قصیدہ
مُحی الدین عربی شیخِ اکبر
تیرے افکار سے جاں ہے معطّر
فصوص الحِکم سے روشن محافل
فضائے عشق مشکین و معنبر
درِ دل وا ترا سب صورتوں پر
چراگاہِ غزالانِ ستم گر
مسیحی راہبوں کی خانقہ تو
اِدھر عیسیٰؑ اُدھر مریمؑ کا پیکر
ترا سینہ گہے کعبہء حجاج
گہے تورات کی لوحوں کا منظر
تو ہے ذوقِ اِرادت میں سرافراز
رُخِ قرآن کی مدحت میں برتر
متاعِ کاررواں ہرسمت ہر گام
قدم دینِ محبّت سے مُنّور
محی الدین عربی شیخِ اکبرؒ
خُدا آگاہ و خود آگاہ رہبر
۔۔۔۔۔۔۔
اوسلو کی ایک سڑک پر درختوں کا نوحہ
کرم داد!
بِگڈوئےؔ ایلے پہ کستانیہ کے برہنہ درختوں
کا نوحہ سنو گے؟
سُنو! وہ طباشیر کی برف کفنی پہن کر بہت رو رہے ہیں
سُنا ہے کوئی مر گیا ہے
وہ سورج ہے یا آسماں کا محافظ فرشتہ ہے یا اسپِ زریں
کوئی نہ کوئی برف کے گھاٹ اُترا ہے اور مر گیا ہے
خزاں آشنا فورؤںؔ پر
سدا سبز قامت گرانوں ؔ پہ
سیرینؔ کی منحنی جھاڑیوں کی قطاروں پہ
چاندی کے طناز پھول آ گئے ہیں
نئی برف کے پھول زیبائیوں کا مرقع ہیں
رعنائیوں سے مُرصع ہیں
لیکن مرے پاس فطرت کی تعظیم کاوقت کب ہے
میں خوددینِ فطرت پہ قائم ہوں
ربِّ سماوات کو خالقِ دوجہاں مانتا ہوں
وہ رزاق ہے ، رزق دیتا ہے
میں بھی اِسی رزق کے واسطے
صبح سے شام تک
خوک و خنزیر اور آبِ جو بیچتا ہوں
کرم داد!آؤ چلیں
۔۔۔۔۔۔۔
سکیچ بُک
میں ہوں آذرِ شبِ ہجرِ جاں
میرا کاروبار صنم گری
مری کارگاہِ خیال میں
صنمِ سخن کی پیمبری
وہ لباسِ زیبِ برہنگی
وہ گدازِ نخوتِ شعلگی
تیرے ہونٹ چھو کے تڑپ اُٹھا
سرِ بام صُبح کا دھندلکا
مجھے کوئی خواب دکھا گیا
وہ اُبھار گوئے انار کے
وہ فشار فصلِ بہار کے
وہ کمالِ قوسِ مصوری
خطِ روئے نکہتِ عنبریں
کبھی بوسہ گردنِ نور پر
کبھی لمسِ بازوئے مرمریں
کبھی قربِ پہلوئے خشمگیں
کبھی ایک چہرا حباب سا
کہیں دور کوئی سراب سا
کوئی نقش دل کی کتاب سا
میری عشق پیشہ قلندری
تیری غمزہ غمزہ سکندری!
۔۔۔۔۔۔
ایک تصویر کا کیپشن
تیری تصویر کو سینے سے لگا کر رکھّا
عمر بھر کے لیے تعویذ بنا کر رکھّا
لگ نہ جائے کسی بے مہر کی مسموم نظر
تیری آنکھوں کو کتابوں میں چھپا کر رکھّا
تُو تو اِک خواب ہے راتوں میں رہا کرتی ہے
تجھ کو نیندوں کے شبستاں میں سجا کر رکھا
شعلہ بن کر تُو چراغوں میں جلا کرتی ہے
اِک دیا تیرے لیے روز جلا کر رکھّا
کانچ بِلّور میں رکھّا نہ کبھی قید تجھے
تو محبّت تھی تجھے دل میں بسا کر رکھّا
میرا چہرا تیرے چہرے ہی کا آئینہ ہے
اپنی صورت میں ترا عکس ملا کر رکھّا