی جدیدیت کے تحت ادب تخلیق ہو رہا ہے۔میں ذاتی طور پر پورے آدمی کے ادب کا قائل ہوں اور اِس کا اظہار میں اس سے کئی سال پہلے خصوصاً اپنے شعری مجموعے’’دشتِ بام ودر‘‘مطبوعہ 1996ء میں کرچکا ہوں۔غرض میں سمجھتا ہوں کہ اردو ادب کے موسم بنانے اور تبدیل کرنے میں فکری تحریکوں کا بہت بڑا حصہ رہا ہے۔مگر بنیادی طور پر انہی تحریکوں کا حصہ ہے جن کی بنیاد انسان دوستی کے وسیع المشرب نظرئیے پر استوار ہے۔اس کے علاوہ جو چھوٹی موٹی واعظانہ یاتبلیغی تحریکیں ہیں وہ دراصل ادبی تحریکیں نہیں ہیں کیونکہ ان کا تعلق انسان دوستی کے نظرئیے سے نہیں ہے بلکہ ان کے پیچھے کچھ اور مقاصد کار فرما رہے ہیں۔سو یہ کچّے پکّے رنگ ہمیشہ وقت کی بارشوں میں بہہ جاتے ہیں۔ زندگی کا سفر طے کرنا تو کجاشروع بھی نہیں کر پاتے۔
سوال:ہمارے ہاں ادب زوال پذیر ہے یا ادبی رحجانات کونمائشی اثرات کی دیمک کھوکھلا کر گئی ہے؟
جواب:ہمارے ہاں ادب کبھی زوال پذیر نہیں رہا۔آپ تاریخِ ادب پر نگاہ ڈال کر دیکھئے ادب کا ہر عہد بے حد با ثروت دکھائی دے گا۔خسروؔ ،نظیر،میرؔ،غالبؔ،اقبالؔ،فیضؔ،کرشن چندر،بیدی ،منٹو،ندیم،ناصر کاظمی اوروزیرآغا۔۔۔۔۔غرض ہر عہد میں یہ کارواں آپ کو رواں دواں ملے گا۔پھر اردو ادب نے ہر زندہ ادب کی طرح نئی تحریکوں کو خوش آمدید کہا ہے۔بیانیہ ،علامت،تجرید۔۔۔اصناف کے طور پر نئی نظم،انشائیہ ،نثری نظم ،ہائیکو،ماہیا،یہ کامیاب صنفی تحریکیں ہیں جنہوں نے پوری قوت سے اردو ادب میں اپنی جگہ بنائی ہے۔ابھی اور تحریکیں بھی مثلاً ماہیا زور آزمائی میں مصروف ہیں۔اردو ادب کے ہمیشہ زندہ رہنے کی وجہ اِس کے تخلیق کار ہیں اور ہ تخلیق کار ہر عہد میں آپ کو روشن ستاروں کی طرح دکھائی دیں گے۔ضرورت اِس بات کی ہے کہ ادب کے بہترین حصّے کو نظر میں رکھا جائے جس طرح سپورٹس میں بہترین کارکردگی کو ریفر کیا جاتا ہے۔جہاں تک ادب پر نمائشی اثرات کا تعلق ہے تو یہ معمول کی کاروائی ہے۔ادب لکھنا پکّے لنگوٹ والوں کا کام ہے۔میرا تجربہ ہے کہ اچھا جملہ ہو یا اچھا شعر ہو تو سو پردوں میں بھی ہو گا تو سامنے آئے گا۔ہاں بعض اوقات ہمارے جیسے ناانصاف معاشرے میں تھوڑی تاخیر ہوجا تی ہے اور نمائشی اثرات کچھ دیر کے لیے غالب نظر آتے رہتے ہیں مگر نمائشی اثرات تو کچّے رنگ ہیں ۔یہ میک اَپ تو پانی کے دو ہی چھینٹوں سے غائب ہو جاتا ہے۔سو اِک ذرا صبر کہ فریاد کے دن تھوڑے ہیں ۔طاقتور رحجانات اور انسان سے ۔۔۔ پورے انسان سے۔۔۔وابستہ ادب کو ہی زندہ رہنا ہے۔البتہ ضرورت اِس بات کی بھی ہے کہ پرنٹ میڈیا اور سکرین میڈیافروغِ ادب کے لیے کام کرے اور ذاتی مصلحتوں سے بالاتر ہوکراپنے فرائض اد ا کرے کہ میڈیا کا اس عہد پر بلا شبہ بہت اثر ہے۔
سوال:ادب اور صحافت کہاں ایک ہو سکتے ہیں ؟ہمارے سماجی رویوں نے ادب وصحافت کے منصبی تقدس کو کس حد تک مجروح یا مفتوح کیا ہے؟
جواب:ادب اور صحافت ایک دوسرے کے قریب آرہے ہیں۔اور اِسی میں ادب کی زندگی ہے۔ایک زمانہ تھا کہ ہمارے اسکولوں ‘کالجوں اور یونیورسٹیوں میں فارسی زبان وادب کا غلبہ تھااور چونکہ اِس وقت تک ہمارے ادب پر بھی فارسی شعرو ادب کا غلبہ تھااس لیے ہماری نئی نسلیں ادب کے مرصّع اسلوب اور دبیز اندازِاظہار کو بخوبی سمجھ سکتی تھیں۔خود شاعروں ،ادیبوں پر اس اندازِاظہار کا غلبہ رہا۔اقبالؔ،ن۔م۔ راشد‘میرا جیؔ‘مجید امجدؔ‘اختر حسین جعفری(شاعروں پر زیادہ تر ۔۔۔۔اور افسانہ نگاروں پر کم تر)اسی فارسیت کے زیرِاثر رہے۔مگر پھر فارسی ہمارے تعلیمی اداروں سے غائب کر دی گئی۔عربی سے رشتہ جڑا، یا جوڑنے کی کوشش کی گئی مگر وہ کلچر ہمارے مزاجوں سے خاصہ مختلف تھااس لیے اظہارو بیان کو متاثر نہ کر سکاجس طرح فارسی اسلوب نے متاثر کیا تھا۔پھر انگریزی زبان وادب کے سیدھے سچّے صحافت سے قریب اسلوب کا زمانہ آگیا۔یہ ایک الگ بحث ہے کہ ہمارے فارسیّت زدہ ادب کا نئی نسلوں کے حوالے سے کیا مستقبل ہوگا؟کیا ہماری آج کی نسل اقبال کو ۔راشد کو۔میراؔ جی کو سمجھ پائے گی؟فی الحال اس سے بحث نہیں لیکن اردو ادب نے اظہار کے نئے تقاضوں کوبڑا خندہ پیشانی سے قبول کر لیا۔۔۔انگریزی اندازِ بیان کی طرح اردو میں آج گہری سے گہری بات کو آسان زبان میں کہہ دیا جاتا ہے اور یہی صحافت کا عوامی انداز ہے۔میں اِسے صحت مند رحجان کہوں گاجس سے ادب صحافت سے قریب آتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔آج سبھی اردو روزناموں نے ادبی صفحات شائع کرنا شروع کر رکھے ہیں ۔گویا خود صحافت بھی ادب کی طرف بازو اٹھائے ہوئے ہے۔اردو ادب وصحافت کا ایک واضح سنگم دکھائی دینے لگا ہے۔اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ صحافت نے ادب کے ذریعے سے اپنی مقبولیت میں اضافہ کرلیا ہے اور دوسرے انداز سے دیکھا جائے توصحافت نے ادب کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت محسوس کی ہے۔پھر یہ بھی کہ صحافت نے ادب کوظہار کے عوامی پیرائے کی طرف متوجہ کیا ہے،فکری سطح پر ادب اپنی ادبی شان کو بحال رکھے ہوئے ہے کیونکہ آج کا ادب آسان انداز میں مشکل بات کہنے کا فن ہے۔اور میں سمجھتا ہوں کہ ادب نے محض اپنے پیرہن کو ہلکا پھلکا کیا ہے تاکہ آج کے تیز رفتار سفر کو جاری رکھ سکے اور اجنبی دکھائی نہ دے۔ہمارے سماجی رویّے دوسرے شعبوں کی نسبت ادب کے شعبے میں نسبتاً بہتر ہیں ۔ایک پسماندہ معاشرے سے اس سے بہتر رویّوں کی توقع فی الحال بے جا ہے۔ہمارے اس قسم کے سماجی رویّوں نے منصبی تقدس کو مجروح تو کیا ہے مگر مفتوح نہیں کیا۔ادبی کتابوں پر اور ادبی کام پر آج بھی غیر مستحق لوگوں کو ایوارڈ دئیے جا رہے ہیں کیونکہ ان کی لابی طاقتور ہے اور بااثر ہے۔پچھلے بیس برسوں کے ایوارڈ یافتہ ناموں کی فہرست دیکھنے سے بعض نام بار بار نظر آئیں گے۔آخر کیوں؟کیا ان کے علاوہ اور لوگوں نے معیاری ادب نہیں لکھا؟بعض نام دیکھ کر آپ ویسے ہی حیران ہو جائیں گے کہ ان کا سرے سے کوئی قابل ذکر کام ہی نہیں ۔تاہم بہت سے غیر مستحق لوگوں میں دو تین مستحق نام بھی نظر آنے لگے ہیں ۔میرے خیال میں پرائڈ آف پرفارمنس صرف ایک بار دیا جانا چاہئے۔اور کسی مصنف کو ایک ہی صنف کی کتاب پر دو بار ایوارڈ دس سال سے پہلے نہیں دیا جانا چاہئے۔سکرین میڈیا پر جس طرح چند لوگوں نے قبضہ کر رکھا ہے یہ اہلِ اختیار کے لیے سوچنے کی بات ہے۔بہرحال ایسے سماجی رویّوں کی نشاندہی تسلسل سے ہونی چاہئے۔اور ان کے خلاف لکھاجانا چاہیئے ۔جنگل میں راستہ بنانے کے لیے وقت بھی چاہیئے اور مسلسل جدوجہد بھی۔میرے خیال میں پرنٹ میڈیا کا رویّہ قدرے بہتر ہے اور ابھی مزید بہتر ہونا چاہیئے ۔
سوال: کتاب ہمارے ہاں بے حیثیت شے بن گئی ہے اور صاحبِ کتاب بے قیمت فرد معاشرہ۔اگر نہیں تو پھر کیا صورت ہے؟
جواب:نہیں جی کتاب بھی بے حیثیت شے نہیں بنی ہے اور صاحبِ کتاب بھی بے قیمت فردِمعاشرہ نہیں ہے۔۔۔آپ خود سوچئے جس معاشرے میں لوگوں کو روٹی کے لالے پڑے ہوں۔سامنے دنیا بھر کے خوانِ نعمت بچھے ہوں اور وہاں سے اپنی پسند کے دو لقمے بھی اُٹھا نہ سکیں تب کتاب کہاں سے خریدیں اور کس وقت بیٹھ کر پڑھیں ۔لوگوں کو ذرا سی معا شی سہولتیں دیجیے۔تھوڑی سی فراغت عطا کیجئے تب آپ دیکھیں گے ان کے ہاتھ سب سے پہلے کتاب کی طرف بڑھیں گے۔قاری ہمارا بہت قابلِ رحم ہے۔ہم اُسے روٹی تک تو دیتے نہیں اور اُس سے تقاضہ کرتے ہیں کہ کتاب خریدے۔پھر بھی اس دور میں کتاب بہت چھپ رہی ہے اور پڑھی جا رہی ہے ۔میں نے لوگوں کے دلوں میں کتاب کی محبت یہاں تک دیکھی ہے کہ بے تعلق اور معمولی سے تعلق والے لوگ بھی مصنّف سے کتاب مانگ لیتے ہیں ۔اس لیے کہ وہ پڑھنا چاہتے ہیں ۔یہ درست ہے کہ ان کے پاس خریدنے کے لیے پیسے نہیں ہیں ۔مصنّف سے کوئی ایسا زیادہ تعلق بھی نہیں ہے مگر سبک سر ہو کرہی سہی ،کتاب کی محبت میں وہ پھر بھی کتاب مانگنے لگتے ہیں ۔ لائبریریاں کتابوں سے اور قارئین سے بھری نظر آئیں گی۔یہی کتاب کی اور صاحبِ کتاب کی وقعت ہے۔ہاں ناشروں کے مسائل الگ ہیں اور وہ مصنّفوں کا استحصال کر رہے ہیں ۔نیشنل بک فاؤنڈیشن اوراکادمی ادبیات کو اس سلسلے میں قانون سازی کرکے مصنّفین کے ہاتھ مضبوط کرنے چاہئیں۔
سوال:آپ صاحبِ قلم بن گئے صاحبِ سیف کیوں نہ بنے یا کوئی دوسرا میدان کیوں نہ چنا؟
جواب: اصغر عابد میں آپ کو یہ راز بتا دوں کہ خدا کا شکر ہے کہ میں صاحبِ قلم بن گیا۔اگر میں صاحبِ قلم نہ ہوتا تو صاحبِ سیف ہوتا اور بہت بری طرح کاصاحبِ سیف ہوتایعنی قاتل۔خونی ۔ظالم ۔سنگدل۔میں جاٹوں کے اُس قبیلے سے تعلق رکھتا ہوں جس کے لوگ بُٹر کہلاتے ہیں اور قتل وغارت گری کے لیے مشہور ہیں ۔میرے بچپن اور نوجوانی تک میرے گاؤں کا ماحول(جب میں گاؤں میں رہتا تھا )بہت پر امن اور پرسکون تھا۔میرے قبیلے کے دوسرے یہاتوں میں رہنے والے لوگ ہمارے ہاں آتے اور ہمیں طعنے دیتے کہ تم کیسے بُٹر ہو کہ سال میں پانچ سات بندے بھی نہیں مارتے ۔ہم تو جب تک دس بیس بندے نہ پھڑکا لیں ہمارا گزارہ ہی نہیں ہوتا ،میرے گاؤں کے لوگوں نے بہرحال اس پرامن ماحول کوبحال رکھا ۔مگر اب میرے گاؤں میں چار پانچ قتل ہونے معمول بن گیا ہے اس لیے میں نے گاؤں جانا چھوڑ دیا ہے۔سال میں ایک دو بار بڑی مشکل سے اور مجبوری سے جاتا ہوں ورنہ اب گاؤ ں جانے کو میرا جی نہیں چاہتا ویسے بھی میں نے اپنے شیطان سے دوستی کرلی ہے ۔اس نے کہا تھا’’اکبر حمیدی تم رحمان نہ بننامیں شیطان نہیں رہتا ‘‘میں نے کہا’’تم انسان بن جاؤ میں بھی انسان رہوں گا‘‘اس معاہدے پر ہم دونوں بڑی شرافت سے عمل کر رہے ہیں ۔رہی دوسر امیدان چننے کی بات تو مجھے پروفیسر کہلوانا اچھا لگتا تھا سو میں نے اس خواہش کے لیے باقا عدہ ایگزیکٹو کی ملازمت سے انکار کیا اور اس قربانی کے باعث خداوند کریم نے میری خواہش کو پورا کردیا ۔اب بھی یقین جانئے میں صرف اتنے ذرائع چاہتا ہوں جن سے میں اور
میرے بچے عزت وآبرو سے زندگی بسر کرسکیں ۔اگر کبھی اس سے زیادہ ملا تو میں انکار کردوں گا ۔مجھ میں انکار کی طاقت اور حوصلہ ہے۔
سوال:آپ نے شعر کہے ۔خاص طور پر غزل اوروہ بھی زیادہ تر چھوٹی بحر میں ۔اس کی خاص وجہ یعنی کیا منصوبہ بندی کے تحت ایسا ہوا ؟
جواب:میں غزل شروع سے کہہ رہا ہوں اور اب نظم بھی ۔میں ان کاموں میں سوچ سمجھ کر قدم اٹھانے کا قائل ہوں مثلاً نئی نظم کا فارمیٹ اور اسلوب غزل سے بہت مختلف ہے۔گو میں نے نظمیں بھی کہیں اور وہ چھپیں بھی مگر ابھی میں نظم کے آہنگ سے ہم آہنگ ہونے کی کوشش کر رہا ہوں اور پوری طرح نہیں ہو پایا کیونکہ غزل فا رمیٹ کے اعتبار سے زیادہ بہت روائیتی ہے اور نئی نظم اپنی وسعت کے اعتبار سے زیادہ بھیدوں بھری ہے اور میں اس کے بھید بھاؤ جاننے میں لگا ہوں ۔غزل میں چھوٹی بحر مجھے زیادہ پسند ہے اور لمبی بحر میں لکھنے سے مجھے الجھن ہوتی ہے ۔اگرچہ لمبی بحروں میں اوروں نے اچّھی اچّھی غزلیں بھی کہی ہیں مگر یہ بحریں میرے مزاج سے ہم آہنگ نہیں اس لیے چھوٹی بحر زیادہ اختیار کی گئی مگر یہ نیچرل ہوا۔کوشش سے نہیں ۔باقی ادبی کاموں میں میری منصوبہ بندی کا دخل ضرور ہے کہ میں سوچ سمجھ کر کام کرنے والا آدمی ہوں مگر چھوٹی بحر خود ہی میرے ہاں زیادہ شامل ہوئی ۔چھوٹی بحر یں یا میڈیم بحریں میرے لیے سہولت کا باعث بنتی ہیں اور میں اپنی توجہ اوزان کے معرکے سر کرنے کی بجائے بات کہنے پرمبذول رکھتا ہوں ۔ہمارے ہاں بعض حضرات تو محض اوزان کی شاعری کررہے ہیں ،یعنی نئے نئے غیر مانوس اوزان میں غزلیں کہہ کر وہ اس سے شعر کا نیا پن ظاہر کرنا چاہتے ہیں اور سادہ قاری اسے شعر کانیا پن سمجھنے بھی لگتا ہے۔چھوٹی بحر تیز تیر کی طرح ہوتی ہے ۔اس کے تاثر کو الفاظ تیز کرتے ہیں کیونکہ ان کی تعداد کم ہوتی ۔لمبی بحروں میں الفاظ کا ہجوم ہوتا ہے اور تخلیق کار کی ذرا سی کم مشقی سے یا کم فہمی سے یہ ہجوم تاثیر کا راستہ روک کر کھڑا ہوجاتا ہے ۔الفاظ کو راستے سے ہٹانا ۔ان سے کام لینا ۔ان کی چھانٹی کرنا۔انہیں بولانا اور انہیں نچاناایک بہت طاقتور شاعری کا کام ہے۔بعض شاعر ساری زندگی لغت کی شاعری کرتے رہتے ہیں ۔اور خوشامدیوں یا غرض مندوں کی واہ واہ کے باعث وہ زندگی بھر یہ سمجھ نہیں پاتے کہ ان کے ساتھ الفاظ کیا کھیل کھیل رہے ہیں ۔لفظ تو ایک جن ہے اسے فہم وفراست اور فن کے منتر سے ہی کِیلا جا سکتا ہے ورنہ وہ ساری عمر سر پر سوار رہتا ہے اور شاعر کو نچاتا رہتا ہے۔لفظ کو سر سے اتارنا ،اسے قابو میں لانا ،اور اس سے کام لینا تین بڑے مرحلے ہیں ۔اور انہیں سر کرنے کے لیے بہت طاقت بھی چاہئے اور سمجھ بھی ۔فن میں لفظ دوست بھی ہے اور دشمن بھی ‘جب وہ اظہارِبیگانگی کرنے لگے ۔
سوال:نثر میں آپ نے انشائیے لکھے ۔۔۔۔سرگودھا کے مزاج کے ‘۔۔آپ نے تنقید بھی لکھی ۔۔۔۔اب خاکوں کا مجموعہ آیا ۔۔۔۔بچّوں کی کہانیاں بھی شائع ہوگئیں ۔۔۔اور سب سے بڑھ کر خود نوشت سوانح نگاری ۔۔۔ذرا تفصیل بتائیے؟
جواب:میں نے انشائیے لکھے ۔۔۔۔مگر جناب سرگودھا کے مزاج کے نہیں ۔۔۔اپنے مزاج کے ۔ہر شخص کا ایک مزاج ہوتا ہے اور ہونا چاہیے۔ہاں میں نے انشائیہ لکھنے کے لیے ڈکٹر وزیر آغاسے رہنمائی حاصل کی اور اب بھی حاصل کررہاہوں ۔انشائیہ کو سمجھنے میں اور لکھنے میں یعنی اس کے پیٹرن میں مَیں نے اُن سے بہت کچھ سیکھاتاہم انشائیہ لکھا ‘اپنے مزاج اور اپنے خیالات وافکار کے مطابق۔اس میں نئے نئے تجربات بھی کیے۔میں نے انتہائی دُکھ بھرے اسلوب میں بھی انشائیہ لکھا جیسے ’’میں سوچتا ہوں‘‘تاریخی انشائیہ بھی لکھا جیسے ’’نظام سقّہ‘‘فلسفیانہ ،نفسیاتی،کیفیاتی انشائیے بھی لکھے۔خالص نظریاتی انشائیہ بھی لکھا اور اب ایک انشائیہ مکالماتی انداز میں لکھا ’’ٹیلیفون کال‘‘یہ ایک مسلسل مکالمہ ہے ۔یوں میں نے انشائیہ کے متن میں بھی اور متن سے باہر بھی تجربے کیے۔انشائیے میں میرے چار مجموعے شائع ہوئے ہیں ۔خاکے بھی لکھے ۔کچھ میرے خاندان کے لوگوں کے ہیں اور کچھ شاعر ادیب دوستوں کے۔بچّوں کے لیے کہانیاں فرصت کے دنوں میں لکھیں۔یہ کہانیاں’’عقلمند بچّوں کی کہانیاں‘‘کے نام سے کتابی شکل میں شائع ہوئیں ۔نیشنل بُک فاؤنڈیشن آف پاکستان کی طر ف سے ان کہانیوں پر ایوارڈ بھی دیا گیا ۔اب خود نوشت سوانح حیات’’جست بھر زندگی‘‘شائع ہوئی ہے۔یہ قدرے بڑی کتاب ہے سوا تین سو صفحات سے کچھ زیادہ ۔اس کا بہت زور دار رسپانس آرہا ہے اور یہ کتاب تیزی سے فروخت بھی ہورہی ہے۔اب تو ختم ہونے والی ہے۔کچھ ہی کاپیاں میرے پاس ہیں جو میں نے اپنی ضرورت کے لیے رکھی ہیں ۔دوماہ میں یہ ایڈیشن تقریباً ختم ہو گیا ہے ۔شروع میں زیادہ اصناف میں لکھنے پر بعض لوگ خفا ہورہے تھے مگر ان کی گفتگو میں بشاشت کا اظہار ہوتا ہے۔اور یہ اس لیے کہ میری سب تحریروں نے قارئین میں اعتماد حاصل کر لیا ہے۔میں خود بھی اپنی تحریروں سے مطمئن ہوں۔زیادہ اصناف میں لکھنا میری ضرورت ہے ۔ایک صنف میری اظہاری ضرورتوں کو پورا نہیں کرپاتی۔میرے پاس زندگی کے متنوع تجربے ہیں اور رنگارنگ سوچیں ہیں۔میں ایک کمرے کے گھر میں رہائش نہیں رکھ سکتا۔مجھے سب طرح کے کمروں والا گھر چاہئے سومیں اسے تعمیر کر رہاہوں۔خاصا تعمیر ہوگیا ہے اورمیں اپنی رہائش اس بڑے گھر میں لے آیا ہوں۔گذشتہ ایک ڈیڑھ سال میں خاکوں کامجموعہ’’چھوٹی دنیا بڑے لوگ‘‘شائع ہوا۔بچّوں کے لیے کہانیاں چھپیں۔انشائی مجموعے’’جھاڑیاں اور جگنو‘‘اور ’’پہاڑمجھے بلاتاہے‘‘شائع ہوا۔کئی ایک مضامین وغیرہ لکھے ۔خود نوشت شائع ہوئی۔غزلیں،نظمیں اور ہائیکو بھی لکھے۔
سوال:زندگی کے بارے میں آپ کیا کہیں گے۔خاص طور پر عمرانی تہذیب کے پسِ منظر میں ؟
جواب: زندگی تیز رفتار گھوڑے کی سواری ہے اور یہاں ہر لمحے پاؤں رکاب میں جما ئے رکھنے کی ضرورت ہے ۔ہمارے ہاں زندگی جنگل کا سفر ہوگئی ہے اور اس سفر میں مسافر کو ہر جھاڑی پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔زندگی ایڈجسٹ منٹ ہے جو جتنی اچھّی ایڈجسٹ منٹ کر سکے گا اتنا ہی کامیاب رہے گا۔جس طرح مَیں ایک وقت میں بہت سی اصنافِ ادب میں لکھ رہا ہوں اسی طرح میں ایک وقت میں بہت سی باتیں سوچ سکتا ہوں ۔بہت سے کام کر سکنے کی صلاحیت رکھتا ہوں ۔بہت سی سمتوں میں بیک و قت دیکھ سکتا ہوں۔میرے ذہن کی ،میری ذات کی بہت سی پرتیں ہیں۔ہر پرت میں میرا ایک دفتر ہے۔اور میں ہردفتر میں بیٹھا کام کرتا نظر آؤں گا۔
دوسروں کی طرح مجھے بھی زندگی کے مسائل پیش آئے ہیں اور پیش آرہے ہیں ۔شاید بہت سے لوگوں سے زیادہ۔مگر میں نے عام لوگوں سے بڑھ کر ان مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی ہے۔خدا کا شکر ہے کہ میری زندگی نے ہمیشہ مجھے راستہ دیا ہے اور میں اپنے آپ کو ایک کامیاب اور مطمئن آدمی سمجھ سکتا ہوں ۔میں نے ہمیشہ دوسروں سے مل کر رہنا چاہا ہے ۔مگر اپنی پسند کے لوگوں سے۔زندگی ضائع کرنے کے لیے نہیں ملی اور میں اپنے شیشے پتھروں پررکھنے کا قائل نہیں ہوں۔میں انسان دوست‘روشن خیال‘سیکولر‘نرم دل‘محبت کرنے والابے ضررانسان ہوں۔ہیومن ازم اور انہی باتوں نے میری زندگی کو کامیاب بنایا ہے ۔مگر اس قسم کا فرماں بردار نہیں جو ہر حالت میں وفاداری نبھائے چلا جائے۔میں باوفا ہوں ۔وفادار نہیں ۔دوستیاں کبھی ترک نہیں کرتا۔بشرطیکہ کوئی دوست مجھے اُٹھا کر بحرِالکاہل میں نہ پھینک دے۔میرے خیال میں یہی زندگی کے صحت مند اور متوازن روّیے ہیں۔میں نے دوستی کی قیمت پر یا عزتِ نفس کی قیمت پرکبھی کوئی چیز نہیں خریدی۔مجھے خوشی ہے کہ میری انہی اخلاقی قدروں کو میرے دوستوں اور عزیزوں نے ہمیشہ پسند کیا ہے۔
سوال:ادیب اور معاشرہ ۔۔۔۔۔۔پرانا سوال ہے۔۔۔۔مگر آ پ کی رائے کیا بنتی ہے؟
جواب:ادیب معاشرے کا سب سے زیادہ ذمہ دار فرد ہوتا ہے جو ساری زندگی اپنے معاشرے کی خدمت کے لیے بسر کرتا ہے۔جو ہر ظالم‘منافق‘غیر ہموار زمانے میں اپنے لوگوں کے لیے آواز اُٹھاتا ہے۔جب سیاست دان ملک وقوم کے نام پر، مذہبی آدمی اللہ، رسولﷺکے نام پر‘تاجر حب الوطنی کے نام پراستحصال کر رہا ہوتا ہے تب ایک ادیب ہی توہوتا ہے جو ایسی سماجی ناانصافیوں کے خلاف اپنے معاشرے کے لیے اپنا کردار ادا کرتا ہے اور وقت کے صفحے پر اپنااحتجاج ریکارڈ کرواتا ہے۔ادیب کا احتجاج ہمارے معاشرے میں اس طرح کا نہیں ہوتاہے جس طرح یورپ کے بعض ممالک میں ،تاہم میں اپنے خصوصی معاشرتی ماحول میں ادیبوں کا عملی سیاست میں حصہ لینا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہر خراب زمانے میں ادب نے ہی صحت مند اپوزیشن کا کردار ادا کیا ہے۔میں نے ایک غزل میں کہا تھا ۔
غزل تو قائدِحزبِ مخالف ہی رہی اکبرؔ
ہمارے عہد میں کیوں وقت کا فرمان ہوجاتی
سوال:جدید نظم کا کیا مستقبل ہے؟
جواب: جدید نظم کا مستقبل شاندار ہے۔جس نظم کو میرا ؔجی ،مجید امجدؔ،ن۔م۔راشدؔ،وزیرآغاجیسے شاعر ملے ہوں اس کی خوش بختی کا کیا ٹھکانہ ہے۔میں جدید نظم کا بہت قائل ہوں ۔غزل کے مخالفین نے مجھے نظم مخالف سمجھ رکھا ہے۔میں کسی صنف کی مخالفت کو ایک فضول بات سمجھتا ہوں۔میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ نئی نظم کے نئے شاعر اسے ابلاغ واظہار کی دھند سے باہر نکالیں تاکہ وہ غزل کی طرح اپنا حلقہ وسیع کرسکے۔میں نہیں سمجھتا کہ یہ کوئی اختلافی بات ہے ،کیا وہ نہیں چاہتے کہ ان کی بات سمجھ میں آئے۔جدید نظم کی نسبت مجھے نثری نظم(یہی نام زیادہ معروف ہے)زیادہ پر کشش نظر آتی ہے۔اپنے عروضی سقم کے باوجود نثری نظم بہت طاقتور میڈیم ہے۔خصوصاًکشور ناہید اور سلیم آغاقزلباش کی نثری نظمیں دل ودماغ میں اتر جانی والی ہیں۔جدید نظم کو غزل سے نہیں کہ یہ دونوں بالکل الگ الگ میڈیم ہیں۔حقیقت میں نثری نظم سے خطرہ ہے۔اگر نثری نظم کو کشور ناہید اور سلیم آغا قزلباش کے پائے کے دو چار شاعر بھی اور مل گئے تب جدید نظم میں اور نثری نظم میں زندگی موت کا رَن پڑے گا ۔اس وقت صورتحال یہ ہے کہ جب میں جدید نظم کے شاعروں کو اظہار وابلاغ کے مسائل کی طرف متوجہ کرتاہوں تو وہ برا مانتے ہیں خصوصاً سیتہ پال آنند صاحب تو اتنے جذباتی ہوجاتے ہیں کہ غزل پر فائر کھول دیتے ہیں۔اب انہیں کون سمجھائے کہ حضور یہ فائر خود آپ کو ہی لگ رہا ہے ۔غزل کے کیا کیا مخالفین آئے اور چلے گئے ۔ترقی پسند تحریک اور جدیدیت جنہیں متحارب تحریکیں سمجھا جاتا ہے۔غزل کی مخالفت میں متحد تھیں۔آلِ احمد سرورؔاور جوشؔصاحب نے غزل کی مخالفت کر کے وقت ضائع کیا۔مگر غزل ہر عہد میں آگے ہی بڑھتی رہی۔اقبال نظم کے بہت بڑے شاعر ہیں مگر اپنی وسعتِ خیال کے اظہار کے لیے انہیں غزل کو اختیار کرنا پڑا۔سچّی بات یہ کہ نظم کے بڑے شاعر اتنے بڑے شاعر نہیں ہیں جتنے بڑے غزل کے بڑے شاعر ہیں ۔مگر میرا موقف یہ ہے کہ ہمارے عہد میں جدید نظم اور غزل اپنے مزاج اور ذائقے کے اعتبار سے بہت مختلف ہیں ۔ان کی آپس میں کوئی مخالفت نہیں اور نہ ہی کوئی ایک دوسری کی جگہ لے سکتی ہے ۔تسلسلِ خیال کے لیے جو لطف نظم میں ہے وہ غزلِ مسلسل میں نہیں آسکتا۔اور متنوّع مضامین اور تیزیٔ طبع اور دھماکہ خیزی اور وسعتِ فکر کے لحاظ سے جو متاع غزل کو حاصل ہے ۔وہ نظم کو حاصل نہیں ہوسکتا۔نظم ایک عالمی میڈیم ہے اور غزل میں مقامیت زیادہ ہے اور یہ خصوصیات اچھّی ہیں۔ان میں کوئی قابلِ اعتراض بات نہیں ۔عالمی مواصلات کے لیے مقامی مسائل کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی مقامی مسائل کے لیے عالمی معاملات سے چشم پوشی کی جاسکتی ہے۔سو جدید نظم بہت نفیس ،بہت پرُلطف میڈیم ہے جو وقت کی ضرورت ہے۔
سوال:غزل پر جو حملے ہورہے ہیں کیا غزل واقعی ختم ہورہی ہے؟
جواب:غزل پر ہمیشہ نظم نگاروں نے ،نقادوں نے ،متعددادبی تحریکوں نے حملے کیے مگر غزل نے خود ہی اپنا دفاع کیا۔نقادوں نے بہت کم دفاع کیااور تحریکیں تو ہمیشہ غزل کو گردن زدنی قرار دیتی رہیں ۔غزل ہو یا کوئی بھی اور صنفِ اظہار ،جب تک اس میں اعلیٰ درجے کے تخلیق کار آتے رہیں گے۔اسے کوئی مار نہیں سکتا اور غزل سدا بہار صنفِ سخن ہے۔ہاں غزل اپنی کشش کے باعث بہت زیادہ لکھی جارہی ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اچھّے لوگوں سے ہر سال غزل کا انتخاب شائع کروایا جائے ۔اکادمی ادبیات نے یہ سلسلہ شروع کیاتھامگر ان کے کروائے ہوئے اکثر انتخاب اچھّے نہیں ہوئے کیوں کہ اکادمی والے سفارشی لوگوں سے اور ذاتی مراسم والے لوگوں سے یہ کام کرواتے ہیں ۔اسے بہتر اورغیر جانبدار لوگوں سے کروانے کی ضرورت ہے۔
سوال:دبستانِ سرگودھا ہمیشہ سخت تنقید کا نشانہ بنتا رہا؟کیا واقعی؟
جواب:ڈاکٹر وزیر آغا اور ان کے دوستوں سے یہاں ہمیشہ ناانصافی ہوئی ہے ۔یہ لوگ ہمیشہ حزبِ مخالف سمجھے گئے ۔ادب کے حزبِ اقتدار نے ہمیشہ ان کی کردار کشی کی ہے اور انہیں پروپیگنڈے اور اپنے اثر ورسوخ کے ذریعے ہمیشہ معتوب ومحروم رکھا۔اس کی ایک وجہ ڈاکٹر وزیر آغا صاحب کی ادبی سیاست سے کنارہ کشی ہے۔اگر وہ چاہیں تو احمدندیم قاسمیؔ کی طرح ادبی سیاست میں فعال کردار اد ا کرسکتے ہیں اور میں سمجھتا ہوں ان کی گوشہ گیری خود ان کے لیے اور ان کے دوستوں کے لیے بعید نقصان دہ ثابت ہورہی ہے۔
سوال:لکھنے والے کی فکر اور اس کی اپنی شخصیّت یا کردار ؟کیا یہ دونوں ایک ہونا ضروری ہیں ؟یا کوئی اور صورت بھی ہوسکتی ہے؟
جواب:اصغر عابدؔصاحب !لکھنے والے کی فکر اور اس کی شخصیّت یا کردار ہوتے ہی ایک ہیں ۔لکھنے والے کی تحریریں ہی اس کی شخصیّت اور کردار ہیں۔وہ دنیا کے سامنے کسی خارجی دباؤ یا ترغیب کے لیے جھوٹ بول سکتا ہے مگر اپنی تحریر میں جھوٹ نہیں بول سکتا ۔اگر آپ کسی لکھنے والے کو جاننا چاہتے ہیں تو اس کی تحریریں دیکھیں ۔وہ اپنے تخلیقی گھر میں اصل حالت میں دکھائی دے گا ۔لکھنے والے کا سماجی کردار ہمارے جیسے معاشرے میں اس کے اصل کردارسے مختلف ہو سکتا ہے۔یہ اس کی مجبوری ہے۔اگر وہ ایسا نہیں کرے گاتو خارجی جابرانہ قوّتوں کے ہاتھوں زندہ نہیں بچّے گا۔غالبؔ نے خارجی ماحول کے خلاف کردار اختیارکیااور زندگی بھر قرضوں ،جیلوں ،نفرتوں ،محرومیوں ،دشمنیوں کا نشانہ بنا رہا۔منٹو سب کی نظروں کے سامنے بیچ لاہور کسمپرسی کی موت مرا۔مجید امجدؔبے یار ومدد گار موت کا لقمہ بنا۔شکیب جلالی ؔکی خود کشی ابھی کل کی بات ہے۔سو میں سمجھتا ہوں لکھنے والے کو کوئی انفرادی سیاسی کردار ادا نہیں کرنا چاہئے۔ہمارا معاشرہ یورپ اور دوسرے ترقی یافتہ معاشروں سے بہت مختلف ہے ۔ایسے کرداروں کو منفی کہہ کر جان سے مار دیا جاتا ہے۔ہمارے معاشرے میں ولّن بہت طاقتور ہے اوراس وِلّن نے کئی طرح کی نیک نامیوں اور پاک دامانیوں کے لباس پہن رکھے ہیں ۔اس لیے ایک کھرے ادیب کو صرف کھرا ادب ہی تخلیق کرنا چاہئے جو ذات سے کائنات تک پھیلاہوا ہومگر ادب پوسٹر نہ بنے۔اپنی تخلیقی شان بحال رکھے اورزندہ رہے۔ادب کا اپنا الگ طرح کا کھرا پن ہے۔سڑک پر کھڑے ہو کر گالیاں دینا اس کا منصب نہیں ۔اس نے اپنی تخلیق کا نشتر استعمال کرنا ہے۔اس طرح کہ معاشرے کو گندے خون سے پاک کردے۔تاہم ادیب کا کھرا پن ایک عام آدمی کے کھرے پن سے بہت مختلف ہے ۔
سوال:اوہ!۔۔۔اکبر حمیدی ؔصاحب ،آپ کی ابتدائی ،وسطی اور اب موجودہ زندگی کے بارے میں تو پوچھا نہیں اب تک؟
جواب: 1978ءتک میں گاؤں فیروز والہ اور شہر گوجرانوالہ میں رہا۔1979ء میں اسلام آباد آنا شروع کیااور 1980ءمیں پورے کا پورایہاں آگیا1989ء میں اور 2000ء میں لندن میں باقاعدہ ایک ماہ رہائش رکھی۔اب مستقل رہائش اسلام آبادمیں ہے۔بہت سے خار زاروں ،سبزہ ز اروں اور گلزاروں میں سے گذرا ہوں مگر اب جو سوچتا ہوں تو ایسا لگتا ہے کہ میں زندگی کا توانائیوں بھرا حصّہ اور دن کا بیشتر وقت صحرا سے شہر پہنچنے کے راستے میں بسر کرکے شہر اس وقت پہنچا ہوں جب شام تو نہیں مگر شام سے ذرا پہلے کا وقت ہے۔مجھے دوپہر تک تو شہر پہنچ جانا چاہئیے تھا۔تب میں شاید شہر کی رونقوں سے زیادہ لطف اندوز ہوسکتا ۔کبھی میں نے شعر کہا تھا غزل میں۔
نہ پہنچے تو بھی اکبرؔدُکھ نہ ہوگا
کہ ہم صحرا کے رستے جا رہے ہیں
سوال:احمد ندیم قاسمیؔ کی خوبیاں تو بتائیے اور یہیں ڈاکٹر وزیر آغا کی خامیوں کی بھی نشاندہی کر دیجئے؟
جواب: (مسکراتے ہوئے)اچّھے بچّے ایسی باتیں نہیں کرتے اورآپ اچھّے بچّے ہیں ۔میں دونوں شخصّیتوں کا معترف ہوں اور اُن سے جونئیر ہوں ۔وہ ادب کے بڑے لوگ ہیں ۔
سوال:پنجابی میں آپ نے صرف شعر میں اظہار کیا؟کیوں؟
جواب: میں چاہتا تھا کہ پنجابی میں ایسی غزل کہوں جو پنجاب کے کلچر کی نمائندگی کرے۔میرے خیال میں پنجابی میں اردوغزل لکھی جارہی ہے اور اس میں پنجابی کی بجائے اردو غزل کا کلچر ہے۔میری غزل کامجموعہ ’’بکّی غزل پنجاب ‘‘چھپا جو خالص پنجابی غزل ہے۔اس کے دیباچے میں میری طرف سے کچھ ایسی سخن گسترانہ باتیں آگئی ہیں جو پنجابی شاعروں ،ادیبوں کو اچھّی نہیں لگیں اس لیے کوئی میری کتاب کا ذکر کرنے پر تیار نہیں۔’’بکّی غزل پنجاب‘‘کی غزل توجہ طلب ہے۔پنجابی میں نثر لکھنے کی توفیق نہیں ملی۔وقت بھی نہیں ملا۔
سوال:علاقائی ادب وزبان کی تہذیبی وقعت اور لوک دانش کے خصوصی حوالوں سے اس ادب کی فکری وسعتوں کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟
جواب:علاقائی ادب کے سال بہ سال انتخاب شائع ہونے چاہئیں۔اکادمی کے رسالے ’’ادبیات ‘‘ کے معیار کے علاقائی ادبی رسالے شائع ہونے چاہئیں ۔پنجابی اور خصوصاً پشتو زبان وادب تہذیبی اور بالخصو ص لوک دانش کے معاملے میں بہت با ثروت ہیں ۔پشتو ضرب الامثال تھوڑی سی ترجمہ ہوئی ہیں جو لوک حکمت ودانش کا بہت قیمتی سرمایہ ہیں ۔ایسے ہی تراجم سندھی ،بلوچی اور پنجابی ضرب الامثال کے ہونے چاہئیں۔
سوال:وہ باتیں کیجیے جو پوچھی نہیں جا سکیں ؟
جواب:آپ وہ باتیں جان جائیے جو کہی نہیں جا سکیں!۔۔۔۔ہاں‘اردو ماہیا کا ذکر نہیں ہوا۔میں سمجھتا ہوں اردو ماہیا کی خوش بختی ہے کہ اسے حیدر قریشی جیسا طاقتور تخلیق کار اور مستعد محرک ملاجس نے اردوماہئے کوایک تحریک کی شکل میں تبدیل کردیا۔حیدر قریشی نے اعلیٰ درجے کا ماہیا بھی لکھااور تنقیدی اور تحقیقی سطح پر بھی ایک تاریخی کردار ادا کیاجو ہمیشہ زندہ رہے گا۔یہ پکّی سیاہی سے لکھا گیا ہے اب اس صنف کو اچھّے شاعروں کی ضرورت ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭
’’اکبر حمیدی ایک خود آگاہ شخص بھی ہے اور اسکا نقطۂ نظر یا انسانی قدروں سے کمٹمنٹ واضح ہے۔مگر اس
کا یہ مطلب نہیں کہ وہ نظریاتی شاعری کرتا ہے۔۔۔۔۔اکثر نظریاتی شاعر کسی خاص مقصد کے حصول
کی خاطر شاعری کرتے ہیں۔بالعموم ان کے لئے نظریہ زر ہے،جسے بیچ کر وہ کچھ کماتے ہیں۔یہی وجہ
ہے کہ ان کی شاعری میں رَس اور بصیرت کھوکھلی اور مسخ شدہ شکل میں ہوتی ہیں۔شاعری میں رَس اور
بصیرت ،ہر قسم کے مقصد سے بالا تر ہو کر اپنی ذات میں غوطہ زن ہونے کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہیں۔
اکبر حمیدی کے لئے شاعری کسی مقصد،مفاد سے قطعاَ مشروط نہیں ۔‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ناصر عباس نیرکے مضمون اکبر حمیدی کی غزل سے اقتباس
بحوالہ کتاب اکبر حمیدی کا فن۔مرتب رفیق سندیلوی۔ص ۸۱)