عتیق احمد عتیق(مالے گاؤں)
سایہ سایہ کون یہ ، مجھ پر پھیلا ہے
دامن اجلی دھوپ کا، میلا میلا ہے
میرے انگ کو بھینچ کر ایک دھنک رنگ انگ
چشمِ زدن میں کر گیا، مجھ کو بھی ست رنگ
ہووے اپنی ذات ، سے جو روشن قندیل
اپنی کمر سے باندھ کر ، لٹکاوے مندیل
گھٹتی بڑھتی چھاؤں لے، چڑھتی اترتی دھوپ
دونوں کی تحلیل سے ،متھ لے اپنا روپ
اپنی سانسیں گھول کر ، میری سانسوں میں
کون اضافہ کر گیا، دل کی پھانسوں میں
جس کا پھل چکھ کر ہمیں،چاٹے چبھتی ٹیس
اُس ممنوعہ پیڑ سے، خوش ہے بہت ابلیس
لَو دے اُٹھا آج پھر، دل کا پرانا گھاؤ
جل نہ اٹھے اس روگ سے،جسم کا سرد الاؤ
پرلے سر کے گھاگ ہیں،وہ بھی جن کے پاس
اپنی اپنی بھوک ہے،اپنی اپنی پیاس
گل بوٹے جو بو گیا، سب کے آنگن میں
کانٹے ہی کانٹے رہے،اُس کے دامن میں
لے کر سرتا سر مِری نظروں سے محصول
دے نہ سکے خوشبو مگر ،کاغذ کے یہ پھول
چاہت ہو ہر رنگ کی،جن کے منتھن میں
اُن جذبوں کی پیاس ہے ،میرے تن من میں
راہ کا پتھر جان کر، یوں وہ ہٹائے ہے
پیروں سے چھو کر مجھے ،ہاتھ لگائے ہے
یادوں کو اب یوں تری، دل سے بھلانا ہیں
جیسے گگن سے توڑ کر،تارے لانا ہیں
میری اندھی آتما ،تجھ سے روشن ہے
من نین کی جیوتی،تیرا درشن ہے
دو بَدَنوں کی داستاں،اگرچہ جونی ہے
لیکن ان کی ثنویت، بو قلمونی ہے
جیون ساگر پھاندنے،کاغذ کی اک ناؤ
چلی تو اس پر کردیا ،وقت نے پتھراؤ