شمسہ اختر ضیا(خانپور)
وہ خواب لمحے
وہ خواب لمحے
سُراب لمحے
حسین یادیں۔گلاب لمحے
وہ خواب لمحے
وہ جن کی یادیں امر ہیں اب بھی
وہ ساعتیں جو گزر چکی ہیں
خیال لمحے ‘وہ خواب لمحے
وہ فرقتوں کے عذاب لمحے
سُراب لمحے
وہ بیتی باتیں شتاب لمحے
ہوا کی صورت گزرگئے ہیں
وہ خواب بن کر بکھر گئے ہیں
بہار بن کر جو چھا گئے تھے
قرار بن کر جو آگئے تھے
نہ جانے اب وہ کدھر گئے ہیں
وہ خواب گھڑیاں ، وہ خواب لمحے
وہ عمر کے بے حساب لمحے
وہ جلوتوں کے گلاب لمحے
وہ خواب لمحے
سراب لمحے!
کڑوا سچ
میرے جذبوں میں گہرائی بہت تھی
اُدھر سے بھی پذیرائی بہت تھی
میرے ہر سمت تھے خوشیوں کے پہرے
دھنک ‘خوشبو‘ہوا‘تھا راج سب پر
بہت ہی سبز تھا اندر کا موسم
بہاریں ہر طرف بے تاب رقصاں
خیالوں میں بھی گیرائی بہت تھی
اچانک ایک دن بالکل اچانک
یہ موسم اِس قدر تیزی سے بدلا
ہوا محسوس کچھ دھوکا ہوا ہے
وہ سب کچھ خواب تھا اب تک جو دیکھا
کڑی ہے دھوپ اور نا پید سایہ
وہ جو کچھ تھا مگر سچ یہ ہے شمسہؔ
کہ جو سچ سامنے ہے وہ ہے کڑوا!